حضرت مسیح موعودؑ اور قیام توحید(قسط اوّل)
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کامقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجاگیا‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں ایک اعلیٰ اور برتر ہستی کی تلاش کا مادہ رکھ دیا ۔ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی(الاعراف:۱۷۳) نیکی اور بدی کا شعور اس کی فطرت میں ودیعت کردیا فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقۡوٰٮہَا۔ (الشمس: ۹)اور پھر انبیاء کے ذریعہ وحی اور الہام سے انسان کو اپنے ہونے اور واحد ہونے کی خبر دی۔ یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا۔(النحل:۳) لیکن اس کے باوجود انسانوں کی اکثریت آغاز سے ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی کا انکار کرتی چلی جا رہی ہے اور جو لوگ نبیوں کی تعلیم سے خدا اور اس کی توحید کو مانتے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ شرک کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور توحید کا دعوی کرنے کے باوجود قسمہا قسم کے شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے :وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ۔(یوسف :۱۰۷)یعنی اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر اس حالت میں کہ وہ ساتھ ساتھ شرک بھی کرتے جاتے ہیں۔
اسی خفی اور جلی شرک کا ردّ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا کا ایک طویل سلسلہ عالمی سطح پر جاری فرمایا جس کی انتہا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کی گئی اور خدا اور اس کی توحید کے متعلق تمام انفسی اور آفاقی دلائل خدا نےقرآ ن کریم میں جمع کر دیئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳؍ سال کے قلیل عرصہ میں لاکھوں دلوں پر توحید کا سکہ جما دیا لیکن مقدر تھا کہ شرک پھر غلبہ کرے گا اور مسلمان بھی موَحِّد کہلاتے ہوئے شرک کی راہوں پر قدم ماریں گے اور دوسری طرف دجال اور یاجوج ماجوج اپنی مذہبی اور سائنسی طاقت سے دنیا بھر میں مسیح کی خدائی اور تثلیث کا اعلان کریں گے اس کے استیصال کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑکا زمانہ مقدر کر رکھا تھا
خدا کی نفی کا اعلان
دنیا کے تمام مذاہب اور تمام مکاتب فکر تو پہلے ہی خدا سے دُور تھے۔ مسلمان بھی قران کریم جیسی کتاب کے باوجود فی الحقیقت دہریہ اور مشرک بن چکے تھےاور آخروہ وقت آپہنچا جب مذہب کو ایک بے معنی چیز بلکہ ایک مضر شے قرار دے دیا گیا۔
۱۸۴۳ء میں کارل مارکس (۱۸۱۸ء تا ۱۸۸۳ء) نے مذہب کو عوام کے لیے افیون قرار دیا۔ یعنی ایک حربہ جس کے ذریعے ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو سرد کرنے کا کام لیا جاتا ہے ۔ مذہب سے بیزاری اور کراہت کی یہ لہر اس قدر زور سے پھیلی کہ ۱۸۸۲ء تک پہنچتے پہنچتے جرمن فلسفی نطشے (۱۸۴۴ء تا ۱۹۰۰ء) نے یہ نعرہ لگا دیا کہ خدا مر چکا ہے۔
(Die Fröhliche Wissenschaft by Friedrich Nietzsche, published: 1882)
جرمن الفاظ: “Gott ist tot. Gott bleibt tot. Und wir Haben ihn getötet”
انگریزی ترجمہ:“God is dead, God will remain dead, and we have killed him.”
