اصل بات جو قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے تمام نبی حضرات فوت ہو گئے ہیں حضرت عیسیٰؑ بھی فوت ہو گئے ہیں اے معزز بیبیو اور میری پیاری بہنوں! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے دور دراز ملکوں کی بہنوں کی ملاقات اور بڑے بڑے برکات اور فیوض کے حصول کا دن یعنی جلسہ سالانہ آگیا ہے۔ یہ اجتماع اس مقدس انسان کا تجویز کیا ہوا ہے جو اس عالم کی تمام تاریکیاں دور کرنے اور اسلام کی ڈوبتی ناؤ کے لیے نا خدا بن کر آیا تھا۔ اس لیے یہ اجتماع اس زمانہ کے تمام زہروں کے واسطے تریاق اور اسلام کے تمام دنیا میں پھیلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ جس کے قیام اور بارونق بنانے میں ہم کو اپنے اوقات اور تمام فوائد کو حتی الوسع قربان کر دینا چاہیے۔ جہاں تک ہو سکے سعی کرنی چاہیے کہ یہ خدا کےفرستادہ کا تجویز کیا ہوا کام خیر و خوبی سے پورا ہو۔ اس مبارک اور بابرکت موقع پر ہم تمام بہنوں کا فرض اعلیٰ ہے کہ وہ اس مبارک موقع کو بارونق بنانے میں سعی کریں اور ان بہنوں کا یہ بڑا فرض ہے جو کچھ بھی علم جانتی ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کو پیارے احمد علیہ السلام کی پاک تعلیم سے آگاہ کریں۔ میں ایک کم لیاقت اور کم تجربہ ہوں مگر چونکہ تھوڑا بہت جانتی ہوں اس لیے میں بھی اپنا فرض اعلیٰ تصور کرتی ہوں کہ اپنی بہنوں کو کچھ سناؤں میں اب اس مضمون کو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتی ہوں۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ اما بعد وفات مسیح احمدی یعنی ہمارے پیارے احمد علیہ السلام کے ماننے والے اور غیر احمدی لوگوں میں ایک بڑا بھاری اختلاف حیات ووفات حضرت مسیح ناصری یعنی حضرت عیسی بن مریمؑ کا ہے۔ غیراحمدی ان کو زندہ آسمان پر بیٹھا ہوا مانتے ہیں لیکن ان کا یہ عقیدہ بالکل غلط ہے۔ اصل بات جو قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے تمام نبی حضرات فوت ہو گئے ہیں حضرت عیسیٰؑ بھی فوت ہو گئے ہیں۔اس مسئلہ میں بعض غیر احمدی عورتیں ہماری احمدی بہنوں سے سوال کرتی ہیں تو وہ آگے سے ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔سو میں اپنی بہنوں کے لیے یہ مضمون سناتی ہوں اگر وہ ان دلائل کو یاد رکھیں جو میں آگے چل کر بیان کروں گی تو امید ہے کہ ان کے بڑے کام آئیں گے۔اور بعض کی ہدایت کا موجب ہوں گے۔ یہ تمام دلائل ان شاء اللہ تعالیٰ قرآن شریف ہی سے دوں گی و باللہ التوفیق۔ حیات و ممات کے لیے عام سنت اللہ اوّل ہم دیکھتے ہیں کہ آیا قرآن شریف سے کہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسان زندہ آسمان پر ہے؟ جب ہم خدا کی کتاب دیکھتے ہیں تو ہم کو پہلے ہی پارہ میں اس بات کے خلاف آیت کریمہ ملتی ہے۔وَلَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ (البقرہ: ۳۷)یعنی تمہارے لیے زمین میں ٹھکانہ ہے اور فائدہ اٹھانا ہے ایک وقت تک۔اس آیت کریمہ سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا قاعدہ یہ ہے کہ لوگ زمین میں رہا کریں، زمین ہی ان کا ٹھکاناور ان کے لیے فائدہ کی جگہ ہے۔یہ بات اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرمائی تھی اور حضرت مسیح بھی آدم علیہ السلام کے مثل تھے ان کے لیے بھی یہی قانون الٰہی ہونا چاہیے۔ پھر ایک اور بھی آیت کریمہ ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قَالَ فِیۡہَا تَحۡیَوۡنَ وَفِیۡہَا تَمُوۡتُوۡنَ وَمِنۡہَا تُخۡرَجُوۡنَ۔ (الاعراف:۲۶)یعنی انسانوں کو کہا اسی زمین میں زندہ رہو گے اسی میں مارے جاؤ گے اور اسی سے پھر نکالے جاؤ گے۔ اب ان دلائل کے ہوتے ہوئے انکار کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔یہ دائرہ تو تمام انسانوں کے لیے ہوا۔ حیات و ممات انبیاء کا قانون اب میں یہ بتاتی ہوں کہ قرآن شریف میں انبیاء علیہ السلام کی حیات ممات کے متعلق کیا ہے تو قرآن شریف میں یہ آیت کریمہ ملتی ہے: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ۔ (آل عمران:۱۴۵)جب جنگ احد میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے تو لوگ گھبرا گئے اور ان کو یقین نہ آتا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں ہے محمد مگر رسول اللہ، اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں رسول، اگر یہ مر جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے۔یعنی باوجود ایمان لانے کے پھر کافر ہی ہو جاؤ گے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں تمام انبیاء سے ہوتی آئی۔ اب یا تو حیات مسیح کے ماننے والے حضرت مسیح علیہ السلام کو دائرہ انبیاء سے خارج کریں جو قرآن شریف کی محکم آیتوں کے صریح خلاف ہے یا ان کی وفات مانیں۔اب دو طرح کے دلائل ہوں گے ایک تو عام تمام انسانوں کے لیے اور پھر خاص انبیاء کے لیے۔جن سے وفات اور حیات انسانی کا طریق معلوم ہوگیا کہ ہر ایک انسان خواہ نبی ہو یا غیر نبی زمین پر ہی وفات پاتے رہےہیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے سب نبی سب فوت ہو چکے ہیں۔ پس مسیح بھی جو پہلے انبیاء میں داخل ہیں وفات پاچکے۔ آگے میں بالخصوص حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق چند دلائل پیش کرتی ہوں جن کو چاہیے کہ میری پیاری ہم قوم بہنیں یاد رکھیں۔ مسیح ناصری کی وفات قرآن شریف کے تیسرے ہی پارے میں آتا ہے: یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ۔ (آل عمران: ۵۶)یعنی اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے پاک کرنے والا ہوں ان لوگوں سے جنہوں نے تیرا انکار کیا اور تیرے تابعین کو تیرے منکرین پر غلبہ دینے والا ہوں قیامت تک۔ غیر احمدی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس آیت میں تقدیم تاخیر ہے۔یعنی یہ آیت آگے پیچھے ہے۔اوّل تو یہ بات ہی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا پاک کلام تو ہر ایک عیب سے پاک ہے۔ تو پھر اس کے پاک و صاف کلام میں ایسے نامعقول تقدیم و تاخیر جیسے نقص کا ہونا کیا معنی۔اگر ہم غیر احمدی لوگوں کی یہ بات بھی تسلیم کرلیں کہ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ تب بھی ان کا مطلب حاصل نہیں ہو سکتا۔اگر اس آیت کو آگے پیچھے کر دیویں تو اس کے معنی یہ ہو جاویں گے کہ اے عیسیٰ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے پاک کرنے والا ہوں۔اور تیرے تابعین کو منکرین پر فوقیت دینے والا ہوں قیامت تک۔ اور پھر تجھے وفات دینے والا ہوں۔تقدیم و تاخیر کرنے کے لیے غلبہ پہلے ہو گیا۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا غلبہ ہو چکا کہ نہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غلبہ ہو چکا۔کون کہتا ہے آج کل عیسائیوں کی سلطنت نہیں اور یہودیوں کی ہے۔ یہودیوں کا تو کہیں نام بھی نہیں بس معلوم ہوا کہ وفات ہو چکی۔کیونکہ جب غلبہ ہو چکا تو وفات کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ باوجود تقدیم و تاخیر کرنے کے وفات غلبہ سے پہلے ہے۔ اب آگے تطہیر آئی۔ تطہیر تو ہوچکی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ ہ وسلم کے زمانے میں حضرت مسیح علیہ السلام کی بہت تطہیر ہوئی قرآن شریف نے حضرت مسیح بن مریم کی بہت تطہیر کی۔انہیں کی تطہیر کے لیے توکہا کہ وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ میں آگے چل کر ان شاءاللہ مفصل طور پر بیان کروں گی۔ جب تطہیر ہو چکی تو وفات بھی ہوچکی۔پھر آگے چل کر رفع لو۔ جب غیر احمدی خود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کا رفع ہو چکا تو وفات بھی ہو چکی۔ اب آگے قیامت ہے۔ تو کیا حضرت مسیح قیامت کو فوت ہوں گے۔قیامت کے دن تو مردے زندہ کیے جاویں گے اور حضرت مسیح کے لیے یہ انوکھی بات ہے کہ وہ قیامت کے دن مریں گے۔حیف ہے ایسے لوگوں کے دین و ایمان پر۔اور ہزار افسوس سے تقدیم و تاخیر کرنے والوں پر۔ معزز بیبیو اور پیاری بہنوں !میں نے یہ جو چند دلائل آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے متعلق سنائے ہیں۔اگر آپ ان کو اچھی طرح یاد رکھ لیں گی تو بہت لوگوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے۔ اور آپ سے جس وقت کوئی غیر احمدی عورت جواب طلب کرے تو آپ کو ان شاءاللہ کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اب ایک اَور دلیل دیتی ہوں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سامنے خود اپنے مرنے کا اقرار کرتے ہیں۔سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں فرماتا ہے: وَاِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَاُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ٭ بِحَقٍّ…۔مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَرَبَّکُمۡ ۚ وَکُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ(المائدہ: ۱۱۷، ۱۱۸) یعنی جب کہے گا اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو کیا تو نے کہا لوگوں کو کہ پکڑو مجھے اور میری ماں کو اور دو معبود سوائے اللہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے۔ پاک ذات ہے تیری۔نہیں ہے میرے لیے کہ میں کہوں وہ بات کہ اس کے کہنے کا حق نہیں…میں ان کو نہیں کہا مگر جو تو نے مجھے حکم دیا کہ عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی جو میرا رب ہے اور تمہارا رب۔اور میں ان پر نگران تھا۔ جب تک کہ میں ان میں رہا۔ پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو خود ان پر نگران تھا۔ حیات مسیح کے ماننے والوں کے خلاف یہ آیت فیصلہ کن ہے اور حق کا متلاشی اس پر یقین کرسکتا ہے مگر جن کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہے وہ تو کسی طرح بھی نہیں سمجھتے۔ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ رب العزت قیامت کے روز حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال کریں گے کہ تو نے اپنی قوم کو کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو معبود نہ مانو اور اس کی عبادت نہ کرو۔میری اور میری ماں کی کیا کرو۔ تو حضرت مسیح جواب دیں گے کہ اے اللہ! آپ تو عالم الغیب ہیں میرے دل کی بات جانتے ہیں۔ بلکہ جب میں ان میں رہا اور میں ان کو وہی سکھاتا رہا جو آپ مجھے کہتے رہے اور میں اس وقت تک ان کے موحد ہونے کا گواہ ہوں۔ مگر جب آپ نے مجھے وفات دے دی (اس جگہ صاف طور پر وفات کا لفظ آیا ہے) تو تُو ہی ان کو دیکھتا تھا اور تو تو جانتا ہے کہ یہ میرے سامنے نہ بگڑے تھے۔میری بہنوں! حیات مسیح کے ماننے والوں کو کہو کہ اب یا تو اللہ تعالیٰ کے صادق کو سچے پاک نبی کو جھوٹا کہیں یا یہ کہیں گے عیسائی مذہب سچا ہے۔اب تو یہی ہو سکتا ہے کہ یا یہ سمجھو کہ حضرت مسیح نے اللہ تعالیٰ کے حضور نعوذ باللہ من ذالک جھوٹ کہا یا اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ یوں ہی کہہ دیا۔اگر یہ کہو کہ حضرت مسیح نے سچ کہا تو وفات مانو۔ اگر جھوٹ کہا تو عیسائی مذہب کو سچا مان کر عیسائی ہو جاؤ۔معزز بیبیو! پیاری بہنوں! ذرا دیکھو تو کیسے کیسے بین دلائل ہیں مگر لوگ نہیں مانتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جناب سے سمجھ عطا کرے آمین۔ وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ اب قائلین حیات کی ایک دلیل کو رد کرتی ہوں۔