احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ وہ شجرہ طیبہ مبارکہ ثابت ہوا کہ تب سے لے کرآج تک اس کے تازہ بتازہ پھل مردہ دلوں کے لیے حیات ابدی کاپیغامبرثابت ہورہے ہیں
خط اور دونوں اشتہارات کی بابت بعض دلچسپ امور
یہ خط مرتضائی پریس لاہورسے طبع ہوا۔اور ان خطوط اور اشتہارات کی تاریخ طباعت فروری ۸۵ء کاآخر اور مارچ ۱۸۸۵ء ہے۔اور اس خط کی طباعت مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کے ذریعہ ہوئی۔اور حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ ان کوچھپواکرلانے کے لیے لاہوربھیجے گئے۔ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب ان دنوں لاہورمیں رہائش پذیرتھے۔چنانچہ ۹؍فروری ۱۸۸۵ء کوحضرت اقدس علیہ السلام ایک خط میں اسی خط کی طباعت کی بابت مولوی صاحب کوتحریرفرماتے ہیں: ’’مسودہ خط شکستہ آں مخدوم جومحمدشاہ نام ایک شخص نے مجھ کودیاہے۔مجھ سے اچھی طرح پڑھا نہیں گیا۔دوسرامسودہ جوشمس الدین کے ہاتھ کالکھاہواہے۔پڑھ لیا اس عاجز نے محض اتمام حجت کی غرض سے یہ قصدکیاہے۔بعداجرائے نوٹس اگرکوئی مقابلہ کے لیے آیایانہ آیا۔بہرحال اتمام حجت ہے اور اِحْدَی الْحُسنَیَیْنِسے خالی نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔عمرکااعتبارنہیں جس قدرجلدی ہوبہتر ہے اخیر خط میں یہ عبارت ضرورچاہیے کہ اگرکوئی شخص آنے کاارادہ کرے تو اوّل بذریعہ درخواست اپنے ارادہ سے مطلع کرے۔میاں عبداللہ پٹواری جواس کام کے لیے گئے ہوئے ہیں ان کوآپ فہمائش کردیں کہ دوہزار اشتہارانگریزی لے کرقادیان آجائیں۔اور خطوط بعدمیں پہنچ جائیں گے۔ان کازیادہ توقف کرنا ضروری نہیں۔‘‘(حیات احمدؑ جلددوم صفحہ ۴۰۱)
اسی مضمون اور مزیدتاکیدکاخط حضرت منشی محمدعبداللہ سنوری صاحبؓ کے نام ۹؍فروری کوہی لکھاہواہے۔لیکن معلوم ہوتاہے کہ ان کی طباعت فروری کے آخرتک نہیں ہوئی ہوگی۔یاکم ازکم حضرت اقدس ؑکے علم میں نہیں آسکی۔کیونکہ یکم مارچ ۸۵ء کوحضرت منشی عبداللہ سنوریؓ صاحب جوکہ اسی کام کے سلسلہ میں لاہورمیں تھے آپ ایک خط میں تحریرفرماتے ہیں : ’’مناسب ہے کہ آپ جلد ترکچھ خطوط مطبوعہ ساتھ لے کر (اگرسب کالاناممکن نہ ہو) آجائیں کہ بہت دیرمناسب نہیں …اگرتین روزاور ٹھہرکرکام ہوسکتا ہوتو ٹھہرجاویں ورنہ آجائیں۔‘‘(مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ ۱۹۶خط بنام حضرت منشی صاحبؓ یکم مارچ ۸۵ء،مکتوب نمبر ۶)
چنانچہ یہ خط انہیں دنوں میں قادیان پہنچ گیا مع دونوں اشتہارات کے،چنانچہ اسی خط کے آخرپر جوتاریخ لکھی گئی وہ ۸؍مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍جمادی الاوّل۱۳۰۴ھ تھی (بحوالہ حیات احمد جلد دوم صفحہ ۴۲۵)
انگریزی اشتہاربھی لاہور کے ایک پریس Ripon Press ,Lahore سے طبع ہوا۔جس کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب تھی۔ اردواشتہارسے انگریزی ترجمہ مولوی نجف علی صاحب برادرڈاکٹرعبدالغنی صاحب جلالپورجٹاں کے ذریعہ کرایاگیاتھا۔ مولوی نجف علی صاحب ایک اہلحدیث نوجوان تھے اورانہوں نے بیعت بھی کرلی تھی ۔لیکن بعد میں مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کے زیراثر مخالفانہ رَومیں بہ گئے۔