۱۸۸۲ء میں جرمن فلاسفر نطشے نے ایک تمثیل لکھی جس کا نا م The Parable Of The Madman تھا ۔تمثیل میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے دن کے وقت لالٹین ہاتھ میں لی اور باہر نکل کر آوازیں لگانی شروع کیں کہ خدا کہاں ہے؟ اور پھر اس نے اعلان کیا کہ ہم نے نعوذ باللہ خدا کو قتل کر دیا ہے۔ میں اور تم اس کے قاتل ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب ہم نے خدا اور وحی کا تصوّر ہی ختم کر دیا ہے۔ اس تمثیل کے تین سال بعد نطشے نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام Thus Spoke Zarathustra تھا۔اس میں لکھا کہ دنیا بھر کے انسانوں کا یہی مقصد ہے کہ وہ غلاموں کی طرح ایک برتر قسم کا انسان Superman بنانے کی کوشش کریں۔ اس برتر انسان کی راہ میں خدا کا تصوّر حائل تھا۔ اب یہ تصوّر ختم ہو گیا ہےتو یہ فرضی انسان ظہور کرے گا اور پھر اس برتر انسان کا دور شروع ہو گا۔ (بحوالہ الفضل انٹر نیشنل لندن ۲۳؍مارچ ۲۰۲۴ء صفحہ ۳۱، ۳۲)
خدا کا نمائندہ
۱۸۸۲ء ہی وہ سال ہے جب حضرت مسیح موعودءکو خدا نے اس زمانہ کا مامور الہاماً مقرر فرمایا۔ پس واضح ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے جب پیشگو ئیوں کے مطابق دہریت اپنے عروج پر ان معنوں میں تھی کوئی اس کا راستہ روکنے والا نہیں تھا اور دوسری قوموں سے تو ایمان پہلے ہی پرواز کر چکا تھا مسلمانوں کا ایمان بھی ثریا پر جا پہنچا تھا اخبار اہل حدیث لکھتا ہے: سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں مگر واللہ دل سے معمولی اور بہت معمولی اور بیکار کتاب جانتے ہیں (اہل حدیث ۱۴؍جون ۱۹۱۲ء)
محبت توحید
ان حالات میں مسیح موعودؑ آیا ۔جو خدا اور اس کی توحید کی محبت میں مخمور تھا اور اس کے خلاف کسی چیز کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھا ۔آپؑ نے فرمایا: خدا تعالیٰٰ اِس بات کو جانتا ہے اور وہ ہر ایک امرپر بہتر گواہ ہے کہ وہ چیز جو اُس کی راہ میں مجھے سب سے پہلے دی گئی وہ قلبِ سلیم تھا.یعنی ایسا دل کہ حقیقی تعلق اُس کا بجُز خدائے عزّوجلّ کے کسی چیز کے ساتھ نہ تھا۔مَیں کسی زمانہ میں جوان تھا اور اَبْ بوڑھا ہوامگر مَیں نے کسی حصہ عمر میں بجز خدائے عزّوجلّ کسی کے ساتھ اپنا حقیقی تعلق نہ پایا۔ … اسی تپشِ محبت کی وجہ سے مَیں ہرگز کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہواجس کےعقاؔ ئد خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کے برخلاف تھے یا کسی قسم کی توہین کو مستلزم تھےیہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب مجھے پسند نہ آیا کیونکہ اس کے ہر قدم میں خدائے عزّوجلّ کی توہین ہےایک عاجز انسان جو اپنے نفس کی بھی مدد نہ کر سکا اُس کو خدا ٹھہرایا گیا۔ (حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۹)
مقصد بعثت
آپؑ نے فرمایا کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ میں توحید کو قائم کروں اور انسان اور خدا کے درمیان جو تعلق ٹوٹ چکا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں فرماتے ہیں : ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کامقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجاگیا۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶)
قیام توحید کے ذرائع
یہ قیام توحید محض عقلی دلائل اور فلسفیانہ دلائل سے نہیں ہونا تھا بلکہ خدا کی تجلی سے ہونا تھا اس کی بنا الہام اور وحی پر تھی۔ چنانچہ حضورؑ فرماتے ہیں:’’وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسی ؑکلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اورحضرت مسیحؑ پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے ۔ اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلی وجود جس کی پرستش کے لیے تمام نبی بھیجے گئے میں ہوں۔ میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں۔ اور میں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں۔‘‘(ضمیمہ رسالہ جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۹)
ملحدانہ تصوّرات
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا کے متعلق مختلف خیالات اور تصوّرات کا جائزہ لیا جائے اور پھر مسیح موعود ؑکی سچی قرآنی تعلیم کا ذکر کیا جائے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تقریر مسیح موعود کے کارنامے (۱۹۲۷ء) میں اس مضمون کو بڑی عمدگی سے بیان فرمایا اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔
مسیح موعودؑ سے پہلے خدا تعالیٰ کے متعلق یہ غلط خیالات پھیلے ہوئے تھے ۔
۱۔ لوگ شرک جلی اور خفی میں مبتلا تھے۔ہندوؤں نے ہزاروں معبود بنا رکھے ہیں آریہ خیال کرتے ہیں کہ خدا روح و اجسام کا خالق نہیں ۔زرتشتی نیکی اور بدی کا جدا جدا خدا سمجھتے ہیں ۔سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہے جو مسیح کو تین خداؤں میں سے ایک سمجھتے ہیں اور دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ساری دنیا میں اس عقیدہ کی تشہیر کر رہے ہیں۔
۲۔ بعض لوگ اللہ تعالی کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر خدا ہے تو وہ عِلتُ العِلل ہے۔ وہ اس کی قوت ارادی کے منکر تھے اور سمجھتے تھے کہ جس طرح مشین چلتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ سے دنیا کے کام ظاہر ہو رہے ہیں۔ ہزاروں علتوں میں سے وہ ایک علت ہے گو آخری اور سب سے بڑی۔ مگر بہر حال ایک اضطرار کے رنگ میں اس کے سب افعال صادر ہوتے ہیں۔ مسلمان کہلانے والوں میں سے بھی فلسفہ کے دلدادہ اس خیال سے متاثر ہو چکے تھے۔
۳۔بعض لوگ خیال کر رہے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے اور قدیم ہے۔ خدا تعالیٰ کا جوڑنے جاڑنے سے زیادہ دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ آریوں کا عقیدہ ہے ۔بعض مسلمان بھی اس غلطی میں مبتلا تھے۔
۴۔بعض لوگ خدا تعالیٰ کے رحم کا انکار کرنے لگ گئے تھے اور یہ کہتے تھے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں پائی جاتی ۔ کیونکہ وہ عدل کے خلاف ہے یہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔
۵۔ بعض لوگ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایسا ناقص اندازہ کرنے لگ گئے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کو چند ہزار سال میں محدود کر دیا تھا اور خیال کرتے تھے کہ بس خدا تعالیٰ کی صفات انہی چند ہزار سال میں ظاہر ہوئی ہیں اور اگر اس دور کو لمبا بھی کرتے تھے تو اتنا کہ گو اس دنیا کی عمر لاکھوں سال کی مانتے تھے مگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کو اسی دور کے ساتھ محدود کرتے تھے۔
۶۔بعض لوگ خدا کی قدرت کو غلط طریق سے ثابت کرتے ہوئے یہ کہتے کہ خدا جھوٹ بھی بول سکتا ہے، چوری بھی کر سکتا ہے۔ اگر نہیں کر سکتا تو معلوم ہوا کہ اس میں قدرت نہیں ہے۔
۷۔ بعض لوگ خدا تعالیٰ کو قانون قضاء وقدر جاری کرنے کے بعد بالکل بیکار سمجھتے اور اس وجہ سے کہتے تھے کہ دعا کرنا فضول ہے۔ جب خدا کا قانون جاری ہو گیا تو دعا کرنا بے فائدہ ہے۔ دعا سے اس قانون میں رکاوٹ نہیں پیدا ہوسکتی۔سر سید احمد خان وغیرہ اس کے قائل ہیں۔
۸۔ خدا تعالیٰ کی صفات کے اجراء کا مسئلہ بالکل لايَنْحَل سمجھا جانے لگا تھا لوگ خدا تعالیٰ کی سب صفات کے ایک ہی وقت میں جاری ہونے کا علم نہ رکھتے تھے اور سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ جو شَدِيدُ الْعِقَابِ ہے وہ اس صفت کو رکھتے ہوئے ایک ہی وقت میں وھاب کس طرح ہو سکتا ہے وہ حیران تھے کہ کیا ایک انسان کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑا سخی ہے اور بڑا بخیل بھی ہے۔ اگر نہیں تو خدا کے لیے کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں قہار بھی ہے اور رحیم بھی چونکہ قرآن کریم میں ایسی صفات آئی ہیں جو بظاہر آپس میں مخالفت رکھتی ہیں اس لیے وہ لوگ حیران تھے۔
۹۔ بعض لوگ اس خیال میں پڑے ہوئے تھے کہ ہر چیز خداہی خدا ہے اور بعض اس وہم میں پڑے ہوئے تھے کہ ایک تخت ہے خدا تعالیٰ اس پر بیٹھا ہؤا حکم کرتا ہے۔
۱۰۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہی نہیں رہی تھی ۔ حتٰی کہ جب کوئی مکان یا گھر ویران ہو جاتا تو کہتے کہ اب تو اس میں اللہ ہی اللہ ہے ۔ یا کسی کے پاس کچھ نہ رہتا تو کہا جاتا کہ اب تو اس کے پاس اللہ ہی اللہ ہے جس کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ بھی ایک خلاہی کا نام ہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ملنے کی تڑپ بالکل مٹ گئی تھی۔ جنوں اور بھوتوں کی ملاقات ، جادو ٹونے کی خواہش تو لوگوں میں تھی۔ لیکن اگر نہ تھی تو خدا تعالیٰ کی ملاقات کی خواہش نہ تھی۔
شرک کی تعریف اور اس کی اقسام
مذکورہ بالا دس اقسام میں سے پہلی قسم میں شرک جلی اور خفی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ شرک کا لفظ بظاہر معمولی ہے مگر بہت پیچیدہ ہے اس پر مزید گفتگو کی ضرورت ہے ۔سیدنا حضرت مصلح موعود نے ایک لمبی تحقیق کے بعد اپنی تقریر ہستی باری تعالیٰ (برموقع جلسہ سالانہ ۱۹۲۱ء)میں اس کی تفصیل بیان کی ہے فرمایا: ’’مجھے ساری عمر اس بات کی جستجو اور تلاش رہی ہے کہ شرک کیا ہے ؟ لوگ کہتے ہیں۔ یہ موٹی بات ہے۔ میں طالب علمی کے زمانہ سے اسے سمجھنا چاہتا تھا لیکن ایسی تعریف نہیں ملتی تھی کہ جس کے اندر شرک کی سب اقسام آجائیں اور ایسی بات داخل نہ ہو جو شرک نہ ہو ۔ آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ شرک کی ایک تعریف کرنا ہی غلطی ہے جس طرح خدا تعالیٰ کے وجود کا تصوّر کبھی ذات کے لحاظ سے ہوتا ہے کبھی ان صفات کے لحاظ سے جن میں مخلوق کوکس قسم کی بھی قدرت نہیں دی گئی کبھی ان صفات کے لحاظ سے جن میں بظاہر بندے بھی شریک ہوتے ہیں اس لیے سب امور کو مد نظر رکھ کر شرک کی مختلف اقسام کی تعریف الگ الگ ہی کرنی چاہئے۔‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے شرک کی دس اقسام بیان کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۔ یہ خیال کرنا کہ ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں جو یکساں طاقتیں رکھتی ہیں اور سب کی سب دنیا کی حاکم اور سردار ہیں یہ شرک فی الذات ہے ۔
۲۔ یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مدبر ہستیاں ایک سے زیادہ ہیں جن میں کمالات تقسیم ہیں۔ کسی میں کوئی کمال ہے اور کسی میں کوئی اور یہ بھی در حقیقت شرک فی الذات ہی ہے۔
۳۔ وہ اعمال جو مختلف قوموں میں عاجزی اور انکساری کے لیے اختیار کئے گئے ہیں ان میں سے جو حد درجہ کے انتہائی عاجزی کے اعمال ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شرک ہے۔ مثلاً سجدہ کرنا
۴۔انسان اسباب ظاہری کے متعلق یہ سمجھے کہ ان سےمیری سب ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کے تصرف کا خیال دل سے مٹادے اور یہ خیال کرے کہ صرف مادی اسباب ہی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں۔
۵۔ خدا کی وہ مخصوص صفات جو اس نے بندوں کو نہیں دیں جیسے مردہ کو زندہ کرنا ۔ یا کوئی چیز پیدا کرنا ایسے سب امور میں خدا تعالیٰ کی صفات میں کسی اور کو شریک کر دینا۔
