ایثار ایک اسلامی اور اخلاقی عمل ہے جس میں انسان اپنے فائدے یا خواہشات کو دوسروں کی ضروریات اور بھلے کے لیے قربان کرتا ہے۔ ایثار کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر دوسرے کی مدد کرتا ہے، چاہے وہ اپنے لیے نقصان کا سامنا کرے یا اپنی راحت کو قربان کرے۔ آنحضرتﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا: ’’مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہوگیا ہے۔‘‘ اس پر حضرت خدیجہؓ نے کہا: ’’خدا کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں اور صادق القول ہیں اور لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور معدوم اخلاق کو آپ نے اپنے اندر جمع کیا ہے اور آپ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی باتوں میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں۔‘‘ یہی حال آپؐ کے اصحابؓ کا تھا۔ انصار کے جذبۂ ایثارو قربانی کا عملی مظاہرہ مؤاخات کے موقعہ پر دیکھنے میں آیا۔ ایثار کی اہمیت قرآن و حدیث میں بہت زیادہ آئی ہے۔ مکہ سے ہجرت کر کے آنےوالے مہاجرین کے لیے انصار کے دلوں میں جو ایثار کا مادہ پایا جاتاتھا قرآن مجید میں اُس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَلَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَلَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَمَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔(الحشر :۱۰) ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے ان سے پہلے ہی گھر تیار کر رکھے تھے اور ایمان کو (دلوں میں) جگہ دی تھی وہ ان سے محبت کرتے تھے جو ہجرت کرکے ان کی طرف آئے اور اپنے سینوں میں اس کی کچھ حاجت نہیں پاتے تھے جو اُن (مہاجروں) کو دیا گیا اور خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش تھی۔ پس جو کوئی بھی نفس کی خساست سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایثار میں انسان اپنی ضروریات کو نظرانداز کرکے دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتا ہے۔ اس میں انسان کے اندر خودغرضی کو کم کرنے اور دوسروں کے لیے محبت، ہمدردی اور رحم کی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ ایثار کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں: ۱۔دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنا: ایثار کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی ضروریات کو دوسروں کی ضروریات کے سامنے اہمیت نہ دے۔ ۲۔ قربانی: ایثار کا عمل انسان کی جانب سے اپنے فائدے کی قربانی ہوتا ہے، تاکہ دوسروں کو فائدہ پہنچ سکے۔ ۳۔محبت اور ہمدردی: ایثار کا جذبہ انسان کو دوسروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا برتاؤ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایثار انسان کی شخصیت کو بہتر بناتا ہے، اور یہ فرد کی اخلاقی ترقی اور معاشرتی ہم آہنگی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایثار کے کئی شعبے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان سے یہ بھی توقع کرتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں اِس جذبے کا اظہار کرے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتیں اور استعدادیں انسان کو عطا کی ہیں اُن کو وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے بھی خرچ کرے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے ہر آرام و آسائش کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو نیز اپنی تمام ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:الٓمٓ۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔(البقرۃ:۲تا۴)ترجمہ: میں اللہ، سب سے زیادہ جاننےوالا ہوں۔ یہ “وہ” کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کی علامات بیان کرتے ہوئے ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ متقی ہر اُس چیز میں سے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا کی ہوتی ہے، خرچ کرنے سے ہرگز گریز نہیں کرتے۔ اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو خدا اور اُس کی مخلوق کے لیے خرچ کرنے سے کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری نگاہ میں حقیقی متقی وہی لوگ ہیں کہ جو کچھ میں انہیں بطور رزق یا نعمت دیتا ہوں وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جذبہ ایثار کی چند مثالیں حدیثوں کے حوالہ سے بھی پیش خدمت ہیں: حضرت عثمانؓ نے مسجد کی توسیع کے لیے ایک قطعہ زمین بیس ہزار درہم میں فروخت کردیا اور مسلمانوں کی پانی کی تکلیف دور کرنے کے لیے ایک یہودی کا کنواں ’’بیئررومہ‘‘ خرید کر وقف کردیا۔ حضرت ابوطلحہؓ ایک بار آنحضرتﷺ کے ایک مہمان کو لے کر گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھانا صرف ایک آدمی کے لیے ہی ہے۔ چنانچہ آپؓ اور آپ کی اہلیہ نے کمال ایثار کا نمونہ پیش کرتے ہوئے چراغ گُل کردیا اور منہ اس طرح چلانے لگے کہ مہمان یہی سمجھتا رہا کہ میزبان بھی کھانے میں شریک ہیں۔ اُسی رات اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو اس جذبہ ایثار کی اطلاع دے کر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب یؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ حدیث ۳۷۹۸) حضرت عائشہؓ نے آنحضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں اپنی قبر کے لیے جگہ مخصوص کر رکھی تھی لیکن جب حضرت عمرؓ نے اُن سے یہ جگہ اپنے لیے چاہی تو حضرت عائشہؓ نے ایثار کا نمونہ پیش کرکے کہا: ’’مَیں نے خود اپنے لیے اس کو محفوظ رکھا تھا لیکن آج اپنے اوپر آپ کو ترجیح دیتی ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃ البیعۃ، والاتفاق على عثمان بن عفان حدیث۳۷۰۰) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عکرمہ ؓکی قربانی اور ایثار کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ جب جنگ [یرموک]ختم ہوئی تو مسلمانوں نے خاص طور پر عکرمہ اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کیا تو کیا دیکھا کہ ان آدمیوں میں سے بارہ شدید زخمی ہیں ان میں ایک عکرمہ بھی تھے۔ ایک مسلمان سپاہی ان کے پاس آیا اور عکرمہ کی حالت دیکھی۔ بڑی خراب تھی۔ اس نے کہا : اے عکرمہ! میرے پاس پانی کی چھاگل ہے تم کچھ پانی پی لو۔ عکرمہ نے منہ پھیر کر دیکھا تو پاس ہی حضرت عباس کے بیٹے حضرت فضل زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ عکرمہ نے اس مسلمان سے کہا کہ میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت مدد کی جب میں آپ کا شدید مخالف تھا وہ اور ان کی اولاد تو پیاس کی وجہ سے مر جائے اور میں پانی پی کر زندہ رہوں۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا ایک نیا جذبہ ان میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے پہلے انہیں یعنی حضرت فضل بن عباس کو پانی پلا لو اگر کچھ بچ جائے تو پھرمیرے پاس لے آنا۔ وہ مسلمان حضرت فضل کے پاس گیا۔ انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ پہلے اسے پانی پلاؤ۔ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔ وہ اس زخمی کے پاس گیا تو اس نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے پہلے اسے پانی پلاؤ۔ اس طرح وہ جس سپاہی کے پاس جاتا وہ اسے دوسرے کے پاس بھیج دیتا اور کوئی نہ پیتا۔ جب وہ آخری زخمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ وہ واپس دوسرے کی طرف آیا یہاں تک کہ عکرمہ تک پہنچا مگر وہ سب فوت ہو چکے تھے۔(ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے، انوار العلوم جلد 26صفحہ 230-231)(خطبہ جمعہ فرمودہ۸؍ اگست ۲۰۲۵ء) پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعودؑ کے اس دور میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کا بیان ہے کہ ایک جلسہ سالانہ پر بہت آدمی آئے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص اندر سے لحاف منگواکر مہمانوں کو دیتا رہا۔ عشاء کے بعد مَیں حضرت صاحبؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ تھے، پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپؑ نے اپنا لحاف بچھونا بھی طلب کرنے پر مہمانوں کے لیے بھیج دیا ہے۔ مَیں نے عرض کیا آپ کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔(سیرت المہدی جلد ۲صفحہ۹۲،۹۱) ایک اور موقعہ پر حضرت منشی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ عید کے روز مَیں سر کا نیا صافہ خریدنے بازار جارہا تھا۔ راستہ میں حضورؑ نے مجھے دیکھ کر پوچھا کہاں جارہے ہو؟ میں نے بتایا تو حضورؑ نے اُسی وقت اپنا عمامہ اتار کر دیدیا اور فرمایا کہ آپ کو پسند ہے تو آپ لے لیں۔(اصحاب احمد جلد ۴ صفحہ۲۲۵) حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے کہ … جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۹۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ایک اَور موقعہ پر فرمایا: ’’اخلاق فاضلہ اسی کا نام ہے بغیر کسی عوض معاوضہ کے خیال سے نوع انسان سے نیکی کی جاوے۔ اسی کا نام انسانیت ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ۲۴۷،ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے ممبران انفرادی اور اجتماعی طور پر اس ارشادخداوندی پر بڑے اہتمام اور تعہد کے ساتھ عمل پیرا ہیں نیزاُن کو یہ عظمت بھی حاصل ہے کہ اس قربانی و ایثار کے جذبہ سے وہ اس قدر مالا مال ہیں کہ اس کی نظیر ساری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ جذبہ ایثار کے مختلف شعبہ جات میں سے مالی قربانی کے جذبہ کو تفصیلًا بیان کرنے سے قبل خاکسار جان کی قربانی کے تعلق سے ضمنًا یہاں کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک قربانی و ایثار کے اس جذبہ کا تعلق ہے تو قرون اولیٰ میں بھی ہمیں اس کی بے شمار مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نام کی غیرت کی خاطر جہاں بلالؓ جیسے حبشی غلام تپتی ریت پر لٹائے جانے اور سینے پر بھاری پتھر رکھے جانے کی اذیت کو برداشت کرتے ہوئے صرف احد احد کے نعرے بلند کرتے رہے وہاں کئی ایسے مسلمان تھے جن کی ٹانگوں کو اونٹوں سے بندھوا کر اور اونٹوں کو مخالف سمتوں میں دوڑا کر ان معصوموں کے جسموں کو درمیان میں سے چروا دیا جاتا تھا۔ لیکن اللہ کے یہ پیارے صرف ایک خدا کی وحدانیت کے لیے قربان ہو جاتے تھے۔ بانیٔ جماعت احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دور میں بھی اس ایثار اور قربانی کے جذبے کا مشاہد ہ کیا گیا۔ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کی جان کی قربانی کے ذریعہ اس کا آغاز ہوا اور آج اس دور میں بھی ایسے لوگوں کا ایک گروہ موجود ہے جنہوں نے ان مثالوں کو زندہ رکھتے ہوئے ایک خدا اور اُس کے رسول کے نام کی غیرت کی خاطر جان کی قربانیاں پیش کیں اور جام شہادت کو خوشی خوشی نوش کیا۔ آج جماعت احمدیہ کی ۱۳۶؍سال سے زیادہ عرصہ کی تاریخ ایسی ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ شہدائے احمدیت کی لازوال قربانیوں سے جماعت کی تاریخ معطر ہے۔ سال ۲۰۱۰ء میں ۲۸؍مئی کو جمعۃ المبارک کا دن تاریخ احمدیت میں ہمیشہ زندہ رہے گا جب لاہور کی دو مساجد میں دنیا کی مصروفیات چھوڑ کر محبت الٰہی کی خاطر جمع ہونے والے سینکڑوں نہتے اورمعصوم احمدیوں پر مسلح اور سفاک دہشت گردوں نے نہایت بےدردی سے گولیوں اور گرنیڈوں کی بوچھاڑ کردی اور ان احمدی پیروجوان نے اجتماعی شہادت کو مومنانہ شان سے قبول کیا اور خدا کے پیارے ٹھہرے۔ جماعتی تاریخ کی اس سب سے دردناک اور سب سے بڑی اجتماعی قربانی میں ۸۶؍احمدی شہید اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔ برکینا فاسو کے وہ ۹؍احمدی بزرگ بھی اسی تسلسل کی ایک مثال ہیں جنہیں مورخہ ۱۱؍جنوری ۲۰۲۳ء کو عشاء کے وقت مسجد کے صحن میں باقی نمازیوں کے سامنے اسلام احمدیت سے انکار نہ کرنے کی بنا پرایک ایک کر کے شہید کر دیا گیا۔ امام جماعت احمدیہ عالمگیر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍جنوری ۲۰۲۳ء میں فرماتے ہیں: ’’گذشتہ دنوں براعظم افریقہ کے ملک برکینافاسو میں عشق و وفا اور اخلاص اور ایمان اور یقین سے پُر افرادِ جماعت نے جو نمونہ مجموعی طور پر دکھایا ہے وہ حیرت انگیز ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ جن کو موقع دیا گیا کہ مسیح موعودؑ کی صداقت کا انکار کرو اور اس بات کو تسلیم کرو کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور آسمان سے اتریں گے تو ہم تمہاری جان بخشی کر دیتے ہیں۔ لیکن ان ایمان اور یقین سے پُر لوگوں نے، جن کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے، جواب دیا کہ جان تو ایک دن جانی ہے، آج نہیں تو کَل، اِس کے بچانے کے لیے ہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کر سکتے۔ جس سچائی کو ہم نے دیکھ لیا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے اور یوں ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور کوئی واویلا کسی نے نہیں کیا۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے افریقہ میں بلکہ دنیائے احمدیت میں اپنی قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔‘‘ اسی طرح واقفِ زندگی عزیز سید طالع احمد شہید ابن سیدہاشم اکبرنے بھی گھانا میں جماعتی خدمت کے دوران مورخہ ۲۳؍ اور ۲۴؍ اگست ۲۰۲۱ء کی درمیانی شب جام شہادت نوش کیا۔ اِس عزیز کی شہادت کے موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۰۳؍ستمبر ۲۰۲۱ء میں فرمایا: ’’شاید دو تین سال پہلے اس نے ایک نظم لکھی تھی جو اُس نے اپنے کسی دوست کو دی تھی کہ اپنے پاس رکھ لو اور کسی کو نہیں دکھانی، جو خلافت سے تعلق اور پیار سے متعلق لکھی ہوئی تھی اور اس نے شروع ہی اس طرح کیا تھا کہ میں خلیفۂ وقت سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اور ختم اس طرح کیا تھا کہ خلیفۂ وقت سے جو مجھے پیار ہے اور محبت ہے وہ انہیں کبھی پتہ نہیں چلے گا۔ لیکن اے پیارے طالع! میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارے ان آخری الفاظ سے پہلے بھی مجھے پتہ تھا کہ تمہیں خلافت سے پیار اور محبت کا تعلق تھا۔ تمہارے ہر عمل سے، ہر حرکت و سکون سے، جب تمہارے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا تھا اور میں سامنے ہوتا تھا تب بھی اور جب تم کیمرے کے علاوہ ملتے تھے، چاہے ذاتی ملاقات ہو یا دفتر کے کام سے، تمہاری آنکھوں کی چمک سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ تمہارے چہرے کی ایک عجیب قسم کی رونق سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ غرض کہ ہر طرح تمہارے ہر عمل سے یہ لگ رہا ہوتا تھا کہ کس طرح تم اس محبت کا اظہار کرو جو تمہیں خلیفۂ وقت سے ہے۔ مجھے شاید ہی کسی میں اس محبت کا اظہار نظر آتا ہو … اے پیارے طالع! میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً تم نے اپنے وقف اور عہد کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر لیاہے۔‘‘ خاکسار نے اس قسم کی ہزاروںمثالوں میں سے یہ چند مثالیں بطور نمونہ اور ازدیادِ علم و ایمان پیش کی ہیں۔ یہ سب لوگ احمدیت کی تاریخ میں ان شاء اللہ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ (البقرۃ :۱۵۵ تا ۱۵۷) ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں ان کو مُردے نہ کہو بلکہ (وہ تو) زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔ اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دےدے۔ اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اَب خاکسار اپنے مضمون کے اصل حصہ یعنی مالی قربانی کے جذبہ کی طرف واپس آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ءٍ فاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ۔ ( اٰل عمران : ۹۳)ترجمہ: تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ کائنات عالم کی ہر چیز اپنے اپنے دائرہ میںانسان کے لیے قربانی پیش کررہی ہے اورانسان کو جو کہ اشرف المخلوقات ہے سبق دے رہی ہے کہ تم نے بھی اپنی ہر چیز کی اللہ کی راہ میں قربانی کرنی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میںفرماتا ہے کہوَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُونِ۔(الذّٰاریٰت: ۵۷) ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی عبودیت اور تقویٰ کے حصول کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے مومنین کے متعلق فرمایا ہے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ یعنی مومن نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُنہیں دیا ہے۔ اُس میںسے وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ عبادت اور مالی قربانی کا مضمون ایسا ہے کہ جو قرآن کریم میں متعدد جگہ اکٹھا بیان ہوا ہے۔ جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مالی قربانی کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس زمانہ کے مامور سیدنا حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان لانے کی توفیق بخشی ہے۔ ورنہ روئے زمین پر بے شمار ایسے انسان ہیں جنہیں ابھی تک اس کی توفیق نہیں ملی ہے۔ بعض ایسے ہیںجو کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امام مہدیؑ کی صداقت کے تو قائل ہیں لیکن بعض دنیاوی رکاوٹیں اُنہیں صحیح ایمان کی طرف قدم آگے بڑھانے میں روک ہیں۔ سیدنا حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ؎ مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی مے اُن کو ساقی نے پلا دی فسُبحان الذی اخزی الاعادی چنانچہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے آخرین کو اللہ تعالیٰ نے اوّلین سے ایسا ملا دیا کہ ہمارا روحانی تعلق صحابہ کرامؓ سے قائم کروا دیا جبکہ یہ زمانہ پانے کے لیے اُمّت کے کئی بزرگوں نے دُعائیں اور تمنائیں کیں مگر اُن کی اُمیدیں پوری نہ ہوئیں مگر یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم میں سے بعض کے آباء واجداد نے اور اکثر نے خود بیعت کر کے جماعت احمدیہ میںشمولیت اختیار کی۔ ہماری یہ خوش نصیبی جہاں ہمیں ایک طرف اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے وہاں دوسری طرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کی طرح دوسروں تک پیغام اسلام پہنچانے کے لیے اموال و نفوس کی قربانیاں پیش کرنے کے لیے پابند کرتی ہے۔ چنانچہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ ’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیاہے؟ ہمارااسی راہ میں مرنا یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور خدا کی تجلّی موقوف ہے… سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کواصلاح خلائق کے لیے بھیج کر ایسا ہی کیا اوردنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لیے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعتِ اسلام کو منقسم کر دیا۔ (فتح اسلام صفحہ ۱۸) موجودہ زمانہ میں اکثر لوگوںکی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ مال و دولت سے محبت کرتے ہیں۔ اوراسی حقیقت کو قرآن مجید نے سورہ فجر کی آیت نمبر ۲۱ میں وضاحت سے بیان کیا ہے ’’وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا‘‘اورتم مال سے بےانتہا محبت کرتے ہو۔ اور مال سے اس قدر محبت کی وجہ سے وہ خرچ کرنا نہیں چاہتے، بُخل سے کام لیتے ہیں ۔پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جواپنے آرام و آسائش پر تو ہزاروں روپیہ خرچ کردیں گے مگر اُس اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے کہا جائے تو شیطان اُن کے دل میںطرح طرح کے وسوسے ڈال دیتا ہے۔ اور اس حقیقت کو قرآن مجید نے کچھ اس طرح بیان فرمایاہے۔ ’’اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُ کُمُ الْفَقْرَ‘‘ (البقرۃ:۲۶۹) کہ شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے پھر قرآن مجید نے لوگوں کو یہ حقیقت بھی سمجھائی ’’اَنَّمَٓا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ‘‘ (الانفال:۲۹) تمہارے مال اور تمہاری اولادیں صرف تمہارے لیے آزمائش ہیں۔ یہاں سے ہر انسان کا امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے یا نہیں اگر تو اُس کاایمان اللہ تعالیٰ پر قرآن مجید میں مذکور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر ہے تو وہ اپنے ایمان کی نسبت سے ہی مالی قربانی کم یا زیادہ کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی مرسل و مامور کو اس دنیا کی اصلاح و تربیت کے لیے بھجواتا ہے تو اُس کی بعثت یعنی بھجوانے میں کئی طرح کی حکمتیں پوشیدہ و مضمر ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ماضی میں اپنے رسولوں اور انبیاء کو اس لیے تو نہیںبھجواتا کہ اُن کو ناکام و نامراد رکھوا کر اس دنیا سے واپس بلوالے اگر ایسا ہوتا تو العیاذ باللہ اللہ تعالیٰ کا یہ کام ہی عبث و فضول ٹھہرتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں خدا کا کوئی بھی رسول جب اصلاح الناس کے لیے آیا تو وہ لوگوں سے مختلف قسم کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا تھا جیسے سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صدقات یا چندوں کا مطالبہ کیا، بعض اوقات لڑائیوں اور غزوات میں شرکت کے لیے بلایا اور بہت سے صحابہؓ نے ان لڑائیوں میں جان کی قربانیاں پیش کیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے صحابہؓ کی مالی یا جانی قربانیوں کا محتاج تھا۔ بلکہ اس میںاصل حکمت یہ تھی کہ اس طرح اللہ تعالیٰ سچے ایمان والوں کے لیے ایک راہ اپنا قرب و خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے کھولتا ہے۔ چنانچہ اسی حقیقت کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ اس طرح سے بیان فرمایا ہے:’’اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم کو اس قدر خزانے دے دیتا کہ ہم کو پرواہ بھی نہ رہتی… ثواب کے حصوں کے لیے مستعد ہو جاؤ اور یہ بھی مت سمجھو کہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے تو کچھ کم ہو جائے گا۔‘‘ (تقریر ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۱ء الحکم ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۱ء) نیز فرمایا: ’’اگرکوئی مدد نہیں کرے گا یاکم توجہی سے پیش آئے گا، حقیقت میں وہ آپ ہی سعادت عظمیٰ سے محروم رہے گا۔ اور خدا کے کام رک نہیں سکتے اور نہ کبھی رُکے۔ جن باتوں کو قادر مطلق چاہتا ہے وہ کسی کی کم توجہی سے ملتوی نہیں رہ سکتیں۔‘‘ (’ضروری گزارش‘ سرورق براہین احمدیہ جلد سوم صفحہ ۱۳۶ ایڈیشن۱۹۸۴ء) اب دیکھئے اس حکمت الٰہی کو سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جن لوگوں نے صحیح طور پر سمجھا، اُن میں سیدنا ابوبکرؓ بھی تھے۔ آپؓ اپنا مال و جان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے ہر وقت مستعد وتیار رہتے تھے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے: ایک دفعہ سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ یا چندہ کا حکم دیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اُس وقت میرے پاس مال تھا اور میں نے سوچا آج میں حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ صدقہ دوں گا اور آج اُن سے سبقت لے جانے کا اچھا موقعہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مال میں سے آدھا سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ عمرؓ نے جواب دیا آدھا مال گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ اتنے میں ابوبکرؓ سارا مال لے کر سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ سے پوچھا گھر میں کیا چھوڑا ہے ؟