https://youtu.be/D9QZXPSerh0 لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے لیے ماٹو ’’اَلْحَيَاءُ مِنَ الْإِيْمَانِ‘‘ ایک احمدی عورت اور ایک احمدی نوجوان لڑکی جو پردے کی عمر کو پہنچ چکی ہے،اُسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ پردہ اُس کے ایمان کا حصّہ ہے چند روز قبل اٹلی میں برسرِ اقتدار جماعت ’’برادرز آف اٹلی‘‘ (Brothers of Italy Party) نے ایک نیا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر ’’اسلامی علیحدگی پسندی‘‘ (Islamic Separatism) سے نمٹنا بتایا گیا ہے۔ بِل کے مطابق عوامی مقامات، مارکیٹس، دفاتر، یونیورسٹیوں اور اداروں میں چہرہ چھپانے والے لباس مثلاً نقاب یا برقع پہننے پر پابندی عائد کی جائے گی۔ خلاف ورزی کی صورت میں ۳۰۰ سے ۳۰۰۰ یورو تک جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ بل ابھی پارلیمنٹ میں زیرِ غور ہے اور باضابطہ قانون نہیں بنا، تاہم یہ اقدام مغرب میں اسلام مخالف رجحان کی ایک تازہ مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ (https://www.reuters.com/world/new-italian-bill-targets-islamic-face-coverings-religious-funding-2025-10-08/) اسلام نے عورت کو جو عزت، وقار اور تحفظ عطا کیا، وہ انسانی تاریخ میں بے نظیر ہے۔ حجاب اور پردہ نہ صرف عورت کی عصمت و عفت کا مظہر ہیں بلکہ اسلامی معاشرت میں اس کی عزت و احترام کا عملی ثبوت بھی ہیں۔ تاہم مغرب میں، مذہبی آزادی کے نعروں کے باوجود، حجاب کو اکثر تعصب، خوف اور سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مغرب میں اسلامی شعار سے نفرت یا بےاعتمادی نئی نہیں۔ دسویں صدی کے اواخر میں شروع ہونے والی صلیبی جنگوں نے اہلِ یورپ کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں ایک خوف اور بدگمانی پیدا کر دی تھی۔ اگرچہ یہ جنگیں مذہبی بنیادوں پر لڑی گئیں، لیکن ان کے نتیجے میں یورپ نے مشرق سے علمی، فکری اور سائنسی روشنی حاصل کی، جو بعد میں یورپی نشاۃ الثانیہ (Renaissance) کا باعث بنی۔ تاہم ساتھ ہی مسلمانوں کے متعلق یہ خیال بھی پروان چڑھا کہ وہ یورپ کے لیے ایک ’’خطرہ‘‘ ہیں۔ یہ خوف دراصل غیر حقیقی ہے مگر دیرپا خوف کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نفسیاتی رویّہ اسلاموفوبیا کی صورت میں بدل گیا۔ خاص طور پر ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد مغربی دنیا میں یہ تاثر گہرا ہوا کہ مسلمان معاشرے میں ضم (integrate) نہیں ہو سکتے اور ان کی مذہبی اقدار مغربی ثقافت سے متصادم ہیں۔ نتیجۃً، یورپ میں اسلامی علامات، خاص طور پر حجاب، نقاب اور دیگر مذہبی علامات کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ پابندیوں کی تاریخ اور حقائق حجاب پر پابندی لگانے کے سلسلہ کا آغاز یورپ سے ہوا تھا۔ ستمبر ۲۰۰۳ء میں جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے ایک مقدمہ میں افغان خاتون استاد کو حق دیاکہ وہ اسکول میں حجاب لینا چاہے تو اس کواجازت حاصل ہےاور یہ اظہار کیا کہ جرمنی کی مختلف ریاستیں اگر چاہیں تو اس بارے میں قوانین تبدیل کرسکتی ہیں۔اس کے بعد جرمنی کے بہت سے علاقوں میں اس بات پر پابندی لگائی گئی کہ ان کے علاقوں میں خواتین اساتذہ حجاب لے سکیں۔ (Bundesverfassungsgericht, Entscheidung vom 24. September 2003 – 2 BvR 1436/02) ۲۰۰۴ء میں فرانس نے سرکاری اسکولوں میں مذہبی علامات، بالخصوص اسلامی حجاب، پر پابندی عائد کی، جسے سیکولرازم کے نام پر جواز دیا گیا۔ (BBC News)اس کے بعد اپریل ۲۰۱۱ء میں فرانس نے عوامی مقامات میں بھی چہرے کے نقاب پر پابندی لگادی۔ اس روس، ہالینڈ، بلغاریہ، آسٹریا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ناروے وغیرہ بھی تعلیمی اداروں، ملازمتوں اور بعض پبلک مقامات میں حجاب پر پابندی کے قوانین نافذ کر چکے ہیں۔ اٹلی اب ان ممالک کی صف میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ یورپ کے علاوہ بعض دیگر مسلم آبادی والے ممالک میں بھی تعلیمی اداروں،عدالتوں اور ملازمت پیشہ خواتین پر دوران تعلیم یا ملازمت حجاب لینے پر پابندی عائد کی گئی جن میں وقت کے ساتھ نرمی بھی ہوئی۔ مغربی ممالک کا عمومی موقف ہے کہ یہ قوانین عورتوں کی ’’آزادی‘‘ کے لیے بنائے جا رہے ہیں، کیونکہ مبینہ طور پر پردہ انہیں ’’سماجی شرکت‘‘ سے روکتا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب تک مسلمان اپنی مذہبی رسوم پر عمل کرتے رہیں گے، وہ مغربی معاشرے میں ضم نہیں ہو سکیں گے۔تاہم یہ دلیل نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ مذہبی آزادی کے عالمی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ مغرب اپنے آپ کو انسانی حقوق اور شخصی آزادی کا علمبردار قرار دیتا ہے۔ European Convention on Human Rights کے آرٹیکل ۹؍کے مطابق:’’ہر فرد کو اپنے مذہب اور عقیدے کے اظہار کی آزادی حاصل ہے، خواہ وہ تنہا ہو یا جماعت کے ساتھ، عبادت، تعلیم، یا عمل کے ذریعے اپنے مذہب پر عمل کر سکے۔ (Equality and Human Rights Commission)۔ اگر ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزاد ی ہے پھر خصوصاً حجاب کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا جا تا ہے؟ یہ ایک کھلا تضاد ہے کہ مغرب میں جہاں عیسائی نَنز (Nuns) کا لباس مذہبی وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہودی اپنے سروں پر ایک خاص وضع کی ٹوپی رکھتے ہیں، وہیں مسلمان خواتین کا حجاب ’’انتہا پسندی‘‘ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ رویّہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔یورپ کی اپنی تاریخ بھی ان پابندیوں کی مخالف ہے۔ چند دہائیاں قبل تک یورپین معاشرہ میں شرفاء اور شاہی خاندان کی خواتین مکمل ملبوس ہوتی تھیں۔ اِن پابندیوں کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان خواتین تعلیمی، معاشی اور سماجی مشکلات سے دوچار ہیں۔ کئی طالبات اسکول یا یونیورسٹی میں حجاب پہننے کی اجازت نہ ملنے پر تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ متعدد ادارے حجاب پہننے والی خواتین کو ملازمت دینے سے انکار کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں مسلم خواتین کو پردہ کی وجہ سے سڑکوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان خواتین تعلیمی، معاشی اور سماجی مشکلات سے دوچار ہیں۔ کئی طالبات اسکول یا یونیورسٹی میں حجاب پہننے کی اجازت نہ ملنے پر تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ متعدد ادارے حجاب پہننے والی خواتین کو ملازمت دینے سے انکار کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں مسلم خواتین کو پردہ کی وجہ سے سڑکوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سو سال قبل ہی یورپ کی پردے کے خلاف مہم دیکھتے ہوئے اس روش کو فسق و فجور اور بدیوں کی جڑ قرار دیا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھاہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کو اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بےپردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بےاعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔‘‘ (ملفوظات جلد۶ صفحہ۲۸۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) قوموں کے درمیان باہمی احترام، مکالمہ اور تعلیمی آگاہی ہی ایسے مسائل کا اصل حل ہیں۔ پابندیاں دراصل فاصلے بڑھاتی ہیں، دلوں کو نہیں جوڑتیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کونبوت کی نعمت کے بعد خلافت کی روحانی راہنمائی کی صورت میں جو امتیاز حاصل ہے ،دوسرے مسلمان اس سے بےبہرہ ہیں۔ جماعت احمدیہ دنیا بھر میں امن، برداشت اور مذہبی آزادی کے پیغام کو فروغ دے رہی ہے۔خلفاء احمدیت نے مختلف مواقع پر پردے کے خلاف مغرب کی مہم اور اس پر اٹھنےوالے اعتراضات و شبہات کے جواب پیش فرمائے۔ ان سب کو جمع کرنا تو سینکڑوں صفحات کا متقاضی ہے۔ تاہم بطور نمونہ چند اقتباسات پیش ہیں: پردہ عورت کو کام کرنے اور باہر نکلنے سے نہیں روکتا، محض گناہ کے راستے بند کرتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں: ’’اسلام ہرگز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔ابتدائےاسلام میں ہرگز مسلمان عورتیں ایسا نہیں کرتی تھیں بلکہ جنگوں میں شامل ہوتی تھیں زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں، علوم مردوں سے پڑھتی تھیں اور مردوں کو پڑھاتی تھیں، سواری کرتی تھیں غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی۔صرف اس امر کا ان کو حکم تھا کہ اپنے سر، گردنیں اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو ڈھانپے رکھیں تا وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیں تو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام عملی کاموں سے الگ رہیں یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہوا ہے۔‘‘(انوار العلوم جلد ،۸ صفحہ۲۶۵) شرعی پردہ کیا ہے؟ شرعی پردہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’شرعی پردہ جو قرآن کریم سے ثابت ہے یہ ہے کہ عورت کے بال گردن اور چہرہ کانوں کے آگے تک ڈھکا ہوا ہو۔ اس حکم کی تعمیل میں مختلف ممالک میں اپنے حالات اور لباس کے مطابق پردہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘(الفضل ۸؍نومبر ۱۹۲۴ء) بے پردگی کے خلاف جہاد مغرب کے اثر کے تحت بہت سے اسلامی ممالک میں بھی رفتہ رفتہ پردہ پر عمل ختم ہوتا جا رہاہے۔ لیبیا میں تو باقاعدہ ایک فتویٰ شائع کیا گیا کہ پردہ کرنا حرام ہے۔اس پر ۱۹۸۲ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر لجنہ اماءاللہ سے خطاب کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الر ابعؒ نےبے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بڑی شدّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحر یک ڈالی ہے کہ احمد ی مستورات بےپردگی کے خلاف جہاد کا اعلا ن کریں۔ کیونکہ اگر آپ نے بھی میدان چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کو نسی عورتیں ہو ں گی جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے آگے آئیں گی۔