اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو سنوارتا ہے، خاص طور پر تربیتِ اولاد کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ایک بیٹے کی کردار سازی میں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو صبر، قربانی، دعا اور مسلسل نگرانی کا متقاضی ہے۔اولاد اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:اَلْمَالُ وَالۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (الکھف:۴۷)ترجمہ: مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ جب انسان رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتا ہے تو اُسے اپنی آئندہ نسل کے بارے میں پوری طرح احساس کا ادراک نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی اللہ تعالیٰ اُسے اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو اُس کے جذبات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اچھی تربیت ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے۔ اگر والدین خود تقویٰ پر نہیں تو اولاد سے نیکی کی امید بے کار ہے۔ ان اقوال پر عمل کرنے سے والدین کی بھی اصلاح ہوگی اور بچوں کی تربیت بھی کمال کو پہنچے گی ۔بیٹے کو نصیحت کےساتھ ساتھ عملی نمونہ دکھانا سب سے مؤثر ذریعہ ہے کیونکہ بچے والدین کے عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الفرقان کی آیت ۷۳ میں اولاد جیسی نعمت کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اورمتقیوں کا امام بنانے کی دعا سکھاتا ہے: وَالَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔ ترجمہ:اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔ اس آیت کے دوسرے حصہ کی تشریح میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ وہ لیڈر اور امام بننے کی دعا کرتا ہے۔مگر کن کا امام؟ متقیوں کا امام،غیر متقیوں کا نہیں۔ممکن ہے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہر شخص کس طرح لیڈر اور امام بن سکتا ہے۔سو اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مرد کوشش کرے کہ میری بیوی دین سے واقف ہو۔ نماز روزہ کی پابند ہو۔دینی کاموں میں حصہ لینے والی ہو، بچوں کی نیک تربیت کرنے والی ہو،تو مرد امام ہوگا اور بیوی ماموم۔اسی طرح اگر ماں اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرے تو وہ امام ہوگی اور اولاد ماموم۔اور اولاد کے نیک کام بھی اس کی طرف منسوب کیے جائیں گے۔عورت قبر میں سو رہی ہوگی مگر جب اس کے بچے صبح کی نماز پڑھیں گے تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے صبح کی نماز پڑھی۔…یہی حال مردوں کا ہے وہ بھی جتنے لوگوں کی ہدایت کا موجب بنیں گے ان سب کے نیک اعمال کے ثواب میں وہ بھی شریک ہوں گے۔اس طرح وہ امام ہوں گے اور دوسرے لوگ ماموم۔ غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہمیشہ اپنی آئندہ نسل کی دینی و دنیوی ترقیات کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ نور ایمان جو اُن کے دلوں میں پایا جاتا ہے صرف ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ قیامت تک چلتا چلا جائے اور کوئی زمانہ بھی ایسا نہ آئے جس میں ان کی اولاد یا ان کے متبع اور شاگرد دُنیا داری کی طرف مائل ہو جائیں اور خدا اور رسول کے احکام پر دنیا کو مقدم کر لیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۹ صفحہ ۲۳۱۔ایڈیشن۲۰۲۳ء) عموماً دوسرےمعاملات میں انسان اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے لیکن اولاد کے معاملے میں اُس کی سب سے پہلی ترجیح بچے ہوتے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری اور عملی کردار تربیتِ اولاد میں سب سے پہلے والدین کو یہ طے کرنا ہوگاکہ اُن کی پہلی ترجیح کیا ہے دنیاوی خواہشات یا اپنی اولاد کی نیک تربیت؟ اگر اولاد کو اوّلین ترجیح بنایا جائے تو پھر ایک مضبوط عزم کے ساتھ عملی منصوبہ بھی درکار ہے۔ اس منصوبے میں دعا،صبر، قربانی والدین کی اوّلین ترجیح ہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کے لازوال اثمار ضرور عطا کرے گا۔ یہی احساسِ ذمہ داری والدین کو بیٹے کی کردار سازی میں متحرک کرتا ہے۔ صرف نصیحتیں کافی نہیں بلکہ والدین کو عملی نمونہ بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہیے۔اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے۔خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی۔ یہ سلطان احمد اور فضل احمد اسی عمر میں پیدا ہوگئے تھے اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیادار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں۔