فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقۡوٰٮہَا (الشمس:۹)یعنی بُری باتیں اور نیک باتیں جو انسانوں کے دلوں میں پڑتی ہیں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہی الہام ہوتی ہیں اچھا آدمی اپنی اچھی طبیعت کی وجہ سے اس لائق ہوتا ہے کہ اچھی باتیں اس کے دل میں پڑیں اور بُرا آدمی اپنی بُری طبیعت کی وجہ سے اس لائق ٹھہرتا ہے کہ بُرے خیالات اور بداندیشی کی تجویزیں اُس کے دل میں پیدا ہوتی رہیں اور در حقیقت نیک انسان اس قسم کے الہامات کے حاصل کرنے کے لئے فطرتاً ایک نیک ملکہ اپنے اندر رکھتا ہے اور بُرا انسان فطرتاً ایک بُرا ملکہ رکھتا ہے چنانچہ اسی ملکہ فطرتی کی وجہ سے بہت سے لوگ اچھی اور بُری تالیفیں اور پاک اور نا پاک ملفوظات اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں۔ (برکات الدعا، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۲۰، حاشیہ) وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا (ھود:۷) لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ (طٰہ:۹) یَسۡـَٔلُہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ (الرحمٰن:۳۰) وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮہَا (الشمس:۸) قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا (الشمس:۱۰) یعنی زمین پر کوئی بھی ایسا چلنے والا نہیں جس کے رزق کا خدا آپ متکفل نہ ہو وہی ایک سب کا رب ہے اور اُس سے مانگنے والے تمام زمین و آسمان کے باشندے ہیں ۔ جان کی قسم ہے اور اُس ذات کی جس نے جان کو اپنی عبادت کے لئے ٹھیک ٹھیک بنایا کہ وہ شخص نجات پا گیا جس نے اپنی جان کو غیر کے خیال سے پاک کیا۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ جس نے اُس محبوب کو اپنے اندر آباد کیا …حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تو اندر میں خود آباد ہے صرف انسان کی طرف سے بوجہ التفات الى الغیر دوری ہے پس جس وقت غیر کی طرف سے التفات کو ہٹالیا تو خود اپنے اندر نور الٰہی کو مشاہدہ کرلے گا خدا دور نہیں ہے کہ کوئی اُس طرف جاوے یا وہ اس طرف آوے بلکہ انسان اپنے حجاب سے آپ ہی اُس سے دور ہے پس خدا فرماتا ہے کہ جس نے آئینہ دل کو صاف کر لیا وہ دیکھ لے گا کہ خدا اُس کے پاس ہی ہے۔ (ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۳) مزید پڑھیں: عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں