اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۷۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم لطف الرحمٰن محمود صاحب ’’الفضل‘‘ سے وابستہ اپنی ساٹھ سالہ یادوں کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اِس وقت میری عمر ۷۵؍سال ہے۔ مَیں نے میٹرک تک کی تعلیم بھیرہ میں حاصل کی۔ مسجد نور بھیرہ میںجمعہ پڑھنے جاتے تو امیر جماعت الفضل سے حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ بلند آواز میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ان خطبات کی گونج کی یاد اب بھی تازہ ہے۔ یہ الفضل سے میرا پہلا تعارف تھا۔ ہمارے محلّہ کی مسجد فضل میں الفضل بذریعہ ڈاک آتا تھا۔ میرے والد بزرگوار پروفیسر میاں عطاءالرحمٰن صاحب لاہور سے گرمیوں کی تعطیلات میں بھیرہ آیا کرتے تھے۔ وہ ظہر اور عصر کے وقت مسجد میں آکر اذان دیتے اور باجماعت نماز کے بعد اخبار الفضل سے بعض حصے پڑھ کر سناتے۔ احباب ان کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے۔ تعطیلات میں یہ ان کامعمول تھا۔ الفضل کی اہمیت کا یہ تاثر ایسا تھا کہ اخبارات کی افادیت میرے دل میں قائم ہوگئی اور میرے شوق کو دیکھ کر میری والدہ مرحومہ نے مجھے روزانہ اخبار لگوادیا جس کی قیمت غالباً دو آنے ہوا کرتی تھی۔ میٹرک کے بعد ربوہ کے کالج میں داخلہ میری زندگی کا غالباً سب سے اہم واقعہ ہے جس نے میری سوچ، مزاج اور شخصیت کو یکسر بدل دیا۔ نیکی میں مسابقت، ظاہر و باطن کی سادگی، دینی اور علمی ماحول، اس بستی کی شہریت کے عناصرترکیبی تھے۔ خوش قسمتی سے اس ماحول میں مجھے خیرخواہ اساتذہ، نیک ہمسائے اور اچھے دوست میسر آئے۔ دوستوں میں محمد شفیق قیصر اور شاہد احمد کو مطالعہ کا شوق تھا۔ انہوں نے مجھے بھی اسی رنگ میں رنگ دیا۔ ان دوستوں نے مجھے مرکز کی ایک اَور نعمت کی لذّت سے بھی آشنا کیا اور وہ تھی حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کی زیارت اور صحبت سے استفادہ۔ سب سے بڑا اعزاز حضرت مصلح موعودؓ کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی اور براہ راست آپؓ کے خطابات و خطبات سے مستفید ہونا تھا۔ اخبار بینی کا مضمون نویسی سے ایک بین السطور مخفی رشتہ ہے جو آہستہ آہستہ اجاگر ہوتا ہے۔ شفیق قیصر صاحب جامعہ احمدیہ کے جریدہ ’’مجلۃالجامعہ‘‘ کے حلقہ مدیران میں شامل کرلیے گئے اور عاجز کو کالج کے میگزین ’’المنار‘‘ کے ادارۂ تحریر میں شمولیت کا اعزاز ملا۔ ہم ’’تشحیذالاذہان‘‘اور ’’خالد‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ شاہد احمد (ابن حضرت چودھری علی محمد صاحبؓ بی اے بی ٹی سابق ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز) مجھے ایک اَور جہانِ گم گشتہ میں بھی لے گئے۔ قصرخلافت سے ملحقہ خلافت لائبریری میں الفضل کے پرانے فائل دستیاب تھے جو علم و عرفان اورجماعتی تاریخ کا ایک نادر ذخیرہ تھے۔ مجھے بھی اس مخزن سے مستفیض ہونے کاموقع ملا۔ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی تاریخ احمدیت کا مطالعہ کرتے ہوئے الفضل میں پڑھے ہوئے وہ واقعات یاد آجاتے ہیں۔ پھر الفضل کے خاص نمبر بھی خاص چیز ہوتے۔ مثلاً خاتم النبیینؐ نمبر (۳۱؍مئی ۱۹۲۹ء) کے لیے متعدد غیرازجماعت مشہور ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنے مضامین اور منظومات بھجوائیں۔ الفضل میں علامہ اقبال کے اشعار دیکھ کر بھی خوشی ہوتی۔ اس زمانے میں اختلافات نے گہرے تعصبات کا روپ نہیں دھاراتھا اور اہل دانش وسعتِ قلبی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ پاکستان ریلوے کا ضخیم ٹائم ٹیبل خوبصورت کتابی شکل میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں پورے صفحے کا اشتہار سالہاسال تک شائع ہوتا رہا ہے جس میں الفضل کی امتیازی خصوصیات کا ذکر موجود ہوتا تھا۔ الفضل میں میرے نام کی اشاعت کی ابتدا خبروں سے ہوئی۔ ۱۹۵۷ء یا ۱۹۵۸ء میں ربوہ کے نواحی علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ پانی اترتے ہی خدام کی ٹیمیں منہدم مکانات کی مرمت کے لیے جانا شروع ہو گئیں۔ ایک ایسا ہی گروپ اس عاجز کے ساتھ گیا۔ شام کو ہم لَوٹے تو محترم شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر نے الفضل میں یہ خبرعاجز کے نام کے ساتھ شائع کی۔ پھر احقر کو بی ایڈ کے امتحان میںپنجاب یونیورسٹی میں اوّل آنے پر کانووکیشن کی تقریب میں جناب امیر محمدخان گورنر پنجاب نے گولڈ میڈل عطا فرمایا تو یہ خبر الفضل میں شائع ہوئی۔ ایک اَور خوشگوار یاد یہ ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے یکم جون ۱۹۶۹ء کو مسجد مبارک میں اس خادم کے نکاح کا اعلان فرمایا۔ یہ خطبۂ نکاح الفضل ۲۹؍جولائی۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ میرا تعلق پنجاب کے جس علاقے سے ہے اس کی پنجابی کو بھی درست نہیںمانا جاتا۔ مگر ربوہ کے علمی و ادبی ماحول کا فیض تھا کہ مَیں نے اردو میںمضامین لکھنے شروع کر دیے جن میں سے بعض الفضل میں بھی شائع ہوئے۔ چند خطوط ہفت روزہ لاہور اور روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئے۔ الفضل میں پہلا مضمون غالباً محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سے سواحیلی ترجمہ قرآن کے موضوع پر انٹرویو کی شکل میں تھا۔ بعض مرحومین کی یاد میں مضامین لکھنے کا موقع بھی ملا۔ سیرالیون کے مربی یوسف خالد ڈوروی (Dorwie)، احمد تیجان جالو (Jalloh) پرنسپل احمدیہ سیکنڈری سکول Bo، عرب نژاد احمدی تاجر جمال سکائیکی (Sakaikay) پر الفضل نے خاکسار کے مضامین شائع کیے۔ غالباً ۱۹۶۱ء یا ۱۹۶۲ء کی بات ہے کہ محترم شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر الفضل دو ماہ کی رخصت پر تشریف لے گئے۔ ہائی سکول میں ان دنوں میں تعطیلات تھیں۔چنانچہ خاکسار کو عارضی طور پر الفضل کے دفتر بھیج دیا گیا۔ وہ میری علمی و ادبی زندگی کے بہترین دن تھے۔ مجھے جناب شیخ روشن دین تنویر صاحب اور محترم مسعود احمد دہلوی صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملا۔ یہ باغ و بہار شخصیات علم وادب، فن صحافت پر اتھارٹی اورجماعتی روایات کے حامل، محافظ اور امین تھے۔ ہیوسٹن کے ماہرامراض قلب محترم ڈاکٹر شیخ اعجاز احمد صاحب نے مجھے بتایا کہ مشہور صحافی جناب قاسمی صاحب ہیوسٹن (Houston) تشریف لائے تو ایک تقریب میں صحافت کے کسی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ احمدیوں نے مرزا صاحب کی نبوت تو چلالی مگر الفضل نہ چلاسکے۔ (قاسمی صاحب سے منسوب یہ بات اس سے پہلے مولانا عبدالمجید سالک صاحب نے بھی کہی تھی۔) ڈاکٹر صاحب نے اُن سے عرض کیا کہ الفضل اب بھی ربوہ سے شائع ہورہا ہے بلکہ الفضل کا انٹرنیشنل ایڈیشن لندن سے شائع ہورہا ہے۔ الفضل کے انتظار کی لذت کی کیفیت اُن سے پوچھیئے جنہوں نے حیات مستعار کا زیادہ حصہ مرکز سے دُور دیگر ممالک و امصار و دیار میں گزارا ہے۔ پھر ورائٹی کا یہ عالم آپ کو کسی اَور اخبار میں نظر نہیں آئے گا۔ ولادت اور وفات کی خبریں، نکاح اور رخصتی کے اعلانات، نظام وصیت سے وابستگی کی اطلاعات، حتیٰ کہ وفات کے بعد تقسیم ترکہ کی تفصیل اور ورثاء کی فہرستیں، مقدس اقتباسات، مقالات اور شذرات ان کے علاوہ۔ مجھے سیرالیون میں ۲۹؍سال رہنے کا موقع ملا۔ اس لمبے عرصے میں مرکز سے دوری اور مہجوری کے باوجود الفضل کے ذریعے دوستوں کی غمی، خوشی کی خبریں باقاعدگی سے ملتی رہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں سترہ سال بیت گئے ہیں۔ قریباً نصف صدی پر پھیلے ہوئے اس عرصے میں الفضل سے خبریں اور اطلاعات پڑھ کر مبارکباد اور حسب موقع تعزیت کے خطوط لکھنے کی توفیق ملتی رہی۔ بیماروں کی شفا اور درازیٔ عمر کے لیے ہمیشہ دعا کی توفیق ملی۔ مجھے یقین ہے کہ اکنافِ عالم میں ایسا کرنے والے ہزاروں قارئین ہوں گے۔ الفضل کے مطالعہ کی سب سے بڑی برکت خلفائے کرام سے گہری محبت و عقیدت کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ دوسری بڑی نعمت مرکز سلسلہ سے محبت اور تعلق کی شکل میں ہویدا ہوئی۔ ربوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی دعاؤں، جدوجہد، محبت اور گہری توجہ کا ثمرہ ہے۔ ۱۹۴۸ء میں اس کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ۱۹۵۴ء میں عاجز کو پہلی مرتبہ اس کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ ۱۹۵۵ء میں ہماری فیملی ربوہ منتقل ہو گئی۔ اگر آج مجھے دین کی شُدبُد ہے تو وہ اسی بستی کا فیض ہے۔ الفضل کے مطالعہ سے دینی اور علمی معلومات میں تسلسل سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تحصیل علم کی ایک نہ ختم ہونے والی تڑپ مہیا ہوگئی۔مشنوں کی رپورٹس سے احساس ہوتا کہ ہم بھی اس وسیع تر جدوجہد کا حصہ ہیں۔ اگرچہ ہماری حیثیت ایک معمولی سے پتے کی ہے مگر ایک عظیم شجرسایہ دار کا حصہ ہیں۔ یہ بھی الفضل کا فیض تھا کہ دُوردراز ممالک میں مقیم جماعت کے ممتاز خدام کی رحلت کی خبر پڑھ کر یوں محسوس ہوتا کہ اپنے گھر کا کوئی بزرگ داغ مفارقت دے گیا ہے۔ بلامبالغہ عمری عبیدی صاحب (مشرقی افریقہ)، جناب بشیر آرچرڈ (برطانیہ) اور محترم عبدالسلام میڈسن (سکینڈے نیویا) کے سانحہ ارتحال کی خبر پڑھ کر میرے دلی جذبات کی یہی کیفیت تھی۔ الفضل کے مطالعہ سے معاندین کے مخالفانہ رویے کا علم ہوتا تو لازماً اس کا دل پر اثر ہوتا۔ الفضل ان تمام خبروں کا نہ صرف ریکارڈ رکھتا ہے بلکہ دعا کی تحریک بھی ہوتی ہے۔ بہت سے اخبارات جو اپنے وقت میں بڑی کامیابی سے چل رہے تھے اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ زمیندار، امروز، کوہستان، پاکستان ٹائمز اور سول اینڈ ملٹری گزٹ، اپنے عہد کے مشہور اخبارات تھے۔ اسی طرح ہفت روزہ جرائد اور ماہوار رسائل، قندیل، اقدام، نقاد وغیرہ کا بڑا مقام تھا۔ نقوش نے اپنے خاص نمبروں کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ مگر یہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے مشہور ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘ نے جس کا مَیں تقریباً پچیس سال تک قاری رہا ہوں اپنی اشاعت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ الفضل اسی طرح زندہ و پائندہ ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ ’ن۔ن‘ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہمارے ابّا کو وفات پائے بائیس سال ہوچکے ہیں لیکن ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کا یہ ارشاد بتایا کرتے تھے کہ تم لوگوں کو الفضل کی قدر نہیں ہے اس کی قدر کیا کرو ایک زمانہ آئے گا جب الفضل کا ایک ایک شمارہ ایک ہزار روپیہ کا ملے گا۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے الفضل کو اپنے گھر میں آتے دیکھا۔ہمارے گھر میں الفضل پڑھنے کی چاٹ سب کو اباجان نے ہی لگائی تھی۔ روزانہ پہلے پڑھنے کے لیے ہم سب بہن بھائی ہاکر کا انتظار کیا کرتے تھے۔ چھٹی والے دن الفضل پڑھنے کو نہ ملے تو لگتا تھا آج زندگی میں کچھ کمی سی ہے۔ میری زندگی میں الفضل کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جو تنوع الفضل کے مضامین میں دکھائی دیتا ہے وہ کسی اور اخبار میں نظر نہیں آتا۔ میں تو پسندیدہ مضامین اور نظموں کی کٹنگ رکھ لیتی ہوں اور وقتاً فوقتاً پڑھتی اور مزہ لیتی ہوں۔ خوشی غمی کی خبروں سے دعائیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میں تو اپنی ہر نماز میں الفضل کے بیماروں کے لیے دعائے صحت اور دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کے لیے دعا ئے مغفرت کرتی ہوں۔ اب میں بڑھاپے کی حد میں ہوں مگر مجھے اپنے کالج کا وہ زمانہ یاد آتا ہے کہ جب میں اپنے امتحانی پرچوں میں الفضل کے حوالے دے کر اسلامیات اور دوسرے پرچوں میں پہلی پوزیشن لیا کرتی تھی۔ پھر یونیورسٹی کی کلاسز یاد آتی ہیں کہ مخالفت کے طوفان میں الفضل کی معلومات سے اپنے اساتذہ کو حیران کر دیا کرتی تھی۔ ہماری ایم اے اسلامیات کی کلاس میں قراء ت ،تلفظ اور عام معلومات کے لیے ایک قاری صاحب آیا کرتے تھے۔ ۳۵؍سٹوڈنٹس کی کلاس میں مَیں واحد تھی جس نے نماز صحیح تلفّظ کے ساتھ سنائی۔الحمدللہ الفضل کی اشاعت نے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ابتدائی ربوہ میں ساکنان ربوہ کو ہر معاملے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ربوہ جو آج کل Lush Green ہے آج کی نسل تو یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ ابتدا میں یہاں کیسی مٹی ہوتی تھی جس میں پاؤں دھنس دھنس جاتے تھے۔