(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۷؍فروری ۱۹۲۰ء) ۱۹۲۰ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق اطمینانِ قلب کا ذریعہ ہے کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) لوگ امن و اطمینان کے بھُوکے ہیں اور ہمارے پاس امن و اطمینان ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ وہ سامانِ اطمینان لوگوں تک پہنچا دیں۔ قبول کرنا نہ کرنا ان کے اختیار میں ہے۔ ہم اگر پہنچا دیں گے تو ہم خدا تعالیٰ کے حضور کہہ سکیں گے کہ خدایا !ہم نے تیرے بندوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا اور ہم اسی کے ذمہ دار تھے ہم نے تیرا پیغام پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ہم نے گھر کے دروازے کھلے رکھے مگر لوگوں نے اس طرف پیٹھ پھیر لی۔ اگر پناہ نہ لی تو اُنہوں نے، اگر توجہ نہ کی تو اُنہوں نے، ہم نے بخل نہیں کیا، ہم سُست نہیں ہوئے، ہم تھکے نہیں۔ بُلانا ہمارا فرض تھا سو ہم نے ادا کیا تشہدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورؓ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی حالت اور اس وقت کے لوگوں کے خیالات کو دیکھ کر ایک ایسا سامان پیدا کیا گیا اور ایک ایسا دروازہ کھولا گیا ہے جس میں سے ہو کر انسان حقیقی آرام اور اطمینان حاصل کر سکتا ہے۔ اس راستہ کے بغیر کوئی رستہ نہیں۔ جس طرف دیکھوامن و اطمینان نہیں ہے۔ اکثر لوگوں نے غلطی سے خیال کر لیا ہے کہ امن دولت سے حاصل ہوتا ہے یا بادشاہت اور حکومت سے مگر حقیقت یہ ہے کہ امن دولت سے میسر نہیں ہوتا اور نہ امن و اطمینان دنیا کی عزتوں اور وجاہتوں اور حشمتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ امن اسی کو حاصل ہے جس کے دل میں اطمینان ہے اور جس کے دل میں اطمینان نہیں وہ خواہ بڑے سے بڑا دولت مند یا بادشاہ یا حاکم ہے اس کو کوئی اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا۔ بڑے بڑے لوگ ہیں مگر جب ان کے اندرونے کو ٹٹولا جاتا ہے تو ان میں امن نظر نہیں آتا۔ مَیں نے اپنے پچھلے خطبوں میں بیان کیا تھا کہ امن حاصل کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ اس رسّہ کو مضبوط پکڑ لیا جائے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پھینکا گیا ہے اور اس سفر میں مجھ پر ثابت ہو گیا ہے کہ امن حاصل کرنے کے لئے سوائے اس کے اور کوئی طریق نہیں کہ خدا کی رسّی کو مضبوط پکڑا جائے کیونکہ ہر دل اور ہر ایک قلب جس کو میں نے ٹٹولا خواہ وہ کسی درجہ اور کسی حیثیت کے انسان کا تھا اس میں امن نہ تھا بلکہ امن کی جستجو میں تھا۔ سوائے اس ایک قلب کے جو اطمینان سے بھرا ہوا تھا وہ ایک قلب وہی تھا جس میں مسیح موعود پر ایمان داخل تھا۔ پس دُنیا کی کوئی تکلیف اس دل کو گھبرا نہیں سکتی جس کو خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان حاصل ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے لئے کامیابی کا دروازہ کھلا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ مصائب اور تکالیف میں وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کا مددگار اس کا خداموجود ہے۔ پھر وہ یقین رکھتا ہے کہ مَیں جب چاہوں اس علاج کو استعمال کر سکتا ہوں اور وہ دیکھتا ہے کہ اگر مجھے دُکھ ہیں بھی تو اس لئے ہیں کہ میں آئندہ ترقی کروں۔ دراصل مصیبت اور تکلیف وہی ہلاک کرنے والی ہوتی ہے جس کا انجام اور نتیجہ اچھا نہ ہو لیکن جس دُکھ اور تکلیف کا نتیجہ اچھا ہو اس کو لوگ خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ دیکھو!