۶۔ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے اور یہ سمجھے کہ کسی شخص یا کسی چیز نے بلا ان اسباب کے استعمال کرنے کے جو خدا تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لیے مقرر کئے ہیں اپنی ذاتی اور خاص طاقت کے ذریعہ سے اس کام کو کر دیا ہے۔
۷۔یہ سمجھنا کہ خدا کو کسی بندہ سے ایسی محبت ہے کہ اس کی ہر بات مان لیتا ہے۔
۸۔کسی ایسی چیز کے متعلق جسے خداکے قانون قدرت نے کسی کام کے کرنے کے لیے کوئی طاقت نہیں دی اس کے متعلق خیال کر لیا جائے کہ وہ فلاں کام کرے گی ۔ جیسے مثلاً خدا نے مردہ کو طاقت نہیں دی کہ اس دنیا میں کوئی تصرف کر سکے اس طرح بتوں ، دریاؤں ، سمندروں ، سورج ، چاند وغیرہ چیزوں سے دُعائیں کرنا اور کرانا بھی شرک ہے۔
۹۔ایسے اعمال جو مشرکانہ رسوم کانشان ہیں گو اب شرک کی مشابہت نہیں رکھتے ان کا بلا ضرورت طبعی ارتکاب کرے۔ مثلاً ایک شخص کسی قبر پر جا کر نہ دعا کرے نہ کرائے نہ صاحب قبر کو خدا سمجھے لیکن وہاں دیا جلا کر رکھ آئے
۱۰۔ خواہ عمل نہ ہو مگر دل میں محبت ،ادب ،خوف اور اُمید کے جذبات خدا کی نسبت اوروں سے زیادہ رکھتاہو یا خدا کے برابر رکھتا ہو (ہستی باری تعالیٰ،انوار العلوم جلد ۶ صفحہ۳۵۷تا۳۶۰)
توحید کے دلائل
حضرت مسیح موعودؑ نے توحید کی سچی تعلیم اور اس کا فلسفہ اور اس کے دلائل پورے زور کے ساتھ بیان کیے جو قران شریف میں درج ہیں اور پھر ان کو پورے زور کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔معبود حقیقی کا اسم ذات اللہ ہے جو قرآن میں ۲۶۹۷؍مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑنے بتایا کہ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رذ ائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے۔ اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے ۔ اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کا ملہ پر مشتمل ہے۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۳۵)
سچے واحد خدا کا تعارف
آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق قرآن سے بہت کچھ بیان فرمایا جس کا ایک نمونہ حسب ذیل ہے ۔
اللہ تعالیٰ واحد خالق و مالک ہے آپ نے پہلی بار زندہ خدا کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ ہمیشہ جلوہ گر رہتا ہے۔ فرمایا: ’’ ہمارا خدا وہ خدا ہے جواب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے.جیسا کہ پہلے سنتا تھا‘‘(الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۹)
اللہ تعالیٰ کا کوئی جسمانی وجود نہیں اس کی مانند کوئی چیز نہیں۔اس سلسلہ میں جتنی بھی باتیں الہامی کتب میں کہی گئی ہیں وہ سب تمثیلات پر مشتمل ہیں۔
اس کی لامحدود صفات حق و حکمت کے ساتھ کام کرتی ہیں اور ان میں باہم کوئی تضاد نہیں۔ اور ان میں سےکوئی بھی صفت معطل نہیں۔قرآن کریم میں کم از کم ۱۷۵؍صفات کا تذکرہ ہے احادیث رسول ﷺ میں ان کے علاوہ ۱۰۴؍صفات کا ذکر ہے حضرت مسیح موعود کو اللہ نے ان کے علاوہ اپنی جن صفات پر اطلاع دی وہ ۲۷؍ہیں۔ (تفصیل دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍مئی۲۰۲۲ء)یہی خدا تعالیٰ کا سچا تعارف کراتی ہیں۔
وہ جس سے چاہے بولتا ہے اور جسے چاہے چن لیتا ہے اور اپنا مامور اور پیغمبر مقرر کرتا ہے۔اس نے کل عالم میں اپنے پیغمبر بھیجے ہیں جن میں سب سے اعلیٰ و برتر حضرت محمد ﷺ ہیں جن پر تمام برکات نبوت تکمیل کو پہنچ گئیں اور اب آپ کی اتباع کرنے والوں سے اللہ کلام کرتا رہے گا ( ہر قوم میں نبی آنے سے متعلق تفصیل دیکھیں الفضل انٹر نیشنل ۱۷؍ نومبر۲۰۲۰ء )
اس کی چار امہات الصفات ربّ ،رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین ہیں ۔ اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہےاس لیے جنت تو دائمی ہے مگر جہنم وقتی اور فنا ہونے والی ہے۔