‘‘ (الفضل ۲۸؍فروری ۱۹۸۳ء) اہل یورپ کے لیے پردہ کی اسلامی صورت جس معاشرہ میں خواتین کو انسانی ضروریات کی غرض سے باہر نکلنا ہو وہاں اسلامی پردہ کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’ایک پردہ یہ ہے کہ اپنے چہرے کو دائیں بائیں سے ٹھوڑی تک پوری طرح ڈھانک لیا جائے اور ماتھے کو بھی پوری طرح ڈھانک لیا جائے۔ کوئی ایسا سنگھار نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں خواہ مخواہ بدلوگوں کی نظروں میں انگیخت پیدا ہو۔ جو عورتیں ان سوسائٹیوں میں وقار اور تحمل کے ساتھ بغیر کسی سنگھار کے انسانی ضروریات کی خاطر باہرنکلتی ہیں وہ اسلامی پردہ کر رہی ہیں۔ وہ پردہ کے قانون کے اندر داخل ہیں۔ استثناء تو وہ ہوتا ہے جو قانون کے خلاف ہو۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس تشریح کے ساتھ بیان فرمایا کہ یہ وہ پردہ ہےجو اہل یورپ کے لیے بھی بار نہیں اور ان پر شاق نہیں گزرسکتا۔ کیونکہ ان کی سوسائٹی میں عورت نے اقتصادیات میں بہت زیادہ آگے قدم بڑھا لیا ہے۔ اور وہ اقتصادیات کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ اس لیے اس کو باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اگر وہاں کی عورت اسی قسم کا پردہ کرلے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے ماحول میں عین اسلامی پردہ کر رہی ہے۔‘‘(الفضل ۲۸؍فروری ۱۹۸۳) عصر حاضر میں پردے پر پابندیوں کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز متعدد مواقع پر راہنمائی فرما چکے ہیں کہ ایسی پابندیوں کے خلاف مظاہرے اور شدت پسندانہ رویّہ ہرگز حل نہیں ہے۔ آپ نے مغربی ممالک میں قیام پذیر خواتین کو اسلام کی بنیادی تعلیم کے ساتھ جڑے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ایسے مسائل کو حکمت سے حل کرنے کی طرف راہنمائی فرمائی۔آپ نے متعدد بار اس بات پر زور دیا کہ مخالفین کے دباؤ میں آ کر پردے کی تعلیم کو ہرگز ترک نہیں کرنا۔ پردہ اُس کے ایمان کا حصّہ ہے۔ اُن احکامات میں سے ہے جن کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اسلام مخالف قوتیں بڑی شدّت سے زور لگا رہی ہیں کہ مذہبی تعلیمات اور روایات کو مسلمانوں کے اندر سے ختم کیا جائے۔ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مذہب کو آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر ایسے طریقے سے ختم کیا جائے کہ ان پر کوئی الزام نہ آئے کہ دیکھو ہم زبردستی مذہب کو ختم کر رہے ہیں اور یہ ہمدرد سمجھے جائیں۔ شیطان کی طرح میٹھے انداز میں مذہب پر حملے ہوں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپرد ہے اور اس کے لیے ہمیں بھرپور کوشش کرنی پڑے گی اور تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی۔ ہم نے لڑائی نہیں کرنی لیکن حکمت سے ان لوگوں سے معاملہ بھی کرنا ہے۔ اگر آج ہم ان کی ایک بات مانیں گے جس کا تعلق ہماری مذہبی تعلیم سے ہے تو پھر آہستہ آہستہ ہماری بہت سی باتوں پر، بہت ساری تعلیمات پر پابندیاں لگتی چلی جائیں گی۔ ہمیں دعاؤں پر بھی زور دینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شیطانی چالوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق بھی دے اور ہماری مدد بھی فرمائے۔ اگر ہم سچائی پر قائم ہیں اور یقیناً ہیں تو پھر ایک دن ہماری کامیابی بھی یقینی ہے۔ اسلام کی تعلیمات نے ہی دنیا پر غالب آنا ہے۔‘‘ پھر پردے کے مخالف یورپ کی مہم کا ذکر کرتےہوئے فرمایا کہ احمدی لڑکی نے ہر حال میں خدا کے حکم پر عمل کرنا ہے۔فرمایا: ’’یہاں یورپ میں پردے کے خلاف وقتاً فوقتاً اُبال اُٹھتا رہتا ہے اور فرانس اِس میں پیش پیش ہوتا ہے۔ وہیں سے عام طور پر یہ تحریکیں شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر ردّعمل کے طور پر مسلمانوں کی طرف سے پردہ برداروں کا ایک جلوس نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور پردہ کے اِن جلوسوں میں اکثر مُنہ لپیٹے ہوئے وہ لوگ ہوتے ہیں اور پردہ کرنے والوں کی اُ ن میں ایسی تعداد ہوتی ہے جو آپ کو بازار میں اکثر ننگے مُنہ پھرتی نظر آئیں گی بلکہ لباس بھی قابلِ شرم ہوں گے۔ یہ اِس لیے ہے کہ اُن کی کوئی رہنمائی نہیں ہے… لیکن ایک احمدی عورت اور ایک احمدی نوجوان لڑکی جو پردے کی عمر کو پہنچ چکی ہے، اُ سے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ پردہ اُس کے ایمان کا حصّہ ہے۔ اُن احکامات میں سے ہے جن کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی احمدی بچیاں اِس حقیقت کو سمجھتی ہیں۔ گزشتہ دنوں پردے کے خلاف فرانس میں جو رَو چلی تھی اُس پر ایک احمدی نوجوان بچی جو وقفِ نَو بھی ہے اور جرنلزم میں ماسٹرز کر رہی ہے، اُس نے اخبار کو خط لکھا کہ ایک طرف تو یورپ فرد کی آزادی اور مذہبی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے اور دوسری طرف پردہ جو ہمارے مذہب کے احکامات میں سے ایک حکم ہے اُس پر تم پابندی لگاتے ہو جبکہ ہم جو پردہ کرنے والی خواتین ہیں اُ سے خوشی سے قبول کرتے ہوئے اپنے خدا کے حکم کے مطابق اُ س پر عمل کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ تمہارا جو مذہبی آزادی دینے کا دعویٰ ہے صرف ایک اعلان ہے اور اِ س سے زیادہ اِ س کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍جون ۲۰۱۳ء) مغربی معاشرہ میں مائیں بچیوں اورلڑکیوں میں حیا پیدا کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اس معاشرے میں جہاں ہرننگ اور ہر بیہودہ بات کو اسکول میں پڑھایا جا تا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا۔ حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہوگا۔ پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے۔ پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں…اسی عمر میں حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۱۷مارچ۲۰۱۷ء) لجنہ میں شعور پیدا کریں اور ڈسکشن کروائیں کہ حجاب کیو ں ضروری ہے؟ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکیوں میں پردہ کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنےکے لیے ڈسکشن کروائیں کہ حجا ب کیوں ضروری ہے۔ اچھا لباس کیوں ہونا چاہیے۔تاکہ وہ مخالف کو جواب دے سکیں۔فرمایا: ’’خاص طور پر جو پڑھنے والی لڑکیاں ہیں، یونیورسٹی میں جانے والی لڑکیاں ہیں ۱۶، ۱۷، ۱۸سال کی ہیں کچھ آزادی چاہتی ہیں ان کے ساتھ بھی ان موضوعات پر ڈسکشن ہونی چاہئے کہ ’’لباس ہمارا کیوں اچھاہوناچاہئے؟‘‘۔ ’’کیوں ڈھکاہوا ہونا چاہئے؟‘‘۔ ’’حجاب کیوں ضروری ہے؟‘‘۔’’ حجاب کے خلاف یورپ میں جو مہم ہے اس میں ایک احمدی لڑکی کیا کردار اد اکرسکتی ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل۲۳؍دسمبر ۲۰۱۱ء) ایسے قوانین جائز طور پر عدالتوں میں چیلنج کریں لجنہ اماء اللہ بھارت سے آن لائن ملاقات میں ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ انڈیا میں حجاب کی بہت مخالفت ہے۔ انٹرنس examکے وقت ہمیں ہمیشہ حجاب اتارنے کاکہاجاتا ہے۔حال ہی میں میڈیکل کے لیے ایک examہوا جس میں ایک بچی کو اس لیے بیٹھنے سے روک دیا گیا کیونکہ اس نے حجاب نہیں اتاراتھا۔اگرایک احمدی بچی کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو کیا اسے حجاب اتار دینا چاہیے؟ اس پرحضور انورنے فرمایا کہ حجاب کی کیا تعریف ہے؟ اگر تو صرف سرڈھانکا ہوا ہے اور چہرہ ننگا ہے تو آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ سر ڈھانکیں اور یہاں سے یہاں تک [حضور انور نے ہاتھ کے اشارے سے دکھایا کہ ماتھے سے لے کر]ٹھوڑی سے نیچے تک باندھ لیں تو میرا نہیں خیال کہ آپ کو اس میں کوئی روکے گا۔ اگر اس پر بھی آپ کو کوئی روکتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اپنے حیا کا اور لباس کا خیال رکھیں۔پھر اس کے خلاف legal fightکریں کہ ہمیں کیوں روکا گیا ہے۔ اس کے لیے نظارت تعلیم کو چاہیے کہ کوشش کرے، ان لوگوں کو لکھے،administrationکو لکھے۔ پھر جو سٹوڈنٹ ہیں اپنے طور پر خود بھی legal fightکریں۔(الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍جنوری ۲۰۲۳ء) پھر جرمنی کی لجنہ اماء اللہ سے ملاقات میں آپ ایدہ اللہ نے تحریک فرمائی کہ ایک مہم کی صورت میں وہ اخبارات وغیرہ میں لکھ کر اپنی آواز بلند کریں اور اسلامی تعلیم اور موقف پیش کریں۔فرمایا: مغرب میں عورتوں کے Issues کے اوپر اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ عورت کو آزادی نہیں ہے،عورت کو پردہ کی Restrictions ہیں،عورت کو فلاں پابندی میں رکھا جاتا ہے،عورت پر فلاں ظلم کیا جاتا ہے۔اس پرعورتوں کو ہی لکھنا چاہیے کہ تم یہ کہتے ہو۔میں ایک عورت ہوں، میں نے یہ یہ یہ لکھا ہے۔یہاں یوکے میں بھی لجنہ لکھتی ہے اور اس کا اچھا اثر ہوتا ہے۔بجائے اس کے کہ مرد جواب دیں،عورتیں اس کا جواب دیں تو زیادہ اچھا اثر ہوتا ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۹؍اپریل ۲۰۲۱ء) حضور انور نے ایسی لجنہ ممبرات جو اخبارات میں اسلامی موقف پیش کرتی ہیں کو بہت سراہا ہے اوردوسروں کو بھی ان سے سیکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ملازمت کے دوران پردہ کے متعلق راہنمائی ملازمت کے دوران پردہ اتارنے کے متعلق ایک سوال پیش ہوا کہ بینک میں جاب ملی ہے اوراگر نوکری کے دوران برقع اتارنا پڑے تو کیا کرنا چاہیے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے راہنمائی فرمائی ہے کہ بینک میں نوکری ایسا کام نہیں ہے ’’جس سے انسانیت کی خدمت ہورہی ہو۔ اس لیے عام نوکریوں کے لیے حجاب اتارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جبکہ نوکری بھی ایسی جس میں لڑکی روزمرّہ کے لباس اور میک اَپ میں ہو، کوئی خاص لباس وہاں نہیں پہنا جانا۔‘‘ میڈیکل کے شعبہ میں کام کرنے والی خواتین کا ذکر کر کے حضور انور نے فرمایا کہ ان کے لیے میں نےمجبوری کی حالت میں استثنا ء کا ذکر کیا تھا کیونکہ وہاں روایتی برقع یا حجاب پہن کر کام نہیں ہو سکتا۔