(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍اگست۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: جرمنی جلسہ سے پہلے گذشتہ خطبات میں سیرت آنحضرت ﷺ کے حوالہ سے ذکر ہو رہا تھا اور اس میں حضرت عائشہؓ کے واقعۂ افک کا بھی ذکر تھا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت عائشہؓ پرالزام لگانےکی اصل غرض کےحوالے سےحضرت مصلح موعودؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کے سبب کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ ’’ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ ؓ پر جو الزام لگایا گیا تو اس کی اصل غرض کیا تھی؟ اس کا سبب یہ تونہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہؓ سے کوئی دشمنی تھی۔ ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے کوئی تعلق ہو، نہ قضا سے، نہ عہدوں سے، نہ اموال کی تقسیم سے، نہ لڑائیوں سے، نہ مخالف اقوا م پرچڑھائیوں سے، نہ حکومت سے،نہ اقتصادیات سے، اس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے۔ ‘‘ جب تعلق ہی نہیں ان چیزوں سے۔ ’’پس حضرت عائشہ ؓ سے براہِ راست بغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ نعوذ باللہ یہ الزام سچا ہو جس کو کوئی مومن ایک لمحہ کےلیے بھی تسلیم نہیں کر سکتا خصوصاً اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پرسے اِس گندے خیال کو رد کیا ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لیے لگایا گیا ہو۔ اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لیے یا ان کے سرداروں کے لیے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔ ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہو سکتا ہے۔ ‘‘ادنیٰ غور سے بھی معلوم ہوسکتا ہے ’’کہ حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ ایک رسول کریم ﷺ سے اور ایک حضرت ابوبکرؓ سے کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں۔ یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لیے فائدہ بخش ہو سکتی تھی۔ یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ ورنہ خودحضرت عائشہ ؓ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا۔‘‘ یعنی آپ کی سوکنیں جو تھیں، دوسری بیویاں جو تھیں ان کا تعلق ہو سکتا تھا۔ ’’اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید حضرت عائشہ ؓ کی سوتوں نے حضرت عائشہؓ کو رسول کریم ﷺ کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کے لیے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہ ؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مدِمقابل خیال کیا کرتی تھی وہ حضرت زینب بنت جحشؓ تھیں۔ ان کے علاوہ اَور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی۔ ‘‘کیونکہ وہی زیادہ بولا کرتی تھیں۔ ’’مگر حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں زینبؓ کے اِس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگایا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کی تردید کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینبؓ ہی تھی۔ پس حضرت عائشہ ؓ سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو ان کی سوتوں کوہی ہو سکتی تھی۔ اور وہ اگر چاہتیں تو اِس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ ؓ رسول کریم ﷺ کی نظروں سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے۔ ‘‘یعنی دوسروں کی عزت بڑھ جائے۔ ’’مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں دیا۔ اور اگر کسی سے پوچھا گیا’’یعنی ان سوتوں میں سے یا دوسری بیویوں میں سے کسی سے پوچھا بھی گیا ‘‘تو اس نے حضرت عائشہؓ کی تعریف ہی کی۔ غرض مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ پس آپؓ پر الزام یا تو رسول کریم ﷺ سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ رسول کریم ﷺ کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ آپؐ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابوبکرؓ ہی ہے۔ پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہؓ رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گر جانے کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپؓ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کر دیں جو انہیں آپؓ سے تھی۔ اور اس طرح رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا’’قرآن شریف میں، سورة نور میں۔ ‘‘حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا ہے کہ صحابہؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکرؓ کا ہی مقام ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے کہا: اے عائشہؓ! میں چاہتا تھاکہ ابوبکرؓ کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سِوا اَور کسی پر راضی نہیں ہونگے اس لیے میں کچھ نہیں کہتا’’ یعنی حضرت ابوبکر کو ہی چنیں گے۔ ‘‘غرض صحابہؓ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد ان میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکرؓ کا ہے اور وہی آپؐ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےہجرت مدینہ سےقبل عبداللہ بن ابی بن سلول کی حیثیت اورآنحضرتﷺکےمدینہ ہجرت کرنےپراس کی مخالفت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلے اَوس اور خزرج تھے اوریہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل و خونریزی کا بازار گرم رہتا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رُعب مٹتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے آپس میں صلح کی تجویز کی اور قرار دیا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کرلیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے تاج بننے کا حکم دے دیا گیا۔ اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اس کی بیعت کر آئے ہیں۔ اس پر رسول کریم ﷺ کے دعویٰ کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند دنوں کے بعد اَور لوگوں نے بھی مکہ جا کر رسول کریم ﷺ کی بیعت کر لی اور پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپؐ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لیے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ایک صحابیؓ کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ انہی دنوں چونکہ مکہ میں رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کو بہت تکالیف پہنچائی جارہی تھیں اِس لیے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ صحابہؓ سمیت مدینہ ہجرت کر کے آگئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے جو تاج تیار کروایا جارہا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا کیونکہ جب انہیں ’’یعنی مدینہ والوں کو ‘‘دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیاتو انہیں کسی اَور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیداہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے اس ارادہ میں بھی اسے زک دی کیونکہ اس کا اپنا بیٹا بہت مخلص تھا جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ بادشاہ ہو بھی جاتا تو اس کے بعد حکومت پھر اسلام کے پاس آ جاتی۔ اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے اسے اس رنگ میں بھی زِک دی کہ مسلمانوں میں جونہی ایک نیا نظام قائم ہوا انہوں نے رسول کریم ﷺ سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے؟ آپ کے بعد اسلام کا کیا بنے گا؟ اور اس بارہ میں مسلمانوں کوکیا کرنا چاہیے؟ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پیدا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کرسکتا ہے تو وہ ابوبکرؓ ہے اور رسول کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں کی نظریں انہیں کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ اسے تمام لوگوں سے معزز سمجھتے ہیں۔ پس اس نے اپنی خیر اِسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کردیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گرادیا جائے بلکہ خود رسول کریمﷺ کی نگاہ سے بھی آپ کو گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپؓ پر ایک نہایت گندہ الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں تو اشارةً بیان کیا گیا ہے لیکن حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اِس سے غرض یہ تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہوجائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم ﷺ سے بھی خراب ہوجائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم ہونا اسے یقینی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں برباد ہوجاتی تھیں …چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لیے عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی اپنی موت کو دور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا۔ وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابوبکرؓ کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ جب رسول کریم ﷺ نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکرؓ آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابوبکرؓ سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اس نے چاہا کہ اِس کا ازالہ کرے۔ چنانچہ اِسی امرکا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کے لیے اس نے حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگادیا تا حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کو حضرت عائشہؓ سے نفرت پیدا ہو اور حضرت عائشہؓ سے رسول کریم ﷺ کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابوبکرؓ کو رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہوجائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے۔ ‘‘ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ نومبر2025ء