اس انگریزی اشتہار کے لیے الٰہی بخش اکونٹنٹ صاحب کی مساعی بھی شامل رہی ہوگی۔چنانچہ حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ اس کے ترجمہ کے لیے مجھے میاں الٰہی بخش اکونٹنٹ لاہورکے پاس بھیجاتھا اور فرمایاتھا کہ وہیں لاہورمیں اس کاترجمہ کراکے چھپوالیاجائے‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۳۲۱)
اب ان اشتہارات کوہندوستان کے طول وعرض میں مختلف نامور احباب کوبھیجنے کامسئلہ تھا۔ان کے نام پتے اور ایڈریس کی تلاش ایک دوسرااہم مسئلہ تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ آپ کے دیرینہ رفیق حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب ؓکویہ تاریخی خدمت کرنے کااعزازنصیب ہوا۔ مختلف طریقوں سے انہوں نے ہندوستان کی وسیع سلطنت میں مقیم پادریوں،عیسائی راہنماؤں،پنڈتوں،آریہ سماجی اور برہموسماجی لیڈروں اوردیگرمذاہب کے سربرآوردہ لوگوں کے نام پتے تلاش کیے اور پھرہرایک کوبذریعہ رجسٹرڈ یہ خط اور اشتہاربھیجے گئے۔ہندوستان میں اس وقت میں رجسٹرڈ پوسٹ کاخرچ بھی چارآنے کی خطیررقم پرمشتمل تھا۔
ایک خط جوکہ حضرت چودھری رستم علی صاحب ؓکے نام لکھاگیا۔اس میں حضرت اقدسؑ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ایک خط انگریزی اور ایک اشتہارانگریزی بھیجاجاتاہے کسی زیرک اور منصف مزاج کوضروردکھاویں۔یہ خطوط انگریزی تمام پادری صاحبان ہندوستان وپنجاب کی خدمت میں بھیجے گئے ہیں۔اورنیز پنڈتوں کے پاس بھی بھیجے گئے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں اور ہرایک بصیغہ رجسٹری بصرف ۴(آنہ)روانہ کیاگیاہے …‘‘ (مکتوبات احمدؑ جلددوم صفحہ۴۶۴، مکتوب نمبر۷، مرقومہ ۲؍اپریل ۱۸۸۵ء)
ہندوستان سے باہردنیابھرکے ملکوں کے لیے بھی حتّی الوسع کوشش کرکے ایڈریس تلاش کیے گئے۔چنانچہ حضرت عبداللہ سنوری صاحبؓ ہی بیان فرماتے ہیں: ’’بڑے اہتمام کے ساتھ تمام دنیاکے مختلف حصوں میں بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک اس کی اشاعت کی گئی۔چنانچہ تمام بادشاہوں وفرماں روایان دُوَل و وزراء ومدبرین ومصنفین وعلماء دینی ونوابوں وراجوں وغیرہ وغیرہ کویہ اشتہار ارسال کیاگیا اور اس کام کے لیے بڑی محنت کے ساتھ پتے حاصل کیے گئے اور حتّی الوسع دنیاکاکوئی ایسامعروف آدمی نہ چھوڑا گیا جوکسی طرح کوئی اہمیت یااثریاشہرت رکھتاہواورپھراسے یہ اشتہار نہ بھیجاگیاہو کیونکہ حضرت صاحب نے فرمایاتھا کہ جہاں جہاں ہندوستان کی ڈاک پہنچ سکتی ہے وہاں وہاں ہم یہ اشتہاربھیجیں گے…‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۳۲۱)
آپؑ اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں رقم فرماتے ہیں : ’’تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیانِ ملک کے نام روانہ کیے۔یہاں تک کہ ایک خط اورایک اشتہاربذریعہ رجسٹری گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد کے نام بھی روانہ کیااور وزیراعظم تخت انگلستان گلیڈسٹون کے نام بھی ایک پرچہ اشتہار اور خط روانہ کیاگیا۔ایساہی شہزادہ بسمارک کے نام اور دوسرے نامی امراء کے نام مختلف ملکوں میں اشتہار ات وخطوط روانہ کیے گئے جن سے ایک صندوق پرہے۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۵۶،حاشیہ)