آپؑ نے اعلان کیا کہ خدا ہر چیز یعنی تمام روح و مادہ کا خالق ہے۔ اس طرح آپ نے ہندو اور آریہ مذہب کی بنیادوں پر تبررکھ دیا۔آپؑ کی گیارہ کتب کا مرکزی مضمون ہندومت اور سکھ مت ہے۔
آپؑ نے فرمایا کہ خدا دکھ اٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے۔ اس کی صفت عدل اور رحمان میں کوئی تنازعہ نہیں۔ مسیح کی وفات پُر زور دلائل سے ثابت کر دی ۔ اس طرح آپؑ نے عیسائیت کے عقیدہ الوہیت مسیح اور کفارہ اور تثلیث کو باطل کر دیا۔ حیات مسیح کے عقیدہ سے بھی بھی شرک کی ترویج ہو رہی تھی آپ نے وفات مسیح ا ور اس سے متعلقہ امور پر چھ بڑے چیلنج دیے۔
آپؑ نے بتایا کہ زردشتی عقیدہ کے مطابق نیکی اور بدی کا الگ الگ خدا نہیں بلکہ ایک ہی خدا ہے جس کی صفات کی موجودگی کا نام نیکی اور عدم کا نام ظلمت اور گناہ ہے۔ اس طرح آپؑ نے دو خداؤں کے تصوّر کا قلع قمع کر دیا۔
سورۃ اخلاص اور توحید
حضرت مسیح موعودؑ نے اس مقصد کے لیے سورۃ اخلاص کو خاص طور پر بنیاد بنایا اور بتایا کہ اس میں نہ صرف ہر قسم کے شرک کی نفی ہے بلکہ ہر قوم میں شرک کے جتنے بھی مظاہر پائے جاتے ہیں ان سب کی تردید کی گئی ہے۔ آپؑ نے سورۃ اخلاص درج کی۔قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَلَمۡ یُوۡلَدۡ۔ وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔اور پھرفرمایا کہ اس مختصر عبارت میں جو ایک سطر میں آ جاتی ہے ۔کس لطافت اور عمدگی سے ہر ایک قسم کی شراکت سے اللہ تعالیٰ کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل کے لحاظ سے شراکت زیادہ سے زیادہ چار قسم کی ہے کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کسی فعل اور تاثیر میں سو اس سورت میں ان چاروں قسموں کی شراکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ
۱۔ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں۔
۲۔وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں اُس کی طرف ہر دم محتاج ہیں اورفنا ہونے والی ہیں۔
۳۔وہ لَمْ يَلِدْ ہے اُس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اُس کا شرک ٹھہر جائے ۔
اور وہ لَمْ يُولَدْ ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اُس کا کوئی شریک بن جائے۔
وہ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اُس سے برابری کرنے والا نہیں تا با اعتبار فعل کے اُس کا کوئی شریک قرار پاوے ۔ سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اورمنزہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے۔(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۱۸)
صفت اَحد کے حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ نے یہ عظیم الشان نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ خدا نے کسی بھی فرد میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں کی جس میں اس کا کوئی شریک نہ ہو تاکہ وہ اس صفت میں احد نہ سمجھا جائے فرمایا :’’قرآن کریم کی صاف تعلیم یہ ہے کہ وہ خدا وند وحید و حمید جو بالذات توحید کو چاہتا ہے اُس نے اپنی مخلوق کو متشارك الصفات رکھا ہے اور بعض کو بعض کا مثیل اور شبیہ قرار دیا ہے تاکسی فرد خاص کی کوئی خصوصیت جو ذات و افعال و اقوال اور صفات کے متعلق ہے اس دھو کہ میں نہ ڈالے کہ وہ فرد خاص اپنے بنی نوع سے بڑھ کر ایک ایسی خاصیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص نہ اصلا و نہ ظلاً اس کا شریک نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرح کسی اپنی صفت میں واحد لا شریک ہے چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ اخلاص اسی بھید کو بیان کر رہی ہے کہ احدیت ذات و صفات خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ دیکھو اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۴)
