https://youtu.be/GMLrMzTLwaA اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط ۱۹۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل سے وابستہ یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد افضل قمر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ہم سب بہن بھائیوں سمیت بہت سے دوسرے احمدی اور غیرازجماعت بچوں نے مکرم حافظ کرم الٰہی صاحب سے قرآن مجید ناظرہ اور پھر ترجمہ پڑھا۔ مکرم حافظ صاحب نے اپنی تعلیم (مولوی فاضل) قادیان سے مکمل کی تھی، آپ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اردو ترجمہ اور عربی صرف ونحو پر بھی عبور رکھتے تھے اور روانی کے ساتھ عربی بول سکتے تھے۔ آپ ساری زندگی بطور احمدیہ مسجد گنج مغل پورہ لاہور میں مقیم رہے۔ نمازیںاور جمعہ پڑھانے کے علاوہ پورا رمضان آپ نماز تراویح پڑھاتے اور پورے جوش اور ہوش کے ساتھ قرآن مجید سناتے، اس سے قبل دن میں قرآن مجید کی دہرائی بھی کرتے۔ جب خاکسار ساتویں یا آٹھویں کا طالب علم تھا تب ان کوروز صبح سویرے میری تلاش ہوتی کہ مَیں ان کو اخبار سے خبریں پڑھ کر سناؤں۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہا جب تک کہ میں نے عملی زندگی میں قدم نہ رکھ دیا اور ملازمت کی وجہ سے میری مصروفیت اَور طرح کی ہو گئی۔ لیکن آپ کی اخبار سے خبریں سننے کی عادت نے ہی مجھے اخبار بینی کے علاوہ رسائل اور کتب بینی کی راہ پر لگا دیا اور مطالعہ کرنا اور پھر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے لکھنا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ اپنی قلیل سی زندگی میں خدا کے فضل سے اب تک ستاون کتب لکھنے کی توفیق مل چکی ہے جو سب کی سب شائع ہوچکی ہیں۔ نیز مختلف ملکی اخبارات و رسائل اور انٹرنیٹ اور ویب سائٹس پر مضامین لکھنے کی توفیق مل رہی ہے۔ ایک دُھن ہے کہ گھر پر آنے والے سارے جماعتی اخبارات و رسائل کو جب تک پہلے صفحے سے لے کر آخرتک پڑھ نہ لوں چین نہیں آتا۔ اگرچہ مَیں روز ایم ٹی اے دیکھتا ہوں اور براہ راست بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے مگر جب میں الفضل پڑھتا ہوں تو میرے علم میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا ہے۔ ………٭………٭………٭……… الفضل کے ساتھ ذاتی تعلق روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میںمکرم محمد رفاقت احمد صاحب رقمطراز ہیں کہ خاکسار نویں کلاس کے طالب علمی کے زمانے سے روزنامہ الفضل کا قاری ہے۔ اخبار کے مضامین ، حضرت خلیفۃالمسیح کی صحت اور دیگر جماعتی خبروں سے عزیزواقارب کو آگاہ بھی کرتا تھا۔ یہ بھی عادت بن گئی کہ غیرازجماعت غیرمتعصب دوستوں اور اپنے پروفیسرز صاحبان کو بھی وقتاً فوقتاً الفضل مطالعہ کے لیے دیتا رہتا۔ بعض پبلک لائبریریوں میں اُن کی اجازت سے پرانے یا نئے الفضل کے پرچے بھی رکھواتا اور احمدیت کے بارے میں جاننے کا شوق رکھنے والوں کو ان کی خواہش پر الفضل بذریعہ ڈاک بھی روانہ کرتا۔ کچھ لائبریری والوں، میرے اساتذہ اور جاننے والے غیرازجماعت احباب کو ایسا چسکا پڑ گیا کہ وہ خاکسار کے ذریعہ الفضل اخبارات کے پرانے فائل تک منگواتے اور پڑھ کر واپس کر دیتے۔ ان کی یہ ضرورت میں جماعت احمدیہ راولپنڈی میں قائم لائبریری کے ذریعہ پوری کرتا رہا۔ اس لائبریری میں پرانے الفضل، بدر، الحکم کے علاوہ بعض بڑی نایاب کتب موجود تھیں۔ جون ۱۹۷۴ء میں چند شرپسندوں نے اسے آگ لگا دی اور یہ قیمتی ذخیرہ جل گیا۔ محکمہ ڈاک کی مواہیر اور خریداری نمبروں سے اندازہ ہوا کہ ہمارے خاندان میں الفضل بذریعہ حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ ،مکرم عبدالکریم صاحب ڈرائنگ ماسٹر، مکرم میاں عبدالرشید صاحب محکمہ پولیس اور مکرم شیخ بشارت احمد صاحب محکمہ تعلیم ۱۹۱۳ء سے آرہا ہے۔ خاکسار کی پڑدادی حضرت عمر بانو صاحبہ بڑی دانا اور نیک خاتون تھیں۔ ایک رات انہوں نے خواب میں کسی بزرگ کو اونٹنی پر سوار یہ اعلان کرتے ہوئے دیکھا کہ امام مہدی قادیان میں ظاہر ہو گئے ہیں۔ اس پر انہیں یقین ہوگیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ مسیح موعود درست ہے۔ چنانچہ بیعت کرلی۔ پھر اُن کے ذریعہ سارا خاندان احمدی ہوگیا۔ وہ اخبار الفضل بھی منگواتیں اور اپنے بچوں، غیرازجماعت رشتہ داروں نیز ہمسایوں وغیرہ کے ذریعہ اخبار کے مندرجات کو بڑے شوق و اہتمام سے سنتی اور سنواتی تھیں اور اس کے بعد پنجابی میں ترجمہ کرواتیں تاکہ ہر مردوزن کو سمجھ آجائے۔ اخبار الفضل ہماری آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک خاندانی تاریخی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ۱۹۷۹ء میں مجھے SBP نے شعبہ بینکنگ میں ملک بھر میں اوّل آنے پر گولڈمیڈل دیا۔ میرے بیٹے عزیزم غالب احمد عدنان کو ۲۰۰۴ء میں Arid یونیورسٹی نے BCS Hons میں دوم آنے پر سلور میڈل دیا۔ اسی طرح خاکسار کے نکاح، دعوت ولیمہ، ہمارے وصایا کے مسل نمبرز، بیٹے بیٹیوں کے نکاحوں اور رخصتانے وغیرہ کی خبریں اخبار الفضل نے اشاعت کے ذریعہ ریکارڈ کردیں۔ محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مرحوم نے مجھے ایک دفعہ نصیحت کی کہ الفضل میں مضامین لکھا کرو، اس سے نہ صرف لکھاری کا اپنا علم بڑھتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ خاکسار نے مختلف معلوماتی مضامین لکھے جو اخبار الفضل نے پذیرائی کرتے ہوئے شائع کیے۔ الحمدللہ ………٭………٭………٭……… میری تعلیم و تربیت میں الفضل کا کردار روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ صادقہ کریم صاحبہ رقمطراز ہیں کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو پیارے ابا جان چودھری عبدالکریم صاحب کو گھر میں اخبار پڑھتے اور بچوں کو سناتے پایا۔میں ابھی اردو صحیح طورپر نہ پڑھ سکتی تھی کہ اباجان الفضل تھما دیتے اور پہلا صفحہ بڑی محنت اور حوصلے سے سنتے اور درستی فرماتے جاتے۔