بَرّ اعظم ایشیا کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ غزہ میں معاہدہ جنگ بندی اسرائیل اور حماس کے درمیان ۹؍اکتوبر کو جنگ بندی معاہدہ طے پاگیا تاہم تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی ہے، یہ معاہدہ مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں مذاکرات کے بعداسرائیل اور حماس سمیت تمام فریقوں نے پہلے مرحلے کے معاہدے پر دستخط کردیے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کردیا،ثالث ممالک نے بھی معاہدے کی تصدیق کردی ہے،حماس نے کہا ہے کہ معاہدے کا مطلب ہے کہ جنگ مکمل ختم ہوگئی ہے، امریکہ اور قطر نے ضمانت لی ہے کہ معاہدے کے پہلے مرحلے کے نفاذ کے بعد صیہونی ریاست غزہ پر دوبارہ حملے نہیں کرے گی،معاہدے کے تحت غزہ سے قابض افواج کا جزوی انخلا ہوگا،مکمل جنگ بندی کے بعد قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا،خوراک اور طبی امداد غزہ آئے گی، اسرائیلی قیدی واپس آجائیں گے، غزہ سے کسی کو زبردستی نہیں نکالیں گے، جنگ بندی کے بعد غزہ پر حکومت اور حماس کے غیر مسلح ہونے کے معاملے طے ہونا باقی ہیں، معاہدے کے تحت یومیہ ۶۰۰ امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت ہوگی،فلسطینی دھڑوں نے غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے ۴۰؍نام پیش کردیے، جنگ بندی کے بعد غزہ پر حکومت اور حماس کے غیر مسلح ہونے کے معاملے طے ہونا باقی ہیں، اسرائیل کے ۲۰؍زندہ قیدیوں کے بدلے ۲ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں عمر قید کے ۲۵۰؍فلسطینی قیدی بھی شامل ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران پر امریکی بمباری غزہ جنگ بندی معاہدے کا محرک بنی،ایران کیساتھ مل کر کام کریں گے،وہ بھی امن چاہتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے ’’جنگ ختم کر دی ہے‘‘، انہوں نے مزید کہا کہ وہ جلد ہی جنگ بندی معاہدے پر ’’سرکاری دستخط‘‘ کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کا سفر کریں گے۔تاہم یہ افسوس کی بات ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی طیاروں اور فورسز کے حملے جاری رہے، ۱۶؍اکتوبر کے روز مزید ۲۹؍فلسطینی شہید ہوگئے۔ ایک طرف اسرائیلی حکام کے مطابق اسرائیلی کابینہ سے منظوری کے بعد معاہدے پرفوری طور پر عملدرآمد شروع کردیا جائے گا، اسرائیلی وزیر اعظم نے معاہدے کی منظوری کے لیے اپنی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کرلیا۔ اور دوسری طرف غزہ میں امن کی نئی صبح کا طلوع ہونے سے پہلے تاریکی میں بدل گئی ہے۔ پیر ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ غزہ امن سربراہی کانفرنس اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے پر ثالث ملکوں امریکہ، مصر، قطر اور ترکیہ کے سربراہوں کے دستخط ثبت ہوئے۔ امریکی صدر کا اس امن معاہدے میں کردار مؤثرسمجھا جارہاہے۔ اہم بات یہ ہے کہ معاہدے والے دن ہی فلسطین کے مزاحمتی گروپ حماس کی طرف سے ۲۰؍اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے ۱۹۰۰فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ بعد ازاں امریکی صدر نے عالمی راہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم پہلے بھی بہت سے معاہدے کر چکے ہیں۔ ہم مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن و استحکام چاہتے ہیں۔ مل جل کر غزہ کی تعمیر نو کریں گے۔ اس وقت تک کہ جنگ بندی معاہدےکے تحت حماس۲۰ زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور چار اسرائیلی شہریوں کی باقیات ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کر چکا ہے، جبکہ اسرائیل کی طرف سےایک ہزار ۹۶۸فلسطینی قیدی رہا کیے جا چکے ہیں۔ لیکن اس کےبرعکس صیہونی فوجوں کی طرف سے خونریزی اور ظلم جاری رہا۔ ۲۹؍ اکتوبر کو غاصب اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مختلف علاقوں پر حملوں میں ۸؍فلسطینی شہید ہوگئے۔صیہونی فوج نے مغربی کنارے میں ۴۰؍فلسطینی گرفتار کر لیے اور دو فلسطینی گھروں کو مسمار کر دیا جبکہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے ایک اور یرغمالی کی لاش اسرائیل کے حوالے کردی۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فورسز کی غزہ جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ غزہ کے مختلف علاقوں میں غاصب صیہونی فوج نے فائرنگ اور گولہ باری کی۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک آخری مغوی کی لاش واپس نہیں لائی جاتی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے فوج کو غزہ میں فوری حملے کرنے کا حکم دے دیا۔ عرب میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے بہانہ بنایا کہ ہمارے فوجیوں پر فائرنگ کی گئی۔ دوسری جانب، حماس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ امن معاہدے کی خلاف وزری کی۔ جنگ بندی کی اسرائیلی خلاف ورزیوں پر یرغمالیوں کی نعشوں کی حوالگی منسوخ کر دیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی خلاف ورزیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔ عالمی ضامن اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے صرف بیانات تک محدود ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ جیسے ممالک اسرائیل کی ہر زیادتی کو دفاع کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ عالمی انصاف کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس ریاض ریاض میں مورخہ ۲۸؍اکتوبر کو منعقدہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان سمیت عالمی راہنمائوں، سرمایہ کار، پالیسی ساز اور مختلف شعبوں کی ممتاز شخصیات نےشرکت کی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی زیرسرپرستی فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس کے نویں ایڈیشن کا آغاز ریاض کے کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں ہوا۔ ’’خوشحالی کی کلید‘‘ کے موضوع پر کانفرنس ۳۰؍اکتوبر تک جاری رہی۔ ابتدائی سیشنز میں ماحولیاتی تبدیلی، کرپٹو کرنسی کے بنیادی ڈھانچے اور عالمی مالیاتی نظام میں اس کے کردار، کوانٹم کمپیوٹرنگ اور سرمایہ کاری کے مستقبل جیسے اہم موضوعات شامل تھے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین انتہائی اہم دفاعی معاہدہ ہوا ہے جس کے مطابق سعودی عرب پر ہونے والا کوئی بھی حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا اور پاکستان پر ہونے والا حملہ سعودی عرب پر حملہ سمجھا جائے گا۔پاکستان کی معیشت کی مضبوطی کے لیے سعودی عرب نے ہمیشہ فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ایک ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی سعودی آئل فیسلٹی فروری ۲۰۲۶ء تک مؤثر رہے گی، جس کے تحت ماہانہ ۱۰۰ ملین ڈالر پاکستان کو فراہم کیے جائیں گے۔ اس ضمن میں رواں سال کے آغاز میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس وقت سعودی عرب کے پانچ ارب ڈالر پاکستان میں جمع ہیں۔ ان میں سے دو ارب ڈالر کا ڈپازٹ دسمبر ۲۰۲۵ء جبکہ تین ارب ڈالر کا ڈپازٹ جون ۲۰۲۶ء میں میچور ہوگا۔ ان ڈپازٹس کی میعاد میں توسیع کے لیے بات چیت پہلے ہی سے جاری ہے اور موجودہ دورے میں بھی یہی معاملہ زیر بحث آیا۔ پاکستان اور سعودی عرب نے اقتصادی تعاون کا ایک نیا فریم ورک شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری اور ترقیاتی شعبوں میں کئی سٹرٹیجک اور اعلیٰ اثرات کے حامل منصوبوں پر تبادلہ کرتے ہوئے توانائی، صنعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت، زراعت اور غذائی تحفظ سمیت ترجیحی شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے گا۔ ۲۸؍اکتوبر کو وزیراعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کے مابین ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کا فریم ورک شروع کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ یہ فریم ورک دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی مفادات پر مبنی اور ان کی تکمیل کے لیے تجارت و سرمایہ کاری کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں ممالک کی باہمی خواہش کا اعادہ ہےنیز باہمی برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں ممالک کے اقدامات کی عکاسی اور اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں پائیدار شراکت داری کی تعمیر کے لیے مشترکہ وژن کی توثیق کرتا ہے۔ امریکی صدر کا دورہ ایشیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایشیا کے ایک تیز رفتار سفارتی دورے پر۲۶؍اکتوبر کو ملائیشیا پہنچ گئے ہیں۔ ایشیائی ممالک کے دورے پر ان کی چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات بھی شامل ہے۔