تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام(قسط ۷۵) جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مسجد فضل لندن کی تعمیر کی غیرمعمولی اہمیت ہےاور برصغیر میں بسنے والے احمدیوں کا یورپ اور مغربی دنیا کی طرف متوجہ ہونا بھی اسی مرکز اسلام سے عبارت ہے۔ ذیل میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کی تصنیف ’’مشاہدات عرفانی‘‘ کا تعارف پیش ہے جسے اواخر دسمبر۱۹۲۷ء میں تیار کیا گیا تھا اور مصنف کے بیٹے ابوالخیر محمود احمد عرفانی ناظم انوار احمدیہ بک ڈپو قادیان نے انقلاب سٹیم پریس لاہور سے چھپواکر تراب منزل قادیان سے شائع کیا تھا۔ اڑھائی سو صفحات کی اس ضخیم کتاب کو نقشہ جات اور تصاویر سے بھی مزین کیا گیا ہے۔کتاب کا پس منظر بتاتے ہوئے عرض حال میں مصنف لکھتے ہیں کہ جب وہ یورپ اور بلاد اسلامیہ کی سیاحت کےلیے نکلے تھے تو ان کے خیال میں کسی سفرنامہ کی ترتیب نہ تھی بلکہ خاموشی کے ساتھ وہ سب کچھ دیکھنا اور سوچنا چاہتے تھے۔ بس اتنا ارادہ ضرور تھا کہ وہ اپنے اس سفر کے نتائج کو اکابران امت کے غور و فکر کے لیے ایک مفصل رپورٹ کی صورت میں پیش کردیں گے، لیکن جب وہ لندن میں تھے تو انہوں نے حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب کو ایک پرائیویٹ خط لکھا جس کے بعض پیراگراف انہوں نے ریویو آف ریلجنز میں اشاعت کے لیے دے دیے۔ اس کے بعد مصنف کے قلم سے نکلی تحریریں ’’مشاہدات عرفانی‘‘ کے عنوان سے الفضل میں، ’’دانشمند مشرق مغرب میں‘‘ کے عنوان سے ریویو میں، اور ’’سیاحت عرفانی‘‘کے عنوان سے پیسہ اخبار میں شائع ہونے لگیں، نیز مختلف عناوین سے ایران کے جرائد میں بھی مواد شائع ہونے لگا جسے پسند کیا گیا اور احباب نے کتابی شکل میں شائع کرنے کی فرمائش کی۔ سفر سے واپس آکر شیخ یعقوب علی صاحب نے اپنے مشاہدات کو پبلک کرنے کا ارادہ کیا اور اس سلسلہ میں یہ پہلی کڑی تھی جس کے بعد مزید دو یا تین جلدیں بھی متوقع تھیں، جن کے مواد کے متعلق مصنف کا ارادہ تھا کہ ایک جلد مخصوص بلاد اسلامیہ پر ہوگی اور ایک مخصوص لندن پر اور ایک دیگر بلاد یورپ پر۔ لیکن اس سرسری تقسیم سے ہی مصنف کے مشاہدات کی وسعت اور مواد کی کثرت کا اشارہ لیا جاسکتا ہے۔ دوسری جلد میں پیرس کے مشاہدات اور پیرس سے لندن تک کے تفصیلی حالات کا ذکر متوقع تھا، اور مصنف نے کاتب کی طرف سے جلدہی دوسری جلد کا مسودہ لکھنا شروع کرنے کا اشارہ بھی اس کتاب کے آخری صفحہ پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ ’’وامّا بنعمۃ ربّک فحدّث‘‘ اور اسی کی تعمیل میں مصنف کی یہ کاوش نظر آتی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے اس دُور دراز کے سفر کے مشاہدات کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کی بجائے ضبط تحریر میں لاکر آج کے لوگوں کو بھی ایشیا سے یورپ تک کے سفر کی معلومات میں شامل کرلیا ہے، بلکہ کئی ممالک کے لوگوں، رہن سہن، عادات و اطوار اور مذہبی اور فکری اور معاشرتی زندگی کی اپنے رواں قلم سے ایک جیتی جاگتی تصویر بناڈالی ہے، جس پر مصنف ایک خاص شکریہ کے مستحق ہیں۔ مشاہداتِ عرفانی کے شروع میں مصنف لکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ ۱۸۹۵ء میں ان کے دل میں یورپ اور بلادِ اسلامیہ کی سیاحت کا خیال پیدا ہوا۔ ان دنوں وہ امرتسر میں مقیم تھے اور اخبار نویسی کو مستقل شغل کے طور پر اختیار کرچکے تھے۔ اس وقت سفر کے اخراجات کے اعتبار سے بھی یہ آسان تھا، لیکن کسی وجہ سے یہ ارادہ ملتوی ہوگیا۔ بعد میں انہوں نے لکھا کہ اب مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد مجھے بے شمار روحانی اور جسمانی برکتوں سے نوازا۔ اگر میں اس وقت سفر پر روانہ ہو جاتا تو ان برکات سے محروم رہ جاتا، یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اور جماعت احمدیہ کی تاریخ کو محفوظ کرنے کی خدمت۔ ۱۹۲۴ء میں لندن کی مذہبی کانفرنس کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جب بنفس نفیس خود جانے کا فیصلہ فرمایا تومصنف کتاب ہٰذا حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کو بھی اس قافلے میں بطور صحافی اور سیکرٹری شامل فرمایا۔ مصنف لکھتے ہیں: اگر اس سے پہلے ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہزار مرتبہ بھی میں یورپ اور بلادِ اسلامیہ کا سفر کر لیتا تو بھی مجھے وہ عزت اور مقام نہ ملتا جو اس سفر (۱۹۲۴ء) میں نصیب ہوا۔ یہ سفر محض اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لیے تھا اور لاکھوں انسانوں کی دعائیں اس کے ساتھ تھیں۔ یہ سفر نومبر۱۹۲۴ء میں مکمل ہوا۔ اس دوران مصر اور بلادِ اسلامیہ کی سیاحت بھی ایک حد تک ہو گئی۔ ۱۹۲۴ء میں لندن سے واپسی پر دوبارہ مصنف کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں مزید فرصت کے ساتھ ان ممالک کو دیکھنے کا موقع ملے۔ اگلے سال (۱۹۲۵ء) انہوں نے اس سفر کا پختہ ارادہ کیا اور تیاری شروع کی۔ بمبئی کے ایک معزز دوست، جو تیس سال کے پرانے رفیق تھے، انہوں نے بھی مدد کی پیشکش کی اور ماہ جون ۱۹۲۵ء میں وہ یورپ روانہ ہوگئے۔ مصنف نے یہ سفرنامہ لندن میں لکھنا شروع کیا اورکہا کہ اس میں زیادہ تر مشاہدات اور خیالات درج ہیں، جو محض ڈائری کی طرز پر نہیں ہیں۔ مصنف کہتے ہیں: میں اس سفر کو اپنی ذات کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک نشانِ رحمت سمجھتا ہوں۔پیش لفظ میں وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے ’’کلیات‘‘ کے نام سے قادیان سے ایک ماہوار رسالہ شائع کرنے کا ارادہ کیا تھا جس میں ’’مشاہدات‘‘ سلسلہ وار شائع ہونے تھے، مگر وہ رسالہ جاری نہ ہوسکا۔ لہٰذا یہ تحریریں قادیان آ کر قلم بند کیں۔ کتاب کے متن کا آغاز ’’قادیان سے روانگی – ۱۱؍جون ۱۹۲۵ء‘‘ سے ہوتا ہے۔ جس میں مصنف اپنے سفر کے آغاز کے دن، ۱۱؍جون بروز جمعرات کی روانگی کا نہایت دردناک منظر بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ۱۰ جون کو، یعنی روانگی سے ایک روز قبل، مجھے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی سعادت ملی۔ اس وقت میں مختلف فکری اور ذاتی ہموم و غموم میں مبتلا تھا اور اپنے آپ کو حالتِ ابتلا میں پاتا تھا۔ جب میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے اپنی فطری شفقت اور توجہ سے میری بات کو سنا۔ یہ لمحہ ایسا تھا جو مجھے کبھی فراموش نہیں ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے دل میں مال و دولت کی کوئی محبت نہیں اور قادیان کی تنگ دستی میں بھی راحت محسوس کرتا ہوں۔ حضورؓ نے مجھے کچھ زادِ راہ بھی عطا فرمایا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ گھر سے روانگی کا وقت آیا تو سب اہلِ خانہ جمع تھے۔ ہر ایک کے دل میں مختلف جذبات تھے۔ میں سب کو دیکھ رہا تھا اور سب مجھے دیکھ رہے تھے۔… دل پر جبر کرتے ہوئے،اورآسانی سے روکے نہ جانے والے آنسو چھپانے کی کوشش کی اور پھر یکہ پر سوار ہو کر بٹالہ کی طرف روانہ ہوا۔ آگے چل کر سکندرآباد اور بمبئی کی مصروفیات کا ذکر ہے۔ ۱۷؍جون کو بمبئی سے روانگی کا ذکر ہے۔ یہاں انہوں نے ٹامس اینڈ کک کمپنی کا ذکر کیا جس نے ان کے سفر کا انتظام کیا تھا۔ انتظامات، دشواریاں اور ان کے حل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مکہ مکرمہ کے قریب ترین مقام پر جہاز کا گزرنا، جہاز پر انتظامی امور، عیسائیوں کااپنی مذہبی عبادت کا انتظام کرنا، بحیرہ قلزم کی تاریخی اہمیت، اس میں موجود جزائر جن پر مختلف عالمی طاقتوں کا قبضہ ہے، نہر سوئز، پورٹ سعید، قاہرہ، اہل مصر کی عادات و اطوار، مصری ریل، سواریاں، سکے، قبر پرستی، وہاں احمدیت کا نفوذ، الازہر یونیورسٹی، بورڈنگ ہاؤس، صفائی کا ناقص انتظام، جامع عمرو بن العاص، مقوقس کا محل، مصری علماء سے ملاقاتیں اور اہم دینی امور پر ان سے گفتگو کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح کی دلچسپ معلومات سے بھرپور ذکرکے بعد مصنف یورپ پہنچ جاتا ہے۔ مصنف کی ساحلی شہر برنڈیزی سے اٹلی سے وینس تک کی مسلسل مصروفیات و مشاہدات دلچسپ بھی ہیں اور معلومات افزا بھی۔ اس کتاب میں وینس سے براستہ سوئٹزرلینڈ فرانس کے شہر پیرس تک کے سفر میں بھی مصنف نے مشاہدہ اور بیان پر اپنی وہی قدرت قائم رکھی ہے۔ پھر پیرس سے فوکسٹن اور پھر ورودلندن پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ وہ رات ۱۱ بجے لندن میں وکٹوریہ سٹیشن پر اترے، ہوٹلوں میں جگہ نہ ملی تو اس کے لندن مشن کے انچارج حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب کے پاس نصف شب کے وقت پہنچے،یہ خادم اسلام وجود تب بجائے سوئے ہوئے ہونے کے کام میں مصروف تھے،لکھتے ہیں کہ مولانا درد صاحب نے میرا استقبال کیا، مجھے دیکھ کر بےحد خوش ہوئے، تعجب و محبت کے جذبات سے دونوں نے باہم مصافحہ اور معانقہ کیا۔اور یوں کتاب کے حصہ اوّل کا اختتام ہوتا ہے۔ ۲۵۰ سے زائد صفحات کی اس کتاب میں مسلمان علماء، تاجروں، طالب علموں، عیسائی پادریوں، صحافیوں، یہودیوں، بہائیوں، ہندوؤں، گجراتیوں، مختلف قومیتوں کے مردو خواتین سے مکالمے، ضروری نقشے، فوٹوز اور باریک بینی سے کیے گئے مشاہدات اور ان پر عارفانہ اور دردمندانہ تبصرے، احمدیت کی ترقی کے لیے دعائیں اورمستقبل کے لیے نیک منصوبے، مختلف اقوام و مذاہب کے مذہبی اور تاریخی مقامات جیسا کہ گرجے، جیل خانے،سیاسی قیدیوں کی کوٹھڑیاں، بادشاہوں کے محلات کی بلند و بالا عمارات، صدیاں پہلے تعمیر کیے گئے مضبوط قلعوں کی نقشہ کشی، پبلک گارڈن، مجسمے،ذرائع نقل و حمل، ریل گاڑیاں، دریائی کشتیاں، ہوٹل و اقامت گاہوں کے مسائل اور احتیاطیں، مقامی رسم و رواج، ہر عمر و رنگ و نسل کے افراد سے گفتگو، جانوروں کے متعلق عادات، کارخانے، بازار، گداگر، شادی بیاہ کی تقریبات، وفات کی رسومات، مصنف کے اپنے بعض خواب، اس کتاب میں جابجا موجود ہیں جو ان کا ہی خاصہ ہیں۔ مزید پڑھیں: مقطعات قرآنی(از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ)