https://youtu.be/xLh6SjxfjRw ٭… احادیث کے مطابق آنحضور ﷺ کے ورثاء آپؐ کی جائیداد سے حسب حالات استفادہ کرتے رہے، لیکن بطور وارث اس کے مالک نہیں ہوئے۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جائیداد آپ کے ورثاء میں بطور ورثہ تقسیم کی گئی۔ علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ انبیاء کی جو کچھ ملکیت ہوتی ہے وہ سب خرچ کر دیتے ہیں اور گھر میں ایک دینار بھی بچا کر نہیں رکھتے۔ اس کا کیا جواب دیا جائے؟٭…نور کی مترادف روشنی ہے۔ نیز ظاہری روشنی اور باطنی روشنی میں کیا فرق ہے۔ کیا فرشتے ظاہری روشنی ہیں؟٭…کیا سائنس اور خدا ایک ساتھ موجود نہیں ہو سکتے اور یہ کہ Free Will کا کوئی وجود نہیں ہے؟ ان ددنوں باتوں کے بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے سوال: مصر سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے کسی عزیز کایہ اعتراض کہ احادیث کے مطابق آنحضور ﷺ کے ورثاء آپؐ کی جائیداد سے حسب حالات استفادہ کرتے رہے، لیکن بطور وارث اس کے مالک نہیں ہوئے۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جائیداد آپ کے ورثاء میں بطور ورثہ تقسیم کی گئی۔ علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ انبیاء کی جو کچھ ملکیت ہوتی ہے وہ سب خرچ کر دیتے ہیں اور گھر میں ایک دینار بھی بچا کر نہیں رکھتے،بھجوا کر دریافت کیا کہ اس کا کیا جواب دیا جائے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍نومبر۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: پہلی بات یہ ہے کہ یہ اعتراض قرآن کریم کی تعلیم کے بر خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم تو صاف الفاظ میں فرما رہا ہے کہ وَوَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ(النمل:۱۷) یعنی سلیمان داؤد کا وارث بنا۔ پس آپ کی یہ بات کہ انبیاء کا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا بالکل غلط اعتراض ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نبی تھے اور ان کا ورثہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو خود بھی نبی تھے، ملا۔ حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں:وَرَّثَ اللّٰهُ تَعَالَى سُلَيْمَانَ مِنْ دَاوُدَ مُلْكَهُ وَنُبُوَّتَهُ وَزَادَهُ عَلَيْهِ أَمْرَيْنِ سَخَّرَ لَهُ الرِّيْحَ وَالشَّيَاطِيْنَ۔ (تفسیر کبیر للرازی، سورۃ الانبیاء آیت نمبر ۷۹)یعنی اللہ تعالیٰ نے سلیمان کو داؤد کی حکومت اور نبوت دونوں کا وارث بنایا اور مزید ہواؤں اور شیاطین کو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کر دیا۔ پس حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے جو کہ نبی تھے کے دنیوی و دینی، جسمانی او روحانی میراث کے پانے والے ہوئے۔ دوسری بات کہ حدیث میں جو آتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ اس کے بارہ میں حضرت عمرؓ کاقول ہے کہ اس سے آنحضرت ﷺ کی اپنی ذات مراد تھی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی بَاب حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ) پس ایک تو حضورﷺ کے اس قول سے خاص طور پر حضور ﷺ کی اپنی ذات مراد تھی، باقی انبیاء کے لیے یہ اصول نہیں تھا۔ دوسرا اس حدیث میں تو حضور ﷺ اپنے ترکہ کو صدقہ قرار دے رہے ہیں اور ایک دوسری حدیث میں حضورﷺ نے حضرت امام حسنؓ کے منہ سے انگلی ڈال کر صدقہ کی کھجور نکالتے ہوئے فرمایا کہ کیا تُو نہیں جانتا کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ بَاب مَا يُذْكَرُ فِي الصَّدَقَةِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآلِهِ)پھر آپؐ کے ورثاء اس صدقہ سے کیسے حسب حالات استفادہ کرتے رہے؟ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مختلف فتوحات میں جو اموال و جائیداد عطا فرمائی تھیں، اُن میں سے بہت سے اموال و جائیداد کو آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا اور کچھ جائیداد جس میں خیبر کے باغ فدک اور مدینہ کے بنو نضیر کی زمین شامل تھی حضور ﷺ نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات زندگی کے لیے رکھ لیا، جس سے آپ اپنی زندگی میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات زندگی پورا کرتے رہے اور آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے ورثاء اس جائیداد سے اسی طرح استفادہ کرتے رہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے سال یہ ورثہ آپ کے ورثاء حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کے سپرد کر دیا تھا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی بَاب حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ)اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ حضور ﷺ کا ورثہ آپ کے ورثاء کو نہیں ملا۔ باقی جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ورثہ کا تعلق ہے تو حضور علیہ السلام نے اپنی سب سے قیمتی جائیداد تو اللہ کی راہ میں وقف کر دی تھی، یعنی بہشتی مقبرہ قادیان کے لیے آپ ہی نے اپنی ملکیتی زمین عطا فرمائی تھی۔ اور آپؑ کی وفات کے وقت آپ کا گھر دنیوی مال و زر کے لحاظ سے بالکل خالی تھا۔ چنانچہ آپؑ کی وفات پر حضرت اماں جانؓ نے بچوں کو یہی نصیحت فرمائی تھی کہ’’بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے۔ جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔‘‘(روز نامہ الفضل ربوہ نمبر ۱۶، جلد ۵۱، مورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۶۲صفحہ ۱۵) اور قرآنی آیت وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ کی روشنی میں آپ کا بعینہٖ یہی موقف اور عمل تھاکہ انبیاء کی جو کچھ ملکیت ہوتی ہے وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں اور گھر میں ایک دینار بھی بچا کر نہیں رکھتے۔ بہشتی مقبرہ قادیان والی زمین کے علاوہ باقی زمین کی تو کچھ اہمیت اور قیمت ہی نہیں تھی۔ اور وہ ایک لمبے عرصہ تک بیکار پڑی رہی اور ورثاء کو اس کا کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب اس زمین کو سکنی پلاٹوں کی صورت میں فروخت کیا گیا تو تب جا کر اس زمین کی کچھ اہمیت اور قیمت بنی اور اس وقت بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اُس زمین کی زیادہ تر آمد جماعتی کاموں میں ہی صرف فرما دی۔ سوال: انڈونیشیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا نور کی مترادف روشنی ہے۔ نیز ظاہری روشنی اور باطنی روشنی میں کیا فرق ہے۔ کیا فرشتے ظاہری روشنی ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۳؍نومبر۲۰۲۳ء میں ان سوالوں کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے نور کو ہدایت اور ظلمت کو گمراہی کے طور پر بیان فرمایا ہے اور اس بات کو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے۔ نور اور ظلمت کے الفاظ دراصل تمثیلاً بیان ہوئے ہیں، انہیں صرف ظاہری روشنی اور ظاہری اندھیرے سے مشابہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لاتے ہیں۔ وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست نیکی سے روکنے والے (لوگ) ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ لوگ آگ (میں پڑنے) والے ہیں۔ وہ اس میں رہیں گے۔ (البقرہ:۲۵۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ظلمانی زمانہ کے تدارک کے لیے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اس کار سول اور اس کی کتاب ہے خدا اس نور سے ان لوگوں کو راہ دکھلاتا ہے کہ جو اس کی خوشنودی کے خواہاں ہیں سوان کو خدا ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۴۹،۶۴۸) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے لیے بھی، جو کہ ہدایت کا سر چشمہ ہے،نور کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔جیسا کہ فرمایا یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا (النساء:۱۷۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے لوگو! قرآن ایک برہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلا نور ہےجو تمہاری طرف اتارا گیا ہے۔