سفارتی ماہرین کو اس ملاقات کا ایک لمبے عرصے سے انتظار تھا کیونکہ دونوں صدور چھ سال کے طویل عرصے کے بعد ملنے والے ہیں۔ٹرمپ کے دورۂ ایشیا کے ایجنڈے میں سب سے اہم موضوع تجارت ہے کیونکہ یہ شعبہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔ٹرمپ ۲۶؍اکتوبر کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور پہنچے، جہاں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کا اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ اس کے بعد وہ جاپان اور پھر جنوبی کوریا جائیں گے، جہاں وائٹ ہاؤس کے مطابق ان کی ملاقات شی جن پنگ سے ہوگی۔اس دورے سے خود ٹرمپ اور دوسرے راہنما کس طرح کی کامیابیاں حاصل کرنے کی امید کررہے ہیں اور ممکنہ خطرات کیا ہیں اس کے متعلق اکتوبر کے آخر اور نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہر بات کھل کر سامنے آجائے گی۔ استنبول مذاکرات کا تیسرا دور پاکستان اور افغان طالبان کے مابین استنبول مذاکرات کا تیسرا دَور اس خطے کے امن و سلامتی کے لیے اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے مگر افغان طالبان کا تحریری معاہدے سے گریز اور لچک کا فقدان اس عمل کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔ پاکستان کی فریق کے طور پر واضح شرط یہ ہے کہ کالعدم تنظیم تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف ٹھوس اور یقینی اقدامات کیے جائیں ورنہ مذاکرات کا مقصد ہی بے معنی ہو جائے گا۔ اس پس منظر میں مذاکرات کے ثالث اور ترک انٹیلی جنس کے چیف ابراہیم قالن کی موجودگی ایک موقع فراہم کرتی ہے مگر اصل کامیابی طالبان کے مؤثر اور مثبت رویے پر منحصر ہے۔ پاکستان کا موقف منطقی اور دفاعی بنیادوں پر برقرار ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے پناہ گاہ نہیں بنایا جانا چاہیے اور دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی فوراً ختم کی جانی چاہیے۔ یہ مطالبہ محض سفارتی زبان نہیں بلکہ پاکستان کی بقا اور ملکی سلامتی کا لازمی تقاضا ہے۔ دوسری جانب، افغان طالبان کے جو دلائل سامنے آئے ہیں وہ بسا اوقات زمینی حقائق سے منہ موڑ تے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کوئی دوسرا ایجنڈا کارفرما ہے جو افغانستان، پاکستان اور پورے خطے کے استحکام کے خلاف جا سکتا ہے۔ خطے میں امن کا تقاضا یہی ہے کہ سرحدی سالمیت کا احترام ہو اور کسی بھی دہشت گرد گروہ کو سہولت میسر نہ ہو۔ مذاکرات میں دوست ممالک کی کوششیں قابلِ قدر ہیں مگر جب تک طالبان عملیت پسندی نہیں دکھائیں گے، محض بیانات امن یقینی نہیں بنا سکیں گے۔ عملی طور پر پیشرفت کے لیے چند واضح اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کہ سلامتی اور بقا پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اگر طالبان اور متعلقہ گروہ امن اور استحکام کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو وقت ضائع کیے بغیر ٹھوس اقدامات کریں ورنہ پاکستان اپنے دفاعی اور قانونی اختیارات کے تحت کارروائی کرے گا۔ خطے کی دیرپا ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے یہ لازم ہے کہ مذاکرات کا ہر مرحلہ شفاف اور قابلِ عمل تجاویز پر مبنی ہو۔ پاکستان اور افغان طالبان کے تیسرے دور میں مذاکرات ۱۸؍گھنٹے تک جاری رہے جو کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باعث کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔افغان طالبان کے وفد نے متعدد بار پاکستان کے خوارج (ٹی ٹی پی) اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ اور یقینی کارروائی کے منطقی اور جائز مطالبے سے اتفاق کیا۔ میزبانوں کی موجودگی میں بھی افغان وفد نے اس مرکزی مسئلے کو تسلیم کیا۔ تاہم ہر مرتبہ کابل سے ملنے والی ہدایات کے باعث افغان طالبان کے وفد کا موقف بدل جاتا ہے۔ مذاکرات کے دوران کابل سے ملنے والے غیرمنطقی اور ناجائز مشورے ہی بات چیت کے بے نتیجہ رہنے کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم پاکستان اور میزبان ملک انتہائی مدبرانہ اور سنجیدہ طریقے سے اب بھی ان پیچیدہ معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھی ایک آخری کوشش جاری ہے کہ طالبان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کسی طرح اس معاملے کو منطق اور بات چیت سے حل کر لیا جائے اور مذاکرات ایک آخری دور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ٭…٭…٭