ایک اَورخط جوکہ سیدمظہرحسین الٰہ آبادی صاحب کے نام لکھاگیاتھا اس میں آپؑ تحریرفرماتے ہیں:’’اورقریب تیس ہزارکے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لیے اشتہارات تقسیم کیے گئے۔ اورآٹھ ہزار انگریزی اشتہاراور خطوط انگریزی رجسٹری کراکر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اورپھراس پراکتفا نہ کرکے انگلستان اور جرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کیے گئے۔ چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہدتخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈسٹون وزیراعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے۔چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھراہواہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلداول صفحہ ۶۴۹مکتوب نمبر۱،مرقومہ اگست ۱۸۸۸ء)
سو یہ اشتہاردنیابھرکے ملکوں میں بھیجاگیا۔امریکہ بھی بھیجا گیا اوروہاں بھی اس کی شہرت ہوئی۔الیگزنڈررسل ویب اور بعض دیگرلوگوں نے اسی پس منظرمیں قادیان رابطہ کیا۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیااورآسٹریابھی یہ اشتہاربھیجاگیا۔فرانس،جرمنی اورانگلستان میں بھی یہ اشتہاربھیجاگیا۔یونان،روم اور روس میں بھی بھیجاگیا۔عرب ممالک میں بھی یہ اشتہاربھیجاگیا۔اور یوں اس اشتہارکے ذریعہ اسلام کی حقانیت،قرآن کی صداقت اور بانئ اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺکی عظمت اور حیات ابدی اور تمام ادیان پرفضیلت وبرتری کاپیغام عام کیاگیا اور دنیا کی نگاہیں قادیان کی بستی کی طرف اٹھنےلگیں کہ جہاں سے اب سچائی کایہ سورج طلوع ہورہاتھا۔ اور یوں براہین احمدیہ کاشہرہ عام ہونے لگا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام براہین احمدیہ کی مقبولیت و شہرت کے بارے میں ایک لیکچر میں فرماتے ہیں : ’’اس کا نسخہ مکہ، مدینہ، بخارا تک پہنچا۔ گورنمنٹ کے پاس اس کی کاپی بھیجی گئی۔ ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، برہمنوؤں نے اسے پڑھا اور وہ کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ شہرت یافتہ کتاب ہے۔ کوئی پڑھا لکھا آدمی جو مذہبی مذاق رکھتا ہو اس سےبے خبر نہیں۔‘‘(لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۵۵)
براہین احمدیہ ایک صوراسرافیل ثابت ہوئی کہ جس نے مردہ جسموں میں ایک زندگی بخش دی ۔براہین احمدیہ نے ایک ایساحشربپا کردیا کہ لوگ مایوسی اور ناامیدی کی قبروں سے اٹھ کرکشاں کشاں قادیان کی بستی کی طرف امڈتے چلے آنے لگے ۔براہین احمدیہ نے ایک ایساانقلاب برپاکردیا کہ گونگوں کی زبان پرالٰہی معارف جاری ہونے لگے ۔ صدیوں کے اندھے بیناہونے لگے۔براہین احمدیہ وہ شیریں پھل ثابت ہواکہ جس کی شہدکی سی حلاوت نے مُردہ جسموں میں جان ڈال دی اورایک نئی زندگی کی روح پھونک دی ۔اور براہین احمدیہ وہ شجرہ طیبہ مبارکہ ثابت ہوا کہ تب سے لے کرآج تک اس کے تازہ بتازہ پھل مردہ دلوں کے لیے حیات ابدی کاپیغامبرثابت ہورہے ہیں ۔
