(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI) ایگیریکس مسکیریسAgaricus muscarius(Fly Fungus) ایگیریکس ایک ایسی دوا ہےجس کی سب سے نمایاں علامت جسم کا نپنا ہے۔عضلات کی کمزوری اور نفسیاتی تناؤ سے اعصاب اور عضلات لرزتے ہیں۔ہاتھ کانپتے ہیں۔ اعصاب میں جھٹکے لگتےاور سارے جسم میں کپکپی محسوس ہوتی ہے۔ (صفحہ۲۹) ایکٹیاریسی موسا (سی می سی فیوجا) کی نمایاں علامت بھی جھٹکے لگنا ہے لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ ایکٹیا میں مریض جس کروٹ لیٹے اسی کروٹ جھٹکے لگتے ہیں جبکہ ایگیریکس میں سارا جسم کانپتا ہے۔ رعشہ اور تشنج دونوں ملتے ہیں۔ آنکھیں بھی لرزتی اور ڈولتی رہتی ہیں اور نظر ایک جگہ ملتی نہیں۔ ایک دفعہ ایک نوجوان اس تکلیف میں مبتلا تھا میں نے اسے ایگیریکس دی تو اتنا نمایاں فائدہ ہوا کہ عام روز مرہ کے سب کام عمدگی سے کرنے لگا ورنہ یہ تکلیف عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔ (صفحہ۲۹) بعض بچوں میں شروع سے ہی ذہنی کمزوری پائی جاتی ہے۔ صبح کے وقت اس کیفیت میں اضافہ ہوجاتا ہےاور انہیں کوئی نئی بات بتائی جائے تو سمجھتے نہیں۔ سست اور بےشعور سے لگتے ہیں، بےحس ہوجاتے ہیں اور تھکن محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جوں جوں دن گزرتا ہےتکلیف کم ہونے لگتی ہے۔ شام کے وقت یا رات کے پہلے حصہ میں بالکل ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ہربات سمجھنے لگتے ہیں اور ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، ایسے بچوں کو ایسکولس دیں۔یہ بیماریاں اگرچہ ایگیریکس میں بھی ملتی ہیں لیکن بیماری گھٹنے بڑھنے کے مخصوص اوقات ایسکولس سے ایگیریکس کو ممتاز کردیتے ہیں۔(صفحہ۳۰) ایگیریکس میں انتقالِ مرض کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ بعض دفعہ عورتوں میں بچوں کو دودھ پلانے کے زمانے میں کسی حادثے، صدمہ یا ذہنی دباؤکی وجہ سے دودھ خشک ہوجاتا ہے اور اس کا دماغ پر گہرا اثرپڑتا ہے۔ایسے موقع پر ایگیریکس فائدہ مند ہے۔اگر عورت کا دودھ کم اُترے یا خشک ہوجائےاور اس دوران دماغ پرحملہ ہو تو اس کی دوا ایگیریکس ہوسکتی ہے۔ عام طور پر دودھ سوکھنے کی صورت میں پلسٹیلا زیادہ مفید ہے لیکن یہ صرف ایسی عورتوں کے کام آتی ہے جن کی علامات پلسٹیلا کی ہوں۔ (صفحہ۳۱) ایگیریکس میں ایسکولس کی طرح دردوں کا رجحان اور دباؤ نیچے کی طرف ہوتا ہے لیکن دردیں ٹھہری ہوئی اور سست رو (Dull) نہیں ہوتیں کیونکہ اعصاب میں ایسی حرکت پائی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں درد کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لپکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ایگیریکس زیادہ مفید ہے۔ (صفحہ۳۱) ایگیریکس کا مریض عموماً گم سم ہوتا ہے اور اس کی خاص علامت یہ ہے کہ چہرے کے اعصاب اور عضلات پھڑکتے ہیں۔ یہی علامت انتڑیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اگر انتڑیوں میں بار بار پھڑ کن کا احساس ہو لیکن نیچے کی طرف حرکت نہ ہو تو ایگیریکس دوا ہو گی۔(صفحہ۳۲) ایگیریکس کے مریض کو اپنے اعضاء پر قابو نہیں رہتا، ہاتھوں سے چیزیں گرتی رہتی ہیں۔اکثرعورتوں اور بچیوں کے ہاتھ سے برتن گرکر ٹوٹ جاتے ہیں،کوئی چیز پکڑنی ہو تو گرفت مضبوط نہیں ہوتی،انگلیاں خود بخودکھل جاتی ہیں۔ شدید عضلاتی دردیں اور تشنج بھی پایا جاتا ہے،ہاتھ پاؤں میں اینٹھن ہوتی ہے۔(صفحہ۳۳) ایگیریکس میں کھانا کھانے کے بعد کھلی ٹھنڈی ہوا اور سرد موسم میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں۔نیند سے طبیعت بحال نہیں ہوتی۔ دن بھر غنودگی چھائی رہتی ہے۔خارش ہوتی ہےجس میں جلن نمایاں ہے۔(صفحہ۳۳) ایگنس کاسٹسAgnus castus(The Chaste Tree) مریض کی یادداشت کمزورہوجاتی ہے،دماغ غیرحاضر رہتا ہے۔اعصابی کمزوریاں روزہ مرہ کی بات ہے،بے ہمتی اور ناطاقتی کا احساس ہوتا ہے۔(صفحہ۳۵) عام اعصابی کمزوریاں دور کرنے میں بھی کالی فاس کی طرح اچھا اثر رکھتی ہے۔ (صفحہ۳۶) ایلیم سیپاAllium cepa(Red Onion) ایلیم سیپا میں تکلیفیں دائیں سے بائیں منتقل ہونے کا رجحان ہے۔ لیکیسس میں بھی یہ بات نمایاں ہے،بائیں طرف بیماری کا آغاز ہوتا ہےجب جسم کا دفاعی نظام اس کے خلاف بیدار ہوتا ہے تویہ بیماری دائیں طرف پناہ لے لیتی ہے۔اکثر سانپوں کے زہر کا اثر بائیں طرف نمایاں ہوتا ہے۔(صفحہ۳۸) ایلیم سیپا میں آرام سے تکلیف بڑھتی ہے اور حرکت سے کم ہوجاتی ہے۔ رات کو لیٹنے سے بھی تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مرطوب اور سرد موسم میں نزلہ شروع ہوجاتا ہےلیکن کھلی ہوا سے افاقہ ہوتا ہے۔ (صفحہ۳۸) ایلیم سیپا اعصابی دردوں میں بھی مفید ہے۔ اگر زکام کے ساتھ جسم میں خصوصاً چہرہ،دانت،سر اور گردن میں درد ہو تو ایلیم سیپا ان سب کے لیےبہترین دوا ہے۔ (صفحہ۳۹) ایلوAloe(Socotrine – Aloes) ایلو کی ایک علامت گلے کی خراش ہے اور کھانسی بھی ہے، جوڑوں میں بھی درد ہوتاہے۔اس کی بیماریاں صبح کے وقت بڑھ جاتی ہیں۔خشک اور گرم موسم میں بیماریاں شدت اختیارکرلیتی ہیں۔ سردی اور تازہ ہوا میں آرام ملتا ہے۔عموماً کھانا کھانے کے بعد اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا شدت پکڑجاتی ہیں۔(صفحہ۴۳) الیومن (پھٹکڑی)Alumen(Common Potash Alum) الیومن پھٹکڑی کو کہتے ہیں جو کسی بھی زخم سے جریان خون کو فوری روکنے کے لیےاستعمال کی جاتی ہے یہ کو لائیڈل (Colloidal) کی صورت میں معلق ذرات پر اثر اندازی کے لحاظ سے بہت شہرت رکھتی ہے۔ اگر کسی محلول یا گیس میں چھوٹے چھوٹے ذرات معلق ہو جائیں تو ایسے ذرات کو کولائیڈل (Colloidal) کہا جا تا ہے۔ پھٹکڑی ہوا یا کسی گیس میں موجود کولائیڈل ذرات پر اثر انداز نہیں ہوتی لیکن ہر محلول کے کو لائیڈل ذرات کو اکٹھا کر کے چھوٹی چھوٹی پھٹکیوں کی صورت میں منجمد کر دیتی ہے۔ بالکل ایسا ہی اثر متعدد سانپوں کے زہر کا خون پر پڑتا ہے۔ عموماً خون سے بننے والی ایسی ہی پھٹکیاں دل کے حملوں کا محرک ہو جاتی ہیں۔ پھٹکڑی کو اگر براہ راست انسانی خون میں داخل کیا جائے تو خون کے سرخ اور سفید ذرات کو تو پھٹکیوں کی صورت میں منجمد کردیتی ہے مگر الیکٹرولائٹ کا وہ مرکب جس میں بارہ نمک خاص توازن سے گھلے ہوئے ہوتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ پھٹکڑی کو ایسے مٹی ملے پانی کو صاف کرنے کے لیےبھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں مٹی کے ذرات کو لائیڈل شکل میں معلق ہوں۔ سندھ کے ان علاقوں میں جہاں زیر زمین پانی سخت کھاری ہے پینے کے لیےنہر کا پانی ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس میں معلق مٹی اور ریت کے ذرات کو پھٹکیاں بنا کر نیچے بٹھا کر پانی کو نتھارنے کے لیےبکثرت پھٹکڑی استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ پھٹکڑی کا کچھ نہ کچھ حصہ نتھرے ہوئے پانی میں باقی رہ جا تا ہے اس لیےایسے علاقوں میں پھٹکڑی کے زہر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا زیادہ پایا جانا تعجب انگیز نہیں۔(صفحہ۴۵) پھٹکڑی کے زہر کے بداثرات کے نتیجہ میں عمومًا گہرے السر بنتے ہیں اور اگر پھوڑے بنیں تو ان پھوڑوں کے رفتہ رفتہ بگڑ کرکینسر بننے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح گلے اور زبان میں خصوصیت کے ساتھ یہ زہر حملہ کرتا ہے اور وہاں بھی السر یا کینسر پیدا کر دیتا ہے نیز اس کے نتیجہ میں گلینڈز سوج کر سخت ہونے لگتے ہیں۔ ٹانسلز سوج کر رفتہ رفتہ بڑے اور سخت ہو جاتے ہیں۔ عورتوں میں رحم اور سینے کے غدود اسی طرح موٹی موٹی سخت گٹھلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔(صفحہ۴۵-۴۶) سلفر کی طرح سر کی چوٹی پر گرمی اور دباؤ کا احساس ہو تا ہے لیکن سلفر کا مریض ہاتھ کا دباؤ یا کپڑا لینا پسند نہیں کرتا جبکہ الیومن میں دباؤ کا احساس ہونے کے باوجود مریض کوبیرونی طور پر دبانے سے آرام محسوس ہو تا ہے۔(صفحہ۴۶) الیومن میں عضلاتی کمزوریاں بھی بہت نمایاں ہیں اس پہلو سے یہ پلمبم (Plumbum)سے بہت مشابہ ہے۔خصوصاً دونوں کی فالجی علامتیں ایک دوسرے سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہیں۔پس جزوی طور پر الیومن پلمبم کی فالجی علامتوں کے مشابہ اثرات پیدا کرتی ہے۔(صفحہ۴۶) الیومن میں شدید سر درد سے دبانے سے آرام آتا ہے۔ تمام عضلات میں کمزوری پائی جاتی ہے۔تکلیفوں میں سردی سے اضافہ ہوجاتا ہےسوائے سردرد کے جسے ٹھنڈک پہنچانے سے آرام ملتا ہے۔(صفحہ۴۷) (ڈاکٹر لئیق احمد) (نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔) مزید پڑھیں: ارتقا کی حقیقت اور خدا کا وجود