https://youtu.be/zhCINM3dGhA ’’آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتار دھاریں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لیے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہہ باطلہ‘‘(حضرت مسیح موعودؑ) لدھیانہ کےمخالفین لدھیانہ جوکہ شاید ’’ارضِ لُدّ‘‘کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ قدرت ایزدی کہ ہندوستان میں عیسائی یلغارکی ابتدا کے طورپرپنجاب میں پہلامشن بھی یہیں قائم ہوا اور براہین احمدیہ جیسی عالمگیرتصنیف جوکہ گویااسلام کی فتح کی پہلی للکار تھی اس کی اشاعت کے بعد مخالفت کابازار گرم کرنے والاٹولہ بھی یہیں کاثابت ہوا۔اور یہ قطعاً اتفاق نہیں تھا کہ بیعت کاآغازبجائے قادیان کے لدھیانہ میں ہوا بلکہ اس کے پیچھے تقدیرخداوندی کاحکیمانہ ہاتھ تھاتاکہ یہ ذہن میں رہے کہ وہ آنے والامسیح ارض لُدّ پرپہنچ کراسلام کے خلاف اٹھنے والی تمام باطلانہ قوتوں کاسراپنے پاؤں تلے رکھتے ہوئے کچل دے گا۔ لدھیانہ کے مخالفین نے جو عَلم مخالفت آپؑ کے خلاف بلند کیا اس کی وجوہات اور اسباب مذہبی اور سیاسی دونوں تجویز کیے گئے تھے۔دراصل وجہ مخالفت تو محض عداوت اور بغض تھا لیکن اپنے تقدس اور عالمانہ شان کو قائم رکھنے کے لیے مخالفت کے اسباب مذہبی قرار دیے اور پھر گورنمنٹ کو بدظن کرنے کے لیے سیاسی وجوہات پیدا کرلی گئیں اوروہ مخالفت میں ترقی کرتے چلے گئے۔ اس لودہانوی گروہ کی غرض اس مخالفت کے اعلان سے یہ تھی کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک طرف عوام میں بدنام کریں اور مسلمان جوان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اس سے روکیں اوردوسری طرف سیاسی رنگ میں بدنام کریں گورنمنٹ کو اکسائیں۔پہلے مقصد کے لیے انہوں نے آپ علیہ السلام کے خلاف فتویٰ کفر کی تجویز کی اور دوسرے مقصد کے لیے حکومت سے چغلیاں کھانی شروع کیں اور کہا کہ یہ کتاب براہین گورنمنٹ کے مخالف ہے۔اصل میں اس مخالفت کابنیادی عنصریہی تھا کہ ان مولویوں کی قیادت سخت معرض خطرمیں پڑ گئی اور چندہ کی رقوم سے اپنے پیٹ کے دوزخ بھرنے کے ایندھن کی فراہمی بندہونے کااندیشہ ہوا۔ اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے سخت ترین مزاحمت کاعَلم بلندکیا جس کوکفرکے سیاہ فتووں کے ساتھ اور کالاکیاگیاتھا۔ محمدحسین بٹالوی صاحب لدھیانہ کے ان مخالفین کی اسی مخالفت کاذکرکرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :’’اس انکار و کفران پر باعث لودیانہ کے بعض مسلمانوں کو تو صرف حسد و عداوت ہے۔ جس کے ظاہری دو سبب ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو اپنی جہالت (نہ اسلام کی ہدایت)سے گورنمنٹ انگلشیہ سے جہاد و بغاوت کا اعتقاد ہے۔ اور اس کتاب میں اس گورنمنٹ سے جہاد و بغاوت کو ناجائز لکھا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ اس کتاب کے مؤلف کو منکرجہاد سمجھتے ہیں اور ازراہ تعصب و جہالت اس کے بغض و مخالفت کو اپنا مذہبی فرض خیال کرتے ہیں۔ مگر چونکہ وہ گورنمنٹ کے سیف و اقبال کے خوف سے علانیہ طور پر ان کو منکر جہاد نہیں کہہ سکتے اور سر عام مسلمانوں کے روبرو اس وجہ سے ان کو کافر بناسکتے ہیں لہٰذا وہ اس وجہ کفر کو دل میں رکھتے ہیں اور بجز خاص اشخاص (جن سے ہم کو یہ خبر پہنچی ہے)کسی پر ظاہر نہیں کرتے اور اس کا اظہار دوسرے لباس و پیرایہ میں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں فلاں فلاں امور کفریہ (دعویٰ نبوت اور نزول قرآن اور تعریف آیات قرآنیہ پائی جاتی ہیں)اس لیے اس کا مؤلف کافر ہے۔ موقع جلسہ دستار بندی مدرسہ دیوبند پر یہ حضرات بھی وہاں پہنچے۔ اور لمبے لمبے فتویٰ تکفیر مؤلف براہین احمدیہ کے لکھ کر لے گئے اور علماء دیوبند و کنگوہ وغیرہ سے ان پر دستخط و مواہیر ثبت کرنے کے خواستگار ہوئے۔ مگر چونکہ وہ کفر ان کا اپنا خانہ ساز کفر تھا جس کا کتاب براہین احمدیہ میں کچھ اثر پایا نہ جاتا تھا لہٰذا علماء دیوبند و کنگوہ نے ان فتوؤں پر مہر دستخط کرنے سے انکار کیا اور ان لوگوں کو تکفیر مؤلف سے روکا۔ اور کوئی ایک عالم بھی ان کا اس تکفیر میں موافق نہ ہوا۔ جس سے وہ بہت ناخوش ہوئے اور بلا ملاقات وہاں سے بھاگے۔اور کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ کے مصداق بنے۔ ناظرین ان کا یہ حال سن کر متعجب اور اس امر کے منتظر ہوں گے کہ ایسے دلیر اور شیر بہادر کون ہیں جو سب علماء وقت کے مخالف ہو کر ایسے جلیل القدر مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے (جس کے ظل حمایت میں باامن شعار مذہبی ادا کرتے ہیں)جہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان کے دفع تعجب اور رفع انتظار کے لیے ہم اُن حضرات کے نام بھی ظاہر کر دیتے ہیں۔ وہ مولوی عبدالعزیز و مولوی محمدؐ وغیرہ پسران مولوی عبد القادر ہیں جن سب کا ۱۸۵۷ء سے باغی و بدخواہ گورنمنٹ ہونا ہم اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد ۶ وغیرہ میں ظاہر و ثابت کر چکے ہیں اور اب بھی پبلک طور پر سرکاری کاغذات کی شہادت سے ثابت کرنے کو موجود و مستعد ہیں۔ اگر وہ یا کوئی ان کا ناواقف معتقد اس سے انکار کرے۔ دوسرا سبب یہ کہ انہوں نے باستعانت بعض معزز اہل اسلام لودہانہ (جن کی نیک نیتی اور خیر خواہی ملک و سلطنت میں کوئی شک نہیں)بمقابلہ مدرسہ صنعت کاری انجمن رفاہ عام لودہانہ ایک مدرسہ قائم کرنا چاہا تھا اور اس مدرسہ کے لیے لودہانہ میں چندہ جمع ہو رہا تھا کہ اُن ہی دنوں مؤلف براہین احمدیہ باستدعا اہل اسلام لودہانہ میں پہنچ گئے۔ اور وہاں کے مسلمان ان کے فیض زیارت اور شرف صحبت سے مشرف ہوئے۔ ان کی برکات و اثر صحبت کو دیکھ کر۔ اکثر چندہ والے اُن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اور اس چندہ کے بہت سے روپیہ طبع و اشاعت براہین احمدیہ کے لیے مؤلف کی خدمت میں پیشکش کیے گئے۔ اور مولوی صاحبان مذکور تہیدست ہو کر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس امر نے بھی ان حضرات کو بھڑکایا اور مؤلف کی تکفیر پر آمادہ کیا۔ جن کو ان باتوں کی صدق میں شک ہو وہ ہم کو اس امر سے مطلع کرے ہم لودہانہ سے عمدہ اور واضح طور پر ان باتوں کی تصدیق کرا دیں گے۔ وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْق۔ (اشاعۃ السنۃ جلد۷ نمبر۶ صفحہ ۱۷۰تا۱۷۲حاشیہ) دوسرے بیرونی مخالفین یہ مخالفین تو وہ نام نہادمسلمان تھے۔جو ’’علماءھم‘‘ تھے۔اور جو شَرمن تحت ادیم السماء کے مصداق بدترین مخلوق تھے۔ فتنے انہیں سے اٹھتے اور انہیں میں جاختم ہوتے۔ ان کے علاوہ کچھ دوسرے مخالفین بھی تھے جوبیرونی مخالف تھے۔ کیونکہ براہین احمدیہ کااصل نشانہ تو اسلام اور بانئ اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کے مخالفین ہی تھے۔اور براہین کاحربہ سیدھاانہیں کے دلوں میں جاپیوست ہواتھا۔ سواس سے زخمی ہوکرلڑکھڑاتے پیروں کے ساتھ ان مخالفین نے براہین احمدیہ کی مخالفت میں اور اس کے ردّمیں لکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے چاہے۔ براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت کے اعلان کے ساتھ ہی اس مخالفت کا اظہار اخبار سفیر ہند امرتسر نورافشاں لدھیانہ اور رسالہ ودیا پرکاشک امرتسر میں کیا گیا۔ نورافشاں اور سفیر ہند میں تو پادری صاحبان نے اور ودیا پرکاشک میں آریوں نے طوفان بے تمیزی برپا کیا۔ودیا پرکاشک کے ایڈیٹر باوا نرائن سنگھ صاحب وکیل امرتسر تھے۔ ودیا پرکاشک میں بڑے زور کے ساتھ براہین کی تردید اور جواب کے دعویٰ کیے گئے ایسا ہی سفیر ہند اور نورافشاں میں بھی ان لوگوں نے صرف تردید اور تکذیب کے اعلان ہی نہیں کیے بلکہ سبّ و شتم سے بھی کام لیا جس کا شکوہ حضرت مسیح موعود ؑکو کرنا پڑا۔چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’کئی ایک پادری صاحبوں اور ہندو صاحبوں نے جوش میں آکر اخبار سفیر ہند اور نورافشاں اور رسالہ ودیا پرکاشک میں ہمارے نام طرح طرح کے اعلان چھپوائے ہیں۔جن میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ضرورہم ردّاس کتاب کی لکھیں گے۔اور بعض صاحب ڈوموں کی طرح ایسے ایسے صریح ہجو آمیز الفاظ استعمال میں لائے ہیں کہ جن سے ان کی طینت کی پاکی خوب ظاہر ہوتی ہے گویا وہ اپنی اوباشانہ تقریروں سے ہمیں ڈراتے اور دھمکاتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں ہم تو ان کی تہہ سے واقف ہیں اور ان کے جھوٹے اور ذلیل اور پست خیال ہم پر پوشیدہ نہیں۔سو اُن سے ہم کیاڈریں گے اور وہ کیا ڈراویں گے۔ کرمک پروانہ راچوں موت می آید فراز می فتد بر شمع سوزاں ازرہِ شوخی و ناز بہرحال ہم ان کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ ذرا صبر کریں اور جب کوئی حصہ کتاب کی فصلوں میں سے چھپ چکتا ہے تب جتنا چاہیں زور لگالیں۔ ایک عام مقولہ مشہور ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں۔ سو ہم سچ پر ہیں۔ ہمارے سامنے کسی پادری یا پنڈت کی کیا پیش جاسکتی ہے اور کسی کی نری زبان کی فضول گوئی سے ہمارا کیا بگڑ سکتا ہے۔ بلکہ ایسی باتوں سے خود پادریوں اور پنڈتوں کی دیانتداری کھلتی جاتی ہے کیونکہ جس کتاب کو ابھی نہ دیکھا اور نہ بھالا نہ اس کی براہین سے کچھ اطلاع نہ اس کے پایۂ تحقیقات سے کچھ خبر اس کی نسبت جھٹ پٹ مونہہ کھول کر ردّ نویسی کا دعویٰ کردینا کیا یہی ان لوگوں کی ایمانداری اور راستبازی ہے؟ اے حضرات! جب آپ لوگوں نے ابھی میری دلائل کو ہی نہیں دیکھا تو پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ ان تمام دلائل کا جواب لکھ سکیں گے؟ جب تک کسی کی کوئی حجت نکالی ہوئی یا کوئی برہان قائم کی ہوئی یا کوئی دلیل لکھی ہوئی معلوم نہ ہو اور پھر اس کو جانچا نہ جائے کہ یقینی ہے یا ظنی اور مقدمات صحیحہ پر مبنی ہے یا مغالطات پر تب تک اس کی نسبت کوئی مخالفانہ رائے ظاہر کرنا اور خواہ نخواہ اس کے ردّ لکھنے کے لیے دم زنی کرنا اگر تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟ اور جب آپ لوگوں نے قبل از دریافت اصل حقیقت رد لکھنے کی پہلے ہی ٹھہرالی تو پھر کب نفسِ امّارہ آپ کا اس بات سے باز آنے کا ہے جو بات بات میں فریب اور تدلیس اور خیانت اور بددیانتی کو کام میں لایا جائے تا کسی طرح یہ فخر حاصل کریں کہ ہم نے جواب لکھ دیا۔ اگر آپ لوگوں کی نیت میں کچھ خلوص اور دل میں کچھ انصاف ہوتا تو آپ لوگ یوں اعلان دیتے کہ اگر دلائل کتاب کی واقع میں صحیح اور سچی ہوں گی تو ہم بسروچشم ان کو قبول کریں گے ورنہ اظہار حق کی غرض سے ان کی رد لکھیں گے۔ اگر آپ ایسا کرتے تو بے شک منصفوں کے نزدیک منصف ٹھہرتے اور صاف باطن کہلاتے۔ لیکن خدا نہ کرے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں انصاف ہو جو خدا کے ساتھ بھی بے انصافی کرتے ہوئے نہیں ڈرتے اور بعض نے اس کو خالق ہونے سے ہی جواب دے رکھا ہے اور بعض ایک کے تین بنائے بیٹھے ہیں اور کسی نے اس کو ناصرہ میں لا ڈالا ہے اور کوئی اُس کو اجودھیا کی طرف کھینچ لایا ہے۔ اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتار دھاریں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لیے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہہ باطلہ۔ اور جب تک اس کتاب کا جواب نہ دیں تب تک بازاروں میں عوام کالانعام کے سامنے اسلام کی تکذیب کرنا یا ہنود کے مندروں میں بیٹھ کر ایک وید کو ایشرکرت اور ست ودیا اور باقی سارے پیغمبروں کو مفتری بیان کرنا صفت حیا اور شرم سے دور سمجھیں۔ یارو خودی سے باز بھی آؤ گے یا نہیں؟ خُو اپنی پاک صاف بناؤگے یا نہیں؟ باطل سے میل دل کی ہٹاؤگے یا نہیں؟ حق کی طرف رجوع بھی لاؤگے یا نہیں؟ کب تک رہو گے ضد و تعصب میں ڈوبتے؟ آخر قدم بصدق اٹھاؤ گے یا نہیں؟ کیونکر کرو گے ردّ جو محقق ہے ایک بات؟ کچھ ہوش کرکے عذر سناؤگے یا نہیں؟ سچ سچ کہو اگر نہ بنا تم سے کچھ جواب پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھاؤگے یا نہیں؟ (براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۵۵تا۵۷) غرض ایک طوفان بے تمیزی بلند ہوا۔آپ علیہ السلام نے اس کی پروا نہ کی اور کتاب کی مجلدات وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں ان بیرونی مخالفین میں سے پادری بی ایل ٹھاکرداس اور برہمو میں سے پنڈت سیتا نند اگنی ہوتری نے براہین پر ریویونگاری کے رنگ میں اعتراضات کیے اور آریوں میں سے مقتول لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی لیکن ان میں سے کسی کو یہ جرأت اور حوصلہ نہ ہوا کہ وہ میدان مقابلہ میں آکر براہین کے اعلان کے موافق فیصلہ کرتے۔(جاری ہے) مزید پڑھیں: آنحضرت ﷺکااپنے معاندین کے ساتھ عفو کا سلوک