کچھ خواب حادثاتِ جوانی میں مر گئےپسماندگان مرثیہ خوانی میں مر گئے توڑا ہے میرے ہاتھ میں کچھ خواہشوں نے دَمکچھ خواب تھے جو آنکھ کے پانی میں مر گئے اہلِ جنوں نے سنتے ہی ہر بات مان لیاہلِ خرد تلاشِ معانی میں مر گئے ان کی بھی آرزو ہے کہ لکھو انہیں شہیدجو جستجوئے دنیائے فانی میں مر گئے دن بھر تمام شہر کو یہ جستجو رہیکیوں سانپ آج، رات کی رانی میں مر گئے؟ کچھ لوگ تند و تیز تھے، خود سے بھی بے خبراک دن وہ اپنے آپ روانی میں مر گئے اپنے لہو سے لکھ گئے اہلِ عمل، وفاغازی زباں کے، چرب زبانی میں مر گئے دل کَش تھے، دل رُبا تھے، بھر پور تھے، مگرجذبات، اپنی نقل مکانی میں، مر گئے جب وارداتِ قلب تھی لکھی نہیں غزلچند اک خیال آمدِ ثانی میں مر گئے جو بھی مری پسند کے کردار تھے نجیبسب ایک ایک کر کے کہانی میں مر گئے (نجیب احمد فہیم) مزید پڑھیں: مومن کی معراج پانچوں نمازیں