اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… حضرت میاں محمد دین صاحب پٹواریؓ (بلانی کھاریاں۔ یکے از 313) روزنامہ ’’الفضل‘‘ یکم نومبر 2011ء میں حضرت میاں محمد دین صاحبؓ پٹواری کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ حضرت میاں محمد دین صاحبؓ 1873ء میں مکرم میاں نورالدین صاحب کے ہاں موضع حقیقہ پنڈی کھاریاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد شاہ پور کے علاقہ میں جھمٹ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جو کھاریاں میں آکر آباد ہوگئے۔ آپ ابتداء ً پٹواری تھے۔ 1889ء میں تقرری موضع بلانی میں ہوئی۔ بعد میں ترقی پا کر گرداور، قانون گو اور واصل باقی نویس بنے۔ 1929ء میں ریٹائر ہوئے۔ حضرت منشی جلال الدین بلانویؓ نے 1893ء میں سیالکوٹ سے اپنے بیٹے حضرت مرزا محمد قیم صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کی چند کتب بھجوائیں۔ انہوں نے حضرت میاں محمد دین صاحب کو ’’براہین احمدیہ‘‘ دیتے ہوئے کہا کہ آپ دوسری کتابیں پڑھتے رہتے ہیں یہ بھی پڑھ کر دیکھیں۔ آپ نے جب کتاب پڑھنی شروع کی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر آپ کو کامل یقین ہو گیا۔ آپ خود رقمطراز ہیں کہ براہین کیا تھی آب حیات کا بحر ذخار تھا۔ براہین کیا تھی ایک تریاق کوہ لانی تھا یا تریاق اربعہ دافع صرع و لقوہ تھا۔ براہین کیا تھی ایک عین روح القدس یا روح مکرم یا روح اعظم تھا۔ براہین کیا تھی، ایک نور خدا تھا جس کے ظہور سے ظلمت کافورہو گئی۔ آریہ، برہمو، دہریہ لیکچراروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اکثر وں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لا یعنی زندگی بسر کررہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں تو معاً میری دہریت کا فور ہو گئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سو یا ہوا یا مرا ہوا … زندہ ہو جاتا ہے۔ سردی کا موسم اور جنوری 1893ء کی 19تاریخ تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا جب میں ’’ ہونا چاہئے‘‘ اور ’’ ہے‘‘ کے مقام پر پہنچا۔ مَیں نے صحن میں رکھے گھڑے کے سرد پانی سے غسل کیا۔ لاچہ (تہہ بند) دھویا اور گیلا لاچہ باندھ کر ہی نماز پڑھنی شروع کی۔ اور لمبی نماز پڑھی جو براہین نے ایسی پڑھائی کہ بعدازاں آج تک میں نے نماز نہیں چھوڑی۔ یہ حضرت مسیح موعود کے ایک عظیم معجزہ کا اثر تھا۔ اس پر میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد دین نہ تھا جو کل شام تک تھا۔ پھر آپ نے بیعت کا خط لکھ دیا اور بعد ازاں 5جون 1895ء کو حضرت مسیح موعودؑسے دستی بیعت کا شرف بھی حاصل کیا۔ حضرت اقدسؑ نے ’’کتاب البریہ‘‘ میں اپنی پُرامن جماعت کے ضمن میں آپؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ 23؍اکتوبر 1906ء کو آپؓ نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ آپؓ کا وصیت نمبر 185ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد حضرت میاں محمد دین صاحبؓ نے قادیان میں سکونت اختیار کرلی۔ پھر 1930ء میں اپنی زندگی وقف کردی۔ چنانچہ سندھ کی زرعی زمینوں کے نگران بھی رہے۔ نیز تقسیم ملک کے بعدقادیان میں درویش کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپؓ نے قادیان میں یکم نومبر 1951ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔ …٭…٭…٭… پردہ… عورت کا حفاظتی حصار روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16ستمبر 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں اسلامی پردہ کی اہمیت پر منفرد انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور بعض نَومسلم خواتین کے پردہ سے متعلق خیالات شامل مضمون کئے گئے ہیں۔ ٭امریکہ سے تعلق رکھنے والی مکرمہ کارلوالاند لوسیا کا موجودہ اسلامی نام شریفہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بطور غیرمسلم مغربی معاشرہ میں رہتے ہوئے نظریۂ شرم و حجاب کی میرے ذہن میں کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ اپنی نسل کی دیگر خواتین کی طرح مَیں بھی اسے ایک فضول اور دقیانوسی چیز شمار کرتی تھی۔ مجھے ان مسلمان عورتوں پر ترس آتا جو برقع پہنے ہوئے یا ’بیڈ شیٹ‘ لپیٹے سڑکوں پر چلتی پھرتی نظر آتیں۔ جب اللہ نے میری راہنمائی فرمائی اور مَیں نے مسلمان ہوکر حجاب پہنا تو بالآخر اس ماحول کے اصل روپ میں دیکھنے کی بھی اہل ہو گئی جس میں مَیں رہ رہی تھی۔ اب مَیں دیکھ سکتی تھی کہ اس سوسائٹی میں زیادہ قدر ان خواتین کی ہوتی ہے جو عوام کے سامنے اپنے آپ کو زیادہ ننگا کر دیتی ہیں مثلاً اداکارائیں، ماڈل گرلز اور ڈانسرز وغیرہ۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ جس نے اسکارف پہننے کے بعد مجھے ایک پہچان دی۔ مَیں ان لوگوں سے دُور ہوتی گئی جو میری روح اور دل سے ہٹ کر میری شناخت کرتے تھے۔ جب مَیں نے سر کو ڈھانپ لیا تو مَیں حسن و جمال کے اشتعال کے باعث ہونے والے استحصال سے بچ گئی۔ جب مَیں نے سر کو ڈھانپا اور لوگوں نے دیکھا کہ مَیں اپنا احترام کرتی ہوں تو وہ بھی میرا احترام کرنے لگے۔ ٭فرانس کی مکرمہ یاسمین صاحبہ کا سابقہ عیسائی نام للی تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ دکھ اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلمان ملک پاکستان میں خواتین پردے کے بغیر کھلے عام گھومتی ہیں۔ فرانس میں تو ہمیں پردے میں دقّت پیش آتی ہے لیکن پاکستان میں تو کوئی وجہ نہیں کہ پردے کے احکامات پر عمل نہ کیا جائے۔ کاش یہ خواتین مغربی تہذیب کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں، تو پھر کبھی اس کی تقلید کی خواہش نہ کریں۔ بے حجابی عورت کو بے وقعت بنا دیتی ہے۔ اسلام نے عورت کو بے حساب عظمت عطا کی ہے … اسلام میں عورت ایک ہیرے کی مانند ہے۔جبکہ مغربی تہذیب میں محض ایک پتھر ہے جو ادھر اُدھر لڑھکا دیا جاتا ہے۔ خدارا مغربی تہذیب کی چکا چوند پر مت جائیے۔ دُور کے ڈھول سہانے ہیں۔ ایک قدم اللہ کی طرف اٹھائیے اللہ خود بڑھ کر آپ کو تھام لے گا۔ ٭بھارت سے تعلق رکھنے والی مکرمہ کملا داس صاحبہ کا اسلامی نام ثریا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے مسلمان عورتوں کا برقعہ بہت پسند ہے۔ مَیں پچھلے 24 برسوں سے پردے کو ترجیح دے رہی ہوں۔ جب کوئی عورت پردے میں ہوتی ہے تو اسے احترام ملتا ہے، کوئی اس کو چُھونے اور چھیڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔اس سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ اس سوال پر کہ کیابرقعہ آپ کی آزادی کو متأثر نہیں کرتا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے آزادی نہیں چاہیے،مجھے اپنی زندگی کو باضابطہ اور باقاعدہ بنانے کے لئے گائیڈ لائن کی ضرورت تھی۔