پھر جوں جوں پڑھنے میں روانی آتی گئی روزانہ اخبار پڑھنے کی تاکید کرتے اور جائزے کے طورپر چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھ کر اپنی تسلی کرلیتے اور درست جواب پر بہت خوشی کا اظہار کرتے اور وقتاًفوقتاً انعام سے بھی نوازتے۔جب میں تیسری جماعت میں تھی تو تلفظ اور زیادہ تر الفاظ کے معانی مَیں اس حدتک جان چکی تھی کہ میری ٹیچرکہتیں کہ تم نویں کلاس کی طالبات جتنی اردو جانتی ہو۔اسی لیے میری ہوش میں املاء میں کبھی غلطی نہ ہوئی۔ لیکن الفضل کا اصل فائدہ یہ ہوا کہ جماعت کاپورا تعارف حاصل ہو گیا۔دینی احکام سے نہ صرف آگاہی ہوئی بلکہ الحمدللہ کہ ان پر عمل کرنے کا سلیقہ بھی آگیا۔ اپنے بزرگوں کے حالات اور قربانیاں پڑھ کر دل میں یہی عزم تھا کہ ایسے ہی بننے کی کوشش کرنی ہے۔خلفائے وقت سے محبت اور ان کے ہر حکم کو حرز جان بنانے کاشوق بھی الفضل کے مطالعہ کا ہی مرہون منت ہے۔ مضامین لکھنے والوں اور نظمیں کہنے والوں سے ایک غائبانہ محبت پیدا ہوئی اور ان کے لیے دعائیں کرنے کی عادت پڑی کہ ؎ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ الفضل کے ذریعے احباب جماعت سے اس قدر غائبانہ تعارف حاصل ہوا کہ اکثر لوگ حیران ہو جاتے ہیں۔ میرے دل میں پیار اور نرمی کے جذبات بھی الفضل کے ہی مرہون منت ہیں۔ یقین جانیے مجھے یوں لگتا ہے کہ میری تربیت ماں باپ نے تو کی ہوگی لیکن الفضل کی بھی شکرگزار ہوں۔ میرا تعلق تدریس کے پیشہ سے تھا۔ الفضل نے قدم قدم پر میری راہنمائی فرمائی۔ہر روز تازہ مواد میسر آجاتا اور ہر موضوع پر علم میں اتنا اضافہ ہو جاتا کہ مَیں اعتماد سے کلاس میں جاتی اور نصاب کے علاوہ بھی بہت سی باتیں بچوں کو بتاتی تو اُن کے چہروں پر خوشی اور ان سے شکرگزاری کے جملے سنتی۔ جب پورا اخبار پڑھنے کی عادت پختہ ہوگئی کہ کوئی حصہ بھی رہ جائے تو تشنگی نہیں مٹتی ۔۱۹۵۵ء سے لے کر ۲۰۱۲ء تک اس روحانی نہر سے مستفیض ہورہی ہوں۔سوائے اس وقفے کے جو جبری بندش رہی۔پیارے والد کے لیے دعا گو ہوں کہ الفضل کی چاٹ انہوں نے ہی مجھے لگائی۔اُن کا کہنا تھا کہ جب وہ سروس میں آئے تو پہلی تنخواہ ملنے پر ہی الفضل جاری کروا لیا تھا۔ غالباً ۱۹۲۲ء سے وہ الفضل سے استفادہ کر رہے تھے جو نومبر۱۹۷۸ء میں اُن کی وفات کے بعد بھی آتا رہا۔ ………٭………٭………٭……… اخبار الفضل کی اہمیت روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم منیر احمد ملک صاحب (امریکہ)بیان کرتے ہیں کہ خاکسارنے ہوش سنبھالا تو روزنامہ الفضل کو زندگی کا جزو بنے دیکھا ہے۔ محترم والد صاحب نماز فجر مسجد اسلامیہ پارک لاہور میں ادا کرکے تشریف لاتے تو بے چینی سے الفضل کا انتظار کرتے جو ہر صبح اخبار والا تقسیم کرتا تھا۔ ناشتہ کے دوران والد صاحب حضرت خلیفۃالمسیح کی صحت سے متعلق خبر اور حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد پڑھ کر سناتے۔ تب تک ہم پانچ بہن بھائی اپنے سکول کے لیے روانہ ہوجاتے۔ والدین ساری الفضل کا مطالعہ کرکے ایسی تحریر جو بچوں سے متعلق ہوتی اس کی نشاندہی کرتے اور شام کو والدہ صاحبہ مجھے بلند آواز سے وہ تحریر پڑھنے کے لیے ترغیب دلاتیں اور یہی ہر روز کی روٹین تھی جس سے الفضل پڑھنے کا شوق پیدا ہوابلکہ بڑھتا گیا۔ ہم پانچوں بہن بھائی تعلیم کے مختلف مدارج میں تھے اور تعلیم کے سارے اخراجات کا بوجھ والد صاحب کے اکیلے کندھوں پر تھا۔اس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست سے مشورہ کے لیے کیاجس نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے باقی باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ الفضل اخبار کی خریداری کو کچھ عرصہ کے لیے بند کر دیں۔ مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے جواباً کہا کہ مَیں الفضل (یعنی اللہ تعالیٰ کا فضل)کو گھر آنے سے روک دوںیہ ممکن نہیں۔ اُس وقت احمدیوں کا مرکز سے رابطے کا واحد ذریعہ الفضل اخبار ہی تھا۔ ہنگامی اور نامساعد حالات میں تو الفضل کی ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ ۱۹۵۳ء میں جبکہ میری عمر ۹ برس تھی تو فسادات میں الفضل ہی واحد ذریعہ تھا جو خلیفۂ وقت کا پیغام اور ہدایات احمدیوں تک پہنچاتا تھا۔ ایسے میں حکومت نے الفضل بند کر دیا تو اس کی جگہ ہفت روزہ ’’فاروق‘‘ آگیا جس کے صفحہ اوّل پر جلی حروف میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا یہ پُرشوکت پیغام درج تھا کہ خدا میری مدد کو دوڑا ہوا آرہا ہے۔ والد صاحب نے بلند آواز میں یہ پیغام پڑھ کر سنایاتو دل اس یقین سے پُر ہو گیا کہ خداوند کریم ہماری خود حفاظت فرمائے گا۔ الفضل کے ذریعہ حضورؓ کی یہ ہدایت بھی ملی کہ احمدی اپنے گھروں میںہی رہیں۔ والدصاحب فائلوں میں الفضل محفوظ بھی کرتے جاتے تھے۔ چنانچہ اس ماحول نے طبعاً الفضل سے ایک محبت پیدا کردی۔ اور اس کے مطالعہ نے میرے علم میں اتنا اضافہ کیا کہ ۱۹۶۲ء میں جب خاکسار اسلامیہ کالج لاہور میں F.A کا طالبعلم تھا تو چاروں سمسٹرز میں اور۴۰۰طلبہ میں اسلامیات میں اوّل رہا اور گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان صاحب کے ہاتھوں انعام حاصل کیا۔ اگرچہ اُس وقت اسلامیات کے ہمارے پروفیسرخالد بزمی صاحب تھے جو بدقسمتی سے احمدیت کے شدید مخالف تھے اور اس کا اظہار کئی بار مختلف پیرایہ میں کلاس میں کرتے تھے۔ انہیں اس بات کا قطعاً علم نہ تھا کہ میں بفضل خدا احمدی ہوں۔ میرے کلاس فیلو ہمیشہ پوچھتے کہ مَیں اسلامیات کا پرچہ کیسے حل کرتا ہوں۔ کاش مَیں یہ انہیں بتا بھی سکتا کہ میرا پرچہ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات کی روشنی میں حل ہوتا تھا جس کی ایک وجہ الفضل کا باقاعدہ مطالعہ تھا۔ ۱۹۷۹ء میں خاکسار امریکہ منتقل ہوگیا تو الفضل سے رابطہ منقطع ہوگیا جس کا طبیعت پر ہمیشہ بوجھ رہتا۔ بہرحال پھر یہ تعلق جب بحال ہوا تو قلمی خدمت بھی کرتا رہا۔ الغرض الفضل سے میرا تعلق نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ ………٭………٭………٭………