ہمیں تو وہ مٹی بھی عزیز تھی اور آج کا سرسبز ربوہ بھی عزیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مرکز کی رونقیں تاقیامت قائم و دائم رکھے۔ آمین ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میںمکرمہ مبارکہ افتخار صا حبہ رقمطراز ہیں کہ میری زندگی میں الفضل کی بہت اہمیت ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی محبت میرے اندر نسل در نسل منتقل ہوئی ہے۔ میرے نانا جان حضرت مرزا غلام نبی صاحب مسگرؓ قیام پاکستان سے پہلے امرتسر میں رہائش پذیر تھے۔ وہ دن کا آغازالفضل کے مطالعہ سے کرتے۔ اُن سے یہ عادت والدہ محترمہ امۃ القیوم شمس صاحبہ میں آئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ناناجان کرسی پر بیٹھے الفضل کا مطالعہ کر رہے تھے کہ پڑھتے پڑھتے ہی سر ایک طرف ڈھلک گیا اور آپ وفات پاگئے۔ میری چھوٹی عمر میں والد صاحب فوت ہوگئے تھے امی جان نے تقریباً ۳۳؍سال کا عرصہ بیوگی کی حالت میں گزارا تھا۔ بچے بھی چھوٹے ہی تھے۔ امی جان سے اکثر یہ کہتے ہوئے سنا تھا میں بعض زندگی کے مسائل سے پریشان ہوجاتی تھی اور جب الفضل اٹھاتی تو اتفاق سے اس دن اسی موضوع پر حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات ہوا کرتے تھے جنہیں پڑھ کر پریشانی دُور ہوجاتی تھی اور دل ایک نئی قوت پکڑتا تھا۔ امّی کی ساری زندگی محبت سے الفضل کا مطالعہ کرتے گزری۔ یہاں تک کہ آخری رات بھی سونے سے پہلے کہنے لگیں کہ آج کا الفضل نہیں پڑھا گیا اس کا پہلا صفحہ مجھے پڑھ کر سناؤ۔ مَیں نے حدیث اور ملفوظات سنائے تو انہیں اطمینان سا ہوگیا۔ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ الفضل کا معیار گذشتہ سو سال سے قائم ہے اور اس میں چھپنے والا ہر سلسلہ اپنے اندر معلومات کے گہرے سمندر لیے ہوئے ہے۔ خطبات جمعہ، مضامین، احمدی شعرا ء کی نظمیں جو ہمارے ادبی ذوق کو تسکین پہنچاتی ہیں۔ خاص طورپر شہداء کے بارہ میں نظمیں ایسے لگتا تھا کہ جیسے یہ ہمارے دل کی آواز ہو۔ دعا کے جو اعلانات شائع ہوتے ہیں ہر روز کی دعاؤں میں اُنہیں ضرور یاد رکھتی ہوں۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ بچپن میں ہمارے دادا جان محترم چودھری احمد دین صاحب جوکہ خود زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن جماعتی اخبارات و رسائل کے سننے کا بے حد شوق رکھتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں میں سے جو بھی سکول سے پہلے گھر آ جاتاتھا یا چھٹی کے دن جو بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتا تھا اس پر لازم تھا کہ وہ دادا جان کے ہاتھ میں موجود الفضل یا کوئی رسالہ ہے تو اسے سارا پڑھ کر سنائے۔ کم عمری کی و جہ سے بعض اوقات دادا جان کا یہ فعل طبیعت پر گراں گزرتا لیکن ان کی ہم سب کے ساتھ محبت اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ پورے ادب کے ساتھ ان کے حکم کی تعمیل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے داداجان کو غریق رحمت کرے۔ آپ کے اسی شوق کی وجہ سے جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اپنے گھر الفضل کو رونقیں بکھیرتے ہی دیکھا ہے۔ دادا جان کی وفات کے بعد ہم نے ہمیشہ یہ فریضہ اپنی امی جان کو ادا کرتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گھر میں الفضل نے اسی وقت ناغہ کیا ہے جب اسے پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ روزنامہ الفضل ہو یا الفضل انٹرنیشنل ڈاک سے موصول ہو یا انٹرنیٹ کا سہارا لینا پڑے جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے امی، ابا، بہن، بھائیوں میں تقریباً سب کو اس کا عاشق پایا ہے۔ اب دیار غیر میں ہوتے ہوئے بھی الفضل ہمارے سب ہی گھروں کا ایک ایسا فرد بن گیا ہے جو اگر ناشتے میں کسی و جہ سے شامل نہ ہو سکے تو پھر دوپہر کے کھانے کی بھوک الفضل ہی مٹائے گا۔ ہمارے دادا جان کے چھوٹے بھائی چودھری غلام مصطفیٰ صاحب تھے جن کا دو سال پہلے ۹۰؍سال سے زائد عمر میں وصال ہوا تھا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت لمبا عرصہ بہاولنگر کی ایک جماعت میں صدر بھی رہے ہیں۔ دادا جان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد بھی چودھری صاحب کو الفضل کا دلدادہ پایا ہے۔ چودھری غلام مصطفیٰ صاحب گاؤں کے نمبر دار بھی تھے۔ ۲۳؍سال تک مجھے ان کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے میں نے ہمیشہ ان کے ہاتھ میں اس وقت الفضل دیکھا ہے جب بھی آپ باہر سیر کو جاتے یا ملنے ملانے والوں کے درمیان بیٹھے ہوتے تھے۔ اکثر اوقات ملنے آنے والوں سے ہی الفضل سننے کی فرمائش کرکے سن لیا کرتے تھے۔ ان کے اس عمل نے ہمارے اندر بھی الفضل پڑھنے کا شوق پیدا کر دیا۔ بچپن سے ہی ہم نے اپنے اباجان چودھری نذیر احمد خادم صاحب کو الفضل میں لکھتے دیکھا ہے۔ یہ بات بچپن میں بڑی اہمیت رکھتی ہے بلکہ ابھی بھی ہے کہ گھر سے کسی فرد کامضمون اخبار میں چھپے اور اخبار بھی وہ ہو جو آپ کی پسند کا تو اس کو پڑھنے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔ ۳؍ اگست ۲۰۱۲ء کے الفضل میں یہ پڑھ کر کہ آپ بھی لکھیں خاکسار سے رہا نہ گیا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری زندگی کو بنانے میں اور پھر عملی میدان میں آنے تک الفضل کا بڑا کردار رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم اخبار کو ہمیشہ جاری و ساری رکھے اور ہم اور ہماری نسلیں بھی اسی طرح اس سے مستفید ہوتی رہیں۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں اخبار ’’الفضل‘‘ کے حوالے سے مکرم ناصر احمد سیّد صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: چمن کی آنکھوں میں تیرا رُخِ چنیدہ ہےتمہارا قامتِ زیبا تو حشر دیدہ ہےمرے خیال کو طاقت کہاں تکلّم کییہ تُو نے آپ ہی حرفوں کو آکشیدہ ہےاُدھر بہار ہے تیرے بہشت پہلو میںاِدھر ہر ایک کا چہرہ خزاں رسیدہ ہےیہ کیسی ساعتِ نمرود رُک گئی ہے یہاںکہ روز و شام کا نقشہ ہی سر بُریدہ ہےجہاں پہ کفر کا فتویٰ ہو اِک مسیحا پروہاں پہ ظلم ہی لوگوں کا اب عقیدہ ہےسلام بولتے ہیں لب جسے محمدؐ کےاُسی کی شان میں میرا ہر اِک قصیدہ ہے