(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ یکم مارچ ۱۹۳۵ء) ۱۹۳۵ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نےاﷲتعالیٰ کی صفات مَلِک، قُدُّوْس، عَزِیْز اور حَکِیْم سے ملنے والے انعامات کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) میں نے اِس وقت جماعت کو ایک گُر بتا دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ظالم کو کبھی ہدایت نہیں دیتا اس لئے اپنے اعمال میں ظلم مت پیدا ہونے دو۔اپنے رویہ میں نرمی رکھو۔ اﷲ تعالیٰ دولت دے تو تمہارے اندر اِنکسار پیدا ہو،علم سے تواضع پیدا ہو اور وہ تمہیں جتنا اونچا کرے اُسی قدر جھکواور کوشش کرو کہ اﷲتعالیٰ کے فضلوں سے اس کے بندوںکو فائدہ پہنچاؤ پھر فرمایامَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰٮۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا (الجمعہ:۶) اے مسلمانو! ہم تمہیں کتاب سکھاتے ہیں، آیات کی تلاوت کراتے ہیں، قدوس بناتے ہیں، حکمت سکھاتے ہیں محمد رسول اﷲ ﷺ تمہیں ایسی تعلیم دیتا ہے جو خدا کا بروز اور اس کا مثیل بنا دیتی ہے۔تمہارے ذریعہ خدا تعالیٰ کا ظہور دنیا میں ہو گا مگر یہ خصوصیات تمہارے اندر اس وقت تک رہیں گی جب تک حقیقی تعلق تمہارا اس کتاب کے ساتھ رہے گا جب یہ نہیں رہے گا تو تمہارے اندر بھی کوئی خوبی نہ رہے گی اور اس کی مثال یہ دی ہے کہ محمد ﷺسے پہلے بھی ایک نبی آیا جس کے پاس تورات تھی۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کے ذریعہ اپنی قوم کا درجہ بہت بلند کردیا تھا وہ قوم سانپ تھی مگر اس کے ہاتھ میں آ کر عصا بن گئی۔ سانپ جان لیتا ہے اور عصا جان کی حفاظت کرتا ہے۔گویا جو قوم گمراہ کرتی تھی وہ خود ہادی بن گئی۔ان کے اندر یہ تغیر کس طرح پیدا ہوا؟ یہ تورات کے ساتھ ان کا تعلق ہی تھا جس نے ان کی کایا پلٹ دی اور انہیں مَلِک و قدوس وعزیز اور حکیم بنا دیا اور انہیں روحانی اور جسمانی دونوں بادشاہتیں حاصل ہوئیں لیکن جب ان کا تعلق اس کے ساتھ نہ رہا تو ان کی یہ خصوصیات بھی ساتھ ہی مٹ گئیں۔ تورات موجود تھی مگر اس سے انہیں کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ تعلق باقی نہ رہا تھا۔ کوئی کتاب خواہ کتنی مفید کیوں نہ ہو خالی اوپر رکھ دینے سے فائد ہ نہیں پہنچا سکتی فائدہ اُس پر عمل کرنے سے پہنچتا ہے۔ کتاب کا موجود ہونا اگر اس سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے ایسا ہی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں،کیا اُس گدھے کو جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں کوئی عالِم کہتا ہے ؟اگر ایک مزدور کے سر پر ہیروں کی گٹھڑی رکھی ہوئی ہو تو وہ امیر نہیں کہلا سکتا اسے ہیرے اونچا نہیں کرتے بلکہ اس کے سر کو نیچا ہی کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کے سر پراَڑھائی تین مَن سونا رکھ دیا جائے تو اس سے اس کا سر نیچے جھکے گا، بلند نہیں ہو گا،ہاں اگر اتنا روپیہ اس کے پاس ہو تو یقیناً وہ دنیا میں عزت پائے گا۔اسی طرح روحانی علوم کو اگر کوئی شخص اپنے اندر جذب نہ کرے ان کی حقیقت تک نہ پہنچے بلکہ صرف چھلکے پر ہی اکتفا کرے تو وہ کوئی عزت نہیں پاسکتااس لئے فرمایا یاد رکھو بے شک اﷲتعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اور اس کتاب پر عمل کر کے تم ملک،قدوس،عزیز، حکیم بن سکتے ہو مگر مغرور نہ ہونا کہ ہم ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے ہیں جس طرح یہ کتاب ملک بنا سکتی ہے اسی طرح اسے نظر انداز کر دینا ذلیل بھی کر دیتا ہے،جس طرح یہ عزیز بناتی ہے اسی طرح ذلیل بھی کر دیتی ہے، جس طرح یہ حکیم بناتی ہے اس کی خلاف ورزی پاگل اور بے وقوف بھی کردیتی ہے جب تم قرآن کو چھوڑ دو گے تو تمہاری مثال اُس گدھے کی سی ہو گی جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ یاد رکھو کہ تم سے پہلے یہود نے ایسا کیا اور ان کی حالت ذلیل ہوگئی ہے اگر کسی قوم کے پاس خدا کا کلام نہ ہو تو وہ عذر کر سکتی ہے کہ پتہ نہ تھا لیکن جب صداقت موجود ہو تو اس کا انکار کرکے کوئی قوم سزا سے کیونکر بچ سکتی ہے۔ اس کے بعد فرمایاوَاللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (الجمعہ:۶)ھُدًی کے معنی راستہ دکھانے یعنی کامیاب ہونے کے ہیں اور اس میں بتایا ہے کہ ظالم کو اﷲتعالیٰ کامیاب نہیں کرتا۔جب کوئی قوم ظالم ہو جائے تو اس کی کامیابی کے رستے آپ ہی آپ بند ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک اٹل قانون ہے جسے اﷲتعالیٰ نے دنیا میں قائم کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ بھول جاتے ہیں جس طرح موت اگرچہ یقینی ہے اور ہر شخص جانتا ہے مگر پھر بھی لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔دنیا میں اور جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی کو کوئی ملتی ہے اور کوئی کسی اور سے حصہ پاتا ہے۔ آنکھیں ہیں کسی کی ہوتی ہیںکوئی نابینا ہوتا ہے،زبان ہے کوئی بولتا ہے کوئی گونگا ہوتا ہے،حِسّ ہے کسی کی ہوتی ہے اور کوئی فالج زدہ ہوتا ہے، بال کسی کے ہوتے ہیں اور کوئی گنجا ہوتا ہے،ناک کسی کی ہوتی ہے کوئی نکٹا ہوتا ہے ہاتھ کسی کے ہوتے ہیں اور کسی کے شل ہوتے ہیں۔غرض دنیا کی کوئی چیز لے لو کسی کو کوئی ملی ہو گی اور کسی کو کوئی لیکن موت ایسی چیز ہے جس سے ہر جاندار حصہ لیتا ہے مگر پھر بھی لوگ اسے بھول جاتے ہیں آخری وقت آ پہنچے تب بھی یہی امید ہوتی ہے کہ شاید اب بھی بچ جائیں۔قوموں کی ترقی اور تنزّل کا بھی یہی حال ہوتا ہے ایک قوم کوترقی حاصل ہوتی ہے وہ سمجھ لیتی ہے اب تنزّل نہیں ہو گااور دوسری گر جاتی ہے اور پھر خیال بھی نہیں کر سکتی کہ ہمیں بھی ترقی ہو گی۔میں نے خود چوہڑوں وغیرہ کو سمجھایا ہے کہ تم اپنے آپ کو ذلیل نہ سمجھا کرو مگر وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ جس طرح پرمیشور نے ہمیں رکھا ہے ویسے ہی رہنا بہتر ہے،ان کے اندر ترقی کا احساس ہی نہیں رہتا۔تو یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح موت ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح یہ بھی اﷲتعالیٰ کا ایک قانون ہے کہ جب کوئی قوم ظالم ہو جائے،خواہ وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو تنزّل کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں ہم ظلم سے ترقی کریں گے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں سچ بولنے سے گزارہ نہیں ہو سکتا حالانکہ قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ سے کبھی ترقی اور کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے وَاللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ جب کوئی قوم اپنی قوّت کا ناجائز استعمال کرتی ہے تو تباہ ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق اپنی جماعت کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ اس بات کا خاص خیال رکھیں ہم اِس وقت کمزور ہیں لیکن کہیں ہمیں بھی قوّت اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔ کوئی احمدی بڑا زمیندار یا تاجر یا کوئی افسر ہوتاہے جہاں بھی ایسا ہو، چاہئے کہ اپنی طاقت کا صحیح استعمال کیا جائے۔ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ سارے ہندوستان میں کوئی ایسا زمیندار نہیں ہو گا جو اپنے مزارعین اور کسانوں سے ایسا سلوک کرے جو ہم یہاں کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی مالکان میں سے سارے ملک میں شاید کوئی اتنا بدنام نہیں ہو گا جتنا ہم ہیں۔ہم تو قادیان کے واحد مالک ہیں لیکن کسی اَور گاؤں میں جا کر دیکھ لو کوئی زمیندار چوتھے حصے کا ہی مالک کیوں نہ ہو کیا مجال جو اُس کے خلاف کوئی بات کر سکے مگر ہمارے سامنے سب بولتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے قریب کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ بندوبست کا کوئی تحصیلدار یا کوئی افسر یہاں آیا میں اُس زمانہ میں ابھی پڑھ رہا تھا،اس محکمہ کا شاید کوئی قاعدہ ہے کہ مالیہ وغیرہ کے متعلق کسی کو اعتراض ہو تو دریافت کر لیتے ہیں شاید ایسی ہی کوئی بات تھی یا کوئی اور بات تھی اور افسر یہاں آیا ہوا تھا مجھے بھی بلایا گیا تو ایک مزارع مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ جی! ان کو کیا پوچھتے ہوان کا تو روپیہ میں ایک آنہ ہی ہے۔ کیا کہیں کوئی اور جگہ ہے جہاں کسان اس طرح بول سکیں حالانکہ جیسا سلوک ان لوگوں سے ہم یہاں کرتے ہیں ویسا اور کوئی نہ کرتا ہو گا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ یہاں ایک مجسٹریٹ آیا اور آپ سے یہاں کے ہندوؤں کے متعلق ذکر کیا کہ وہ کچھ شاکی ہیں آپؑ نے ہندوؤں کو بلایا اور اس کے سامنے ان پر اپنی نوازشیں گنوانی شروع کیں۔آپ نے بتانا شروع کیا کہ ہم نے ان لوگوں کے لئے یہ کیا،یہ کیا اور فرمایا کہ یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں ان سے کہیں انکار کر دیں۔بڈھے شاہ وغیرہ سب بیٹھے تھے مگر کسی کو انکار کی جرأت نہ ہوئی۔اسی طرح یہاں کے ہندوؤں میں ایک دفعہ کچھ شورش ہوئی جو دراصل ان سب شورشوں کا پیش خیمہ ہے،ان دنوں بٹالہ کے ایک تحصیلدار جن کا نام شاید دیوان چند تھا یہاں آئے اور کہا کہ مَیں بطور سفارش آپ کے پاس آیا ہوں آپ ان کی شکایات کا خود ہی علاج کر دیں۔میں نے ان کے سامنے وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام والا طریق پیش کیا اور بتایا کہ ان کے ساتھ فلاں موقع پر ہم نے یہ کیا اور فلاں موقع پر یہ کیا اور ان سے کہیں کہ ان میں سے ایک بات کا بھی انکار کر دیں انہوں نے تسلیم کیا کہ مَیں سمجھ گیا ہوںاب میں ان کی سفارش نہیں کروں گا اور ان کو جا کر ڈانٹا اور اس جھگڑے کی صلح صفائی کرا دی۔ہمارا سلوک ایسا ہے کہ گو کوئی ہمیں ظالم ہی کہے لیکن دلوں میں ہماری خوبی کو مانتے ہیں۔اب بھی ان لوگوں کو کوئی مصیبت پیش آئے تو امداد کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ظالم کے پاس مدد کے لئے کوئی نہیں جایا کرتا۔ہماری عادت یہ نہیں کہ نام ظاہر کریں لیکن اگر ضرورت ہو تو مَیں ثابت کر سکتا ہوں کہ ہم نے ہندوؤں، سکھوں اور غیراحمدیوں سب کی مدد کی ہے۔ انہیں وظائف دیئے ہیں، کپڑے دیئے ہیں،روپے دیئے ہیں اور اگر ضرورت ہو تو ان لوگوںکو سامنے بٹھا کر مَیں اقرار کرا سکتا ہوں کہ تم لوگوں کی فلاں فلاں مدد کی گئی یا نہیں۔ ۱۹۲۸ء میں جب میں ڈلہوزی گیا تو قادیان کے لالہ شرمپت صاحب کے لڑکے لالہ گوکل چند صاحب تحصیلدار جو فوت ہو چکے ہیں،وہ بھی وہاں گئے،ہمارے ساتھ کی کوٹھی میں گجرات کے ایک رئیس جو غالباً آنریری مجسٹریٹ بھی تھے مقیم تھے،لالہ گوکل چند صاحب دو چار روز کے لئے ہی وہاں گئے تھے اور ان کے ساتھ تعلقات تھے اس لئے ان کے ہاں ہی ٹھہرے۔ ایک دن مجھے ملنے آئے تو کہا کہ آپ کو ایک بات بتاتا ہوں میں نے اپنے میزبان سے کہا تھا کہ آپ مرزا صاحب سے ابھی تک کیوں نہیں ملے تو وہ کہنے لگے کہ وہ تو اس قدر ظالم اور متعصّب ہیں،ان سے میں کیسے مل سکتا تھا۔وہ ہندوؤں سے بہت تعصّب رکھتے ہیں۔اس پر میں نے ان سے کہا کہ میں تو قادیان کا رہنے والا ہوںمیں خوب جانتا ہوں کہ یہ سب باتیں جھوٹی ہیں۔اس پر وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا یہ بات ہے۔بہر حال جو انصاف کرنے والا ہے وہ خواہ کتنا بدنام ہو جائے مگر پھر بھی کامیاب وہی ہوتا ہے اب بھی ہمارے خلاف بہت شور ہے مگر اب بھی مَیں ایسی تحریریں دکھا سکتا ہوں کہ کوئی جھگڑا ہو تو کہتے ہیں آپ فیصلہ کر دیں۔ ہم بار بار کہتے ہیں کہ عدالت میںجاؤ مگر کہتے ہیں کہ نہیں آپ ہی فیصلہ کر دیں۔تو اﷲتعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس زمانہ میں اس بات کی توفیق ملی ہے کہ انصاف قائم کریں گو اس وقت بدنام ہیں مگر یہ بدنامی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی دلوں میں ہماری قدر خدا کے فضل سے ہے۔ مجھے ایک دوست نے سنایا کہ ٹریبیون میں جب میری وفات کی غلط خبر شائع ہوئی تو ایک مخالف نے مجھے فون کیا کہ سناؤ کوئی خبر قادیان کے متعلق ہے مجھے چونکہ کئی لوگ پہلے بھی پوچھ چکے تھے اور مجھے غصہ چڑھا ہؤا تھااس لئے میں نے اسے کہا کہ چُپ رہومگر اس نے کہا کہ نہیں میں بدنیتی سے نہیں پوچھتا بتاؤ کیا بات ہے مگر مجھے چونکہ غصہ تھا اس لئے میں نے پھر کہا کہ چُپ رہومگر اس نے کہا کہ خدا کے لئے بتاؤ کیا بات ہے مجھے فکر ہے اس لئے پوچھتا ہوںاور جب میں نے بتایا تو اُس نے ذرا پرے ہو کر کہا جس کی مجھے آواز آئی کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ِتو اﷲتعالیٰ کے فضل سے مخالفوں کے دلوں میں بھی ہماری قدر ہے،تم کبھی یہ خیال بھی نہ کرو کہ ظلم کامیاب ہو سکتا ہے۔اگرچہ اس وقت ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں دیتے ہیں تو خیال کرتے ہیںکہ سب کچھ کیوں نہیں دیتے مگر جب انہیں معلوم ہو گا کہ رحم اور انصاف کی کیا حدود ہیں تو ضرور نادم ہوں گے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے تو ہندو،سکھ، غیر احمدی سب رو رہے تھے حالانکہ زندگی میں یہی لوگ آپؑ کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ میں نے اِس وقت جماعت کو ایک گُر بتا دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ظالم کو کبھی ہدایت نہیں دیتا اس لئے اپنے اعمال میں ظلم مت پیدا ہونے دو۔اپنے رویّہ میں نرمی رکھو۔ اﷲ تعالیٰ دولت دے تو تمہارے اندر اِنکسار پیدا ہو،علم سے تواضع پیدا ہو اور وہ تمہیں جتنا اونچا کرے اُسی قدر جھکواور کوشش کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے فضلوں سے اس کے بندوںکو فائدہ پہنچاؤ۔بادشاہ کی دولت رعایا کے لئے ہوتی ہے اور مَلِک کہہ کر اﷲ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ ہم تمہیں جو کچھ دیں گے بادشاہ کر کے دیں گے تا تم دوسروں کو فائدہ پہنچاؤ،قدوسیت اس واسطے دیں گے کہ دوسروں کو پاک کرو،عزیز بنائیں گے تا دوسروں کو بڑا کرو عزیز اسے بھی کہتے ہیں جو دوسروںکو ذلیل نہ کرے،ہم تمہیں حکمت دیں گے مگر اس لئے کہ دوسروں کو سکھاؤ۔جس پانی کو نکلنے کا رستہ نہ ہو وہ سڑ جاتا ہے پس ہم تمہیں علم دیں گے لیکن اگر اِس سے دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاؤ گے تو یہ سڑ کر تمہارے دماغ میں تعفّن پیدا کر دے گا۔ (الفضل ۱۲؍ مارچ ۱۹۳۵ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ خدائی تقدیر مصیبت اور عذاب کے رنگ میں جاری ہوچکی ہے ﷲ تعالیٰ اُس وقت بھی دعا کرنے پر اُسے ٹال سکتا ہے