https://youtu.be/1C0ZfGRWAqI عہدیداران خلیفہ وقت کے نمائندے صرف اُس فیلڈ میں ہیں، ہر ایک چیز میں وہ ہر فن مولا تو نہیں ہیں! مربیان تربیت کے لیے اور دوسرے عہدیداران انتظامی معاملے میں نمائندگان ہیں۔اگر ایجنٹ کے وسیع معنی لو، تو نمائندے اِس طرح ہیں کہ انفارمیشن دینی اور اصلاح کرنی ہے۔ جو خلیفۂ وقت کہتا ہے، ان تک پہنچانا اور اس پر عمل کرانا اور خود بھی اس پر عمل کرنا یہ نمائندگی ہے۔یہ نہیں ہے کہ مَیں خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہوں، تو مَیں یہاں نائب خلیفہ بن گیا ہوں، تو مَیں جو مرضی چاہے کرتا رہوں مورخہ ١۱؍ اکتوبر ۲۰۲۵ء ، بروزہفتہ، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ آئرلینڈ کی نیشنل اور ریجنل عاملہ ممبرات کے ایک وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے آئرلینڈ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کے آغاز میں صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ آئرلینڈنے حضورِانور کی خدمت اقدس میں لجنہ کے تنظیمی سال کے اعتبار سے ایک موضوع عطا فرمانے کی مؤدبانہ درخواست کی۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِ ، حیا ایمان کا حصّہ ہے، وہ پیدا کرو۔ مزید برآں حیا کے مضمون کی وسعت اور اس کے عملی پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے حضورِانور نے توجہ دلائی کہ حیا کا بڑا وسیع مضمون ہے۔اس کو سمجھیں، اس کی تفسیر نکالیں، پھر لوگوں کو بتائیں۔لجنہ کو message بھیجیں کہ حیا کیا چیز ہے اور حیا کرنے والا کون ہے۔جو اللہ تعالیٰ کی باتیں ماننے والا ہے، اس کی عبادت کرنے والا ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ہیں اور اسلامی احکامات ہیں، ان پر عمل کرنا اور اپنے تقدس کا خیال رکھنا ضروری ہے، تو یہ ساری چیزیں ہیں۔ آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ بڑا وسیع مضمون ہے، اس کو تلاش کریں اور اس میں سے تھوڑے تھوڑے passageنکال کے لجنہ کو بتاتی رہیں۔ بعد ازاں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضورِانور سے مختلف سوالات کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک لجنہ ممبر نے خدمتِ دین اور اولاد کی تعلیم و تربیت اور دیگر دنیاوی معاملات کے درمیان توازن قائم کرنے کی بابت راہنمائی طلب کی۔ اس پر حضورِانور نے راہنمائی عطا فرمائی کہ پہلی بات تو یہ ہے میرے خطبے سنا کریں، میری باتیں سنا کریں، لجنہ کی تقریروں میں جو میں نے کہا ہے، وہ باتیں سنا کریں۔ یہاں میٹنگ ہوتی ہے، لوگوں میں بےشمار دفعہ مَیں یہ باتیں کہہ چکا ہوں، وہ پروگرام اگر آپ ہر ہفتے دیکھ رہی ہوں، This Weekکے حوالے سے وہ پروگرام جمعے کو آتا ہے، اس میں مَیں ساری باتیں کہہ چکا ہوں کہ کس طرح آپ نے وقت دینا ہے، وہی سوال آپ دُہرا کے لے آئی ہیں۔ گھر میں رہتے ہوئے اولاد کی تعلیم اور دینی تربیت کے عملی طریقے پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نےفرمایا کہ آپ گھر میں رہتی ہیں، housewife ہی ہیں، تو پھر کیا مسئلہ ہے؟ بچے سکول بھیج دیے، تو اسی میں وقت نکال کے اپنا علم بڑھانے کے لیے دیکھیں۔ بچے آئیں تو اُن کو دینی علم سکھائیں، ان کے ساتھ بیٹھیں اور اُن سے پوچھیں کہ آج تمہارا سکول کیسا رہااور کیا کچھ پڑھا، کیا اچھی باتیں اور دوسری چیزیں سیکھیں؟ ان سے آپ کا interaction ہوگا ، تو بچے آپ کو بتائیں گے کہ انہوں نےسکول میں کیا باتیں دیکھیں۔ حضورِانور نے بچوں کے ساتھ interaction، وقت صَرف کرنے اور ان کی دینی راہنمائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ اگر دیکھیں کہ کوئی بُری بات ہےتو ان کو بتائیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے اور ہمیں کس طرح ہونا چاہیے۔ اگر اچھی باتیں ہیں، تو بتائیں کہ یہ اچھی بات ہے اور اسلام کی تعلیم اس پر کیا کہتی ہے۔ اس طرح بچوں کے ساتھ بیٹھیں، interaction کریں، آپس میں بات چیت کریں، پھر انہیں کھلائیں پلائیں اور رات کو جو homework کرنا ہے وہ کریں، اور پھر سو جائیں تاکہ بچوں کو پتا ہو کہ ماں ہماری باتیں سنتی ہے، پوچھتی ہے اور ہمارے درمیان interaction ہوتا ہے، اور weekend پر ان کو زیادہ وقت دیا کریں۔ ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور سے پوچھاکہ احمدی خواتین اور بچیوں کے لیے ان کے پروگراموں کو مزید دلچسپ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس پر حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ آپ سیکرٹری تعلیم ہیں؟ اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نے سیکرٹری تعلیم کے بنیادی مقصد کو دینی تعلیم قرار دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ سیکرٹری تعلیم کا مطلب یہاں صرف دنیاوی تعلیم نہیں ہے، لجنہ کی جو سیکرٹری تعلیم ہوتی ہے اس کا مقصد دینی تعلیم ہے۔ اس کے لیے آپ دیکھیں کہ کس طرح ان کے لیے ایسے پروگرام بنا سکتے ہیں، جس سے ان کو دلچسپی پیدا ہو، دینی تعلیم سے ان کے competition بھی ہوں۔ صرف ایک سال کے بعد اجتماع پر ایک competition رکھ دیا، تھوڑے بہت تعلیمی مقابلے ہو گئےتو کوئی بڑی بات نہیں۔ حضورِانور نے لجنہ اور ناصرات کی کُل تعداد کی بابت استفسار فرمایا جس پر عرض کیا گیا کہ ۲۱۴؍ لجنہ اور ۳۳؍ ناصرات ہیں۔ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے پُر شفقت انداز میںفرمایا کہ یہاں تو ایک محلے میں اس سے زیادہ ناصرات ہوتی ہیں، اس میں کون سا بڑا مسئلہ ہے کہ مَیں کس طرح پروگرام بناؤں؟ حضورِانور نے ناصرات سے ذاتی رابطے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تلقین فرمائی کہ ہر حلقے میں ہر ایک کو personally آپ کوapproach کرنا چاہیے اور جو respective سیکرٹری ناصرات ہیں ان کو کہیں کہ وہ اپنے اپنے حلقے میں ان سے contact کریں، باتیں کریں اور ان کو ایک پروگرام بنا کے دیں۔ حضورِانور نے اس اہم امر کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ صرفcompetition کے لیے نہیں، آپ نے دین، دین کے لیے سکھانا ہے، یہ نظریہ ہونا چاہیے۔ صرف آپ لوگ کہیں کہ ایک اجتماع پر competition ہو گیا تو کافی ہے، وہ تو motivate کرنا ہے، اور سوال یہ ہے کہ کس طرحmotivate کرنا ہے؟اس ضمن میں ماؤں کی تربیت کے حوالے سے ہدایت فرمائی کہ اس کے لیے پہلے تو ماؤں کی تربیت کریں کہ تم لوگوں کا کام ہے کہ خود دین سیکھو، خود نمازوں کی طرف توجہ کرو، قرآنِ کریم پڑھو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو اور اسی طرح جماعت کا لٹریچرپڑھو۔ جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کی بابت حضورِانور نے فرمایا کہ ایک سال کے لیے یا سال میں ایک دو کتابیں prescribe کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے دریافت فرمانے پر عرض کیا گیا کہ امسال مقرر کردہ کتاب ‘‘برکات الدعا’’ ہے۔ یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ تو اس کے تھوڑے تھوڑےpassages نکال کے لجنہ کو بھیجیںجو ہر ایک کو چلا جائے۔ وہ پڑھیں اور جب وہ پڑھیں گی تو ان کو سمجھ آئے گی، اگر ان کو سمجھ نہیں آتی تو اس کو سمجھائیں، explain کریں اور پھر جب وہ سمجھ جائیں تو وہ اپنے بچوں کو بھی سمجھائیں۔ حضور ِانور نے اس بات پر زور دیا کہ یہ صرف تنظیم کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ consolidated کوشش ہوتی ہے، جو ماؤں، تنظیم اور جماعت سب کی مل کے ہوتی ہے۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اس طرح جب آپ کریں گی تو پھر بچوں کو سمجھ بھی آئے گی۔ صرف سال کے آخر میں ایک اجتماع کے لیے competition رکھ دیا، اس میں بعض لوگ تیاری کر کے آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت تیاری کی ہے، بعض مائیں ضدی ہوتی ہیں، وہ کہتی ہیں ہمارا بچہ زیادہ تیاری کر کے آیا تھا، اس نے اچھا پڑھا تھا، توآپ نے اس کو انعام نہیں دیا اور فلاں کو انعام دے دیا۔ تو ان کو کہیں کہ مقصد انعام لینا نہیں ہے، مقصد یہ ہے کہ دینی علم حاصل ہو، اِس کے لیے تم تیاری کرو۔ یہ تو ایک extra اِیونٹ ہے، جو اجتماعوں پر ہوتا ہے کہ competition ہو گیا۔ حضورِانور نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئےمقابلہ جات کے لیے ججز کے انتخاب کے بارے میں بھی اصولی راہنمائی عطا فرمائی کہ مختلف جگہوں سے تین نیوٹرل ججز رکھیں اور ججوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس نے اچھا پڑھا یا نہیں۔ اس میں یہ نہ ہو کہ ایک ہی ریجن سے آپ نے competitions کے لیے جج لے لی اور اس نے فلاں کو فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ پرائز دے دیا۔ حضورِانور نے سیکرٹری تعلیم کو اپنے کام میں بہتری پیدا کرنے کے حوالے سے ناصرات اور لجنہ کے مشورے شامل کرنے کی بھی ہدایت فرمائی کہ ناصرات کا جہاں تک سوال ہے تو بارہ سے پندرہ سال تک کی ناصرات اور لجنہ کا جہاں تک سوال ہے تو سولہ سے پچیس سال تک کی لجنہ سے خود پوچھیں کہ سیکرٹری تعلیم کا یہ کام ہے، اس کو ہم مزید کس طرح بہتر کر سکتے ہیں، تمہارا کیا مشورہ ہے، کس طرح ہم دینی علم مزید سیکھ سکتے ہیں؟ تو اُن کے مشورے بھی لیں، پھر اِس کو اپنے پروگرام میں ڈالیں۔ ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ کیا ایک احمدی کے لیے صرف کورٹ میرج یا قانونی شادی اکٹھے رہنے کے لیے کافی ہے، یعنی کیا کوئی جوڑا صرف کورٹ میرج کر کے نکاح کیے بغیر اکٹھے رہ سکتا ہے؟ اس پر حضورِانور نے قانونی شادی کے سماجی پہلو اور نکاح کی شرعی حیثیت کی بابت راہنمائی عطا فرمائی کہ قانوناً تو شادی یا نکاح لوگوں کے سامنے ایک اعلان ہے کہ ہم میاں بیوی ہوگئے ہیں اور کورٹ میں رجسٹرڈ ہو گئے ہیں۔ اگر فیملی نے اس کو accept کر لیا تو ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حضورِانور نے نکاح کے دینی پہلو اور اسلامی طریق پر عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس حقیقت کو بھی واضح فرمایا کہ لیکن نکاح کا اسلامی طریقہ ضروری ہے، وہ ہونا چاہیے۔جماعت اس کو رجسٹر نہیں کرے گی جب تک نکاح نہیں ہوگا۔ ٹھیک ہے قانونی طور پر وہ میاں بیوی ہیں اور معاشرے میں یہ اعلان ہے، لیکن اسلامی طریقہ نکاح کا بہرحال لازمی ہے، جس میں حق مہر بھی مقرر ہوتا ہے، حقوق بھی قائم ہوتے ہیں اور عورتوں اور مردوں کے حقوق کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ نکاح کے اسلامی طریق سے غفلت برتنے کے نتائج کی بابت حضورِانور نے متنبّہ فرمایا کہ پھر کورٹ میں جا کے لڑائیاں کرتے رہتے ہیں۔ جس نے کورٹ میرج کرا لی اور جماعت کے پاس نہیں آیا، وہ احمدی نہیں ہے، اپنے آپ کو احمدی نہیں کہتا۔پھر زبردستی تو آپ کسی کو نہیں کہہ سکتی کہ تم احمدی بنو۔ نیز نظامِ جماعت کے وقار کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ہدایت فرمائی کہ جو شخص کہے کہ وہ اپنی شادی رجسٹر نہیں کرائے گا، اُس کے متعلق جماعت کو رپورٹ کی جائے اور جماعت اُس کاAIMSکارڈ منسوخ کرے گی۔ ایک لجنہ ممبر نے عرض کیا کہ اسلام کے خلاف جذبات اپنے عروج پر ہیں، مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ معاشرے میں ضم نہیں ہوتے ، جبکہ دوسری طرف وہ مغرب کو امتیازی سلوک کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ ایسے جذبات کے پیدا ہونے میں ہماری اپنی کیا ذمہ داری ہے اور ہم ان افراد کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟ اس پر حضورِانور نے نہایت جامع راہنمائی عطا فرمائی کہ یہ تو ٹھیک ہے، اگر ہماری غلطی ہے تو غلطی ماننی چاہیے اور integrate ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے آپ کو isolate نہیں رکھنا چاہیے۔ اُن کے ساتھ پوری طرح involve ہوں اور ان کی activities میں لجنہ کے ساتھ interaction بھی ہو۔ حضورِانور نےہدایت فرمائی کہ عورتوں کے ساتھ سیمینار کریں اور ان کو بلائیں اور پیس کانفرنس یا اور چھوٹے موٹے مذہبی سیمینار وغیرہ کریں، اس میں ان کو بلایا کریں اور آدھے پونے گھنٹے کا address اور کچھ ریفریشمنٹ وغیرہ ہو تا کہ ان کو تعارف حاصل ہوجائے۔ مزید برآں حضورِانور نے Integration کے حوالے سے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور دینی شناخت کو قائم رکھنے کے کی بابت بھی تاکید فرمائی کہ جو اس ماحول میں رہتے ہیں، اس ایریامیں آپ لوگوں کی واقفیت ہونی چاہیے تاکہ تبلیغ ہو۔ integrate ہونے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ جا کر کلب میں بیٹھ جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہمسایوں سے تعلقات بنائیں اور تعلقات بڑھانے چاہئیں۔ اس بارے میں کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں۔ اگر ہم یہ نہیں کرتے تو ہمارا قصور ہے اور پھر وہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ حضورِانور نے ملک کے ساتھ وفاداری کے حقیقی تصوّر کو بھی واضح فرمایا کہ احمدیوں کو اپنی خدمات سے ملک کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دینا چاہیے۔ اگر جماعت کہتی ہے کہ ہماری ملک کے ساتھ loyalty ہے تو اس loyalty کا ثبوت ہونا چاہیے کہ ہم ملک کو ڈاکٹر، ٹیچر یا انجینئر کے طور پر یا کسی بھی طرح کی service ہو، serve کر رہے ہیں یا بعض لوگ آرمی میں بھی شاید چلے جاتے ہیں۔ حضورِانور نے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ integrate اس طرح نہیں ہوناکہ جا کر کلب میں بیٹھیں یا اُن کی طرح حجاب اُتار دیں اور فراکیں پہننی شروع کر دیں اور mini skirt پہننا شروع کر دیں یا گرمیوں میں بے حیا لباس پہننا شروع کر دیں، حالانکہ سردیوں میں تو انہوں نے بھی جسم ڈھانکا ہوتا ہے۔ تو یہ چیزیں integrate ہونے والی علامتیں نہیں ہیں۔ پھر حضورِانور نے حقیقی Integration کی بنیاد خدمتِ وطن پر اُستوار کرنے کی بات تلقین فرمائی کہ integrate ہونا یہ ہے کہserve the country، وہ اگر آپ کر رہی ہیں تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں کر رہیں تو اپنی لجنہ کو educate کریں کہ تمہیں اس طرح ہونا چاہیے۔ اوّل تو اکثر کر ہی رہی ہوں گی ، بس complex نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سروس کر رہے ہیں، ہم ملک کے loyal بھی ہیں، اورloyalty کیا ہے، یہی ہے کہ ملک کے خلاف بات نہیں کرنی، ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے سروس کرنی ہے۔ حضورِانور نے توجہ دلائی کہ آپ عہد کرتی ہیں، اس میں بھی آپ یہ کہتی ہیں کہ ملک کی ترقی کے لیے کوشش کریں گے۔ ہر ذیلی تنظیم کا یہ عہد ہے، تو جو نہیں کرتے ان کو سمجھائیں۔ مَیں تو اس بارے میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ میرے اس بارے میں بے شمار addresses ہیں، ان کو پڑھ کے، اس میں سے passage نکال نکال کے لوگوں کو دیا کریں۔ ایک سائل نے عرض کیا کہ چونکہ عہدیداران حضورِانور کے نمائندے کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں، بعض اوقات جماعت کے ممبران اور ذیلی تنظیم کے عہدیداران ان سے سوال کرنے یا اپنی رائے پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ بعض اوقات خود عہدیداران یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی رائے ہمیشہ درست ہے اور ذیلی تنظیم کے عہدیداران بھی یہی خیال کرتے ہیں، کیونکہ وہ عہدے پر فائز ہیں۔ اس حوالے سے دریافت کیا کہ اس کےلیے ایسے عہدیداران اور جماعت کے ممبران دونوں کے لیے پیارے حضور کی کیا راہنمائی ہے؟ اس پر حضورِانور نے نمائندگی کے حقیقی مفہوم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ سوال یہ ہے کہ نمائندے صرف اس فیلڈ میں ہیں، ہر ایک چیز میں وہ ہر فن مولا تو نہیں ہیں! مربیان تربیت کے لیے اور دوسرے عہدیداران انتظامی معاملے میں نمائندگان ہیں۔ اگر ایجنٹ کے وسیع معنی لو، تو نمائندے اس طرح ہیں کہ انفارمیشن دینی اور اصلاح کرنی ہے۔ جو خلیفۂ وقت کہتا ہے، ان تک پہنچانا اور اس پر عمل کرانا اور خود بھی اس پر عمل کرنا یہ نمائندگی ہے۔یہ نہیں ہے کہ مَیں خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہوں، تو مَیں یہاں نائب خلیفہ بن گیا ہوں، تو مَیں جو مرضی چاہے کرتا رہوں۔ وہ غلط ہے۔ اگر ہر ایک امیر یہ سمجھے کہ اپنے حلقے میں میری بھی وہی ذمہ داریاں ہیں جو خلیفہ کی ہیں، تو وہ عبادت کی طرف بھی زور دے گا ، سچائی کی طرف بھی زور دے گا ، اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں رکھے گا ، لوگوں سے پیار، محبت اور شفقت کا سلوک بھی کرے گا ، اُن کی رائے کا اظہار بھی کرے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں کہا کہ لوگوں سے مشورہ کیا کرو، اُن سے سختی سے پیش نہ آیا کرو، اگر تم سختی سے پیش آؤ گے تو لوگ دَوڑ جائیں گے۔ ہاں!مشورہ کرو اور اس کو analyse کرو ، پھر اس کے بعد جو تم نے فیصلہ کرنا ہے کرو ، لیکن نرمی اور پیار سے سلوک کرو۔یہ تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے دیا، تو ہم، مَیں، تم اور آپ اس پر عمل نہ کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟ جو عہدیدار یہ کرتا ہے، وہ غلط کرتا ہے، ان کا تکبّر ہے۔ اس لیے مَیں اکثر خطبےدیتا رہتا ہوں۔ابھی دو سال پہلے بھی مَیں نے عہدیداروں کو سمجھانے کے لیے یہ خطبہ دیا تھا ، جس نے نہیں سمجھنا، وہ نہ سمجھے ، کیا کر سکتا ہوں؟ میرا کام سمجھانا ہی ہے۔یہی قرآنِ شریف میں لکھا ہوا ہے کہ سمجھاتے رہو، عہدیداروں کو وقتاً فوقتاً سمجھاتا رہتا ہوں، اور جو متکبر ہیں، مغرور ہیں وہ arrogance ختم ہونی چاہیے۔ ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ وہ لجنہ ممبرات جو جماعت کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں، لیکن خود کو اِس قابل نہیں سمجھتیں یا اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں رکھتیں، اُن کے لیے آپ کی کیا راہنمائی ہے؟ حضورِانور نے اس بات پر اظہارِ خوشنودی فرمایا کہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے، اگر کوئی سمجھے کہ میرے میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ مَیں کام کر سکوں۔ خود کام کرنے کی خواہش نہیں کرنی چاہیے، لیکن جب کام مل جائے تو اُس کو کرنا چاہیے۔ عاجزی، humility اور humbleness تو ہونی چاہیے۔ وہ تو بڑی اچھی بات ہے۔اور خود اپنے آپ کو پیش بھی نہیں کرنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ اپنے آپ کو کہو کہ مَیں اس عہدے کےلیے بہتر ہوں ، تو مجھے یہ عہدہ دیا جائے یا خدمت دی جائے۔ ہاں! اگر جماعت خدمت دے دےتو پھر جو بھی اپنی پوری صلاحیتیں ہیں ان کے ساتھ وہ کام کرنا چاہیے۔ آخر میں حضورِانور نے خدمت دین کو فضلِ الٰہی سمجھنے اور اسے انجام دینے کی بابت توجہ دلائی کہ ان کو صدر صاحبہ یا تربیت والی سمجھائیں کہ تمہیں کام کرنا چاہیے اور بس۔ خدمتِ دین کو اک فضلِ الٰہی جانو ان کو یہ بتائیں، تو پھروہ کام کریں گی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: گفتگو کا سلیقہ