https://youtu.be/M2ZEbCLy5SE?si=spwkkx1ZiXD9E3fr&t=444 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک بچوں کو یُوں مارنا شرک میں داخل ہے۔ گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربُوبیّت میں اپنے تئیں حصّہ دار بنانا چاہتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ308 ایڈیشن 1984ء) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت [اقدس مسیح موعودعلیہ السلام]کا حوصلہ اور حلم یہ ہے کہ میں نے سینکڑوں مرتبہ دیکھا ہے آپؑ اوپر دالان میں تنہا بیٹھے لکھ رہے ہیں یا فکر کر رہے ہیں اور آپ کی قدیمی عادت ہے کہ دروازے بند کر کے بیٹھا کرتے ہیں، ایک لڑکے نے زور سے دستک بھی دی اور منہ سے بھی کہا ہے ابا بوا کھول۔ آپ وہیں اٹھے ہیں اور دروازہ کھولا ہے کم عقل بچہ اندر گھسا ہے اور ادھر ادھر جھانک تانک کر الٹے پاؤں نکل گیا ہے۔ حضرت نے پھر معمولاً دروازہ بند کر لیا ہے۔ دوہی منٹ گذرے ہوں گے جو پھر موجود اور زور زور سے دھکے دے رہے ہیں اور چلا رہے ہیں ابا بوا کھول۔ آپؑ پھر بڑے اطمینان سے اور جمعیت سے اٹھے ہیں اور دروازہ کھول دیا ہے بچہ اب کی دفعہ بھی اندر نہیں گھستا ذرا سر ہی اندر کر کے اور کچھ منہ میں بڑ بڑا کے پھر الٹا بھاگ جاتا ہے۔ حضرت بڑے ہشاش بشاش بڑے استقلال سے دروازہ بند کر کے اپنے نازک اور ضروری کام پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی پانچ ہی منٹ گذرے ہیں تو پھر موجود۔ اور پھر وہی گرما گرمی اور شورا شوری کہ ابا بوا کھول اور آپ اٹھ کر اسی وقار اور سکون سے دروازہ کھول دیتے ہیں اور منہ سے ایک حرف تک نہیں نکالتے کہ تو کیوں آتا اور کیا چاہتا ہے اور آخر تیرا مطلب کیا ہے جو بار بار ستاتا اور کام میں حرج ڈالتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ گنا کوئی بیس دفعہ ایسا کیا اور ان ساری دفعات میں ایک دفعہ بھی حضرت کے منہ سے زجر اور توبیخ کا کلمہ نہیں نکلا۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ صفحہ 35)