عیسائیوں کو چیلنج
پھر سورۃ اخلاص میں بیان کردہ توحید کا موازنہ توریت و انجیل سے کرتے ہوئے اور عیسائیوں کو چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سچ تو یہ ہے کہ جس قد رسورہ اخلاص کی ایک سطر میں مضمون تو حید بھرا ہوا ہے۔ وہ تمام توریت بلکہ ساری بائبل میں نہیں پایا جاتا۔ اور اگرہے تو کوئی عیسائی ہمارے سامنے پیش کرے۔ پھر جس حالت میں توریت میں بلکہ تمام بائیل میں صحت اور صفائی اور کمالیت سے توحید حضرت باری کا ذکر ہی نہیں ۔ اور اسی وجہ سے توریت اور انجیل میں ایک گڑ بڑ پڑ گیا اور قطعی طور پر کچھ سمجھ نہ آیا ۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۳ )
اس قسم کی بیسیوں آیات سے حضورؑنے توحید کا مضمون سمجھا اور دنیا کو سمجھایا۔
شاندا ر مضمون
حضرت مسیح موعودؑ توحید کا مضمون کس شان سے بیان فرماتے ہیں : ’’خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے کوئی بھی اس میں نقص نہیں وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور مبدا٫ہے تمام مخلوق کا اور سرچشمہ ہے تمام فیضو ں کا اور مالک ہے تمام جزا سزا کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور نزدیک ہے باوجود دوری کے اور دور ہے باوجود نزدیکی کے وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ دہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے اس نے ہر یک چیز کو اٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اس کو اٹھا رکھا ہو کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے وہ ہر یک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے وہ آسمان اور زمین کی ہریک چیز کا نور ہے اور ہریک نور اسی کے ہاتھ سے چمکا اور اسی کی ذات کا پرتوہ ہے وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو۔کسی روح کی کوئی قوت نہیں جو اس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو ۔(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۲ ۔۱۵۳)
پھر شرک اور اس کی باریک اقسام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پرہیز ہو۔ نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کوکچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اور نہ اپنے علم پرکوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز۔ بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت رُوح گری رہے ۔… انسان کا علم کسی معلّم کا محتاج ہے اورپھر محدود ہے مگر اُس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور باایں ہمہ غیرمحدود ہے۔ انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں۔ اورؔ انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے۔ ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے۔ لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیرمحدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں… اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا۔ اس لیے اس کی توحید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو…یہ توحید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدار ایمان ہے۔‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۵۔۱۵۷)
عرش کی حقیقت
توحید کے ساتھ عرش الٰہی کا بھی تعلق ہے عرش کے متعلق ساری مذہبی قومیں افراط و تفریط کا شکار تھیں عرش کے متعلق مسلمانوں کے خیالات اور تفسیروں نے ایک مضحکہ خیز تصوّر پیدا کر دیا تھا غیر مسلم دنیا تک یہ پیغام کس طرح پہنچ رہا تھا ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر( ۱۸۱۱۔۱۸۸۲ء)نیویارک یونیورسٹی کے مشہور کیمیادان تھے انکی بہت سی تصانیف علم البرق اور کیمیا پر ہیں وہ ان فنون میں بہت سی اختراعات کے موجد بھی ہیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب معرکہ مذہب و سائنس میں اسلام کے خدا اور عرش کا یہ افسانہ تحریر کیا۔