زمیندار جیٹھ ہاڑ کے تپتے ہوئے دنوں میں محنت کرتا ہے، دُکھ اُٹھاتا ہے مگر وہ خوش ہوتا ہے کہ نتیجہ اچھا ہو گا۔ ایک طالب علم راتوں کو جاگتا ہے وہ اس کو مصیبت نہیں خیال کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں میرے لئے بہت ترقیات ہیں۔ پس دُکھ وہی دُکھ ہوتا ہے جس کا نتیجہ دُکھ ہو اور وہ دُکھ دُکھ نہیں ہوتا جس کا نتیجہ آرام ہے۔ تو مومن کو جو ابتلاء آتے ہیں وہ اسی لئے آتے ہیں کہ وہ اَور ترقی کرے اس لئے وہ ان کو تکلیف نہیں خیال کر سکتا۔ پس دُنیا میں بے امنی ہے مگر ان کے لئے نہیں جن کو اﷲ سے محبت ہے اور جنہوں نے اﷲ کے رسولوں کو قبول کیا ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوںکو نجات دلانے کے لئے اور ان کے دلوں میں امن پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ جب ظاہری دُکھ اور تکلیف سے نجات دلانا ثواب ہے تو دل کا امن و اطمینان دلانا کتنا ثواب ہو گا۔ پس مَیں اپنے بھائیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ مَیں نے اس سفر سے جو سب سے بڑا تجربہ حاصل کیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ امن و اطمینان کے بھُوکے ہیں اور ہمارے پاس امن و اطمینان ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ وہ سامانِ اطمینان لوگوں تک پہنچا دیں۔ قبول کرنا نہ کرنا ان کے اختیار میں ہے۔ ہم اگر پہنچا دیں گے تو ہم خدا تعالیٰ کے حضور کہہ سکیں گے کہ خدایا !ہم نے تیرے بندوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا اور ہم اسی کے ذمہ دار تھے ہم نے تیرا پیغام پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ہم نے گھر کے دروازے کھلے رکھے مگر لوگوں نے اس طرف پیٹھ پھیر لی۔ اگر پناہ نہ لی تو اُنہوں نے، اگر توجہ نہ کی تو اُنہوں نے، ہم نے بخل نہیں کیا، ہم سُست نہیں ہوئے، ہم تھکے نہیں۔ بُلانا ہمارا فرض تھا سو ہم نے ادا کیا۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اوپر بخل اور کوتاہی کا الزام نہ آنے دیں اور اگر وہ نہیں مانیں گے تو اس کا الزام ان پر آئے گا نہ کہ ہم پر۔ اگر ہم خدا کا پیغام پہنچانے میں سُستی کریں تو اس کی دو ہی وجہیں ہوں گی۔ یا تو یہ کہ ہم نے خود قدر نہ کی یا ہم اس کو انعام نہیں سمجھے۔ پس اس ذمہ واری سے بچنے کے لئے کوشش و سعی سے سلسلہ حقّہ کو لوگوں تک پہنچانا چاہئے۔ اب چونکہ میرے حلق میں تکلیف بڑھ گئی ہے اس لئے مَیں زیادہ نہیں بول سکتا۔ غیروں کے اندر مجھے دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹہ تک بولنا پڑا مگر وہاں یہ بات نہ تھی مگر یہ بھی ایک خدا کا نشان ہے کیونکہ وہ کام خدا کا تھا اور اس لئے وہاں اس قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی مگر اب چونکہ وہ کام ختم ہو گیا ہے اس لئے اب لفظ بھی مُشکل سے زبان سے نکلتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی تائید ہے وہاں علاوہ لیکچروں کے چودہ چودہ اور پندرہ پندرہ گھنٹے تک متواتر مجھ کو بولتے رہنا پڑا مگر وہاں تکلیف نہیں ہوئی لیکن واپس آنے پر تکلیف ہونا یہ ایک نشان ہے۔ اگرچہ میں وہاں علاج کے لئے گیا تھا لیکن علاج کرانے کا موقع ہی نہ ملا۔ آخر ایک دن جو فرصت کا تھا اس میں مجھے تکلیف محسوس ہونے لگی اس پر مَیں نے ایک اور لیکچر رکھ دیا۔ چنانچہ چلتے وقت مَیں نے تقریر کی اور اچھی طرح کی لیکن جب میں بٹالہ پہنچا تو تکلیف محسوس ہوئی اور کسی قدر بخار بھی ہو گیا۔ اس سے مَیں نے سمجھا کہ وہاں چونکہ دوسروں میں کام کرنا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے صحت میں رکھا اور جب وہ کام ختم ہو گیا تو پھر پہلی سی تکلیف ہو گئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ چونکہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے اس سلسلہ کو غیروں تک پہنچانے والا خدا کی نصرت دیکھتا ہے ورنہ عقل میں نہیں آتا کہ ایک شخص حلق کے علاج کے لئے جاتا ہے اور وہاں چار دن تک گاڑی آتی ہے لیکن ہر روز ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت گزر جاتا ہے اور پھر آئندہ پر اس کو اُٹھارکھنا پڑتا ہے۔ گو یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی کہ ایسی تکلیف میں جیسی کہ مجھے ہے لیکچر کس طرح دیئے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ ایک ہندو ایڈیٹر سے ہمارے دوست ملنے کے لئے گئے اُس نے کہا کہ مجھے بھی وہی تکلیف ہے جو مرزا صاحب کو ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اگر مَیں بولوں تو یہ تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ آپ لوگ کیوں مرزا صاحب سے گزارش نہیں کرتے کہ وہ لیکچر نہ دیں بلکہ آرام کریں مگر اس کو کیا معلوم ہے کہ حلق تو بیشک بیٹھتا اور بیماری پر بولنے کا اثر ہوتا ہے مگر مَیں جانتا ہوں کہ اگر اس وقت بھی سلسلہ کی تائید اور اسلام کی صداقت کے لئے مَیں ایسے لوگوں کی مجلس میں جو سُننے کے مستحق ہوں کھڑا ہوں اور مجھے خدا کی عظمت و جلال کے لئے اب بھی بولنا پڑے تو مَیں گھنٹوں بولتا چلا جاؤں گا اور میری زبان نہیں رُکے گی۔ پس جو کوئی دین کی خدمت کے لئے کھڑا ہو گا وہ خدا کے نشان دیکھے گا۔ وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا علم کافی نہیں۔ انہیں معلوم ہو کہ ہمارے علم کچھ نہیں کرتے جو کرنا ہے خدا کے علم نے ہی کرناہے۔ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے علم بھی تھا، دماغ بھی تھے۔ قرآن بھی تھا، مسیح موعود علیہ السلام کوئی نئی چیز نہیں لائے مگر فرق صرف یہ ہے کہ پہلے خدا کی نصرت نہ تھی اب مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا کی تازہ نصرت ہو رہی ہے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ ہم عربی نہیں جانتے یا ہم لیکچرار نہیں، یا ہم علم مباحثہ کے ماہر نہیں بلکہ اگر تم خدا پر یقین رکھ کر کھڑے ہو گے تو یقین رکھو تم ضرور کامیاب ہو گے۔ پس خدا پر یقین کو مضبوط کرو، آپس میں محبت بڑھاؤ، پھر اگر تمہارا مخاطب کسی بھی درجہ کا کیوں نہ ہو وہ تمہارامقابلہ نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ خدا کی نصرت سے خالی ہے اور تم خدا کی طرف سے مددیافتہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں یہ بات سمجھنے کی توفیق دے، اسلام کے نام کو بُلند اور توحید کے قیام کے لئے تمہیں سچا جوش بخشے اور تم اسلام کی خدمت کے لئے ایک مجنون کی طرح ہو جاؤ جسے ایک ہی بات کی دھت ہوتی ہے تاکہ شرک و جہالت دُور ہو جائیں اور خدا کے جلال کی روشنی دُنیا میں پھیل جائے اور خدا کی عظمت اس درجہ پر پہنچ جائے جس پر پہنچانے کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں۔ حضور جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: اب گرمی زیادہ ہو گئی ہے۔ منتظمین کو چاہئے کہ سائبان لگا دیا کریں تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ (الفضل ۱۱؍مارچ ۱۹۲۰ء) مزید پڑھیں: دعا مذہب کی روح ہے