براہین احمدیہ کی اشاعت پرسعیدروحوں کا والہانہ استقبال،اخبارات اور کتب ورسائل میں اس کے متعلق تبصرے اور ریویو اور اس کے انقلاب آفریں اور روح پرور اثرات کی ایک طویل تاریخ اورداستان ہے ۔قدرے اختصارسے اس کی ایک جھلک قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے ۔
مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں اور مولوی محمدشریف صاحب نے اپنے رسالہ منشورمحمدی میں زبردست ریویو کیے ۔ حضرت صوفی احمدجان صاحب توگویا نہال ہوگئے اور بے اختیار کہہ اٹھے کہ تم مسیحابنوخداکے لیے …! اسلام کی محبت اپنے دلوں میں رکھنے والوں کے لیے براہین احمدیہ توگویاعیدکاچاندتھی کہ ہرکوئی جس نے دیکھا وہ خوشی سے چیخ اٹھااور مطمئن ہوگیاکہ اسلام کے چاہنے والوں کی فریادسنی گئی۔اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی پکارعرش پرقبولیت کاشرف پاہی گئی ۔
براہین احمدیہ نے پورے ہندوستان میں ایک ایسا زلزلہ برپا کردیا کہ صرف مسلمانوں نے ہی نہیں غیروں نے بھی پوری شدت سے محسوس کیااور محبت وعقیدت اورحسدوبغض اور تائیدومخالفت میں،اپنی اپنی فطرت کے مطابق ردعمل کے بغیر کوئی بھی رہ نہ سکا۔محبت وعقیدت کے رنگ میں جو ردعمل تاریخ کی کتب میں محفوظ رہ سکے ان میں سے کچھ پیش خدمت کیے جاتے ہیں۔
براہین احمدیہ کا سب سے پہلا اثر مسلمانوں کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ کئی مخلص اور دردمند راہنماؤں کی کوششوں کے باوجود یہ کشتی تند طوفانوں میں ہچکولے کھا رہی تھی اور حقیقت میں کسی مرد غیب کی منتظر تھی۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی براہین احمدیہ کے قریب زمانہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں پر عام طور پر یاس و ناامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جدوجہد کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہٴ کار سے انقلابِ حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مردِ غیب کےظہوراورملہم اور موید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی…پنجاب ذہنی انتشار و بےچینی، ضعیف الاعتقادی اور دینی ناواقفیت کا خاص مرکز تھا….پنجاب کے مسلمانوں کے عقائد میں تزلزل اور دینی حمیت میں خاصا ضعف آ چکا تھا۔ صحیح اسلامی تعلیم عرصہ سے مفقود تھی۔ اسلامی زندگی اور معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو چکی تھیں۔ دماغوں اور طبیعتوں میں انتشار و پراگندگی تھی۔ ‘‘(قادیانیت مطالعہ و جائزہ از سیدابوالحسن علی ندوی صفحہ ۱۲،۱۳مطبوعہ مجلس نشریات اسلام کراچی )
سید ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب ’’قادیانیت‘‘میں لکھتے ہیں : ’’عالم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا اس کے چہرے کا سب سے بڑا داغ وہ شرکِ جلی تھا جو اس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا تھا ۔قبریں اور تعزیے بےمحابا پُج رہے تھے۔غیر اللہ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی تھی۔بدعات کا گھر گھر چرچا تھا ۔خرافات اور توہمات کا دَور دَورہ تھا ۔‘‘(قادیانیت مطالعہ و جائزہ از سیدابوالحسن علی ندوی صفحہ ۱۸۰مطبوعہ مجلس نشریات اسلام کراچی)
(جاری ہے)
مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں بعض ہدایات