وہ خواتین بھی جب اپنے کام سے فارغ ہوں تو پھر پردہ کریں (الفضل انٹرنیشنل۳؍فروری ۲۰۱۷ء) ایک سوال کہ’’آن لائن ٹیچنگ کے دوران جس میں ٹیچر کو سامنے موجود ہو کر پڑھانا پڑتا ہے اس میں کئی بار سٹوڈنٹس screen recordingکر کے یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ اس situationمیں ایک احمدی لیڈی ٹیچر اپنے پردے کا کس طرح خیال رکھے؟‘‘ کے جواب میں حضور انورنے فرمایا کہ جب آپ پڑھا رہی ہیں تو اگر آپ نے اپنا سر ڈھانکا ہوا ہے اور ماتھا ڈھانک کر آپ کا چہرہ ننگا ہے اورآپ پڑھا رہی ہیں تو اس طرح کے حجاب میں پڑھانے میں کوئی ہرج نہیں۔اگر وہ ریکارڈ ہو جاتا ہے تومجبوری ہے۔آپ کا پروفیشن ایسا ہے۔اس میں اگر سٹوڈنٹ نے اپنے یاکسی سٹوڈنٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسا کیا ہے تو کوئی ہرج نہیں۔لیکن عمومی طور پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کیونکہ وہاں آپ کا چہرہ نظر آ گیا اس لیے آپ پردہ ہی چھوڑ دیں۔ وہ غلط ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍جنوری ۲۰۲۳ء) دین کو دنیا پر مقدم کریں اگر حکومت کی طرف سے ایسا قانون بن جائے کہ پردے کے ساتھ جاب کرنے کی اجازت ہی نہیں تو آپ ایدہ للہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو دین مقدم کرنے کا ارشاد فرمایا۔آپ فرماتے ہیں’’ اوّل تو دعا کریں۔ انشاء اللہ ایسا قانون نہیں نکلے گا اور اگر نکل آیا تودین پہلے اور دنیا بعد میں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۷؍جولائی ۲۰۰۶ء) مغربی معاشرےمیں ضم ہونےکا مطلب اِن کی برائیوں کواختیار کرنا نہیں مغر ب میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جاتا ہے کہ مسلمان یہاں کے معاشر ے میں integrateنہیں ہوتے۔اس کی وضاحت میں فرمایا: ’’Integrateاس طرح نہیں ہوناکہ جا کر کلب میں بیٹھیں یا اُن کی طرح حجاب اُتار دیں اور فراکیں پہننی شروع کر دیں اور mini skirt پہننا شروع کر دیں یا گرمیوں میں بے حیا لباس پہننا شروع کر دیں، حالانکہ سردیوں میں تو انہوں نے بھی جسم ڈھانکا ہوتا ہے۔ تو یہ چیزیں integrate ہونے والی علامتیں نہیں ہیں…integrate ہونا یہ ہے کہserve the country، وہ اگر آپ کر رہی ہیں تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں کر رہیں تو اپنی لجنہ کو educate کریں کہ تمہیں اس طرح ہونا چاہیے۔ اوّل تو اکثر کر ہی رہی ہوں گی ، بس complex نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سروس کر رہے ہیں، ہم ملک کے loyal بھی ہیں‘‘۔(الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍اکتوبر ۲۰۲۵ء) لجنہ اماء اللہ کے لیے ماٹو: پاکدامنی ایمان کا حصہ ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کو’’اَلْحَيَاءُ مِنَ الْإيْمَانِ‘‘(صحیح بخاری) کا ماٹو عطا فرمایا۔اسی طرح لجنہ اماء اللہ آئر لینڈ سے حالیہ ملاقات میں ارشاد فرمایا : ’’حیا کا بڑا وسیع مضمون ہے۔اس کو سمجھیں، اس کی تفسیر نکالیں، پھر لوگوں کو بتائیں۔لجنہ کو message بھیجیں کہ حیا کیا چیز ہے اور حیا کرنے والا کون ہے۔جو اللہ تعالیٰ کی باتیں ماننے والا ہے، اس کی عبادت کرنے والا ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ہیں اور اسلامی احکامات ہیں، ان پر عمل کرنا اور اپنے تقدس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍اکتوبر ۲۰۲۵ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی جماعت احمدیہ کی خاطر قربانیوں کی مختصر جھلک