صاحب الہام ہونے میں استعداد اور قابلیت شرط ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس خدائے تعالیٰ کا پیغمبر بن جائے اور ہر یک پر حقانی وحی نازل ہو جایا کرے۔ اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپ ہی اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔ وَاِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ (الانعام:۱۲۵) … یعنے جس وقت قرآن کی حقیت ظاہر کرنے کے لئے کوئی نشانی کفار کو دکھلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب تک خود ہم پر ہی کتاب الٰہی نازل نہ ہو تب تک ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ کس جگہ اور کس محل پر رسالت کو رکھنا چاہیئے ۔ یعنے قابل اور نا قابل اسے معلوم ہے اور اسی پر فیضان الہام کرتا ہے کہ جو جو ہر قابل ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حکیم مطلق نے افراد بشریہ کو بوجہ مصالحۂ مختلفہ مختلف طوروں پر پیدا کیا ہے اور تمام بنی آدم کا سلسلۂ فطرت ایک ایسے خط سے مشابہ رکھا ہے جس کی ایک طرف نہایت ارتفاع پر واقعہ ہوا اور دوسری طرف نہایت انحضاض پر ۔ طرف ارتفاع میں وہ نفوس صافیہ ہیں جن کی استعدادیں حسب مراتب متفاوتہ کامل درجہ پر ہیں اور طرف انحضاض میں وہ نفوس ہیں جن کو اس سلسلہ میں ایسی پست جگہ ملی ہے کہ حیوانات لا یعقل کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں اور درمیان میں وہ نفوس ہیں جو عقل وغیرہ میں درمیان کے درجہ میں ہیں۔ اور اس کے اثبات کے لئے مشاہدہ افراد مختلفة الاستعداد کافی دلیل ہے ۔ کیونکہ کوئی عاقل اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ افراد بشریہ عقل کے رو سے تقویٰ اور خدا ترسی کے لحاظ سے محبت الٰہیہ کی وجہ سے مختلف مدارج پر پڑی ہوئی ہیں ۔ اور جس طرح قدرتی واقعات سے کوئی خوبصورت پیدا ہوتا ہے کوئی بدصورت کوئی سو جا کھا کوئی اندھا کوئی ضعیف البصر کوئی قوی البصر کوئی تام الخلقت کوئی ناقص الخلقت ۔ اسی طرح قویٰ دماغیہ اور انوار قلبیہ کا تفاوت مراتب بھی مشہود اور محسوس ہے۔ ہاں یہ سچ بات ہے کہ ہر ایک فرد بشر بشر طیکہ نرا مخبط الحواس اور مسلوب العقل نہ ہو عقل میں ، تقویٰ میں ، محبت الٰہیہ میں ترقی کر سکتا ہے مگر اس بات کو بخوبی یا درکھنا چاہئے کہ کوئی نفس اپنے دائرہ قابلیت سے زیادہ ہر گز ترقی نہیں کر سکتا ۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۱۸۱، ۱۸۲، حاشیہ) مزید پڑھیں: خدا آسمان وزمین کا نور ہے