غرض جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو اس کی نسبت سعدیؒ کا یہ فتویٰ ہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ پیش از پدر مردہ بہ ناخلف‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد۶ صفحہ ۱۹۲) صبر اور قربانی کی ضرورت یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَانۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَاصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ(لقمان:۱۸)ترجمہ:اے میرے پیارے بیٹے! نماز کو قائم کر اور اچھی باتوں کا حکم دے اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کر اور اُس (مصیبت) پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔ یقیناً یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :’’حضرت لقمانؑ نے جب اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ لوگوں کو نیکی کا حکم کراو ر بدی سے منع کر تو چونکہ اس حکم کی تعمیل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نیک نصیحت کرنے والوں اور بدی سے منع کرنے والوں کے لوگ مخالف ہو جا یا کرتے ہیں۔ اور ان کو دکھ دیا کرتے ہیں اس واسطے ساتھ ہی ایسے مصائب پر صبر کرنے کی وصیت کی۔‘‘(حقائق القرآن جلد چہارم صفحہ ۳۹۵) بچوں کی کردار سازی کا سفر آسان نہیں۔ یہ ایک یا دو دن کا کام نہیں بلکہ مسلسل محنت ، صبر اور قربانی کا متقاضی ہے۔بچپن سے لے کر جوانی تک بچے کو صحیح اور غلط میں تمیز سکھانا اوراس طرح سکھانا کہ اس کی صلاحیتیں اجاگر ہوں نہ کہ دب جائیں ،والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ(ترمذی، کتاب البر و الصلۃ، باب ما جاء فی ادب الولد حدیث ۱۹۵۲)یعنی اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔ بچہ اس وقت ہی ایک مضبوط شخصیت کے طور پر ابھرتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل ہو اور مشکلات میں استقامت دکھا سکے۔ اسی لیے والدین کو چاہیے کہ عارضی ناکامیوں پر ہمت نہ ہارنے کی تعلیم دیں اور خود بھی اس میں صبر اور قربانی کا مظاہرہ کریں، کیونکہ صبر ہی کردار سازی کی بنیاد ہے۔لیکن اس پورے سفر میں والد کا کردار بیٹے کے لیے سب سے نمایاں اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ بیٹا اکثر اپنے والد کی عادات، گفتار، محنت اور طرزِ عمل کی نقل کرتا ہے، اس لیے والد کا ہر قدم بیٹے کی شخصیت پر اثر ڈالتا ہے اور اس کی سوچ اور کردار میں ڈھل جاتا ہے۔ مشکلات میں استقامت اور عارضی ناکامیوں پر ہمت نہ ہارنے کا عملی سبق بھی باپ ہی زیادہ مؤثر انداز میں بیٹے کو دیتا ہے، کیونکہ بیٹا عام طور پر چیلنجز اور بحران کے وقت اپنے والد کو دیکھتا اور اس سے سیکھتا ہے۔ اسی طرح بیٹے کی فطری صلاحیتوں کو نکھارنے، اس کے رجحانات کو مثبت سمت دینے اور اس کی توانائیوں کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کروانے میں بھی والد کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک باپ جب اعتماد کے ساتھ بیٹے کو ذمہ داری دیتا ہے تو وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرنا سیکھتا ہے۔ محنت، قربانی اور لگن کا سبق بیٹا سب سے زیادہ والد کی زندگی سے سیکھتا ہے۔ والد کی جدوجہد اور قربانی اس کے دل میں یہ یقین پیدا کرتی ہے کہ کامیابی عیش و آرام سے نہیں بلکہ مسلسل محنت اور قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔یوں والد بیٹے کے لیے نہ صرف ایک معلم اور راہنما ہے بلکہ اس کا سب سے پہلا ہیرو اور عملی نمونہ بھی ہے۔ اگر والد اپنی زندگی میں اصول، محنت، استقامت اور قربانی کو اپنائے تو بیٹا قدرتی طور پر انہی اقدار کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک مضبوط، باکردار اور بااعتماد شخصیت تعمیر ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرا بعؒ عو ر تو ں کو مخا طب کر تے ہوئے فرما تے ہیں : ’’اکثر گھرو ں میں نہ صرف یہ کہ لڑکے کی خوا ہش ہے ما ؤ ں کی زیا دہ خوا ہش ہو تی ہے مردوں سے، لیکن جب لڑکے پیدا ہو ں بلکہ زیا دہ بھی ہو ں تب بھی ان کو سر پر چڑھا کر رکھتی ہیں اور بچیو ں کی عزت نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہی مرد ظالم بن جا تے ہیں اور بڑے ہو کرپھر عورتو ں پر ظلم کر تے ہیں اور کس طرح ایک نسل کا دوسری نسل پر برا اثر پڑتا ہے اور دوسری کا تیسری نسل پر برا اثر پڑ تا ہے ۔پس اگر آپ نے اپنے اوپر رحم کرنا ہے تو اپنے لڑ کو ں کی تر بیت صحیح کر یں اور عورت کے حقوق ان کو بچپن سے بتا ئیں اور اپنی بہنو ں کی عزت کر نا ان کو سکھا ئیں اور نگران ر ہیں اس با ت پر کہ ان سے وہ سخت کلا می بھی نہ کر یں ۔اگر ایسے لڑکے آ پ پیدا کر یں گی اور ایسے لڑکے پروان چڑ ھا ئیں گی تو میں یقین دلا تا ہو ں کہ آ پ کا احسان آ ئندہ نسلو ں پربڑا بھاری ہو گا۔نسلاً بعد نسل احمدی بچیوں کو اچھے خا وند عطا ہو تے رہیں گے۔نیک دل ،محبت کر نے وا لے ،خیال ر کھنے وا لے قربانی کر نے وا لے ، ایسے خا وند عطا ہو تے رہیں گے جیسا خا وند ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں دیکھا۔‘‘(خطاب لجنہ اماء اللہ کینیڈا بمقام ٹورانٹو مورخہ ۶؍ جولائی۱۹۹۱ء بحوالہ تربیت اولاد کے لیے والدین کی ذ مہ داریاں صفحہ ۳۴) (باقی آئندہ بدھ کو ان شاء اللہ) (منصورہ داؤد۔ Mubarak Moschee, Wiesbaden)