عائلی مسائل اور ان کا حل اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مرد اور عورت کی علیحدگی کو ناپسندیدہ لیکن مجبوری کی صورت میں جائز قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی، طبیعتیں نہیں ملتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ ۳۱؍جولائی۲۰۰۴ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍اپریل۲۰۱۵ء) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنعلیحدگی کی صورت میں بعض اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئےفرماتے ہیں :’’ خلع اور طلاقوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ خوفناک صورتحال ہے۔ یہ ایک جگہ قائم نہیں بلکہ میں نے جائزہ لیا ہے ہر سال خلع اور طلاقوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں فریق کچھ سچ کچھ جھوٹ بول کر اپنا کیس مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آپس میں بعض غلط بیانیاں کر کے اپنا اعتماد ایک دوسرے کے لئے کھو دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا۔ یہ بات میرے لئے قابلِ فکر اس لئے ہے کہ خلع کی تعداد جماعت میں بہت بڑھ رہی ہے اور خلع لڑکیوں کی طرف سے، عورتوں کی طرف سے لیا جاتا ہے۔ جیساکہ میں نے بتایاجرمنی میں بھی افسوسناک صورتحال ہے۔‘‘ مزید فرمایا:’’طلاق اور خلع اسلام میں گوجائز ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے اور مکروہ ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی کراھیۃ الطلاق حدیث ۲۱۷۸) پس ایک مومنہ اور مومن کی شان تو یہ ہے کہ اگر بامرمجبوری ایسی باتوں سے واسطہ پڑ بھی جائے تو پھر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے حق بات کہو۔ سچ کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو، کیونکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ ۲۵؍جون۲۰۱۱ء) (ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۸۳-۱۸۴) مزید پڑھیں: لمحاتِ وصل جن پہ ازل کا گمان تھا