https://youtu.be/tHZZvgF9JGQ میری دل و جان سے پیاری امّی جان میری امّی جان محترمہ امۃالباسط شاہدہ صاحبہ، محترم مولانا عبدالمنان شاہد صاحب مرحوم مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کراچی کی سب سےبڑی بیٹی تھیں۔ امّی جان حضرت میاں خیرالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پو تی تھیں جو قادر آباد متصل قادیان کے صدر جماعت تھے۔ امّی جان کے دادا جان نے ۱۹۰۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ اُن کے خاندان کے بزرگ میاں جیوا سنگھ صاحب نے جو اس وقت کے بڑے حاکم تھے ۱۸۹۴ءمیں سورج اور چاند گرہن ہوا تو اپنی اولاد سے کہا کہ آنے والے اوتار کی نشانی پوری ہو گئی اس لیے تم سب مرزا جی کو مان لو۔ اس طرح ساری اولاد احمدی ہوئی۔ امّی جان کی دادی جان کا نام حضرت سلطان بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاصحابیہ حضرت مسیح موعودؑ ہے۔ حضرت سلطان بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت اماّں جان رضی اللہ عنہا کی قریبی سہیلی تھیں۔ آپ ان کو پیار سے’’سلطانی ‘‘ کہتی تھیں۔ آپ نہایت پیار سے حضرت مسیح موعودؑ کے لیے اپنےہاتھو ں سے روٹیاں بنا کرلے جایا کرتی تھیں۔ ابتدائی لجنہ کا گروپ جو کہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ہوا کرتا تھا، سلطان بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کی ممبر تھیں۔ میری امی جان کی والدہ کا نام مکرمہ زہرا بیگم صاحبہ ہے۔ امی جان حضرت چودھری نظام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی نواسی ہیں۔ یہ خواب کے ذریعے احمدی ہوئے اور ان کی وفات تقریباً ۱۰۹؍سال کی عمر میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک ان کی عمر ۱۲۰؍سال تھی۔ امّی جان کے تایا جان میاں صدرالدین صاحب مرحوم مبلغ ایران تھے۔ امّی جان کے تین بھائی اوردو بہنیں ہیں۔ مکرم عبدالشکور شاہدصاحب، مکرم عبدالحلیم شاہدصاحب،مکرم عبدالباقی شاہد صاحب، محترمہ امۃالنصیر صاحبہ اورمحترمہ قمرالنساء صاحبہ۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین امی جان کے تین بھانجےمکرم عزیز احمد، مکرم کامران لطیف، مکرم منصور احمد اور عبدالحلیم شاہد صاحب کے بیٹےعبدالباسط شاہد سلسلہ کی خدمت کررہے ہیں۔ ازدواجی خاندان: میری امی جان امۃالباسط شاہدہ صاحبہ زوجہ مکرم مبشر احمد بٹ صاحب ہیں۔ میرے ابّو جان حضرت مولوی جان محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح مو عودؑ کے پوتے ہیں۔ ابّو جان کے والد صاحب خواجہ عبدالرحیم بٹ صاحب مرحوم ہیں۔حضرت مولوی جان محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے براہینِ احمدیہ کا مطالعہ کیا اور حضرت مسیح موعودؑ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ اُس وقت آپ نے بیعت نہیں کی تھی۔پھر خواب میں آپ کو متواتر بیعت کی تاکید کی گئی چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں : ’’زندگی کا کیا اعتبار ہے پھر دل میں آیا کہ استخارہ کر لینا چاہیے حضرت مسیح موعودؑ کا فرمان ہے کہ ہر ایک کام میں استخارہ کرلینا چاہیے۔ سجدے میں ربّ العالمین کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کرنی شروع کیں ‘‘الٰہی تُو ہادی ہے اگر یہ سلسلہ تیری ہی طرف سے ہے تُو مجھے ہدایت دے اور میری رہنمائی کر‘‘۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ چند روز بعد میرے مرشد پیر حسنین شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ الو مہاروی نقش بندی مجددی آپ کا وصال ہوچکا تھا خواب میں نہایت محبت سے جیسا کہ اپنی حیاتی میں پیش آیا کرتے تھے ملے فرمایا: ’’آج ان کا راج ہے فوراً بیعت کرلے‘‘ پھر چند روز کے بعد ایک نورانی بزرگ بمع حضرت شاہ صاحب ایک جگہ تشریف فرما دیکھے ان بزرگ نے حضرت شاہ صاحب کو میری طرف اشارہ کر کے فرمایا آپ نے اس شخص کو بیعت کے لیے نہیں کہا؟ شاہ صاحب نے جواباً عرض کیا میں نے اس کوتاکیداًکہہ دیا ہے مگر معلوم نہیں کہ یہ کیا سوچ رہا ہے؟ پھر میری آنکھ کھل گئی اس کے بعد پھر چند روز کے بعد تیسرے بزرگ جن کے نورانی چہرے کی میں تاب نہ لاسکا بمع پہلے دو بزرگوں کے رؤیا میں دیکھے اور تیسرے بزرگ نے نہایت رعب دار آواز سے فرمایا جلدی بیعت کرلے ورنہ پچھتائے گا آپ نے ایسے زور سے فرمایا کہ میں کانپ کر اُٹھ بیٹھا میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ آپ کیوں کانپ اٹھے ہیں؟ میں نے حقیقت ان سے بیان کی تو میری بیوی نے کہا جب آپ کو بار بار بیعت کی تاکید ہوتی ہے تو پھر آپ کیوں بیعت نہیں کرلیتے؟ چنانچہ آپ نے پھر بیعت کے لیے قادیان کا سفر کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ مبارک پر شرفِ بیعت فرمایا۔‘‘ (احقرالعباد جان محمد ڈسکوی، مہاجر محلہ دارالبرکات، دارالامان قادیان بقلم خود، (۶/۴/۳۸)) اس طرح میرے ابو جان مکرم مبشر احمد بٹ صاحب کے خاندان میں احمدیت آئی۔ حضرت مولوی جان محمدرضی اللہ عنہ کے بیٹے خواجہ عبدالرحیم بٹ صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی دعا سے پیدا ہوئے۔ حضرت مولوی جان محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک بیٹے طبیعت خرابی کی بِنا پر وفات پاگئے۔آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کو دعا کی درخواست کی۔حضورؑ نے اپنی زبانِ مبارک سے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل دے گا‘‘ اور لڑکے کی رحم دلی کی صفتیں بھی بیان فرمائیں۔ پھر آپ نے رؤیا دیکھی کہ’’بڑی مسجد کا وسیع احاطہ ہے جو ابھی نامکمل ہے میں اس کے صحن میں چٹائی پر بیٹھا ہوں میں نے نظر اٹھا کر دیکھا چند قدم کے فاصلے پر ایک روئی کا گالا ہے پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ ہندوؤں کا ایک بڑا سفید سنکھ دکھائی دیا ۔پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ مجھے ایک خوبصورت بچہ دکھائی دیا پھر وہ میری طرف آنے لگا چنانچہ میرے ہاں جیسا خدا تعالیٰ نے مجھے شکل و صورت کا بچہ دکھایا تھا ویسا ہی عطا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام عبدالرحیم رکھا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر ۷صفحہ ۳۳ تا ۴۲) ابّو جان مکرم عبیداللہ علیم صاحب شاعرِ احمدیت کے چچازاد اور مکرم جمیل احمد بٹ صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ میری امی جان امۃالباسط شاہدہ صاحبہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۵۷ء کو پیدا ہوئیں اور ۵؍اپریل ۲۰۲۵ء بروز ہفتہ وفات پاگئیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون بلانے والا ہے سب سے پیارااسی پہ اے دل تو جاں فدا کر امّی جان کی خوبیاں میں اِس چھوٹے سے مضمون میں بالکل بھی قلم بند نہیں کر سکتی لیکن امّی جان کی چند اعلیٰ صفات بیان کرنا چاہوں گی۔ امّی جان متقی، اللہ تعا لیٰ سے انتہا ئی محبت کرنے والی، اللہ تعا لیٰ کا ہمیشہ شکر بجا لانے والی، عاشقِ رسولﷺ، آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سچا عشق تھا، پانچ وقت کی نماز کی پابند اور قرآن مجید پڑھنے کی پابند تھیں۔ با قاعدگی سے نماز تسبیح اوراشراق کی نماز پڑھتیں،روزے رکھتیں،بہت نیک، صالح، انتہائی فراست رکھنے والی،معاملہ فہم،تہجد گزار، صاحبِ کشف، ہمیشہ سچ بولتیں، ایما ندار، وقت پر چندہ دینے والی، خوش اخلاق، مہمان نواز، ملنسار، دشمنوں سے حسنِ سلوک کرنے والی، پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کرنے والی، سعادت مند، اطا عت شعار، پردہ داراور صابرو شاکر تھیں۔اپنے خاوند کے ہر عسر و یسر میں ان کا ساتھ دیا۔ امّی جان کا نام: میری امّی جان کا نام حضرت خلیفۃالمسیح الثانی المصلح موعودؓ نے رکھا تھا۔جس پر امّی جان کو خاص فخر تھا۔ امّی بتاتی تھیں کہ’’ایک دفعہ ان کی دادی جان حضرت سلطان بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے ساتھ اپنی پوتیوں کو یعنی میری امّی جان امۃالباسط شاہدہ صاحبہ اور میری خالہ امۃالنصیر صاحبہ کو لے کر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے پاس گئیں حضرت مصلح موعودؓ نے شفقت سے سَروں پر ہاتھ پھیرا اور نام پوچھے۔ دادی جان نے بتایا توحضورؓنے فرمایا کہ ’’میری بیٹیوں کے نام بھی امۃالباسط اور امۃالنصیر ہیں۔‘‘ شادی کی رؤیا: میرے نانا جان کا جب کراچی تبادلہ ہونے لگا تو میری نانی جان نے کہا کہ امۃالباسط کی یہیں پنجاب میں شادی کر کے جائیں۔ نا نا جان نے کہا کہ نہیں میں اس کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔ کراچی آنے کے بعد امّی کے رشتے آنے لگے نانا جان،امّی جان سے پوچھتے کہ آپ نے کوئی خواب دیکھاہے؟ امّی کہتیں کہ نہیں۔ ایک دن پھر پوچھا تو بتایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی مہمان آئے ہیں اور آپ یعنی ناناجان میرے پاس آ کر بولتے ہیں کہ باسی (پیار سے امّی کو نانا جان باسی اور لاڈو کہتے تھے)۔ ’’خواجہ عبدالرحیم آئے ہیں چائے بناؤ۔‘‘ اگلے دن میرے ابّو جان مکرم مبشر احمد بٹ صاحب کا رشتہ امّی کے لیے آ یا جو کہ خواجہ عبدالرحیم بٹ صاحب کے بیٹے ہیں۔ شادی پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحفۃً سوٹ، بیڈ شیٹ اور پیسے بھجوائے جو ابھی تک بطورتبرک سنبھالے ہوئے ہیں۔ اولاد: امی جان کی چار بیٹیاں ہیں۔ مکرمہ فریدہ بٹ صاحبہ، مکرمہ وحیدہ بٹ صاحبہ، مکرمہ ڈاکٹر صائمہ بٹ صاحبہ اور مکرمہ غزالہ احمد بٹ صاحبہ۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریکِ وقفِ نَو کا اعلان کیا تو اپنی ساری اولاد کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تحریکِ وقفِ نَو میں شامل کردیا۔ تعلق باللہ: میری امّی جان کا اللہ تعالیٰ پر نہایت پختہ یقین تھا۔زندگی میں جب کوئی پریشانی آتی نماز پڑھنے لگ جاتیں کہ جو کچھ کرے گا بَس اللہ تعالیٰ ہی کرے گا۔ ہمیں کہتیں کہ ایک جوتے کا تَسمہ بھی مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے ہی مانگو۔ غائبانہ طور پر اللہ تعالیٰ پھر امّی جان کی مدد بھی کرتا تھا۔ ایک دفعہ امّی کو معدے کا شدیددرد تھا اس وقت امّی صحن میں بیٹھی تھیں کہ ہوا سے اڑ کرہومیو پیتھک دوائی نکس وامیکا کا پرچہ امّی کے پاس آ کر گِرا۔ پھر خواب میں آپ نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ’’آپ نکس وامیکا کھایا کریں‘‘ امّی نے استعمال کی اور بالکل ٹھیک ہو گئیں۔ ایک دفعہ پَرس گھر رہ گیا اُس وقت موبائل نہیں ہوتا تھا جیب میں جو پیسے تھے کرائے کے دے دیے اب واپسی کے پیسے نہیں تھے میں ساتھ تھی جب ہم بس سے اترےتھوڑی دُور چلے ہوں گے کہ امی جان کےپیر سے کچھ ٹکرایا دیکھا کہ سو سو کے کچھ نوٹ تھے۔ ایک بار کسی نے بتایا کہ اگر آپ کبوتر کا شوربہ بنا کر پیئیں تو اَفاقہ ہوگا۔ اسی وقت ہماری گیلری کی منڈیر پر کبوتر اڑ کر بیٹھ گیا ابّو جان پکڑ کر اندر لے آئے امّی جان نے کبوتر یہ کہہ کر اڑا دیا کہ میں اپنے لیے کسی معصوم کی جان نہیں لوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر امّی کو بالکل ٹھیک بھی کر دیا۔اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ امّی جان کا ساتھ دیا۔ درود شریف کی برکت: امی جان حضورﷺ سے انتہائی عشق کرتی تھیں۔ ہمیشہ درود شریف آپ کی زبان پر رہتا۔ ایک دفعہ بتاتی تھیں کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ ہو رہی تھی کہ نانا جان چھت پر بیٹھے کتاب ’’درود شریف کی برکات‘‘ لکھ رہے تھے اور میں ان کے ساتھ بیٹھی تھی کہ ایک جہاز انتہائی قریب سے ہمارے سَر کے اوپر سے گزرا اور تھوڑی دُور جا کر اس نے میزائل پھینک دیا۔ بتاتی تھیں کہ درود شریف کی برکت سے ہماری جان بچ گئی۔ہر کام کرنے سے پہلے تاکید کرتیں کہ درود شریف پڑھ کر کیا کرو راستے نکل آتے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے جب درود شریف خود نہیں پڑھ سکتی تھیں تو ویڈیو ریکارڈنگ سے بار بار سنتی تھیں۔ اللّٰھم صلّ علیٰ محمدٍوعلیٰ اٰلِ محمد۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصنیف شدہ ’’القصیدہ‘‘ زبانی باترجمہ یاد تھا اور کہتیں کہ سب کو یاد کرنا چاہیے۔ اس کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ حضور ؑنے فرمایا ہے کہ ’’جو اس قصیدے کو حفظ کرے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حافظے میں برکت دی جائے گی۔‘‘(شرح القصیدہ صفحہ۱ بحوالہ تذکرہ صفحہ۷۸۶۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء)اور پھر یاد کرنے والے بچے کو انعام دیتیں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے نانا جان کو القصیدہ کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کرنے اور اس کو کتابی شکل میں شائع کروانے کی بھی توفیق دی ہے جو امی جان انعام میں دعا کے ساتھ لکھ کر دیتیں۔ خواب میں حضورﷺ کی زیارت:ایک خواب سنایا کہ میں نے دیکھا کہ میدان میں لو گوں کا بہت رش ہو تا ہےافراتفری مچی ہوتی ہے اور لوگ شور مچا رہے ہو تے ہیں کہ ابھی یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے۔اچانک آسمان کی پَرت ہٹتی ہے سب لوگ آسمان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک پورے آسمان پر چھا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے دیکھتے ہیں اور پھر منظر ہٹ جاتا ہے۔ خلافت سے محبت : خلافت سے امّی جان کو بے پناہ محبت تھی۔ ہمیشہ کہتیں کہ حضور نے جو کہا ہے ہمیشہ آ نکھیں بند کرکے عمل کرنا ہے یہ نہیں دیکھنا کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آتی ہےیا نہیں۔ طبیعت کی خرابی میں دوائی کھا کر ہمیں جماعتی پروگراموں میں لے کر جاتیں کہ میری بچیوں کی تربیت اچھے انداز سے ہو۔ تمام عہدے داران کا اِحترام ہمیں سکھایا۔ سب کے ساتھ تعاون اور محبت سے پیش آنا امّی کی عادت تھی۔ امّی بتاتی تھیں کہ جب ہم چھوٹے تھے تو ہم نے اسکولوں میں منہ پر تعصب کی وجہ سے تھپڑ بھی کھائے ہوئے ہیں کہ ہم احمدی ہیں۔ پیدل چل کر سینٹر میں حضور کا خطبہ سننے جاتیں بچیوں کو تقاریر اور مضامین خود لکھ کر دیتیں۔ ایک دفعہ بہت بیمار تھیں میری بڑی بہن صائمہ بٹ اُن کے پاس بیٹھی تھیں۔ امّی جان ایک دم سے اٹھیں اور بتایا کہ میں نے ابھی دیکھا کہ ( سامنے دیوار پر اشارہ کرتے ہوئے) حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہیں اور مجھے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور پھر کسی کی آواز آئی کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ کچھ ہی دیر میں طبیعت بھی ٹھیک ہو گئی اور صحت بحال ہو گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے انتقال پر ایک رسالہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیں ایک گروپ فوٹو تھی اور نیچے لوگوں کے نام لکھے تھے جو امّی سے شاید پڑھے نہیں گئے میری بڑی بہن فریدہ بٹ کو بلا کرایک چہرے پر انگلی رکھ کر پوچھا کہ ان کا نام پڑھ کر بتاؤ۔ آ پی نے بتایا کہ’’صاحبزادہ مرزا مسرور احمد‘‘ ہیں کہنے لگیں کہ ان کے چہرے پر ابھی بہت تیز روشنی پڑی ہے اگلے دن انتخاب خلافت تھا اور حضور خلیفہ منتخب ہوئے۔ کشف: ۲۰۱۴ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی اور انتہائی جوش و خروش سے تیاری کی۔اپنی بڑی دو بیٹیوں فریدہ بٹ صاحبہ اور وحیدہ بٹ صاحبہ کو ساتھ لے کر گئیں۔ پاسپورٹ بنانے کی باری آئی تو فخر سے اس پر احمدی لکھوایا۔ پاسپورٹ آفس کا عملہ ان کو مرزائن کہہ کر بلا رہا تھا تو الٹا خوش ہو رہی تھیں۔ بیت الدعا میں دعائیں کر رہی تھیں کہ کہتی ہیں کہ ابھی میں نے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے اور آپ علیہ السلام نےیہاں سے دیوار سے پردہ ہٹا کر دیکھا ہے اور مسکرا کر فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی بیٹیاں ہیں؟ اور جب کہ وہاں کوئی پردہ نہیں تھا۔ جماعت سے محبت : جماعتی کتب پڑھنے اور قرآن مجید کی سورتیں اور دعائیں یاد کرنے پر اِنعام دیتیں،روزوں میں قرآن مجید کا دور ختم کرنے والے بچے کو انعام دیتیں، در ثمین اور کلام ِمحمود خود بھی یاد کی اور ہمیشہ ہمیں بھی یاد کرنے کا کہا، جماعتی کتب و رسائل کو نہایت اِحترام سے رکھنا امّی کا شوق تھا کہتی تھیں کہ ایک دن یہ سب نایاب ہو جائیں گے انہیں سنبھال کر رکھو۔ دنیاوی تعلیم میں بھی امّی نے ہمیں سکھایا کہ کبھی کسی غیر احمدی کو آگے نہیں آنے دینا آپ احمدی ہو ہمیشہ کلاس میں فرسٹ آنا ہے ایک احمدی کے ہوتے ہوئے غیر احمدی جیت جائے امی کو یہ بات نہایت ناگوار تھی۔ بچیوں کی تربیت: امی جان نہایت سچ بولنے والی تھیں۔ مذاق میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولتی تھیں۔ ہمیں سکھاتیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو اللہ تعالیٰ سچ بولنے والوں سے پیار کرتا ہے۔ کبھی کسی کی برائی ہو رہی ہوتی تو چپ ہو جاتیں کہ غلط جملہ منہ سے نہ نکلے۔ بچوں سے پیار کرنے والی، سب کی ضروریات کا خیال رکھنے والی تھیں، بڑوں کا احترام کرنے والی، اگر ہم میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو رات رات بھر سوتی نہیں تھیں بیمار کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر اس کی بیمار پرسی کرتیں۔راستے میں ہمیشہ سکھاتیں کہ خالی نہیں بیٹھو دعائیں پڑھو سفر کی دعا پڑھواتیں اور سارے راستے رب کل شیء خادمک اور سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم جاری رہتا۔ سونے سے پہلے ہمیں انبیاء علیہم السلام کی کہانیاں سناتی تھیں۔بچیوں کی تعلیم کے لیے ہمیشہ سخت تھیں قرآن مجید کی عالمہ تھیں۔ بچیوں کو قران کریم ترجمے سے پڑھانے کے لیے درخواست کر کے معلم صاحب محمد بشیر کھٹانا صاحب مرحوم کو گھر میں آنے کی درخواست کی جو ہمیں روز آکر قرآن مجید پڑھاتے۔ امی جان بڑے خلوص سےان کے لیے چائے بناتیں اوربعض دفعہ انہیں کھانا پیش کرتیں تو وہ کہتے کہ آپ کی امی کو کیا الہام ہوا تھا ؟ میں آج کھانا کھا کر نہیں آیا تھا۔ چاروں بچیوں نے الحمدللہ عائشہ میڈل حاصل کیا ہے۔امّی کی یہ بھی خوبی تھی کہ ہر اولاد کو ہمیشہ یہی محسوس ہوتا گویا وہی ان کی لاڈلی اولاد ہےکبھی کسی سے کوئی فرق نہیں رکھا۔ گھر میں غیر احمدی بچوں کو بھی قرآن مجید پڑھایا کرتی تھیں اور بچیوں کو کہتیں کہ ٹیوشن پڑھایا کرو یہ ہماری تبلیغ کا ذریعہ ہے اور کہتیں کہ ان سےفیس نہ لو۔ والد صاحب کےسا تھ سلسلہ کی خدمات : اپنے والد صاحب مولانا عبدالمنان شاہد صاحب کی جما عتی خدمات میں چھوٹی عمر سے ہی ہمیشہ ساتھ رہتی تھیں۔ مباحثات کی تیاری، تصنیفات و تحریرات میں حوالہ جات ڈھونڈنے سے لے کر سلسلے کے مبلغین اور علمائے کرام جو نانا جان سے ملنے آتے تھے کھانے کی دعوت کرتی تھیں اور فخر کرتی تھیں کہ سب شوق سے میرے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہیں۔ جن میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ، حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ، مکرم عثمان چینی صاحب، مولانا عبدالمالک خان صاحب، وغیرہ شامل ہیں۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں گھر پر مہمانوں کو بلاتیں اور ان کے آرام و آسائش کا خیال رکھتیں۔صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سَبز پگڑی والے کہلاتے ہیں بچپن میں گھر آئے تو آپ کو چاندی کی بالیاں بھی اَزراہ شفقت دی تھیں۔ بچپن سے اعلیٰ صحبت میں رہیں اور بزرگان سلسلہ کی دعائیں سمیٹنے والوں میں سے ہوئیں۔ سلسلہ کی خدمات : شادی کے بعد اپنی ساس محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ جو کہ صدر حلقہ لیاقت آباد مجلس مارٹن روڈ تھیں کے ساتھ جماعت کے کام کرتی تھیں۔ جنرل سیکرٹری، حلقہ سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ اور سیکرٹری وقف نَو کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ضلع کراچی کی لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماع پر چاروں بچیوں کی اعلیٰ کارکردگی پر مثالی ماں کا ٹائٹل ملا جو بہت پیار سے صدر صاحبہ محترمہ امۃالحفیظ بھٹی صاحبہ نے اپنے ہاتھوں سے امّی جان کودیا۔ میری والدہ اور میں: میری امّی ہم چاروں بہنوں سے بے پناہ پیار کرتی تھیں۔میں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوں۔ جب میں پیدا ہوئی تو پیار سے امّی جان نے میرا نام چندا رکھ دیا اور کبھی مجھ پر زیادہ پیار آتا تو مجھے ’چندی‘ کہہ کربلاتیں۔ میری ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو اپنی ضرورت سمجھ کر پورا کیا۔ میرے امتحان ہوتے تو مجھ سے زیادہ امّی جان کو پریشانی ہوتی کہ اس کا پرچہ اچھا ہو جائے۔ ساری ساری رات میرے لیے جاگتیں،مجھے چائے بنا کر دیتیں، مجھے کہتیں کہ چندا یہ صفحہ یاد کر لو میں وہ دیکھ لیتی اور اتفاق سے وہی امتحان میں سوال بن کر آجاتا تھا۔ جب امی جان بیمار ہوتیں تو میری بڑی بہنوں سے پوچھتیں کہ غزالہ نے کھانا کھا لیا ہے؟ اسے میرے پاس بلاؤ۔ میں روتی تو خود رو دیتیں۔ میرے آنسو امی کو کبھی برداشت نہیں ہوتے تھے۔ کبھی میں روٹھ جاتی تو میری پسند کا کھانا بنا کر مجھے مناتیں۔ مجھے زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتیں، حالات سے لڑنا سکھاتیں اور کہتیں کہ بس غزالہ اٹھ جاؤ ہمیشہ بولو کہ میں ٹھیک ہوں ’’I am fine‘‘ اور تیزی سے شرلی کی طرح کام کرو،آگے بڑھو، بڑھتی جا ؤ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا۔آپ نے ہمیشہ جرأت سے بڑھتے جانا ہے بس۔ آپ کی زندگی وقف ہے لوگوں کی باتوں سے پریشان نہیں ہوا کرتے۔میری امّی جان میرا خزانہ تھیں، میری جان، میری استاد، میرا مان، میری دوست، میری امّی جان میری کل کائنات تھیں۔امّی مجھ سے بے انتہا محبت کرتی تھیں۔ میں اللہ تعا لیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہی رہے گا کہ اس نے مجھے انمول ہیرے کی چمک سے بھی زیادہ روشن موتی میری ’’پیاری امی جان ‘‘ عطا فر ما کر میری زند گی کو روشنی بخشی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک ناسازی طبیعت : ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے گردے شدید متاثر ہو گئے تھے وینٹیلیٹر لگا لیکن اس سے بھی خیریت سے ہٹ گئی تھیں۔ ہفتے میں دو ڈائلیسز کروانے جاتی تھیں۔ ۳؍اپریل ۲۰۲۵ءکو صبح ۱۱ بجے ڈائلیسس کے لیےلیاقت نیشنل ہاسپٹل گئیں تو بی پی لو تھا ڈاکٹرز کو بلایا تو وہ نہیں آئے۔ بیٹیوں کے بولنے کے باوجود ڈائلیسز کے ڈاکٹر نے کوئی علاج نہیں کیا اور بولا کہ داخل کریں گے۔ ایچ ڈی یو میں داخل کیا اورایک گارڈ صرف ہمارے لیے کھڑا کردیا اور ہمیں اندر نہیں جانے دیا۔ وہاں کے تمام ڈاکٹرز کو اور ہسپتال کی انتظامیہ کو ہمارا علم ہو گیا تھا کہ ہم احمدی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے امّی جان کو Tachycardia ہو گیا اور bipap mask لگا دیا دو دن سے کوئی کھانا بھی نہیں دیا۔ ڈاکٹرز انتہائی بدتمیزی سے بات کرنے لگے اور امّی جان کو انتہائی بےرحم طریقے سے ٹریٹ کیا۔ ہم چاہ کر بھی ہاسپٹل تبدیل نہیں کر سکے میری بہن بہت مشکل سے اندر گئی تو امی کو ایک نرس ڈی۔ایل میں کچھ لگا رہی تھی پوچھنے پر کہنے لگی کہ پوٹاشیم کا ٹیسٹ کر رہی ہوں حالانکہ امی جان کا یہ ٹیسٹ آدھ گھنٹہ پہلے ہی ہو چکا تھا اگلے ہی لمحے امی کی آنکھیں پھٹنے لگیں۔ میری بہن صائمہ بٹ نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا لیکن وہ تب بھی اندر نہیں آیا نرسنگ اسٹاف کو کہا کہ ڈاکٹر کو بلاؤ امی کو کیا ہو رہا ہے کہنے لگے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ اگلے ۱۵ منٹ میں میری امی جان اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔اس وقت بھی گارڈز میرے ابّو جان کو جو میری اور میری بہن کی آوازوں سے اندر آنا چاہتے تھے اندر نہیں آنے دے رہا تھا۔ اس کے بعد ہم امّی جان کو غسل کے لیے قریبی سینٹر لے کرگئے ابھی غسل ہو رہا تھا کہ بہت سارے مولوی اکٹھے ہوگئے۔میرے ابو جان کو بلا کر کہنے لگے کہ آپ قادیانی ہیں؟ ابو جان نے کہا میں احمدی ہوں۔ ایک مولوی کہنے لگا ہم نعش کو نکال کر باہر رکھ دیں گے تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔اتنی دیر میں شکر ہےکہ غسل ہو چکا تھا ابھی وہ مولوی دوسرے لوگوں کو مشتعل کرنے میں لگا تھا کہ ایک ایمبولینس اندر آئی ۔ابو نے فوراً اس کو روکا بات کی بولا جلدی بیٹھو ڈیڈ باڈی اوردو بچیوں کوروانہ کر دیا راستے میں فون پر بتایا کہ ایدھی سینٹر سہراب گوٹھ جانا ہے۔ صدر صاحب اور کچھ کزنز ساتھ تھے۔ وہاں پھر ابو جان نے جا کر پہلے ہی بتا دیا کہ ہم احمدی ہیں آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ باڈی رکھ لیں۔ اگلے دن ۶؍اپریل۲۰۲۵ءکو امّی جان کی نمازِ جنازہ کراچی میں ادا ہوئی۔ وہاں سے بھی جلدی سے ربوہ کے لیے روانہ ہوئے کیونکہ امی جان موصیہ تھیں۔ پیارے آقاحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں تدفین کی اجازت فرمائی۔ ۷؍اپریل ۲۰۲۵ء کو نمازِ ظہر کے بعد نمازِ جنازہ ہوئی اور تدفین عمل میں آئی۔ ہو فضل تیرا یا ربّ یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو تدفین کے بعد جب ابّو جان اور ہم سب دارالضیافت پہنچے تو ابّو جان کو ہارٹ اٹیک ہو گیا۔طاہر ہارٹ ہاسپٹل ربوہ سے علاج ہو رہا ہے۔ دعا کی درخواست ہےکہ اللہ تعالیٰ ابو جان کوصحت و عا فیت والی لمبی و فعال زندگی عطا فرمائے اور اپنے فضلوں سے نوازے اور صبر عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ صاحبہ کے درجات بلندتر کرتا چلا جائے، اپنے پیار کی چادر میں ڈھانپ لے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے۔ان کی اولاد کو ان کی نیک دعاؤں کا وارث بنائے اور ان کی توقعات پر پورا اترنے والا بنا دے۔ آمین ثم آمین ایک مرتبہ امی جان اور ہم سب خطبہ جمعہ سن رہے تھے کہ آخر میں حضور انور نے کسی کے بارے میں نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کے لیے فرمایا۔ اچانک میری امی جان پر نظر پڑی تو امی رو رہی تھیں پوچھا تو کہا کہ کون خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن کی نماز جنازہ خود خلیفہ وقت پڑھاتے ہیں؟ اور پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگیں۔ آج اس موقع پر مجھے یہ واقعہ یاد آیا ہے۔ امی جان کی دعا قبول ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے امی جان پر اپنے پیارو محبت اور رحمت و فضل کی نظر فرمائی اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۳۰؍اپریل۲۰۲۵ء کو میری امی جان کی غائبانہ نمازِجنازہ مسجد مبارک،اسلام آباد، یوکے میں پڑھائی۔ اللہ تعالیٰ امی جان سے وہاں بھی ہمیشہ پیار کا سلوک کرتا چلا جائے۔آمین ثم آمین (غزالہ احمد بٹ) مزید پڑھیں: مرزا امتیاز احمد مغل صاحب