اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط نمبر۲۳۔گذشتہ سے پیوستہ) ’’الفضل‘‘ میرا مربی روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم ریاض احمد باجوہ صاحب رقمطراز ہیں کہ میری عمر تقریباََ اٹھارہ سال تھی جب خداتعالیٰ نے مجھے خوابوں اور قبولیتِ دعا کے ذریعے احمدیت کی طرف مائل فرمایا۔ پھر ایک انذاری خواب ایسا آیا کہ اُس کا نظارہ میرے لیے دل دہلا دینے والا تھا۔ اگلے روز خوف و رجا کی کیفیت میں مَیں اپنے آبائی گاؤں قاضی پہاڑنگ کی مسجد میں نماز عصر ادا کرنے گیا اور دعا کی کہ اے اللہ!مجھے تو علم نہیں کہ کس طرح احمدی ہونا ہے۔ اگر احمدیت سچی ہے تو کسی ایسے آدمی کو بھیج دے جو مجھے بتاسکے کہ احمدی کیسے ہونا ہے۔ جب یہ دعا کرنے کے بعد مَیں مسجد کے صحن میں آیا تو عین اُسی وقت ایک احمدی مسجد کے قریب سے یہ منادی کرتے ہوئے گزر رہاتھاکہ کل ہمارے مربی تشریف لائیں گے اور نماز عشاء کے بعد خطاب کریں گے۔ جو چاہے آکر یہ خطاب سن سکتاہے۔ یہ بارشوں کا موسم تھا۔ ہمارے گاؤں کے اندر سے ہی ایک برساتی نالہ جسے ڈیک کہا جاتا ہے گزرتا ہے۔ جب بارش ہو تو آس پاس کے دیہات بھی زیر آب آجاتے ہیں اور اُس روز تو ڈیک میں ایسی طغیانی آئی ہوئی تھی کہ ہمارا گاؤں ایک کشتی کی مانند سیلاب میں تیرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ گاؤں کے چاروں اطراف دور دور تک پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ ایسے میں کسی کا وہاں تک پہنچنا امر محال نظر آتا تھا اور کسی اجنبی کا آنا تو وہم و گمان سے بھی بعید تھا۔ تاہم ان تمام نامساعد حالات کے باوجود اگلے روز مکرم خورشید احمد صاحب سیالکوٹی نمائندہ الفضل ربوہ عصر کی نماز کے وقت ہمارے گاؤں قاضی پہاڑنگ پہنچ گئے۔ مَیں اس روز تو انہیں نہ مل سکا لیکن اگلے روز میری اُن سے ملاقات ہوئی۔ سلام دعا کے بعد جب وہ دلائل کے ساتھ مجھے احمدیت کی صداقت سمجھانے لگے تو مَیںنے عرض کی کہ اس کی ضرورت نہیں، مجھے اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعے صداقتِ احمدیت سے آگاہ فرما چکا ہے۔ آپ بس یہ راہنمائی فرما دیں کہ میں کس طرح احمدی ہوسکتا ہوں؟انہوں نے مجھے بیعت فارم دیا جسے لے کر مَیں گاؤں کی مسجد میں چلاگیا، دعا کی اور وہیں بیٹھ کر وہ بیعت فارم پُر کیا اور لاکر اُن کو دے دیا۔ انہوں نے میرا وہ خط حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں ارسال کردیا۔ کچھ ہی عرصے بعد حضورؓ کی طرف سے منظوریٔ بیعت کا خط خاکسار کو مل گیا۔ میری قبولِ احمدیت کا علم لوگوں کو ہوا تو گاؤں میں میری مخالفت بڑھنے لگی چنانچہ مَیں ہجرت کرکے ربوہ آگیا اور یہاں برادرم مکرم ظہور احمد باجوہ صاحب کے ہاں رہائش پذیر ہوا۔ میرا اُن سے پہلا خونی رشتہ تو یہ تھا کہ ہمارے پڑدادا ایک ہیں اور دوسرا نیا تعلق یہ تھا کہ ہم دونوں ایک ایسے وجود کے ماننے والے تھے جس نے ہمیں یہ تعلیم دی تھی کہ ’’تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی‘‘(کشتی نوح)۔ چنانچہ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے پہلے پانچ سال میں نے آپ کے گھر میں ہی ایک فردِخاندان کی حیثیت سے گزارے۔ ان کی خاص توجہ اور تربیت کی وجہ سے مجھے بہت سے بزرگوں اور ربوہ کی علمی و ادبی مجالس سے فیضیاب ہونے اور ذیلی تنظیموں میں خدمت کی توفیق بھی ملنے لگی۔ اسی دوران مَیں بحیثیت پروف ریڈر روزنامہ الفضل ربوہ سے منسلک ہوگیا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ جس شخص کے ذریعے مجھے بیعت کی توفیق ملی تھی وہ الفضل کا ہی نمائندہ تھا اور اب جب میں روحانی ولادت میں تربیت کے مراحل سے گزر رہا تھا تو ایک دفعہ پھر الفضل نے میری زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ مَیں تقریباََ چار سال اس خدمت پر رہا اور اس دوران الفضل نے اور اس کے عملے کے حسن سلوک نے میری تعلیم و تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اُس وقت اخبار الفضل کے عملے میں مکرم روشن دین صاحب تنویر (ایڈیٹر)، مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی اور مکرم خورشید احمد صاحب (اسسٹنٹ ایڈیٹرز)، مکرم گیانی عباد اللہ صاحب(مینیجر)، مکرم احمد حسین صاحب (ہیڈ کاتب)، مکرم سردار احمد صاحب (کاتب) اور مکرم محمد یعقوب صاحب (کاتب)شامل تھے۔ تما م کارکنان بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ ہر فرد بڑی فرض شناسی، دلجمعی،لگن اور محبت وعشق سے اپنے فرائض ادا کرنے والا تھا۔ بطور پروف ریڈر مَیں الفضل کو ایک بار نہیں بار بار پڑھتا تھا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعودؑ اور خاص طور پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشادات،خطبات و خطابات اتنی دفعہ پڑھتا کہ جزو بدن بن جاتے تھے۔ اِس وقت میری عمر ۷۴ سال ہے لیکن ان تحریرات کا اثر آج بھی میرے رئواں رئواں میں سمویا ہوا ہے۔ مَیں کہہ سکتاہوں کہ میرا مربی ’الفضل‘ہے۔ بعدہٗ مختلف دفاتر میں خدمت کی توفیق ملی۔ پھر مجھے نظارت زراعت کے تحت سندھ بھجوا دیاگیا۔ تب سے مَیں الفضل کو ایک پروف ریڈر کے طور پر نہیں بلکہ ایک قاری کی حیثیت سے پڑھتا ہوں۔ یہ واحد ذریعہ تھا جس نے مجھے دربارِ خلافت اورربوہ جیسی حسین بستی سے جوڑے رکھا۔ اس روحانی سرچشمہ نے مجھے ہمیشہ فیضیاب کیا۔ میری مشکلات میں میرے لیے احباب جماعت کی دعاؤں کا اثر مَیں نے ہمیشہ محسوس کیا۔ مثلاً میرا بیٹا ندرت ریاض ایک بار ایسا بیمار ہوگیا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعائیں ہمارا سہاراتھیں۔ الفضل میں بھی باربار اعلانِ دعا شائع ہورہاتھا جسے پڑھ کر وہ لوگ بھی تیمارداری کے لیے آئے جنہیں مَیں جانتا تک نہ تھا۔ آخر خداکے فضل نے دعاؤں کو جذب کیا اور میرا بیٹا الحمدللہ تندرست ہوگیا۔ پس یہ الفضل کی ہی برکات تھیں کہ میری تکلیف ساری جماعت کی تکلیف بن گئی اور ساری جماعت میرے لیے مجسم دعا بن گئی جس کا ثمرہ غیر ممکن کے ممکن ہوجانے سے حاصل ہوا۔ ………٭………٭………٭……… ’’الفضل‘‘سے میرا عشق روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں نامور ادیب مکرم احسن اسماعیل صدیقی صاحب مرحوم (آف گوجرہ)کی ایک تحریر شامل اشاعت ہے جو ’’الفضل‘‘ ۷؍اپریل ۱۹۳۶ء سے منقول ہے لیکن آج کے حالات کی بھی عکاس ہے۔ اس سے اُس زمانے کے عمومی حالات کا نقشہ بھی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ یوں تو الفضل کا مَیں بےحد شائق ہوں مگر جس دن الفضل کا خطبہ نمبر ملتا ہے، فرط مسرت سے جھومنے لگتا ہوں اور کسی ایسی جگہ کا متلاشی ہوتا ہوں جہاں میرے مطالعہ میں کوئی چیز مخل نہ ہوسکے تاکہ میں چپ چاپ اپنے پیارے آقا حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ کے مبارک منہ سے نکلے ہوئے جادو اثر الفاظ پڑھوں۔ بار بار پڑھوں اور ایک کیف کے سمندر میں ڈوب جاؤں!! مَیں نے ہرکارے کی آمد کے صحیح وقت کو معلوم کرنے کے لیے اپنے صحن کی دھوپ پر نشان لگا رکھا ہے۔ ہر پانچ منٹ کے بعد بےتابانہ اسے دیکھتا ہوں اور جونہی کہ دھوپ میرے مقررہ نشان پر آجاتی ہے۔ میں اپنے ڈرائنگ روم میں اُس کے انتظار میں آبیٹھتا ہوں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی راہگیر کے بوٹوں کی آواز سے ہرکارے کے آنے کا دھوکا ہو جاتا ہے اور میں اس پھرتی سے دروازہ کھولتا ہوں کہ بچارا راہگیر خوفزدہ سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ مگر میں ہرکارے کو نہ پا کر پھر دروازہ بند کر لیتا ہوں۔ وہ شریف آدمی اپنے ٹھیک وقت پر آتا ہے اور اپنے مخصوص لہجے سے آواز دے کر مجھے میری ڈاک دے جاتا ہے جو عزیزوں کے خطوط، دوستوں کے محبت ناموں، چند ایک ادبی رسائل اور مختلف اخبارات پر مشتمل ہوتی ہے۔ مگر میری نظر ہمیشہ ایک چھوٹے سے تہ شدہ اخبار پر پڑتی ہے جس کا نام الفضل ہے۔ کھولتا ہوں اور اس میں ایسا کھو جاتا ہوں کہ باقی ماندہ ڈاک میری میز پر پڑی کی پڑی رہ جاتی ہے! ۲۸؍مارچ۱۹۳۶ء کو حسب معمول ڈاک آئی تو تمام ڈاک کو پہلے کی طرح میز پر بکھیر دیا۔ میری نظر سرخ رنگ سے لکھے ہوئے الفضل پر پڑی۔ یہ خطبہ نمبر تھا۔ اٹھایا اور پڑھنے لگ گیا ایک ایک لفظ دل میں کُھبتا جارہا تھا اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ میرے سامنے کھڑے خطبہ ارشاد فرمارہے ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ پر ہوں تو اُڑ کر قادیان کے مقدس مامور کی عظیم الشان یادگار، اپنے پیارے آقا کے قدموں سے جا کر لپٹ جاؤں۔ جب میں خطبہ پڑھتے پڑھتے ان الفاظ پر پہنچا کہ ’’آؤ ہم پھر اپنے ربّ کے حضور سجدے میں گر جائیں اور اپنی سجدہ گاہوں کو…‘‘۔ تو میری آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ خطبے کی آخری دعا، بڑی مشکل سے ختم کی اور اُسی وقت اپنے ربّ کے حضور سجدہ کے لیے جھک گیا اور بےاختیار میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے: اے خالق دوجہاں! اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے بےکسوں کے والی! اے قادر مطلق خدا! تُو اپنی ذات کے صدقے اور اپنے جلال کے صدقے ہم ناتوانوں اور مظلوموں پر رحم کر۔ رحم کر۔ رحم کر کہ تیرے سوا کوئی رحم کرنے والا نہیں۔ تُو ہی ارحم الراحمین ہے تجھے ہی دنیا میں امن قائم کرنے کی طاقت ہے۔ آہ! اے سمیع بصیر خدا! ناپاک روحیں تیرے پیارے فرستادہ مسیح کو گندی گالیاں دیتی ہیں۔ تیرے پیارے بندوں کے دل دکھاتی ہیں۔ تُو اپنی ربوبیت کا جلوہ دکھا اور ان لوگوں کو ہدایت کا نور بخش۔ یا غضب کی آگ ان بدروحوں پر برساکر پاک کر دے۔ آمین آمین ………٭………٭………٭……… ’’الفضل‘‘ ہمیشہ تازہ رہنے والا اخبار روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میںمکرم لقمان محمد خان صاحب کے قلم سے ایک احمدی دوست کا بیان کردہ واقعہ شامل اشاعت ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ مکرم چودھری حفیظ احمد صاحب آف کراچی ایک دفعہ اپنے عزیزوں کے ہاں ملتان گئے تو ایک دن وہاں کی احمدیہ مسجد میں تشریف فرما کسی دوست نے کسی دوسرے سے تازہ الفضل پڑھنے کے لیے مانگی۔ وہاں ایک بزرگ احمدی مکرم میاں غلام رسول صاحب اعوان آف ڈیرہ غازی خاں بھی اتفاق سے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فوراً اُٹھے اور چند روز قبل شائع ہونے والا الفضل الماری سے نکال لائے اور فرمانے لگے کہ عزیزم! یہ آپ کی نظر میں پرانا الفضل ہے مگر ذرا بتانا اس میں کونسی بات پرانی ہوگئی ہے کہ تم تازہ الفضل کی تلاش میں ہو۔ الفضل تو دنیا کا واحد اخبار ہے جو ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں اخبار ’’الفضل‘‘ کے حوالے سے مکرم عبدالسلام صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: الفضل اِک انعام ہے اقوام کے لیےالفت کا شیریں جام ہے اقوام کے لیےہے کاروانِ نوعِ بشر کے لیے حُدینغمۂ تیز گام ہے اقوام کے لیےپکڑے ہوئے ہے نبض یہ دورِ جدید کیچارہ گر آلام ہے اقوام کے لیےتشنہ لبوں کے واسطے مہدی کا ہے سبومسرورؔ کا یہ جام ہے اقوام کے لیےمُردوں میں ہے یہ پھونکتا روحِ حیاتِ نَویہ زندگی کا جام ہے اقوام کے لیےمہدی کی مَے ہے محفلِ گیتی میں بانٹتاگویا یہ دورِ جام ہے اقوام کے لیے