(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍دسمبر ۲۰۰۷ء) آج مَیں اللہ تعالیٰ کی صفات سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے یا اِس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے رنگ میں سب سے زیادہ رنگین ہونے والے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ مظہر حقیقی جن سے زیادہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کا رنگ اپنے اوپر نہیں چڑھا سکتا، یعنی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ کا صفت حَکِیْم کے حوالے سے ذکر کروں گا۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جن کی پیدائش زمین و آسمان کی پیدائش کی وجہ بنی۔ جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔ پس آپؐ کا مقام اور آپؐ کے مبارک کلمات کی اہمیت ایسی ہے کہ ایک مومن کی ان پر نظر رہنی چاہئے۔ ایک تو وہ تزکیۂ نفس کے لئے تعلیم اور حکمت کی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپؐ کے ذریعہ ہمیں بتائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کَمَآ اَرْسَلْنَافِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:152) جیساکہ ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے تمہارا رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور اس کی حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن کا تمہیں پہلے کچھ علم نہ تھا۔ دوسرے آپؐ کے حکم، قول، عمل اور نصیحت جو روزمرہ کے معمولات سے لے کر قومی معاملات تک پھیلی ہوئی ہیں جس میں آپؐ کی ہر ایک بات، ہر عمل، ہر نصیحت، ہر کلمہ، ہر لفظ جو ہے وہ اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہے۔ اور دراصل تو آپؐ کا قول، عمل اور نصائح جو قرآن کریم کی پُر حکمت تعلیم ہیں، اس کی تفسیر ہیں جو آپؐ کے ہر قول اور فعل میں جھلکتی ہیں۔ پس یہ اُسوہ حسنہ جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہر قول و فعل کو پُر حکمت بنانے کے لئے بھیجا ہے۔ یہی ہے جس کے پیچھے چل کر ہم حکمت و فراست کے حامل بن سکتے ہیں۔ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ تمہیں پاک کرنے اور تمہارے فائد ے کے لئے یہ نبی جو بھی تمہیں سناتا ہے وہ یا ہمارا اصل کلام ہے جو سنایا جاتا ہے یا اس کی وضاحت ہے۔ اس لئے اس نبی کی کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جسے تم سمجھو کہ بے مقصد اور حکمت سے خالی ہے۔ اور پھر یہ نبی صرف تمہیں حکم نہیں دیتاکہ ایسا کرو۔ ایسا نہ کرو۔ نصیحت نہیں کرتا بلکہ عملی نمونے بھی دکھاتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس اسوئہ حسنہ پر عمل کرو جو اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبیﷺ نے قائم فرمایا۔ پس ہر مومن کو آنحضرتﷺ کی ہر بات کو سمجھنا چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے۔ اگر واضح طور پر سمجھ نہ بھی آئے تو یہ ایمان ہو کہ یقیناً اس میں کوئی حکمت ہے اور ہمارے فائدے کے لئے ہے۔ یہی سوچ ہے جو ایک مومن کی شان ہونی چاہئے، مومن کے اندر ہونی چاہئے۔ اب مَیں آنحضرتﷺ کی چند احادیث پیش کرتا ہوں جس میں مختلف امور بیان فرماتے ہوئے آپؐ نے ہماری عملی تربیت بھی فرمائی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ حدیث پیش کرتا ہوں۔ ایک حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں کہ اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ حَیْثُ مَا وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحکمۃ حدیث:4169) حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا حکمت اور دانائی کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے۔ جہاں کہیں وہ اسے پاتا ہے وہ اس کا زیادہ حقدار ہوتا ہے۔ اس میں جہاں یہ واضح فرمایا کہ حکمت کی بات کہیں سے بھی ملے خواہ وہ غیر مذہب والے سے ملے، غریب سے ملے، بچّے سے ملے، تمہارے خیال میں کوئی جاہل ہے، کم پڑھا لکھا ہے اس سے ملے، لیکن یہ دیکھو کہ بات کیا ہے۔ اگر حکمت ہے تو اس کو اپنا لو کیونکہ تم اس کے حقدار ہو۔ اسے تکبر سے رَدّ نہ کرو یا یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ مجھے پتہ ہے وہی سب کچھ ہے۔ بلکہ غور کرتے ہوئے اسے اختیار کرو۔ اب دیکھیں وہ ایک بچے کی حکمت کی بات ہی تھی جو اس نے بزرگ کو کہی تھی۔ واقعہ آتا ہے بارش میں ایک بچہ چلا جا رہا تھا تو بزرگ نے کہاکہ دیکھو بچے آرام سے چلو کہیں پھسل نہ جانا۔ بچے نے کہا کہ اگر مَیں پھسلوں گا تو صرف مجھے چوٹ لگے گی لیکن آپ تو قوم کے راہنما ہیں، روحانی راہنما ہیں۔ آپ اگر پھسلے تو پوری قوم کے پھسلنے کا خطرہ ہے، متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ تو بڑی حکمت کی بات ہے جو ایک بچے کے منہ سے نکلی۔ دوسرے اس طرف توجہ دلائی کہ ایک مومن کو فضولیات سے بچتے ہوئے حکمت کی باتوں کی تلاش رہنی چاہئے۔ اگر اس سوچ کے ساتھ ہم اپنی زندگی گزاریں گے تو بہت سی لغویات اور فضول باتوں سے بچ جائیں گے۔ پھر آنحضرتﷺ فرماتے ہیں۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ رشک دو آدمیوں کے متعلق جائز ہے۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا رہے۔ اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلے کرتا ہے اور اسے دوسروں کو سکھاتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب اجر من قضی بالحکمۃ حدیث7141) اس میں مومنوں کے ذمے یہ کام بھی کر دیا کہ حکمت کو آگے بھی پھیلاؤ۔ حاصل بھی کرو اور پھر آگے پھیلاؤ تمہارے تک محدود نہ رہ جائے۔ اگر کوئی پُر حکمت اور علم کی بات ہے تو مومن کی شان یہی ہے کہ اسے آگے پھیلاتا چلاجائے تاکہ حکمت و فراست قائم کرنے والا معاشرہ قائم ہو۔ ایسی مجالس جن میں حکمت کی باتیں ہوتی ہوں آنحضرتﷺ نے اُنہیں نِعْمَ الْمَجْلِس کا نام دیا ہے۔ عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ (بن مسعود) نے کہا کہ کیا ہی عمدہ وہ مجلس ہے کہ جس میں حکمت والی باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ یہ براہ راست آنحضرتﷺ کی طرف تو روایت نہیں ہے۔ لیکن یہ انہوں نے سنا اور فرمایا کہ کیا ہی عمدہ مجلس ہے جس میں حکمت کی باتیں پھیلائی جائیں اور جس میں رحمت کی امید کی جاتی ہے۔ (سنن الدارمی۔ باب من ھاب الفتیا مخافۃ السقط حدیث:292) تو یہ ہماری مجالس کے معیار ہونے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ لغو مجالس سے اٹھ جاؤ۔ ایسی مجالس سے بھی اٹھ جاؤ جہاں دین کے خلاف باتیں ہو رہی ہوں۔ مذہب پر منفی تبصرے ہو رہے ہوں۔ خداتعالیٰ کی ذات کے متعلق فضول باتیں ہو رہی ہوں۔ اگر تمہارے علم میں ہے تو سمجھانے کے لئے اور اس لئے کہ کچھ لوگوں کا بھلا ہو جائے اور یا جوکوئی بھی صاحب علم ہیں وہ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے اگر ایسی مجلس میں بیٹھ جاتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر دیکھیں کہ یہ لوگ صرف ڈھٹائی سے کام لے رہے ہیں، سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر ایسی مجلس سے اٹھ جانے کا اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔ کیونکہ پھر فرشتے ایسی مجلسوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اور ایک مومن کو تو ایسی مجلس کی تلاش ہونی چاہئے جس میں حکمت کی باتیں ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے لئے رسول اللہﷺ نے دو مرتبہ یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکمت عطا کرے۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب باب مناقب عبداللہ بن عباسؓ حدیث:3823) آپؐ کے نزدیک اس کی اتنی اہمیت تھی۔ یہ اتنا بڑا تحفہ تھا کہ آپؐ نے دعا دی۔ پھر علم اور حکمت کے بارے میں آنحضرتﷺ کا ایک اور انداز جس کا جنگی قیدیوں کے سلسلہ میں روایت میں ذکر آتا ہے، یہ ہے کہ حضورﷺ نے اُن قیدیوں کو جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں اختیار دیا کہ اگر وہ انصار کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو آزاد ہوں گے۔ چنانچہ بچے جب لکھنے پڑھنے کے قابل ہو جاتے تھے توان قیدیوں کو جو جنگی قیدی تھے، آزاد کر دیا جاتا تھا۔ (طبقات لابن سعد۔ جلد 2صفحہ260) یہ اہمیت تھی آپؐ کی نظر میں علم کی۔