(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۲۶ء) ۱۹۲۶ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے دعا کی اہمیت اور اس کی اغراض کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) ہر دعا کا قبول ہونا ضروری نہیں کیونکہ اصل غرض ہماری پیدائش کی یہ نہیں کہ ہمیں مکان مل جائے یا زمین مل جائے یا گھوڑا مل جائے بلکہ اصل غرض تو یہ ہے کہ ہمارے نفس پاک ہوں۔ یہ چیزیں تو عارضی ہیں اور اصل غرض کو پورا کرنے کے لئے یعنی نفس کے تزکیہ کے لئے مصائب و مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ بعض وقت نفس مصائب اور مشکلات کے ذریعہ سے ہی پاک ہو تا ہے تشہد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مذہب کی جان اور خلاصہ اور اس کی روح اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف دعا ہے۔ ہر ایک مذہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کبھی کسی زمانہ میں قائم ہوا اور ہر ایک وحی جو کسی زمانہ میں کسی گوشہ میں نازل ہوئی اُس میں دعا کی تعلیم دی گئی ہے اور خصوصیت سے اس پر زور دیا گیا ہے۔ اس زمانہ میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی گفتگو کو، آپ کی تقریروں کو، آپ کی تحریروں کو غرض آپ کے جس کام کو بھی ہم دیکھیں تو آپ مجسم دعا نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریریں دعا ہیں۔ ان کا عمل دعا ہے۔ ان کا ہر ایک کام دعا ہے۔ اگر کوئی چیز ایسی دنیا میں ہے جو یقینی علاج ہے روحانی امراض کا اور تمام مشکلات کا تو وہ دعا ہے۔ پس اگر کسی مذہب اور کسی تعلیم سے دعا کو نکال ڈالیں تو وہ مُردہ چیز ہے۔ کیونکہ زندگی تو زندہ شخص کے آثار سے اور اس کے کاموں سے نظر آتی ہے۔ کسی چیز میں محض خوبصورتی کا پایا جانا زندگی پر دلالت نہیں کرتا۔ زندگی تو کاموں سے نظر آتی ہے۔ اور کوئی کام ایک زندہ چیز ہی دے سکتی ہے مُردہ چیز تو خواہ کس قدر خوبصورت ہو کوئی کام نہیں دے سکتی۔ ایک مُردہ ہمیں کیا کام دے سکتا ہے۔ اس کی خوبصورتی ہمارے لئے مفید نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر کوئی تعلیم خوبصورت بھی ہو لیکن اس میں دعا کی تعلیم نہ ہو تو وہ مُردہ ہے۔ کیونکہ اس میں زندگی کے آثار نہیں۔ اس میں وہ چیز نہیں کہ جس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں۔ اور وہ صرف دعا ہے کہ جس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ کے افعال ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک شخص خواہ کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا لیکچر دے لیکن اگر اس کے ساتھ اس کی دعا کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ساتھ نہیں تو وہ لیکچر کیا اثر رکھتا ہے۔ تو دعا کو نکال کر مذہب کا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ اب دیکھو!دنیا میں پہاڑ خوبصورت نظر آتے ہیں۔ دریاؤں کا نظارہ خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ سبزہ زاروں کا منظر بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ان میں انسان اپنی زندگی نہیں گزار سکتا۔ تھوڑی دیر کے لیے تفریح کے طورپر دریاؤں اور پہاڑوں کے بے نقص نظاروں اور سبزہ زاروں کو پسند کرے گا اور اپنا دل بہلا لے گا۔ لیکن ان میں زندگی نہیں گزار سکتا۔ زندگی گزارنے کے لیے پھر انہیں لوگوں میں جائے گا جو زندہ ہیں۔ وہ ان بےنقص اور بے عیب نظاروں کو چھوڑ کر عیب دار مگر زندہ انسانوں کے پاس ہی رہنا اور زندگی گزارنا پسند کرے گا کیونکہ ان انسانوں میں روح ہے،زندگی ہے، مگر دوسرے نظاروں میں زندگی نہیں۔ گووہ بے نقص ہیں۔ اور وہ چیز جو جاندار ہے خواہ وہ عیبوں اور نقائص سے ہی بھری ہوئی ہو بے جان چیز پر فضیلت رکھتی ہے۔ جب عیب دار جاندار کو ہم بے نقص غیر جاندار پر فضیلت دیتے ہیں تو ذی روح چیز جو خوبصورت اور بے نقص بھی ہے اُس کو ہم غیرذی روح چیز پر کیسے فضیلت دے سکتے ہیں۔ پس جب تک کہ کسی تعلیم میں اﷲ تعالیٰ کا فضل اور اس کا رحم زندہ طور پر ہمارے شاملِ حال نہ ہو اُس وقت تک وہ تعلیم زندہ نہیں کہلا سکتی۔وہ مذہب کہ جس میں دعا کی تعلیم نہیں وہ مُردہ مذہب ہے۔ زندہ مذہب وہی ہے کہ جس میں سب سے زیادہ زور دعا پر ہو۔ اور جو لوگ دعا سے کام نہیں لیتے ان کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی قبرستان میں بیٹھ جائے۔ کون ایسا شخص ہے جو زندوں کو چھوڑ کرمُردوں میں چلا جائے۔ کیونکہ مُردہ عمل کے زمانہ سے گزر گیا ہے اور اس کی روح قبرستان میں نہیں۔ وہ تو خدا کے پاس ہے۔ البتہ جسم قبرستان میں ہے۔ اور وہ بغیر روح کے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ جس چیز کی محبت کا ہمارے ساتھ تعلق ہے وہ تو زندہ چیز ہونی چاہئے اور مذہب میں سے زندہ چیز دعا ہے۔ انسان جب دعا کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں۔ اُس کی نہاں در نہاں ہستی کو اپنے قریب پاتا ہے۔ اور جب اُس کی طاقتیں ظاہر ہوتی ہیں، اس کا جلوہ نظر آتا ہے تو اُس وقت پتے پتے میں زندگی نظر آتی ہے۔ اور جب اﷲ تعالیٰ بندے کی دعا سنتا ہے تو اُس وقت انسان کومُردہ چیز میں بھی زندگی نظر آنے لگتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے تو راستہ میں ایک مُردہ کُتا پایاگیا۔ ان کے دوسرے ساتھیوں نے تو اس کی بدبو وغیرہ کا ذکر کیا لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تم اس کی بُری شکل کو تو دیکھتے ہو لیکن اس کے دانتوں کو نہیں دیکھتے کیسے سفید ہیں۔ تو جو لوگ دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں اُن کو عیب نہیں نظر آیا کرتے بلکہ اُن کی نظر خوبیوں پر ہی پڑتی ہے۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور جو لوگ خدا کو دیکھ لیتے ہیں وہ خود زندہ ہوتے ہیں۔ ان کو اس کی مخلوق میں عیب کم نظر آتے ہیں اور جتنے جتنے عیب کسی میں نظر آتے ہیں اتنے حصہ میں وہ خود مُردہ ہوتے ہیں۔ نبیوں کو ہی دیکھ لو وہ مجسم خوبی ہوتے ہیں۔ اس لئے اُن کو لوگوں میں عیب نہیں نظر آتے۔ وہ ہر چیز میں خوبی دیکھتے ہیں۔ اِس کی یہی وجہ ہے کہ وہ خو دکامل زندہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے مقابل عیب دار لوگوں کو اُن میں خوبیاں نظر نہیں آتیں بلکہ نقص ہی نقص نظر آتے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ خود مُردہ ہوتے ہیں۔ پس جس کو جتنے عیب کسی کے نظر آتے ہیں اُس کو سمجھنا چاہئے کہ اُتنا ہی وہ مُردہ ہے۔ میں نے حضرت مسیح موعود ؑسے خود سنا آپ فرماتے تھے کہ اگر غور کرکے دیکھا جائے تو کافر بھی رحمت ہوتے ہیں۔ اگر ابو جہل نہ ہوتا تو اتنا قرآن کہاں اترتا۔ اگر سارے حضرت ابو بکرؓ ہی ہوتے تو صرف لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہی نازل ہوتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں اُن کو ہر چیز میں بھلائی نظر آتی ہے۔ ایک دفعہ لاہور میں ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زور سے دھکّادے کرگرا دیا۔ دوسرے دوست ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اس نے مجھے جھوٹا سمجھ کر دھکا دیا ہے۔ اگر وہ سچا سمجھتا تو کیوں ایسا کرتا۔ اس نے تو اپنے خیال میں نیک کام کیا ہے اور حق کی حمایت کی ہے۔ اب دوسرا اگر ہوتا تو ڈنڈا لے کر پیچھے پڑ جاتا۔ لیکن آپ ہیں کہ ایک مخالف کی ایسی حرکت کو بھی بر انہیں مانتے بلکہ دوسروں کو فرماتے ہیں کہ اس نے تو نیک خیال سے حق کی خاطر ایسا کیا ہے۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ جو لوگ دعاؤں کے عادی ہوتے ہیں اور دعاؤں کے نتیجہ میں ان کو ہر چیز میں زندگی نظر آتی ہے۔ تو اُن کو عیب نہیں نظر آتے بلکہ نیکیاں اور خوبیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اسی وجہ سے بعض وقت ایسے لوگوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ بیوقوفی کی وجہ سے لوگوں سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کی وجہ بے وقوفی نہیں ہوتی بلکہ یہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کو زیادہ تر خوبیاں دکھائی دیتی ہیں۔ چنانچہ ایک قصہ مشہور ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو بعض جگہ جلوہ الٰہی نظرآجاتا تھا اس لئے ایک دفعہ آپ نے رستہ میں جاتے ہوئے ایک خوبصورت لڑکے کو چُوم لیا۔ اس وجہ سے کہ اُس میں آ پ کو اﷲ تعالیٰ کا جلوہ نظر آیا۔ دوسرے مریدوں نے بھی اس کو چُوم لیا۔ لیکن آپ کے ایک مرید نے جو بعد میں آپ کا خلیفہ ہوا نہ چُوما تو دوسرے مرید اُسے کہنے لگے کہ تم نے کیوں نہیں اسے چُوما جب کہ اس کو پیر صاحب نے چوم لیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم مرید نہیں ہو۔ تو انہوں نے کہا کہ تم کو اس میں خدا کا جلو ہ نظر آیا ہو گا اس لئے تم نے چُوم لیا مجھے نہیں نظر آیا تو میں کیونکر چُومتا۔ آگے جا کر حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اﷲ علیہ نے آگ کو چُوم لیا تو وہاں دوسرے مرید پیچھے ہٹ گئے لیکن اس مرید نے آگے بڑھ کر اسے چُوما۔ اس نے کہا اب یہاں تمہیں کیوں نہیں جلوہ نظر آتا؟ اصل بات یہ ہے کہ جیسے جیسے انسان خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے اُتنا ہی اُسے ہر چیز میں اﷲ تعالیٰ کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اور یہ بات دعا سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ (البقرۃ:۱۸۷)کہ دعا کرنے والے کے میں قریب ہو جاتا ہوں۔ پس اگر کوئی بات ہے کہ جس سے انسان اﷲ تعالیٰ کے قریب ہو جاتاہے تو وہ صرف دعا ہے۔ ہاں بعض لوگ نادانی سے اس کا غلط استعمال کر لیتے ہیں۔ بیشک ہر بات اﷲ تعالیٰ ہی پوری کرتا ہے اور دعاؤں کو وہی سنتا ہے۔ لیکن جو قانون اس نے باندھے ہوئے ہیں انہیں وہ یونہی نہیں توڑتا۔ مثلاً اس نے پیاس بجھانے کے لئے پانی دیا ہوا ہے تو اس کے محض دعا کرنے سے خود بخود ہی اس کے منہ میں نہیں آجائے گا اس کے حاصل کرنے کے لئے اس کو صحیح کوشش بھی کرنی پڑے گی۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہی دعا بتلائی ہے اور اﷲ تعالیٰ ہی نے کنویں بھی بنائے ہیں۔ تو ہمیں دعا کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے قانون بھی بنائے ہوئے ہیں جن کے ماتحت ہمیں دعا کرنی چاہئے۔ اب مثلاً کوئی کہے کہ مانگو جو مجھ سے مانگنا چاہتے ہو تو اس کا یہی مطلب ہو گا کہ اس کے قانون کے ماتحت مانگو نہ کہ اس کے قانون کو توڑتے ہوئے مانگو۔ اور اﷲتعالیٰ کے قوانین تو وہ ہیں جو ہماری پیدائش سے بلکہ ہمارے آباؤ اجداد کی پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں۔ دوسری بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہر دعا کا قبول ہونا ضروری نہیں کیونکہ اصل غرض ہماری پیدائش کی یہ نہیں کہ ہمیں مکان مل جائے یا زمین مل جائے یا گھوڑا مل جائے بلکہ اصل غرض تو یہ ہے کہ ہمارے نفس پاک ہوں۔ یہ چیزیں تو عارضی ہیں اور اصل غرض کو پورا کرنے کے لئے یعنی نفس کے تزکیہ کے لئے مصائب و مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ بعض وقت نفس مصائب اور مشکلات کے ذریعہ سے ہی پاک ہو تا ہے۔ مثلاً کہیں مال کا نقصان ہو جاتا ہے۔ کبھی عزت کا نقصان ہو تا ہے۔ کبھی اولاد مر جاتی ہے۔ اب ہر شخص بیٹے کے لئے دعا مانگتا ہے کہ زندہ رہے۔ اگر ہر شخص کی دعا اﷲ تعالیٰ اسی طرح قبول کرے کہ اس کا بیٹا ہمیشہ زندہ رہے تو اس طرح تو کسی کا بیٹا بھی کبھی بھی نہیں مرے گا۔ اور دنیا سے اس کا قانون جو موت مقرر ہے اٹھ جائے گا۔ تو ایک تو اس کا قانون ٹوٹتا ہے۔ دوسرے انسان کے نفس کا تزکیہ نہیں ہوتا۔ تو مشکلات بھی کئی حکمتوں کے ماتحت آتی ہیں۔ جب کوئی مصیبت اس کی غفلت کی وجہ سے آتی ہے تو اس کو اﷲ تعالیٰ اس کی دعا سے ٹلا دیتا ہے۔ لیکن وہ مصیبت جو خدا کی طرف سے اس کی حکمت کے ماتحت آتی ہے اُس کو اﷲ تعالیٰ نہیں ٹلایا کرتا۔ اور اگر ٹلاتا ہے تو اُس وقت جب کے ٹلانے کا موقع آتا ہے یا اس کا ٹلانا اس کے تقویٰ کے لئے زیادہ مفید ہو۔ دو صورتوں میں ابتلا آیا کرتے ہیں۔ یا تو دل کا گند ظاہر کرنے کے لئے اور اس کی پاکیزگی کے لئے۔ یا اس کی پاکیزگی کو ظاہر کرنے اور اس کے لئے اپنی غیر ت کا اظہار کرنے کے لئے۔ اور یہ صورت خاص لوگوں کے لئے ہے۔ مصیبت کے آنے کی ان دو اغراض میں سے ایک غرض ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ مصیبت میں جب انسان گِھر جاتا ہے تو اُس کو پتا لگ جاتا ہے کہ میرے اندر کس قدر کمزوری ہے یا کیا عیب ہے اور یا اسے اَور بھی نیکی اور تقویٰ میں ترقی ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکتا ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر دعا کا قبول ہونا ضروری نہیں اور نہ قبول ہو سکتی ہے۔ اب مثلاً دو شخص مقدمہ لڑ رہے ہیں اور بسا اوقات دونوں فریق اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں۔ وہ دونوں ہی دعا کریں کہ اُسے کامیابی حاصل ہو تو اب بتاؤ اﷲ تعالیٰ کس کی سنے گا ؟ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دونوں سچے ہوں ایک بہرحال حق پر ہو گا ایک ناحق پر۔ اب اﷲ تعالیٰ تو اس کی دعا سنے گا جس کاحق زیادہ ہے اور دوسرے کی دعا کا قبول نہ کرنا ہی اس کے حق میں اچھا ہے۔ پھر دعا کے بغیر روحانیت بھی حاصل نہیں ہو سکتی اورنہ مذہب کی غرض پوری ہو سکتی ہے۔ دعا سوال بھی ہے اور عبادت بھی۔ اگر قبول ہو جائے تو دعا ہے اگر قبول نہ ہو تو عبادت میں شمار ہو گی۔ اور چونکہ ہم ہر چیز کے محتا ج ہیں اس لئے دعا کا قبول ہونا بھی چاہتے ہیں۔ لیکن حق یہی ہے کہ دعا قبول نہ ہونے والی قبول ہونے والی کی نسبت بہتر ہے۔ کیونکہ وہ عبادت میں شمار ہوگی اور خدا کی رضا کی موجب ہوگی جو ہماری پیدائش کی اصل غرض ہے۔ اور عبادت بہرحال ہماری مسئول چیزوں سے بہتر ہے۔ سوائے اُس دعا کے جو اﷲ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کے لئے ہو۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگا کریں۔ دعا تو وہ چیز ہے کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے مومن اور کافر میں بھی تمیز نہیں رکھی۔ جس طرح اس کا رزق سب کے لئے ہے اسی طرح اس کے حضور دعا بھی سب کے لئے ہے۔ ہاں مومن کی دعا وہ زیادہ سنتا ہے۔ جس طرح مومن اگر چاہے اور کوشش کرے تو دنیاوی عزت بھی مومن کو ہی زیادہ ملتی ہے جیسے صحابہؓ کو اﷲ تعالیٰ نے دنیوی عزت بھی عطا کی۔ (الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۲۶ء) مزید پڑھیں: مجلس شوریٰ کے انعقاد کی غرض و غایت