ابوبکرؓ نے عرض کیا گھر میںاللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ (جامع ترمذی ابواب مناقب ابی بکرؓ) اس روایت سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ کا اپنے رب پر ایمان اور توکل بہت زیادہ تھا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خلیفہ اوّل بنایا اور اعلیٰ روحانی درجات سے نوازا۔ وہ اپنے اہل وعیال کے غریب و فقیر ہونے سے نہیں ڈرے اور ان ہی قربانیوں کی بنا پر آپؓ نے اللہ اور اُس کے رسولؐ کی رضاو خوشنودی کو اس حد تک حاصل کیا کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’ابوبکر ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے سبقت قدمی کرتے ہوئے اپنے مال اور اپنی جان سے میری خدمت کی اور اپنی قربانی کی وجہ سے یہ مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر اللہ کے سوا کسی کو محبت کا انتہائی مقام دینا جائز ہوتا تو میں ان کو دیتا۔‘‘(بخاری باب فضائل اصحاب النبی ﷺ) موجودہ دور یعنی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ روحانی مقام و مرتبہ حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے حصہ میںآیا۔ آپ نے مالی قربانیوں کی حکمت کو سمجھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے مطابق اشاعت اسلام کے لیے اپنے اموال کو خرچ کیا۔ چنانچہ جس طرح آنحضرتؐ نے ابوبکرؓ کی قربانی کا ذکر فرمایا تھا بالکل اُسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’…شکر ادا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتا…خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کا ذکر کرنے کے لیے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام اُن کے نُور اخلاص کی طرح نورالدین ہے۔ میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مالِ حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لیے وہ کرتے ہیں ہمیشہ رشک کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں… اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کرتے۔‘‘(فتح اسلام) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو مالی قربانی کی اہمیت سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خودبخود نہیں آتا۔ بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لیے بعض حصّہ مال کا چھوڑتا ہے۔ وہ ضرور اُسے پائے گا۔ لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جوبجالانی چاہیے تو ضرور اس مال کوکھوئے گا۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ۵۳، ۵۴) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرامؓ کی عدیم المثال مالی قربانیوں میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لیے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی اس وقت حضرت صاحبؑ کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی۔ منشی صاحبؓ کہتے ہیںکہ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس اکیلاآیا ہوا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے۔ کیا آپ کی جماعت اس رقم کاانتظام کر سکے گی۔ میں نے عرض کیا ان شاء اللہ کر سکے گی اور میں جاکر روپے لاتا ہوں چنانچہ میں فوراً کپورتھلہ گیا۔ اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کیے اور حضرت صاحبؑ کی خدمت میں لاکر پیش کر دیے۔ حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو دُعا دی۔ چند دن کے بعدکپورتھلہ کے ایک اور مخلص احمدی دوست منشی اروڑے خان صاحب بھی لدھیانہ آئے تو حضرت صاحبؑ نے اُن سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا ’’منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی۔‘‘ منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’حضرت کون سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’یہی جو منشی ظفر احمد صاحب جماعت کپور تھلہ کی طرف سے ۶۰ روپے لائے تھے۔‘‘ منشی صاحب نے کہا ’’حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا اور میںان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا۔‘‘ اس کے بعدمنشی اروڑے خان صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اورتم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کردی اس میںآپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے۔ مگر منشی صاحب کا غصّہ کم نہ ہوا اور برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایا۔ پھر منشی اروڑے خان صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے۔ اللہ اللہ یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں۔ مگر ایک اکیلا شخص اور غریب شخص اُٹھتا ہے اور جماعت سے ذکر کیے بغیر اپنی بیوی کا زیور فروخت کرکے اس رقم کو پورا کردیتا ہے۔(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۷۲) قربانی دراصل اللہ کے نزدیک وہی قابل قبول ہے جواُس کی جملہ شرائط کے ساتھ کی جائے۔ نماز اور انفاق فی سبیل اللہ کا اکثر قرآن مجید میں اکٹھا ذکر کرنے میںبھی یہ راز پنہاں ہے کہ اسلام کی تنظیمی زندگی دوبنیادوں پر قائم ہے ایک روحانی یعنی نماز باجماعت کا ادا کرنا جو مسجد میں امام کے پیچھے ادا کی جاتی ہے۔ دوسرا مادی یعنی انفاق فی سبیل اللہ جوکہ بیت المال میں جمع ہو کر تقسیم ہو۔ ان دونوں کی ایک انفرادی حیثیت بھی ہے وہ یہ کہ نماز باجماعت مسجد کے بغیر بھی ادا ہو سکتی ہے لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی کا صحیح طریق صرف یہ ہے کہ اُس کی ادائیگی بیت المال میں کی جائے۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں جب بعض قبائل نے کہا کہ وہ زکوٰۃ بیت المال میں ادا نہیںکریں گے بلکہ خود تقسیم کریں گے تو آپؓ نے ان کی تجویز قبول نہیں کی بلکہ بزور طاقت اُن کو بیت المال میں زکوٰۃ داخل کرنے پر مجبور کیا۔ اگر وہ ان کو اس کی اجازت دے دیتے تو مسلمانوں کی امامت یعنی خلافت اور جماعت کا سارا نظام پارہ پارہ ہو جاتا۔ پس اس سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نظام بیت المال کا قیام صرف نظام خلافت ہی کے زیرسایہ ہوسکتا ہے جو آج صرف اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے پاس ہے اور باقی سب فرقہ ہائے اسلامیہ اس سے محروم ہیں۔ اب خاکسار بیت المال کی ضرورت و اہمیت پر کچھ روشنی ڈالتا ہے۔ اسلام کا منتہائے مقصود خدا کی بندگی کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی ہمدردی اور غمگساری بھی ہے جس کو عرف عام یا مذہب کی اصطلاح میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ناموںسے جانا جاتا ہے۔ ایک مسلمان جہاں خدا کے حضور عاجزانہ طور پر نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے وہاں اس کو اپنے غریب بے سہارا مظلوم و مقہور بیوگا ن اور یتامٰی کی دستگیری اورامداد کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔ یہی سنت ہے ہمارے آقا مکی و مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ آپ اپنی بعثت سے پہلے جہاں غار حرا میں چھپ کر یادِ خدا میں محو رہتے تھے۔ وہاں ہر بیکس ولاچار انسانوں کی دستگیری بھی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ بعثت کے وقت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے آپﷺ کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم! وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں، قرضداروں کا قرض ادا کرتے ہیں، غریبوں اور بے سہاروں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے اور حق بات کی تائید کرتے ہیں۔ پس آج بھی یہی چیز ہماری کامیابی اور نجات کے لیے ضمانت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں حسب استطاعت پورے شرح و بسط کے ساتھ خرچ کریں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ غرض زکوٰۃ کی ادائیگی اور مالی قربانیاں کسی نہ کسی رنگ میں اسلام میں ابتدا سے ہی جاری ہیں اور وقت کی مناسبت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں احکامات اس بارہ میں نازل کیے اور حا مل شرع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ان احکامات کو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو سناتے رہے اور صحابہ کرامؓ نے بھی وفا کا ایسا نمونہ دکھایا جو رہتی دنیا تک ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ایسے بھی بعض صحابہ تھے جو نانِ شبینہ کے محتاج گزرے ہیں لیکن انہوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اس رنگ میں وفا کی کہ بازاروں میں جا جا کر بوجھ اُٹھایا اور جو کچھ میسر آیا سارا کا سارا آپ کے قدموں میں لا ڈالا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے جب سر زمین عرب گونج اُٹھی تو سعید روحیں آگے بڑھیں چنانچہ دیکھیں!حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آگے بڑھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے حضرت بلالؓ، حضرت صہیب رومیؓ، حضرت خبابؓ، حضرت عمارؓ، حضرت عمر و حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم آگے بڑھے۔ جنت کے خریداروں کی یہ قطار بہت لمبی ہوتی چلی گئی۔ چودہ سو سال کے بعد آج تک یہ قطار صف بہ صف، لہر بہ لہر بڑھتی جارہی ہے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۔ (التوبہ:۱۱۱) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اوراموال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ معزز قارئین! ۸ھ کی بات ہے کہ فتح مکّہ کے ساتھ ہی تمام عرب مسلمان شیر ازہ بند ہوگئے اور وہ الٰہی نظام جو اسلام کے پیش نظر تھا اس کے لیے راستہ ہموار ہوگیا ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے سیدنا حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ۔ (التوبہ:۱۰۳) یعنی اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! ان کے اموال میں صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرنا کہ اس طرح تو انہیں پاک کرے اور ان کا تزکیہ کرے۔ چنانچہ اگلے سال محرم ۹ھ کو زکوٰۃ کے تمام قواعد و ضوابط مرتب ہوئے اور تمام عرب میں محصلین اور عاملین مقرر کیے گئے اس طرح باقاعدہ ایک بیت المال کا قیام عمل میں آیا۔ یہ سب تفاصیل سورت توبہ میں مذکور ہیں۔ یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ مالی قربانی کا حکم اسلام میں ابتدا سے ہی تھا لیکن بیت المال بننے کے بعد تمام چندوں جن میں زکوٰۃ صدقات، عشر نیز دیگر جزوقتی تحریکات کی رقوم سب بیت المال میں جمع ہوا کرتیں اور منتظمین بیت المال ان اموال کو حسب ہدایت امیرالمومنین یا صوبوں کے اعلیٰ حکام کی ہدایت کے مطابق کمزوروں، ضرورت مندوں، بیوگان و یتامیٰ اور غرباء ومساکین اور مسافروں اور تالیف قلوب اور محصلین و عاملین کی ضروریات اور شیرازہ بندی کے قیام اور اس کے اصولوں کی آبیاری کے لیے تعمیر و ترقی کے لیے اور دیگر علمی و تعلیمی ضروریات کی بجا آوری کے لیے خرچ کیا کرتے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تکمیل بیت المال کے ساتھ اُس آسمانی نظام کی بھی تکمیل فرمائی جس کی پہلی اینٹ حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھوں رکھی گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓنے صدق و وفا کا ایسا نمونہ دکھایا جس کی نظیر تاریخ مذاہب عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ الٰہی نوشتوں کے مطابق دین اسلام پر آخری زمانہ میں ضعف کاآنا مقدر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جس میں مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا نزول بھی ہونا تھا تاکہ اس آسمانی نظام جس کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اولیٰ میںہوئی اس کی کامل اشاعت آپ علیہ السلام کی بعثت ثانیہ میں ہو۔ جیسا کہ خاکسار نے پہلے ذکر کیا ہے کہ سورۃالجمعہ کی آیت نمبر۴ ’’وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ‘‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ بعثت اولیٰ اُمیّین میں تھی جو آپؓ کے وجود مبارک سے پوری ہوئی اور بعثت ثانیہ آخرین میں ہونی تھی جو بُروزی اور ظلّی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پوری ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو بعث مقدر تھے۔ (۱) ایک بعث تکمیل ہدایت کے لیے (۲)دوسرا بعث تکمیل اشاعت ہدایت کے لیے۔ اور یہ دونوں قسم کی تکمیل روزِ ششم سے وابستہ تھی… سو ایک تو وہ روزِ ششم تھا جس میں آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدۃ :۴) نازل ہوئی اور دوسرے وہ روزِ ششم ہے جس کی نسبت آیت لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْن کُلِّہٖ(الصف :۱۰) میں وعدہ تھا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۶۰ جدید ایڈیشن ۲۰۲۱ مطبوعہ یو کے) آخرین کی جماعت میںشامل ہونا ہم سے بے پناہ قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ نومبائعین دوستوں کی فہمائش کے لیے ’’الجماعۃ‘‘ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ سو میرے پیارے نو احمدی بزرگو اور بھائیو! حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانے میں امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ان میں سے ایک جنتی ہوگا، اور وہ جماعت احمدیہ ہوگی۔ نیز فرمایا کہ وہ جماعت وہی کچھ کرے گی جو میں اور میرے صحابہ کرتے ہیں۔ پس یہ خدا کا فضل و احسان ہے کہ آج اس روئے زمین پر سوائے احمدیہ جماعت کے کوئی بھی فرقہ ’’الجماعۃ‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ جماعت کے لیے ایک واجب الاطاعت امیر کا ہونا ضروری ہے جس کے ہاتھ پر وہ سب جمع ہوں یہ اعزاز خلافت جیسی عظیم نعمت کے رنگ میں سوائے احمدیہ جماعت کے کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ دوسری بات حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ صفت بھی جماعت احمدیہ میں بطریق اتم موجود ہے۔ آج تبلیغ اسلام کا سہرا خداکے فضل سے ہر احمدی کے سرکا تاج ہے، فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ پس جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ ’’الجماعۃ‘‘ میں شامل رہنا ہم سے عظیم قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ کوئی بھی نظام یا تحریک مذہبی ہو یا دنیوی ،مالی قربانیوں کے بغیر چل نہیںسکتی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’دنیا میں آج تک کونسا سلسلہ ہوا ہے یا ہے جو خواہ دنیوی حیثیت سے ہے یا دینی، بغیر مال کے چل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ایک کام اس لیے کہ عالم اسباب ہے اسباب میں سے ہی چلا یاہے۔ پھر کس قدر بخیل اور ممسک وہ شخص ہے جو ایسے عالی مقصد کی کامیابی کے لیے ادنیٰ چیز مثل چند پیسے خرچ نہیں کرسکتا۔ ‘‘ (الحکم ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ء) پس اب اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے اس مبارک دور میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہوا ہے۔ پھر وہی تقاضے ہیں پھر وہی مطالبے ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر۔ ہمارے آقا محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ا س دور کو بہت ہی بابرکت دور قرار دیا ہے۔ فرمایا: مَثَلُ اُمَّتِی مَثَلُ الْمَطَرِ لَایُدْریٰ أوَّلُهٗ خيرٌ أمْ آخِرُهٗ(راوی انس بن مالکؓ، سنن الترمذی )کہ میری امت کی مثال اس بارش کی ہے جس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا پہلاحصہ زیادہ مفید ہے اور باعث خیر ہے یا آخری حصہ۔ پھر اس حدیث کے آخر میں فرمایا کہ وہ اُمّت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ہوں گے اسی دور کے بارہ میں مزید یوں خوشخبری دی ہے:اِنَّہٗ سَیَکُوْنُ فِی ھٰذِہٖ الاُمَّۃِ قَوْمٌ لَھُمْ مِثْلُ اَجْرِ اَوَّلِھِمْ یَامُرُوْن بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقَاتِلُوْنَ اَھْلَ الْفِتَنِ (مشکوٰۃ المصابیح) یعنی اس امت کے آخری حصہ میں ایسی جماعت ہوگی جن کو صحابہ رضوان اللہ علیہم کی طرح اجر ملے گا وہ امر بالمعروف کرنے والی ہوگی اور نہی عن المنکر کرے گی اس جماعت کے لوگ اہل فتن کا مقابلہ کرکے انہیں شکست دیں گے۔ ظاہر ہے یہ جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہی جماعت ہے اور اس جماعت کے لیے دوسری احادیث میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی دائمی نعمت پانے کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ الحمدللہ جماعت احمدیہ عالمگیر خلافت کے زیر سایہ آج جو غیرمعمولی قربانیاں اخلاص اور فدائیت کے ساتھ انجام دے رہی ہے اس کی نظیر سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے اور کہیں نہیں ملتی۔ انفاق فی سبیل اللہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس زمانے میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے جماعت کی صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے… بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنی محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لیے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ خرچ کرتے تھے۔