زمانہ طالب علمی میں سکول کے باہر بچوں کے لیے خوانچوں پر، ٹھیلوں پر یا گلی گلی پھیری لگا کر مختلف اشیاء فروخت کی جاتی تھیں۔ ان کے پاس قسما قسم کے چورن، کیری، املی کٹارے، امرود اور کھٹے لال بادام ہوا کرتے تھے۔ شیشے کے مرتبانوں میں مچھلیاں بھی ان کے ٹھیلے کا لازمی جزو ہوتیں جو بچوں کو اس ریڑھی کی طرف مائل کرتیں۔ ہم مچھلی سمجھ کر بڑے شوق سے انہیں خریدتے لیکن بعد میں وہ مینڈک بن جاتیں۔ ایک چھابڑی میں جنگل جلیبی کا ڈھیر بچوں کو اپنی جانب مائل کرتا۔ سندھ اور خصوصاً کراچی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ نام نیا نہیں ہوگا۔ سوشل میڈیا پر جنگل جلیبی کی ایک تصویر نظر آئی تو اس کے حوالے سے یہ باتیں قارئین کی نظر ہیں۔ جنگل جلیبی جسے انگریزی میں Manila Tamarind اور سائنسی زبان میں Pithecellobium dulce کہا جاتا ہے، ایک سدا بہار درخت ہے جو اپنی خوبصورت شکل اور لذیذ پھل کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے پھل کی ساخت جلیبی سے مشابہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے عام لوگ اسے ’’جنگل جلیبی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ کئی جگہوں پر اسے ’’کٹی جلیبی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس کا ذائقہ ہلکا میٹھا، کھٹا اور تازگی بخش ہوتا ہے۔ اس کا پھل دیکھنے میں جلیبی جیسا لگتا ہے لیکن ذائقے میں بالکل منفرد ہے۔ اس کے بیج زہریلے ہوسکتے ہیں اس لیے صرف گودا استعمال کیا جاتا ہے۔یہ درخت تیزی سے بڑھتا ہے اور کچھ عرصہ میں سایہ دار بن جاتا ہے۔ یہ درخت عموماً درمیانے قد کا ہوتا ہے اور ۱۰ سے ۱۵ میٹر تک بلند ہو سکتا ہے۔ اس کی چھال بھوری یا سرمئی رنگ کی ہوتی ہے، جبکہ شاخوں پر اکثر چھوٹے کانٹے بھی پائے جاتے ہیں۔ پتّے بیضوی اور ہرے ہوتے ہیں۔ پھول چھوٹے، سفید اور خوشبودار ہوتے ہیں، جن سے خوشبودار گچھے بنتے ہیں۔ پھل گولائی دار، مروڑ کھائے ہوئے غلاف کی شکل میں ہوتا ہے جو دیکھنے میں جلیبی جیسا لگتا ہے۔ اندر موجود گودا گلابی، سرخی مائل یا سفید ہوتا ہے جس میں سیاہ بیج چھپے ہوتے ہیں۔ جنگل جلیبی کا تعلق وسطی اور جنوبی امریکہ سے ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ دنیا کے گرم علاقوں میں پھیل گیا۔ آج یہ برصغیر، مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں یہ اکثر سڑکوں کے کنارے، باغات اور دیہی علاقوں میں بکثرت نظر آتا ہے۔ اس کے پھل میں کئی قیمتی اور اہم غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں، جیسے:وٹامن سی، کیلشیم، آئرن، فاسفورس، فائبر۔ یہ اجزاء اسے نہ صرف ذائقے دار بلکہ غذائیت بخش بھی بناتے ہیں۔وٹامن سی کی وافر مقدار سے یہ مدافعتی نظام کو مضبوط کر کے جسم کو بیماریوں کے خلاف قوت دیتا ہے۔ فائبر اور ہلکی تیزابی خاصیت بدہضمی اور قبض میں فائدہ مند ہے۔ آئرن کی موجودگی جسم میں خون کے سرخ خلیات بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اس کا گودا خون میں شوگر لیول کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اینٹی آکسیڈینٹ خصوصیات سے یہ جسم میں فری ریڈیکلز کو ختم کر کے بڑھاپے کی رفتار کم کرتا ہے۔ بچے اور بڑے اس کے پھل کو شوق سے کھاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں اس کے پتوں اور چھال کا قہوہ بخار اور کھانسی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی لکڑی ایندھن اور فرنیچر سازی کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ درخت نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ ماحول کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ دنیا کے کئی حصوں میں اسے محض پھل کے طور پر نہیں بلکہ دوا اور سایہ دار درخت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ شہری علاقوں میں خوب لگایا جاتا ہے۔ اس کے پھول شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جبکہ پھل پرندوں اور جانوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ یہ مٹی کی زرخیزی بڑھانے میں بھی مدد دیتا ہے کیونکہ اس کی جڑوں میں موجود بیکٹیریا نائٹروجن کو مٹی میں جذب کرتے ہیں۔ یہ درخت نسبتاً سخت جان ہے اور کم پانی والی زمین پر بھی اچھی طرح اگ سکتا ہے۔ بیج سے کاشت کیا جاتا ہے اور جلدی نشوونما پاتا ہے۔ دھوپ والی جگہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ زیادہ پانی کی ضرورت نہیں پڑتی، اسی لیے خشک علاقوں میں بھی کامیابی سے اگایا جاتا ہے۔جنگل جلیبی ایک ایسا درخت ہے جو خوبصورتی، غذائیت اور دوائی تینوں پہلوؤں سے قیمتی ہے۔ ماحول کے تحفظ میں اس کی شراکت اسے مزید اہم بناتی ہے۔ سکول کے انہی ایام میں ہم نے بھی جنگل جلیبی کا بیج گھر کے باہر اُگا لیا اور لمبے عرصے تک پھل کے ساتھ ساتھ گھنا درخت گھر کے باہر شام کی کچہری کے لیے سائبان مہیا کرتا رہا۔ (ابو الفارس محمود) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بےلگام کھپت کا زمانہ