خدا کی حکمت و طاقت اس زاویہ سے قابل صد تعریف ہے کہ اس نے زمین کو اپنے مقام پر بغیر کسی نقص کے محفوظ رنگ میں اپنی جگہ پر رکھ دیا ہے آسمان کے اوپر بہشت کی بنیاد ہے جس کی سات منزلیں ہیں سب سے اونچی منزل خدا کا مسکن ہے جہاں وہ دیو پیکر انسان کی شکل میں ایک تخت پر بیٹھا ہے اور اس تخت کے دونوں طرف اس طرح کے ذوالجناح بیل ہے جس طرح قدیم سریانی بادشاہوں کے محل میں ہوتے تھے۔
(History of conflict between religion and science by John William Draper M.D LL.D.London 1885 )
حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن شریف سے اِس کے متعلق عظیم الشان تعلیم بیان فرمائی۔
ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں ایک صفت تشبیہی ، دوسری صفت تنزیہی اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیبی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لیے خدا نے تشبیہی صفات کے اظہار کے لیے اپنے ہاتھ ، آنکھ ، محبت ، غضب و غیرہ و صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جب کہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ ۔(الشوریٰ:۱۲ )کہہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کہہ دیا جیسا کہ سورہ رعد جز ونمبر ۱۱ میں بھی یہ آیت ہے اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ (الرعد :۳) یعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا۔
اس آیت کے ظاہری معنی کے رُو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا۔اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اُس کی صفت ہے پس جبکہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور نقلی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لیے ایک تشبیہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہ سے پاک ہے اس لیے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تنزہ کا ذکر کر دیا۔ خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے اور پھر سورۃ طہٰ جز ونمبر ۱۶ میں یہ آیت ہے: اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی (طٰہٰ : ۲) خدا رحمان ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا ۔اس قرار پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر چہ اُس نے انسان کو پیدا کر کے بہت سا قرب اپنا اُس کو د یا مگر یہ تمام تجلیات مختص الزمان ہیں یعنی تمام تشبیہی تجلیات اُس کی کسی خاص وقت میں ہیں جو پہلے نہیں تھیں مگر از لی طور پر قرارگاہ خدا تعالیٰ کی عرش ہے جو تنزیہ کا مقام ہے کیونکہ جو فانی چیزوں سے تعلق کر کے تشبیہ کا مقام پیدا ہوتا ہے وہ خدا کی قرارگاہ نہیں کہلا سکتا وجہ یہ کہ وہ معرض زوال میں ہے اور ہر ایک وقت میں زوال اُس کے سر پر ہے بلکہ خدا کی قرار گاہ وہ مقام ہے جو فنا اور زوال سے پاک ہے پس وہ مقام عرش ہے.(چشمہ معرفت ۔روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۷۷ )
پھر فرمایا: دوسری قوموں نے خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت یا تو تنز یہی صفت اختیار کی ہے یعنی نرگن کے نام سے پکارا ہے اور یا اس کو سرگن مان کر ایسی تشبیہ قرار دی ہے کہ گویا وہ عین مخلوقات ہے اور ان دونوں صفات کو جمع نہیں کیامگر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ان دونوں صفات کے آئینہ میں اپنا چہرہ دکھلایا ہے اور یہی کمال توحید ہے۔ (چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۹۹)
(جاری ہے)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: تین واقعات