قائل حیات مسیح کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ یعنی نہ تو مسیح قتل کیے گئے اور نہ سولی دیے گئے۔ اس کی شبیہ بنائی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ جاہل یہ نہیں سمجھتے کہ یہاں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح پر سے ایک بڑے الزام کو دور کیا ہے۔کیونکہ یہودیوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو سچا نبی ہوتا ہے وہ قتل نہیں کیا جاتا اور جو سولی دیا جاتا ہے وہ لعنتی ہوتا ہے۔اور حضرت مسیح قتل کیے گئے اور سولی دیے گئے تو معلوم ہوا کہ سچے تھےنہ لعنتی تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ قتل کیے گئے نہ سولی دیے گئے۔اور یہ خوب یاد رکھنے کے قابل ہے کہ صَلَبُوۡہُ کہ معنی سولی پر مارنے کے ہیں نہ صرف سولی پر چڑھانے کے۔ حضرت مسیح سولی پر تو ضرور چڑھائے گئے مگر آپ سولی پر مارے نہ گئے تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صَلَبُوۡہُ فرما کر نفی قتل بالصلیب کی کی ہے اور لغت سے صلب کے معنی سولی پر مارنے کے ہیں۔ اور کیا موت دو طرح ہی ہوتی۔ایک قتل اور ایک سولی کے ذریعہ۔ کسی اور طرح موت ہونی نہ ممکن ہے؟ کیا ممکن نہیں کہ حضرت مسیح کسی اور طرح فوت ہو گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے تو صرف دو طرح کی موت سے ان کو بری کیا ہے۔طبعی موت سے تو ان کو بری نہیں کیا۔ پھر آیت سے یہ مطلب لے لینا کس قدر جہالت ہے۔ وَلٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ اور یہ جو فرمایا ہے کہ اس سے یہ مطلب نہیں کہ ان کی شکل کا ایک اور شخص تھا۔اس کو بجائے ان کےسولی دیا گیا۔ یہ بھی ایک حماقت ہے کیا اللہ تعالیٰ کویہ قدرت نہ تھی کہ بغیر کسی کو مسیح کا فدیہ دینے کے مسیح کو زندہ رکھتا۔ یہ تو ایک اللہ تعالیٰ پر الزام لگانا اور اللہ تعالیٰ کو ظالم بنانا ہے۔کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح کی جگہ ایک بے گناہ وصولی پر چڑھا دیا۔ اللہ تعالیٰ تو ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایک بے گناہ کو سولی دیا جائے۔ اور جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور فرمادیا کہ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِتو پھر شبیہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ یونہی ایک غریب کو سولی پر چڑھا دیا۔ایک تو یہ ظلم ہوا۔اوردوسرے بے ضرورت کیونکہ وہ سولی دینے والے لوگ مسیح کو اللہ تعالیٰ کے پاس سے تو نہ لا سکتے تھے۔تو پھر کیا ضرورت تھی کہ شبیہ بنائی جائے۔ اگر مسیح زمین پر بھی ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو اتنی قدرت نہ تھی کہ اپنی ایک بندے کو زمین پر رکھ کر پھر سولی سے محفوظ رکھتا۔اللہ تعالیٰ تو قادر ہے۔ اُس نے تو سب نبیوں کو دشمنوں کے ہاتھ سے زمین پر ہی بچایا۔ کسی کو آسمان پر نہ اٹھایا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ لغت میں رفع کے کئی معنی ہیں۔ رفع کے معنی ٓاسمان پر اپنے پاس اٹھا لینا تو کہیں نہیں۔یہ کس قدر حماقت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ کہا جائے کہ وہ آسمان پر ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ۔(ق: ۱۷) یعنی ہم شاہ رگ سے بھی قریب ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو محدود کرنا ہوا۔ رفع کے معنی یہ کہتے ہیں اوپر اٹھا لینا یعنی آسمان پر اٹھا لیا۔ اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔سو یہ دلیل بھی باطل ہوئی۔ رفعہ اللّٰہ الیہ کے معنی یہی ہیں کہ مسیح مصلوب ہو کر لعنتی نہیں ہوا بلکہ قتل و صلب سے بچایا جا کر مرفوع ہوا معزز ہوا۔ دوبارہ نزول مسیح پیاری بہنوں اور معزز بیویوں! و فات مسیح ثابت ہو جانے کے بعد مسیح کے نزول ثانی کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے لیکن مختصر طور پر میں اس کا بھی کچھ بیان کر دیتی ہوں ان دلائل وفات سن کر بعض کہتے ہیں کہ اچھا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں۔ مگر یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں نہ آویں گے؟ مردے دنیا میں واپس نہیں آتے سو میری بہنوں! اس کا جواب آپ ان کو یہ دیا کریں کہ حضرت مسیح اس لیے واپس نہیں ا ٓسکتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اور لَا یَرۡجِعُوۡنَکہ ان کے ورے روک ہے اور وہ لوٹیں گے نہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ نے وفات یافتگان کے لیے روک ڈال دی ہے کہ وہ اس دنیا میں دوبارہ نہ آویں گے۔ غیر احمدی یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کیا وہ اس روک کو جو اس نے آپ ڈالی ہوئی ہے ہٹا نہیں سکتا تو اس کا جواب آپ یہ دیا کریں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو بلایا اور کہا کہ اے جابر! تجھے ایک خوشخبری دوں تو آپ نے جابرؓ کو کہا کہ تیرے باپ کو جو جنگ بدر میں شہید ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور بلایا فرمایا کہ اپنی کوئی خواہش بیان کرو۔ اس نے کہا اے اللہ !میری بڑی خواہش یہ ہے کہ میں پھر زندہ کیا جاؤں۔پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جاوں پھر زندہ کیا جاوں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جاؤں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کوئی اور مراد مانگ اس بات کا میں نے اپنی ذات سے عہد کیا ہوا ہے کہ مردوں کو دنیا میں دوبارہ نہیں بھیجا کروں گا۔ خاتمہ مضمون اور دعا اے میری ہم قوم بہنوں!اب میں اس مضمون کو اللہ تعالیٰ ہی کے نام پر ختم کرتی ہوں اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے لیے اس مضمون کو موجب برکت کرے اور آپ کے لیے اور کئی روحوں کے لیے مفید ثابت ہو۔ پیاری بہنوں !اگرچہ میں بالکل بے علم ہوں مگر اب اپنے فرض سے سبکو دوش ہوتی ہوں۔گومیرا مضمون بہت ہی چھوٹا سا ہے اور اس میں کوئی خوبی نہیں پائی جاتی مگر بہنوں مجھے علم ہی اتنا ہے آپ سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے علم ترقی دے تاکہ میں کسی اور مبارک موقع پر آپ کی کوئی خدمت کر سکوں۔آمین۔ امید ہے کہ میری بہنوں نے بھی اپنا فرض اتارنے کے لیے کچھ سنانا ہوگا۔اس لیے اب میں تو ختم کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ آپ بھی میرے لیے اور تمام قوم کے لیے دعا کریں کہ الٰہی دعاؤں میں ترقی دے اور باغ احمد کو پھولوں سے بھر۔اور ہم سب کے دل میں ایک اسلام کا جوش اور پیارے احمد کی محبت ڈال اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کی پاک تعلیم کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیں اور اس کا نام روشن کریں۔ الٰہی! ہمارے ایمانوں میں آپ ترقی دے۔ الٰہی! ہمیں ایسے موقع دے کہ کہ ہم اپنی جانیں اور عزتیں اور مال تیری راہ میں قربان کر دیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچائی ہر ایک فرد بشر کے دل پر محض تیری عطا اور تیری توفیق سے بٹھا دیں۔ الٰہی! ہمارے علموں میں ترقی ہو۔ اور اس برگزیدہ قوم پر تیرے فضلوں کی موسلادھار بارشیں آئیں۔ ہمارے لیے آپ کے جواررحمت میں جگہ اور حشر کے دن ہمارے پیارے احمد اور پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خادموں میں جگہ ملے۔ آمین یا رب العالمین۔ میں ان شاءاللہ تعالیٰ اللہ کی توفیق سے ایک مضمون’’ صداقت مسیح موعود‘‘ تمہیں کل یا پر سوں سنا دوں گی۔جو آپ کے لیے بہتر ہوگا و باللہ التوفیق۔ والسلام۔ (اخبار فاروق قادیان دارالامان مورخہ ۱۳؍جنوری ۱۹۱۶ء) (مرسلہ: عطیۃ العلیم۔ہالینڈ) ٭…٭…٭