٭… ایک روایت کے مطابق آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے ناموں سےآگاہ فرمادیا تھا…آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان حملہ آوروں کے نام بتا دیے ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھوں ٭… ابوعامر نے اپنے ہم مذہب، سازشی ساتھیوں کو خوش خبری سنائی کہ عنقریب بہت بڑا لشکر لےکر مدینے پر حملہ کردوں گا۔ پس! تم لوگ میرے لیے ایک زبردست ٹھکانا تعمیر کرو۔ اس وجہ سے منافقین نے قبا میں ایک مسجد بنائی تھی۔ اس مسجد کو مسجدِ ضرار کہا جاتا ہے ٭… آنحضورﷺ نے اس وحی [التوبۃ:۱۰۷]کے بعد مسجدضرار گرانے کا حکم دیا چنانچہ آپؐ کے حکم پر اس مسجد کو آگ لگا کر جلا دیا گیا ٭… حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ (آنحضورﷺ نے) باوجود منافقین کی اتنی بڑی سازش کے کوئی بدنی یا مالی سزا نہیں دی خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍نومبر۲۰۲۵ء بمطابق ۲۱؍نبوت۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۱؍نومبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: غزوۂ تبوک کے بارےمیں بیان ہورہا تھا، اس سفر کی مزید تفصیل آج بیان کروں گا۔ اس موقعے پر منافقین کی رسول اللہﷺ کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں کا بھی ذکر ہوا ہے، جس کی تفصیل یوں ہے۔ غزوہ تبوک کے پسِ پردہ دراصل یہود ونصاریٰ اور منافقین کی مشترکہ سازش کارفرما تھی۔ مدینے سے تبوک کا سفر درحقیقت موت کی وادی کا سفر تھا۔ منافقین نے اس موقعے پر یہ سازش کی کہ واپسی کے سفر میں ایک مقام ایسا تھا جہاں راستہ دو حصوں میں منقسم ہو رہا تھا۔ ایک وادی کا طویل راستہ تھا جبکہ دوسرا دشوار گزار تنگ گھاٹی کا راستہ تھا، یہ راستہ مختصر بھی تھا۔ منافقین نے یہ منصوبہ بندی کی کہ جب گھاٹی سے مسلمانوں کا لشکر گزر رہا ہوگا تو لوگوں کےرش کے درمیان، رات کے وقت تمام منافقین حضوراکرمﷺ کی اونٹنی کے گرد جمع ہوجائیں گے اور اونٹنی کو زبردستی گھاٹی کے کنارے کی طرف ہانک دیا جائے گا اور کجاوے کی رسیوں کو کاٹ دیا جائے گا۔ یوں اونٹنی حضورﷺ کو نعوذباللہ کھائی میں گرا دے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو منافقین کی اس سازش سے آگاہ کردیا اور آپؐ نے اعلان کروا دیا کہ آپؐ اور آپؐ کے تین ساتھیوں کے علاوہ کوئی بھی گھاٹی کی طرف سے نہیں جائے گا۔ اس کے باوجود منافقین نے فوری طور پر یہ منصوبہ بنا یاکہ بارہ پندرہ آدمی اپنے چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپ کر تیزی سے گھاٹی کی طرف نکل جائیں اور اچانک اونٹنی کو بھگانا شروع کردیں اور اسے بِدکا کر نعوذباللہ اس حادثے میں کامیاب ہوجائیں جس کی وہ خواہش کر رہے تھے۔ آنحضورﷺ جب گھاٹی میں چل رہے تھے تو اچانک آپؐ نے لوگوں کی آہٹ سنی، وہ لوگ اونٹنی کے پاس آگئے اور اُسے ڈرایا۔ اس کی وجہ سے کچھ سامان بھی گِر گیا۔ آنحضورﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو حکم دیا کہ ان منافقین کو حملہ کرکے ڈرا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ ڈنڈے کے ساتھ منافقین کی سواریوں کو مارنے لگے اور کہنے لگے کہ اللہ کے دشمنو! ایک طرف ہٹو۔ منافقین سمجھ گئے کہ رسول اللہ ﷺ اُن کی سازش سے آگاہ ہوچکے ہیں لہٰذا وہ فوراً ایک جانب ہٹے اور واپس آکر لشکر میں مِل جُل گئے۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے ناموں سےآگاہ فرمادیا تھا چنانچہ آنحضورﷺ نے حضرت حذیفہ ؓکو فرمایا کہ مَیں تم سے ایک راز کی بات کرنے لگا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان حملہ آوروں کے نام بتا دیے ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھوں۔ مکہ فتح ہونے کے بعد منافقین کی سازشوں میں تیزی آگئی تھی، جب انہوں نے دیکھا کہ یہود کے قبائل اب اپنی طاقت کھو چکے ہیں تو انہوں نے عرب کے باہر قیصر روم جیسی طاقتوں سے مدد مانگنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ مدینے میں بھی ایک مستقل مرکز بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔ منافقین کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز ہو جہاں مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار ہوں اور وہاں اسلحہ بھی جمع رکھا جائے۔ مگر بظاہر وہ مرکز ایسا ہو کہ دوسرے مسلمانوں کو شک بھی نہ گزرے۔ ابو عامر جو کچھ عرصہ منظر سےغائب رہا تھا اچانک سامنے آگیا اور پراپیگنڈا کرنے والوں نے اسے ابوعامر راہب کہنا شروع کردیا۔ ابو عامر قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ حضورﷺ کے مدینے آنے کے بعد یہ مکہ چلا گیا تھااوراس نے قریش کو نبی ﷺ سے جنگ پر ابھارا تھا۔ اس کے متعلق آنحضورﷺ نے دعاکی تھی کہ یہ اپنے وطن سے دُور تنہائی کی موت مرے۔ ابو عامر نے ہی منافقین کو یہ تجویز دی کہ تم لوگ قبا میں ایک مسجد بناؤ اور وہاں اپنا عسکری اڈا بناکر جنگ کی تیاری کرو۔ ابوعامرخود رومی سلطنت کی طرف نکل گیاتھا اور شام میں رومی بادشاہ قیصر کو مسلمانوں کے متعلق بہکاتا رہا، اسے مسلمانوں سے جنگ پر اکسایا۔ اس نے قیصر کو کہا کہ مسلمان تھوڑی تعداد والے، کمزور اور غریب ہیں۔ ان کے دشمن زیادہ ہیں اور تمہیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر تم نے ان کے خلاف ابھی اقدام نہ کیا تو مستقبل میں یہ تمہاری سلطنت کے لیے اچھا نہ ہوگا۔ ہرقل نے اسےاپنے پا س ٹھہرایا اور تسلی دی نیز وعدہ کیا کہ تمہاری مدد کی جائے گی۔ اس دوران ابوعامر نے اپنے ہم مذہب، سازشی ساتھیوں کو خوش خبری سنائی کہ عنقریب بہت بڑا لشکر لےکر مدینے پر حملہ کردوں گا۔ پس! تم لوگ میرے لیے ایک زبردست ٹھکانا تعمیر کرو۔ اس وجہ سے منافقین نے قبا میں ایک مسجد بنائی تھی۔ اس مسجد کو مسجدِ ضرار کہا جاتا ہے۔ ابوعامر کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہوئی اور بالآخر وہ شام میں ہی تنہائی اور بےوطنی کی حالت میں نَو یا دس ہجری میں مر گیا۔ منافقین نے جب مسجد کی تعمیر مکمل کرلی تو انہوں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ آپؐ اُن کی مسجد میں نماز ادا کریں۔ حکمتِ الٰہی کہ یہ لوگ اُس وقت حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب آپؐ تبوک کے لیے روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ابھی تو مَیں مصروف ہوں، سفر کی تیاری کر رہا ہوں۔ جب ہم سفر سے واپس آئیں گے تو اس مسجد میں نماز پڑھیں گے۔ غزوۂ تبوک سے واپسی پر اس مسجد سے متعلق آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اطلاع دی اور فرمایا ’’اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لیے جو پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کر رہا ہے۔ ایک مسجد بنائی ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سواکچھ نہیں چاہتے۔ جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔‘‘ آنحضورﷺ نے اس وحی کے بعد مسجد ضرار گرانے کا حکم دیا چنانچہ آپؐ کے حکم پر اس مسجد کو آگ لگا کر جلا دیا گیا۔ جب آپؐ مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے یہ جگہ عاصم بن عدی کو دینی چاہی تاکہ وہ یہاں اپنا گھر بنا لیں۔ لیکن حضرت عاصمؓ نے معذرت کی اور تجویز دی کہ یہ جگہ ثابت بن ارقم کو دے دی جائے کیونکہ اُن کے پاس کوئی رہائش کی جگہ نہیں۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے یہ جگہ ثابت بن ارقم کو دے دی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ (آنحضورﷺ نے) باوجود منافقین کی اتنی بڑی سازش کے کوئی بدنی یا مالی سزا نہیں دی۔ کم و بیش دو ماہ کے سفر کے بعد آنحضورﷺ مدینے واپس تشریف لا رہے تھے جونہی آپؐ کو مدینے کی بستی نظر آئی تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ وہ پہاڑ (احد) ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ یعنی حضورﷺ کو مدینے کی ایک ایک جگہ سے محبت تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے مدینے جلدی پہنچنا ہے، جو تم میں سے میرے ساتھ چلنا چاہے چلے۔ غزوۂ تبوک سے واپسی پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مدینے میں کچھ لوگ ہیں کہ جب بھی تم نے کوئی وادی طے کی ہے یا سفر کیا ہے تو وہ تمہارے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺوہ مدینے میں ہوتے ہوئے ہمارےساتھ ساتھ کیسے ہوسکتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا وہ مدینے میں ہی ہیں اور بیماری وغیرہ کے کسی عذر نے انہیں روکا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب آپؐ واپس تشریف لائے تو آپؐ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمارے اس سفر میں ہمیں اجر و ثواب اور نیکیوں سے نوازا اور جو ہمارے پیچھے رہ گئے انہیں بھی اس اجروثواب میں ہمارے ساتھ شامل رکھا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ آپؐ نے تو سفر کی مشکلات برداشت کی ہیں اور پھر اس اجر و ثواب کے مستحق ٹھہرے ہیں۔ وہ تکالیف برداشت کیے بغیر اجروثواب میں شریک کیسے ہوگئے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ لوگ جنہیں بیماری نے روکے رکھا وہ ہمارے ساتھی ہیں۔ اللہ کی قسم! اُن کی دعا دشمن پر ہمارے ہتھیاروں سے زیادہ کارگر ہے۔ آنحضورﷺ کی آمد پر مدینے کے لوگ شہر سے باہر آئے اور ترانے اور اشعار پڑھ پڑھ کر آپؐ کا استقبال کیا۔ خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے باقی تفاصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمایا۔ ٭…٭…٭