(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI) ابراٹینم Abrotanum ابراٹینم ایک ایسی دوا ہے جس کا نام سنتے ہی انتقال مرض کا مضمون ذہن میں ابھرتا ہے۔ انتقالِ مرض کو انگریزی میں میٹاسٹیسنر (Metastasis) کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ کوئی مرض ایک عضو کو چھوڑ کر کسی دوسرے عضو کی طرف منتقل ہو جائے جیسا کہ عموما ًکن پیڑوں کی بیماری میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ گلے پر اور کان کے پیچھے جو ابھار پیدا ہوتا ہے وہ وہاں سے دب جاتا ہے اور اعضائے تناسل کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کے دبنے کی وجوہات مختلف ہیں مثلاً جراثیم کش دواؤں کے استعمال سے یا مقامی طور پر لیپ وغیرہ کرنے کے نتیجہ میں بھی ایسا ہو سکتا ہے اور بعض اوقات بخار کی حالت میں سردی لگ جانا وجہ بن جاتا ہے۔ وہ سب دوائیں جو انتقال مرض میں کام آتی ہیں اور اسے واپس اپنی پہلی جگہ کی طرف لوٹا دیتی ہیں ان میں ابراٹینم کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ بعض اوقات اسہال کے دب جانے کے نتیجہ میں اچانک جوڑوں کے درد شروع ہو جاتے ہیں اور کبھی دل پر شدید حملہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح بعض دفعہ عورتوں کا ایامِ حیض کا خون اچانک بند ہو جانے پر ان کو ذہنی یا دوسرے عوارض لاحق ہو جاتے ہیں۔ (صفحہ۱) اگر کسی مریض کو جوڑوں میں درد کی بیماری ہو مثلاًگاؤٹ(Gout)یا وجع المفاصل اور ساتھ ہی دل میں کچھ بے چینی کا احساس پایا جائے جیسے خون دل کو چھیلتا ہوا گزرتا ہو،نیز ایسے مریضوں کو اگر نکسیر اور پیشاب میں خون آنے کی تکلیف بھی ہو تو اس بات کا بھاری امکان ہے کہ یہ مریض ابراٹینم سے شفا پائے گا۔(صفحہ۱-۲) ابراٹینم کے بنیادی مزاج میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس کا مریض اسہال کے دوران آرام پاتا ہے کیونکہ وہ فاسد مادے جو جوڑوں کی تکلیف پیدا کرتے ہیں اسہال کے ذریعہ خارج ہوتے رہتے ہیں۔پس ایسے مریضوں کے اسہال کا اگر ابراٹینم کے ذریعہ ہی علاج کیا جائے تو رفتہ رفتہ اسہال بھی دور ہوجائیں گے اور جوڑوں میں درد کی شکایت بھی ختم ہوجائے گی۔(صفحہ۲) یہ دوا بچوں کے سوکھے پن کی بیماری میں بھی بہت مفید ثابت ہوتی ہے لیکن محض اس صورت میں جب اس کی مخصوص علامت بچوں میں پائی جائے۔ سوکھے کے مریض بچوں کے علاج میں ایتھوزا (Aethusa)،نیٹرم میور (Natrum Mur) اور کلکیریا کارب (Calc. Carb) کو بھی بہت شہرت حاصل ہے۔ کلکیریا کارب کا سوکھا پن صرف ٹانگوں سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ابراٹینم کا سوکھا پن بھی گو ٹانگوں سے شروع ہو تا ہے مگر ٹانگوں تک محدود نہیں رہتا اور اوپر کے بدن کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے۔ صرف اسی ایک علامت کا پایا جانا ہی ابراٹینم کی تشخیص کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ۳۰ طاقت میں دن میں تین بار دوا شروع کروائی جائے تو خدا کے فضل سے یہ مکمل شفا کا موجب ہو سکتی ہے۔(صفحہ۲) اگر جوڑوں کے دردوں کے عوارض بظاہر ٹھیک ہو جائیں لیکن مریض کا دل بیمار پڑ جائے تو متعلقہ دواؤں کی تلاش میں ابراٹینم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔(صفحہ۳) اسہال اچانک بند ہونے کے نتیجہ میں بعض اوقات جوڑوں کے دردوں کے علاوہ خونی بواسیر کی شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ اس کا بھی ابراٹینم سے ہی علاج کیا جائے۔ ایسے مریض کا عمومی مزاج سردی بہت محسوس کرتا ہے اور تکلیفیں ٹھنڈے اور بھیگے موسم میں بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے مریض کو اکثر کمردرد کی بھی شکایت رہتی ہے جو ہمیشہ رات کو بڑھ جاتی ہے۔ کمر کا ایسا درد جو رات کے پچھلے پہر یعنی تین چار بجے کے قریب بڑھے وہ ابراٹینم کی نہیں بلکہ کالی کارب (Kali Carb) کی نشان دہی کرتا ہے۔ ابراٹینم کا درد رات کے کسی معین حصے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اکثر رات پڑنے پر کمردرد میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اگر ایسے مریض میں ابراٹینم کی مرکزی علامت بھی پائی جائے یعنی اس کا ہر مرض اسہال لگ جانے سے ٹھیک ہو جائے تو ایسا کمردرد بھی ابراٹینم سے شفا پا جائے گا۔ اسہال سے بہتری محسوس کرنے کی علامت کسی حد تک نیٹررم سلف (Natrum Sulph) اور زنک (Zinc) میں بھی پائی جاتی ہے لیکن ان کی دوسری امتیازی علامتیں بغیر وقت کے شناخت کی جا سکتی ہیں۔(صفحہ۳) ابراٹینم کے درد بعض اوقات تیز اور کاٹنے والے ہوتے ہیں جوڑوں کے علاوہ خواتین کی بیضہ دانیوں (Ovaries) پر بھی اثر اندار ہوتے ہیں۔ایسی مریضہ جس کی بیضہ دانی میں اس قسم کے کاٹنے والے درد ہوں اور وہ عموماًجوڑوں کے درد کی بھی شاکی رہے یا رات کو بڑھنے والا کمر درد ابراٹینم سے مشابہ ہو اور اسے اسہال سے آرام ملتا ہے تو اس کے بانجھ پن کا بھی ابراٹینم ہی بہترین علاج ثابت ہوگا۔(صفحہ۳) ابسنتھیم Absinthium (Common Worm Wood) ابسنتھیم کا سب سے نمایاں اثر دماغ پر ہوتا ہے اور یہ مرگی کے مرض میں بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے۔اگر مرگی میں کیوپرم(Cuprum) کی طرح جسم نیلا ہوجاتا ہو اور ہاتھ پاؤں مڑنے لگیں تو ان علامات میں کیوپرم کے علاوہ ابسنتھیم بھی دوا ہوسکتی ہے۔مرگی کے حملہ سے قبل مریض اعصابی بےچینی محسوس کرتا ہے،اچانک متلی ہوتی ہے، وہمی نظارے اور خیالی چیزیں نظرآنے لگتی ہیں،جسم کانپتا ہے اور زبان دانتوں میں آجاتی ہے۔منہ سے جھاگ نکلتی ہے اور مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔اعصابی ہیجان کے ساتھ عمومی بے خوابی بھی پائی جاتی ہےاور ہسٹیریائی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ اس دوا سے تعلق رکھنے والی مرگی زہریلی کھمبیاں (Mushroom) کھانے سے پیدا ہونے والے زہر کے اثر سے ملتی ہے۔ کھمبیاںکھانے میں ہمیشہ احتیاط سے کام لینا چاہیے، کبھی خود تو ڑ کر نہیں کھانی چاہئیں کیونکہ ان کی بعض قسمیں بہت خطرناک ہوتی ہیں جن کی پہچان ماہرین ہی کر سکتےہیں۔(صفحہ۵) ابسنتھیم کا مریض کھلی فضا اور اونچی جگہوں سے گھبراتا ہے،چکرآتے ہیں جن میں پیچھے کی طرف گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔مریض کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے اور وہ توہمات کا شکار رہتا ہے،ہرچیز سے بے پرواہ ہوجاتا ہے،خیالات پریشان ہوتے ہیں، آنکھوں کی پتلیاں غیر متوازن ہوکر مختلف سمتوں میں گھومتی ہیں، نظر دھندلا جاتی ہے اور گدی میں درد جلسیمیم سے مشابہ ہوتا ہے۔(صفحہ۵) پاؤں بہت ٹھنڈے، کمر اور کندھوں میں درد، اعضاء کانپتے ہیں اور تشنجی علامات نمایاں ہوتی ہیں۔(صفحہ۶) ایسیٹک ایسڈ Acetic acidum (سرکہ۔ ایک تیزابی محلول) آپریشن کے بعد مریض کی حالت بہت خراب ہو جائے اور وہ سخت نڈھال ہو تو بعض دفعہ ایسیٹک ایسڈ دینے سے اس کی حالت سنبھل جاتی ہے۔ اس ضمن میں سٹرونشیم کارب اور کاربو و یج بھی بہت مفید دوائیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کپڑے کو ایسیٹک ایسڈX1 میں بھگو کر معدے کے مقام پر رکھنے سے معدے کے کینسر کی گلٹی گھلنے لگتی ہے۔ کیو نکہ X1 میں گلٹی کو گھولنے اور اس میں پیپ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اونز (Dr. Owens) کی رائے میں Epithelial Cancer کے لیے اسے اندرونی اور خارجی دونوں طرح استعمال کرنا چاہیے۔ معدے اور سینے میں شدید اور تکلیف دہ جلن جس کے بعد جلد ٹھنڈی اور ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آئے، یہ اس کی نمایاں علامت ہے۔(صفحہ۷) ایسیٹک ایسڈ میں اسہال آتے ہیں جو بہت کمزور کردیتے ہیں۔ ذیا بیطس کے لیے بھی مفید دوا ہے۔ اگر جسم میں خون کی کمی کے نتیجہ میں سخت کمزوری ہو،باربار بے ہوشی طاری ہو،سانس میں گھٹن کا احساس ہوتو ایسیٹک ایسڈ مفید دوا ہے۔اس کی خاص علامت یہ ہے کہ بخار کی حالت میں پسینہ بہت آتا ہے،بائیں گال پر سرخ داغ پڑجاتے ہیں اور پیاس نہیں لگتی۔(صفحہ۷) ایکونائٹ نیپیلس Aconitum napellus (Monks Hood) زہروں یا دواؤں کی گہری پہچان کے لیے یہ طریق جسے پروونگ (Proving) کہا جا تا ہے،نہایت مؤثر ہے۔اس طریق آزمائش سے ایکونائٹ کی جو خصوصیات سامنے آئیں ان میں انتہائی خوف،بیماری کی شدت اور اچانک پن نمایاں ہیں۔ بیماری اچانک حملہ کرتی ہے اور مریض خیال کرتا ہے کہ وہ اس بیماری سے بچ نہ سکے گا۔(صفحہ۹-۱۰) ایکونائٹ عموماً خشک اور ٹھنڈے موسم کی دوا کہلاتی ہے۔کیونکہ اس کی بیماریاں زیادہ تر خشک سرد موسم میں لگتی ہیں۔مگر ضروری نہیں کہ ایکونائٹ صرف سرد خشک موسم کی بیماریوں میں ہی استعمال ہو۔ہرقسم کی بیماریاں ہرموسم میں اگر اچانک اور تیزی سے شروع ہوں اور شدید خوف دامنگیر ہو تو بلاتردّد ایکونائٹ کا استعمال کرنا چاہیے۔(صفحہ۱۰) روز مرہ کی زندگی میں ایسی بیماری جو جراثیم کے حملہ کی وجہ سے ہو مثلاًباسی غذا کھا لی جائے جس میں تعفن پیدا ہوچکا ہو اور اس سے اسہال شروع ہوجائیں یا اچانک پیچش لگ جائے، اسی طرح برسات کے موسم میں خونی پیچش جس میں مریض ڈر جائے۔ان سب بیماریوں میں ایکونائٹ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ (صفحہ۱۲) ایکونائٹ کی ایک خاصیت پلسٹیلا سے بھی مشابہ ہے۔ بخار یا تکلیف کا اثر چہرے کے ایک طرف زیادہ نمایاں ہو تا ہے۔ ایک گال سرخ ہو جاتا ہے اور ایک زرد۔ عام طور پر بچوں میں یہ علامت نمایاں ہوتی ہے۔ شروع میں ہی ایکونائٹ دے دی جائے تو بیماری فوراً ختم ہو جائے گی۔ اگر دیر ہوجائے تو پلسٹیلا لا ئیکو پوڈیم یا نیٹرم میور میں سے شاید کوئی کام آئے۔(صفحہ۱۳) دانتوں میں سردی کی وجہ سے درد ہو یا گلے میں تکلیف ہو تو بھی ایکونائٹ کی ضرورت ہو گی۔ اگر جسم کے کسی حصہ میں خون کا دباؤ زیادہ ہو جائے تو اندرونی یا بیرونی جریان خون شروع ہو جاتا ہے مثلاً انتڑیوں سے خون بہنے لگے گا۔ کوئی بھی وجہ ہو اگر ایسا اچانک ہوا ہو اور خوف بھی ساتھ ہو تو بلا خوف ایکونائٹ استعمال کریں۔(صفحہ۱۳) ایکونائٹ کی تکلیفیں کھلی ہوا میں کم ہوجاتی ہیں۔رات کو گرم کمرے میں یا خشک اور ٹھنڈی ہوا میں بڑھ جاتی ہیں۔(صفحہ۱۴) (ڈاکٹر لئیق احمد) (نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔) مزید پڑھیں: کافروں کی عادات و صفات اور بد انجام قرآن کریم کی روشنی میں