خوبصورت اور شرمیلا افریقی سبز سانپ
افریقہ کے گھنے جنگلات، سرسبز درختوں اور نمی سے بھرپور فضاؤں میں کئی اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں، لیکن ان میں ایک سانپ ایسا بھی ہے جو نہ صرف سبز رنگ کی دلکش چمک رکھتا ہے بلکہ فطری طور پر انتہائی شرمیلا، دبکو اور چوکنا مزاج رکھتا ہے۔ یہ سانپ Philothamnus جِنس سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے African Beauty کہلاتا ہے۔

سیرالیون میں ہر سال برسات کا ایک طویل اور سخت موسمی سلسلہ آتا ہے جسے مقامی لوگ ’’ششماہی بارش‘‘ کہتے ہیں۔ جب بارشیں زیادہ بڑھ جائیں اور نشیبی علاقے پانی سے بھر جائیں تو کئی جانور، خصوصاً سانپ، اونچے خشک مقامات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ انہی دنوں شہروں اور آبادیوں میں سانپوں کا نظر آنا عام بات ہے۔ کالا کوبرا، افریقی سبز سانپ اور دیگر اقسام اکثر گھروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ لوگ گھبراہٹ میں انہیں فوری طور پر تلاش کر کے مار دیتے ہیں چاہے بارش کتنی ہی موسلادھار کیوں نہ ہو۔ اس میں وہ بے ضرر سانپ بھی شامل ہوتے ہیں جن میں زہر نہیں ہوتا اور جو انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ African Beauty انہی بے ضرر مگر خوبصورت سانپوں میں سے ہے۔
۷؍مئی ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے مغربی افریقہ کے دورے کے دوران احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کا تفصیلی معائنہ فرمایا۔ سکول کی بائیولوجی لیبارٹری اور میوزیم میں مختلف جانوروں، پرندوں، رینگنے والے جانداروں اور سانپوں کے محفوظ نمونے نہایت سلیقے اور صفائی سے بوتلوں میں رکھے گئے تھے۔ حضورؒ جب ان نمونوں کا جائزہ لے رہے تھے تو ایک سانپ ان کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس سانپ کو مقامی ماہرین African Beauty کہتے تھے اور حضورؒ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ (الفضل ربوہ ۳۰؍مئی ۱۹۷۰ء)
Philothamnus سانپوں کی ایک جِنس ہے جو خاندان Colubridae سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ پورے Sub-Saharan Africa میں پھیلی ہوئی ہے اور عموماً green snakes، bush snakes یا wood snakes کے نام سے معروف ہے۔ ان کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ یہ زیادہ تر درختوں، جھاڑیوں، گھنے جنگلات اور نمی والے علاقوں کے قریب رہتے ہیں۔
ان کا رنگ زیادہ تر شوخ سبز یا زمردی ہوتا ہے جو انہیں درختوں کی شاخوں میں اس طرح غائب کر دیتا ہے کہ جب تک یہ حرکت نہ کریں، دیکھنے والا انہیں پہچان ہی نہیں سکتا۔ یہی قدرتی کیموفلاج (camouflage) ہونا ان کی بقا کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے۔
افریقی بیوٹی سانپ، خصوصاً Philothamnus نسل کے سبز اور پتلے سانپ، اپنی خوبصورتی، چمکتے رنگوں اور چستی کے باوجود ایک خاص بات کے لیے مشہور ہیں کہ یہ فطری طور پر شرمیلے ہوتے ہیں۔ اِن کا یہ رویہ صرف عادت نہیں بلکہ قدرتی ماحول، جسمانی ساخت، دشمنوں اور ارتقائی عوامل کا مجموعہ ہے۔
آخر یہ سانپ اتنے شرمیلے کیوں ہوتے ہیں؟یہ سوال دلچسپ بھی ہے اور سائنسی طور پر قابلِ فہم بھی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ چونکہ افریقی بیوٹی جسمانی طور پر باریک، ہلکا اور چھوٹا ہوتا ہے، اس لیے یہ کئی شکاری جانوروں کا ممکنہ شکار بن سکتا ہے۔ عقاب، نیولا، بڑے سانپ، جنگلی بلیاں اور بعض شکاری پرندے اس پر فوری حملہ کر سکتے ہیں۔ جو جانور خود آسانی سے شکار بن سکتے ہیں، وہ ہمیشہ محتاط، خوف زدہ اور شرمیلے ہوتے ہیں۔ اسی فطری خوف نے اسے defensive اور شرمیلا بنایا ہے۔
دوسرا امریہ ہے کہ اکثر افریقی بیوٹی سانپ بے زہر ہوتے ہیں، اس لیے وہ لڑنے یا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کی حکمتِ عملی صرف جلد چھپ جانا یا فوراً بھاگ جانا ہوتی ہے۔
پھر یہ arboreal یعنی درختوں پر رہنے والے سانپ ہیں۔ درختوں پر رہنے والی مخلوق زیادہ تر خاموش، ساکت اور چھپ رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ حرکت جتنی کم ہو تودشمن کا شکار بننے امکان بھی کم ہوتا ہے۔
یہ سانپ انتہائی حساس اعصابی نظام رکھتے ہیں۔ ان کے جسم کا میٹابولزم تیز ہوتا ہے اور یہ خطرے کو فوراً محسوس کرتے ہیں۔ بڑی چیز دیکھ کر ان کے دماغ میں یہ پیغام جاتا ہے کہ سامنے شکاری موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کا جسم فوراً دفاعی حالت اختیار کر لیتا ہے، جو کہ چھپنے یا بھاگنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی تیز ’’اسٹریس رسپانس‘‘کی وجہ سے یہ سانپ انسان کے قریب آنے پر گھبراہٹ کا شکار ہو کر شرمیلا رویہ اختیار کرتا ہے۔
افریقی بیوٹی سانپ کی شرمیلی فطرت اس کے جسمانی سائز، رہائش، کمزور زہریلاپن، تیز رفتار دفاع، حساس اعصابی نظام اور ارتقائی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ یہ سانپ لڑنے کی بجائے چھپنے اور بھاگنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ اسی حکمتِ عملی نے اسے صدیوں تک زندہ رکھا ہے۔ اس کا یہ رویہ نہ صرف قدرتی ہے بلکہ اس کے ماحول اور بقا کی ضرورتوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
اس خوبصورت سانپ کی خوبصورتی اور شرمیلی فطرت پر ایک شاعر کا معروف مصرعہ یاد آگیا۔ کیا درست کہا ہے کہ
؎ خدا جب حسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے
(ابو الفارس محمود)
مزید پڑھیں: جنگل جلیبی یا کٹی جلیبی