(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۵۶) پہلے انبیاء کی طرف نازل ہونے والی شریعتوں کے لیے بھی نور کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ فرمایا تو (ان سے) کہہ دے کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے اور وہ لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی۔ (الانعام:۹۲) آنحضورﷺ کے وجود باجود کے لیے بھی نور کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ فرمایا قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ۔ (المائدة : ۱۶) یعنی تمہارے لیے اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک روشن کتاب آچکی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:انبیاء منجملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطاء ہوا ہے کہ گویادہ نور مجسم ہو گئے ہیں۔ اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے: قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (المائدة:۱۶) الجزو نمبر ۶۔ وَدَاعِيًا إِلَى اللّٰهِ بِإِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۔ (الاحزاب:۴۷) الجزو نمبر ۲۲۔ یہی حکمت ہے کہ نور وحی جس کے لیے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہو نا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا۔ ( بر اہین احمدیہ چہارحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۹۶ حاشیہ نمبر ۱۱) پس نور وہ الٰہی جو ہر ہے جو ہر نیک اور پاک انسان کو اس کی روحانی قابلیت اور نیکی اور تقوی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ چونکہ اس نور کا منبع ہے اس لئے اس نے اپنے لئے بھی اس لفظ کو استعمال فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایااَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ۔(النور : ۳۶) یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا آسمان وزمین کا نور ہے۔ یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے۔ خواہ وہ ارواح میں ہے۔ خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی۔ اس کے فیض کا عطیہ ہے۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں۔ وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے۔( بر اہین احمدیہ چہارحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۹۱حاشیہ نمبر ۱۱) باقی فرشتوں کے بارے میں آپ کے سوال کے جواب میں تحریر ہے کہ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ ہی کے نور سے تخلیق شدہ ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ملائکہ کے بارہ میں فرماتے ہیں:دوسری بات ملائکہ کے متعلق یہ یادر کھنی چاہیے کہ یہ ایسی روحانی مخلوق ہیں کہ بندہ کو ان آنکھوں سے اپنے اصلی جسم میں نظر نہیں آسکتے۔ اور اگر ان آنکھوں سے نظر آئیں گے تو اپنے اصلی وجود کے سوا غیر وجود میں ہوں گے۔ گو یا فرشتوں کو دیکھنے کے لیے یا تو یہ ظاہری آنکھیں نہیں ہوں گی بلکہ روحانی آنکھوں کی ضرورت ہوگی اور اگر ان آنکھوں سے دیکھا جائے گا تو فرشتے اپنے اصلی جسم میں نہیں ہوں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَوۡ جَعَلۡنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلۡنٰہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلۡبِسُوۡنَ۔(الانعام:۱۰) یہ لوگ کہتے ہیں کہ فرشتہ کیوں نہیں اترتا۔ لیکن اگر فرشتہ آجائے تو آدمی کی شکل میں ہی آئیگا۔ تب یہ دیکھ سکیں گے۔ اور جب انسان کی شکل میں آئے گا تو پھر بات مشتبہ رہے گی کہ یہ فرشتہ ہے یا آدمی ؟ اور جو شبہ یہ اب پیدا کر رہے ہیں پھر بھی قائم رہے گا کہ یہ کلام خدا کا نہیں بلکہ انسانی بناوٹ ہے۔ پس فرشتہ تو ہم تب بھیجتے جب اس کا کوئی فائدہ بھی ہوتا۔ لیکن چونکہ ان آنکھوں سے لوگ فرشتے کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر دیکھیں تو انسان کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں اور اس پر وہ پھر اعتراض کریں گے اس لئے فرشتہ نازل نہیں کیا جاتا۔ پس فرشتوں کا وجود نہانی ہے ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ ( ملائکۃ اللہ، انوار العلوم جلد ۵ صفحہ ۴۹۰) پس نور عام روشنی کا نام نہیں بلکہ یہ ایسا اعلیٰ درجہ کا جوہر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے، یہی نور گمراہی سے ہدایت کی طرف لانے کا موجب ہوتا ہے اور اسی نور الہٰی سے فرشتوں کی تخلیق ہوئی ہے۔ جن کے اصل وجود کو انسان اپنی ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا بلکہ ان کے اصلی وجود کو دیکھنے کے لیے روحانی آنکھوں کا ہونالازمی ہے۔ سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا سائنس اور خدا ایک ساتھ موجود نہیں ہو سکتے اور یہ کہ Free Will کا کوئی وجود نہیں ہے؟ ان ددنوں باتوں کے بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۸؍نومبر۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: یہ بالکل غلط تصور ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں کہ سائنس اور خدا ایک ساتھ موجود نہیں ہو سکتے۔ ہمارا یہ عقیدہ نہیں بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سائنس اور مذہب میں کوئی بھی اختلاف نہیں۔ سائنس خدا کا فعل ہے جو دنیا میں عمل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور مذہب اس کاقول ہے جو وحی والہام کے ذریعہ اس کے منشاء کو ظاہر کرتا ہے۔اورجب ایک معمولی عقلمند انسان کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوسکتا تو خداجیسی علیم وحکیم ہستی کے قول وفعل میں تضاد کس طرح ممکن ہے۔ پس اگر کسی بات میں مذہب اور سائنس کے درمیان بظاہر تضاد نظر آئے تو اسے حقیقی تضاد نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ ایسا تضاد صرف اس وجہ سے نظر آتاہے کہ بعض اوقات کوتاہ بین لوگ ایسی باتوں کو بھی سائنس کے ثابت شدہ حقائق سمجھنے لگ جاتے ہیں جو دراصل ثابت شدہ حقائق نہیں ہوتے بلکہ محض تھیوریاں ہوتی ہیں جن کی بنیادمشاہدہ پر نہیں ہوتی بلکہ صرف تخیل پر ہوتی ہے۔ چنانچہ علم ہیئت کے ماہر ایک انگریز پروفیسر ریگ صاحب کے مختلف موضوعات پر سوالات کے جوابات دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذہب اور سائنس کے بارہ میں فرمایا: یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنی ہی عروج پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اصول اسلام کو ہر گز ہر گز نہیں جھٹلا سکے گی۔(ملفوظات جلد دہم صفحہ ۳۷۸، ایڈیشن۲۰۲۲ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسلامیہ کالج لاہور کی سائنس یونین کی درخواست پر ۳؍مارچ ۱۹۲۷ء کو مذہب اور سائنس کے عنوان پر ایک معرکہ آراء لیکچر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی زیرصدارت حبیبیہ ہال لاہور میں دیا تھا۔ اس میں آپؓ فرماتے ہیں: مذہب اور سائنس میں مقابلہ ہی کوئی نہیں۔ کیونکہ مذہب خدا کا کلام ہے اور سائنس خدا کا فعل۔ اور کسی عقلمند کے قول اور فعل میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر کوئی جھوٹا ہو یا پاگل ہو تو اختلاف ہو گا۔ خدا کے متعلق دونوں باتیں ممکن نہیں کیونکہ خدا ناقص العقل یا ناقص الاخلاق نہیں۔ پس خدا کے قول اور فعل میں فرق نہیں اسی لئے مذہب اور سائنس میں بھی تصادم نہیں۔ (مذہب اور سائنس، انوار العلوم جلد۹ صفحہ ۴۹۹) فرمایا:اگر تصادم ہو تو ماننا پڑے گا کہ یا تو مذہب کی ترجمانی غلط ہوئی ہے۔(کیونکہ مذہبی احکام دینے والا تو نہ جھوٹا ہے اور نہ پاگل) یعنی لوگوں نے مذہب کو غلط سمجھا۔ یا پھر خدا کے فعل (سائنس) کے سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ ورنہ مذہب اور سائنس دونوں منزہ عن الخطاء ہستی کی طرف سے ہیں۔جس کے قول و فعل میں تضاد ممکن نہیں۔ (مذہب اور سائنس، انوار العلوم جلد ۹ صفحہ ۵۰۰) حضور رضی اللہ عنہ نے اپنے اس لیکچر میں مختلف مثالوں سے بھی ثابت کیا ہے کہ مذہب اور سائنس ایک ہی سر چشمہ سے نکلنے والے دو دھارے ہیں، جن میں کوئی اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ تفصیلی معلومات کے لیے آپ کو اس لیکچر کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ Free willسے متعلق آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کا اصل مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی انسان کو نیکی یا بدی کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی ددنوں کے راستے خوب کھول کر بیان فرما دیے ہیں اور انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جس راستہ پر چاہے چل کر اپنی اخروی زندگی کو جنتی یا جہنمی بنا لے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیت فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقۡوٰٮہَا۔ (الشمس:۹) یعنی کہ اس (اللہ) نے نفس پر اس کی بدکاری (کی راہوں کو بھی) اور اس کے تقویٰ (کے راستوں) کو بھی اچھی طرح کھول دیا ہے۔کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خدائے تعالیٰ نے نفس انسان کو پیدا کرکے ظلمت اور نورانیت اور ویرانی اور سرسبزی کی دونوں راہیں اس کے لیے کھول دی ہیں جو شخص ظلمت اور فجور یعنی بد کاری کی راہیں اختیار کرے تو اس کو ان راہوں میں ترقی کے کمال درجہ تک پہنچایا جاتاہے یہاں تک کہ اندھیری رات سے اس کی سخت مشابہت ہو جاتی ہے اور بجز معصیت اور بدکاری اور پُرظلمت خیالات کے اور کسی چیز میں اس کو مزہ نہیں آتا۔ ایسے ہی ہم صحبت اس کو اچھے معلوم ہوتے ہیں اور ایسے ہی شغل اس کے جی کو خوش کرتے ہیں اور اس کی بد طبیعت کے مناسب حال بدکاری کے الہامات اس کو ہوتے رہتے ہیں یعنی ہر وقت بدچلنی اور بد معاشی کے ہی خیالات اس کو سوجھتے ہیں کبھی اچھے خیالات اس کے دل میں پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر پرہیز گاری کا نورانی راستہ اختیار کرتا ہے تو اس نور کو مدد دینے والے الہام اس کو ہوتے رہتے ہیں یعنی خدائے تعالیٰ اس کے دلی نو رکو جو تخم کی طرح اس کے دل میں موجود ہے اپنے الہامات خاصہ سے کمال تک پہنچا دیتا ہے اور اس کے روشن مکاشفات کی آگ کو افروختہ کر دیتا ہے تب وہ اپنے چمکتے ہوئے نور کو دیکھ کر اور اس کے افاضہ اور استفاضہ کی خاصیت کو آزما کر پورے یقین سے سمجھ لیتا ہے کہ آفتاب اور ماہتاب کی نورانیت مجھ میں بھی موجود ہے اور آسمان کے وسیع اور بلند اور پُر کواکب ہونے کے موافق میرے سینہ میں بھی انشراح صدر اور عالی ہمتی اور دل اور دماغ میں ذخیرہ روشن قو یٰ کا موجود ہے جو ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں تب اسے اس بات کے سمجھنے کے لیے اورکسی خارجی ثبوت کی کچھ بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اُس کے اندر سے ہی ایک کامل ثبوت کا چشمہ ہر وقت جوش مارتا ہے اور اس کے پیاسے دل کو سیراب کرتا رہتا ہے۔(توضیح مرام،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۸۳،۸۲) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اِسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: باری تعالیٰ کی مقدس بابرکت ذات پاک نے انسان کو استطاعت، نیک و بد کی تمیز۔ عقل اور فطرت مرحمت فرما کر ہزاروں ہزار انبیاء اور رسول اور کتابیں اور اپنی رضامندی کے اسباب بتا کر دنیا میں ہدایت کو پھیلایا ہے اور انبیاء اور ان کے سچے اتباع اور فرمانبرداروں کی ہمیشہ نصرت اور اعانت فرمائی ہے۔ ہاں! بااستطاعت انسان پر جبر نہیں فرمایا کہ اس کی گردن پکڑ کر اس سے نیک اعمال کرائے۔ شیطان اور اس کے ذرّیات کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ انسانوں میں فرمانبرداروں کو فرمان برداری کی خلعت و عزت عطاء فرماوے مگر پھر بھی شیطان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں کو بجبر گمراہ کرے۔ (نورالدین بجواب ترک اسلام صفحہ ۱۰۷) پس دونوں معاملات میں ہی چاہے وہ گمراہی کا معاملہ ہو یا ہدایت کا کسی انسان پر جبر نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہدایت اور گمراہی کے راستوں کو واضح کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے چننے کا اختیار انسان ہی کو دیا ہے۔ مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۱۰۲)