ایک خدا کی تلاش تھی جو تحفظ دے۔ پردے سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ پردہ تو عورت کے لئے ایک بُلٹ پروف جیکٹ ہے۔ ٭جاپانی خاتون مکرمہ خولہ لگاتا صاحبہ پہلے عیسائی تھیں وہ کہتی ہیں کہ اگر چہ میں حجاب کی عادی نہ تھی،لیکن اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کے بعد فوراً ہی اس کا فائدہ محسوس کرنے لگی۔ مسجد میں اسلامی لیکچر میں پہلی مرتبہ شامل ہونے کے چند دن بعد مَیں نے ازخود سکارف خریدا۔ مَیں مسجد اور مسلمان بہنوں کے احترام میں ایسا کرنا چاہتی تھی۔ لیکچر روم جانے سے پہلے مَیں نے وضو کیا اور سکارف پہنا۔ اس تجربے نے مجھے اتنا مسرور اور مطمئن کیا کہ وہاں سے نکلنے کے بعد بھی اس مسرّت کو اپنے دل میں محفوظ کرنے کے لئے مَیں سکارف پہنے رہی۔ عوام میں یہ میرا سکارف پہننے کا پہلا مظاہرہ تھا اور مجھے اپنے اندر ایک فرق کا احساس ہوا۔ مَیں نے اپنے آپ کو پاکیزہ اور محفوظ سمجھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگئی ہوں۔ مَیں اپنے نئے ماحول میں مطمئن تھی۔ حجاب صرف اللہ کی اطاعت ہی کی علامت نہیں تھا بلکہ میرے عقیدے کا برملا اظہار بھی تھا۔ ایک حجاب پہننے والی مسلمان عورت جمِ غفیر میں بھی قابلِ شناخت ہوتی ہے۔ یہ دوسروں کے لئے اللہ تعالیٰ کے وجود کی یاد دہانی، اور میرے لئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے اور سپرد کرنے کی یاد دہانی تھی۔ میرا حجاب مجھے ہوشیار کرتا ہے کہ میرا طرزِ عمل ایک مسلم کی طرح ہونا چاہیے۔ جس طرح پولیس کا ایک سپاہی اپنی وردی میں اپنے پیشے کا لحاظ رکھتا ہے۔ اسی طرح میرا حجاب بھی میری مسلم شناخت کو تقویت دیتا ہے۔ ٭برطانوی ٹیلی ویژن کے عملہ کی ایک خاتون میری واکر صاحبہ Living Islam سیریز کے فلمائے جانے کے دوران مختلف اسلامی ممالک میں گئیں۔ پردہ یا حجاب کے بارہ میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ مَیں دو نائیجیرین خواتین زینہ اور فاطمہ سے ملی جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم یافتہ تھیں لیکن اب مغربی طرزِ زندگی کو چھوڑ کرباپردہ زندگی گزار رہی تھیں۔ جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو اُن کی گفتگو میں مجھے اپنی اقدار پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ نقاب ایسے طرزِ زندگی کو دھتکارنے کا نام ہے جو عورت کی تذلیل کا موجب ہے جبکہ اسلام نے عورت کو عزت و وقار کے ایک بلند مرتبہ پر فائز کیا ہے۔یہ آزادی نہیں کہ تم عورتوں کو برہنہ ہونے پر مجبور کرو صرف اس لئے کہ مرد عورتوں کو برہنہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تو ظلم ہے ظلم۔ جس طرح تمہاری نظروں میں نقاب مسلمانوں کے ظلم کا عنوان ہے بالکل اسی طرح ہماری نظروں میں مِنی سکرٹ اور مختصر بلائوز ظلم کی علامت ہیں۔ مَیری واکر خود کہتی ہیں کہ مغرب میں مرد عورتوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ وہ ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم آزاد ہوچکی ہیں، لیکن در حقیقت ہم مَردوں کی نگاہوں کی اسیر ہوچکی ہیں۔ چاہے مَیں لباس کے بارے میں کتنا ہی اپنی خواہش پر اصرار کروں لیکن مَیں اس بات سے انکار نہیں کرسکتی کہ میرا انتخاب اکثر اس بات کا مرہونِ منت ہوتا ہے کہ مَیں کس لباس میں مَردوں کو زیادہ پُر کشش نظر آئوں گی۔ ایک حد تک مسلمان خواتین مجھ سے زیادہ آزاد ہیں۔ کیونکہ مجھے اپنی قسمت پر اختیار کم ہے۔اب مَیں ان خواتین کو یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ وہ ظلم کا شکار ہیں اور مَیں نہیں ہوں۔ میری زندگی بھی مَردوں کے دائرۂِ اثر سے خالی نہیں جیسا کہ ان کی، لیکن مجھ سے تو انتخاب کی آزادی تک چھین لی گئی ہے۔ان خواتین کے حالات اور دلائل نے بالآخر میری اپنی آزادی کے بارے میں، اپنے تصورات کی خامیوں کو مجھ پر آشکار کر دیا ہے۔ پس حقیقت یہی ہے کہ ہم کو آزادی نہیں عرشی خدا درکار ہے ہم بہت مسرور ہیں پردے میں قصّہ مختصر …٭…٭…٭… مکرم عبدالوہاب احمد شاہد صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21نومبر 2011ء میں مکرم طارق فواد صاحب نے اپنے والد محترم مولانا عبدالوہاب احمد شاہد صاحب سابق امیر و مشنری انچارج تنزانیہ کا ذکرخیر کیا ہے جو 11نومبر 2011ء کو 68سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے 18نومبر 2011ء کے خطبہ جمعہ میں مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ محترم مولانا عبدالوہاب احمد شاہد صاحب کا تعلق گوئی ضلع کوٹلی آزاد کشمیر سے تھا۔ آپ حضرت مولانا میاں محبوب عالم صاحبؓ کے پوتے اور مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب کے بیٹے تھے۔ جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پاکستان میں اور پھر تنزانیہ میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ بعدازاں لمبا عرصہ دارالضیافت میں بطور مربی دعوت الی اللہ متعیّن رہے۔ وفات سے قبل نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ میں خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ آپ نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ آپ بہت متقی، عبادت گزار، دعاگو، دھیمے مزاج اور عجز وانکسار سے خدمت کرنے والے اور خلافت احمدیہ سے عشق و وفا کا تعلق رکھنے والے متوکّل بزرگ تھے۔ آپ نے اپنی بیماری کو بھی صبر سے برداشت کیا۔ہر ایک عیادت کرنے والے کے حال پوچھنے پر یہی کہا کہ شکر الحمد للہ۔ آپ کے ایک عزیز نے کہا کہ صبر تو آپ کر ہی رہے ہیں لیکن اس میں شکر کرنے والی کونسی بات ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ شکر کی یہ بات ہے کہ اس سے بھی بُری حالت ہوسکتی تھی۔ …٭…٭…٭… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29جون 2011ء میں مکرم مبارک احمد عابد صاحب کا کلام شائع ہوا ہے۔ اس کلام میں سے انتخاب پیش ہے: چاند اک دن ملتفت ہوگا میرے سنسار پر آئینے مَیں نے سجائے آس کی دیوار پر بدگماں آکاس بیلیں خاک میں ملتی رہیں پھول پھل لگتے رہے میرے سبھی اشجار پر کوئی دیکھے تو سہی آخر یہ کس کا نور ہے حسن بن کر ضَوفشاں اس نور کے مینار پر قافلے خوشبو کے ہیں یا اس کے قدموں کے نشاں پھول سجتے جا رہے ہیں رہگزار یار پر وہ اسیرانِ قفس اور وہ ہمیشہ زندہ لوگ میری آنکھوں سے ہیں چھلکے عید کے تہوار پر رشک کرتے ہیں چکور اور چاند عابدؔ رات دن اس میرے سروِ خراماں صاحبِ دستار پر