‘‘ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ جدید ایڈیشن ۲۰۲۱ مطبوعہ یو کے) خدا کے فضل سے آج ہر فرد جماعت اشاعت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاجداری کو قائم کرنے کی خاطر دیوانہ وار قربانیاں دے رہا ہے۔ اور بلاشبہ یہ جماعت صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے کی دعویدار ہے۔ پس اے معززقارئین کرام! کیا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ تو پھر جائزہ لیں کہ کیاآپ چندہ عام باقاعدہ اور باشرح ادا کرتے ہیں۔ کیا چندہ تحریک جدید، وقفِ جدید کے بقایا دار تو نہیں۔کیا زکوٰۃ و صدقات ادا کرتے ہیں۔خلفاء کرام کی طرف سے جاری فرمودہ تحریکات پر فوراً لبیک کہتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو یقیناً آپ نے احمدیت کی حقیقت کو پا لیا اگر نہیں تو سوچنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوحقیقی احمدی بننے کی توفیق بخشے۔آمین۔ اَب خاکسار اس دور آخرین جو حضرت رسول پاک ﷺ کے غلام کامل اور عاشق صادق ؑکا بابرکت دور ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور یہ سعادت عطا فرمائی کہ ہم نے یہ زمانہ پایا، کی مالی قربانی کے متعلق مزید چند مثالیں پیش کرے گا۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے واقعہ سے جو ابھی آپ نے پڑھا، دور آخرین کے حضرت میاں شادی خان صاحب کی یاد آجاتی ہے۔ سیالکوٹ کے لکڑی فروش، بہت متوکل انسان تھے۔ تنگدست تھے لیکن دل کے بادشاہ اس فدائی انسان کا نمونہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے گھر کا سارا ساز وسامان فروخت کر کے ڈیڑھ سو روپیہ کے بعد مزید دوسو روپے حضورؑ کی خدمت میں پیش کر دیے۔ اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ بہت بڑی قربانی تھی۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ایک مجلس میں اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں شادی خان نے تو اپنا سب کچھ پیش کر دیا۔ اور ’’درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘(بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۱۵) میاں شادی خان صاحبؓ نے سنا تو سیدھے گھر گئے۔ ہر طرف نظر دوڑائی۔ سارا گھر خالی ہو چکا تھا صرف چند چارپائیاں باقی تھیں۔ فوری طور پر ان سب کو بھی فروخت کر ڈالا اور ساری رقم لاکر حضورؑ کے قدموں میں ڈال دی اور حضورؑ کے منہ سے نکلی ہوئی بات لفظاً لفظاً پوری کردی۔ اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس فدائی خادم کو کس طرح نوازا۔ ان کی وفات ہوئی تو ان کی آخری آرام گاہ بہشتی مقبرہ میں ایسی جگہ بنی جو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مزارِ مبارک سے چند گز کے فاصلہ پر تھی اور بعد ازاں مقدس چاردیواری کے اندر آ گئی۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے صحابہؓ میں مالی قربانیوں کا جذ بہ ایسا راسخ ہو چکا تھا کہ اس کے نئے سے نئے انداز اختیار فرماتے۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں جس میںبے پناہ جذبہ قربانی جھلکتا نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی سائیں دیوان شاہ صاحبؓ اپنے بار بار قادیان آنے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں:’’میں چونکہ غریب ہوں۔ چندہ تو دے نہیں سکتا ، قادیان جاتا ہوں تا کہ مہمان خانہ کی چارپائیاں بُن آؤں اور میرے سر سے چندہ اُتر جائے۔‘‘ (اصحاب احمد جلد ۱۳ صفحہ ۹) حضرت مسیح پاکؑ کی جماعت میں مالی قربانی و ایثار کا جو بیج بویا گیا ہے اُس کا درخت بہت تناو ر ہو چکا ہے اور آج آپؑ کے خلفاء کے دور میں تو اس کی مثالوں کی انتہا نہیں رہی ہے۔ اِس دور میں نوجوانوں میں اِس جذبہ نے اتنی ترقی کی ہے کہ عہد خدام الاحمدیہ کو کہ ’’میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہوں گا‘‘ ہر لحاظ سے عملی جامہ پہنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دو واقعات اس ضمن میں بھی پیش خدمت ہیں: مانچسٹر میں جب بیت الفتوح لندن کے سلسلہ میں تحریک کی گئی تو ایک نوجوان حاضرین میں سے اٹھ کر آیا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ اُس نے وہ لفافہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے گذشتہ ماہ کی تنخواہ ملی ہے۔ میں نے ابھی اس لفافہ کو کھولا تک نہیں۔ مسجد کے بارہ میں تحریک سُن کر یہ لفافہ بند کا بند، پیش کرتا ہوں۔ اسی مجلس میں ایک اَور نوجوان کا نمونہ بھی ناقابل فراموش ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ایک شاندار مثال ہے۔ تحریک سن کر وہ اسٹیج پر آیا اور ایک لفافہ پیش کرتے ہوئے کہنے لگا کہ چند دنوں بعد میری شادی ہونے والی ہے میں نے ولیمہ کے لیے ۵۰۰ پاؤنڈ بچا کر رکھے ہوئے ہیں۔ خدا کا گھر بنانے کی تحریک سن کر دل میں خیال آیا ہے کہ ولیمہ کا انتظام تو خدا تعالیٰ کسی نہ کسی طرح کر دے گا۔ خدمت دین کے اس واقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دوں۔ میری طرف سے یہ ساری رقم مسجد کے لیے قبول کرلیں۔ مردوں کی مالی قربانیوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ حق یہ ہے کہ جماعت کی خواتین بھی اس مالی جہاد میں مردوں کے دوش بدوش بلکہ بعض صورتوں میں مردوں سے بھی آگے رہتی ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر کے موقع پر جس طرح مرد اپنی جیبیں خالی کرتے اور تنخواہوں کے لفافے بند کے بند چندے میں دے دیتے ہیں ، عورتیں بھی اپنے طلائی زیورات اسی والہانہ انداز میں چندہ میں پیش کرتی ہیں جیسے ان قیمتی زیورات کی کوڑی برابر بھی قیمت نہ ہو۔ شادی کےزیورات کے ڈبے، بند کے بند، خلیفہ وقت کے قدموں میں رکھ دیتی ہیں۔ اب خاکسار اپنے مضمون کے آخر میں ایک اقتباس پیش کرکے اپنے مضمون کو ختم کرے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مالی قربانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جیسا کہ الٰہی جماعتوں کا طریق ہے کہ وہ اپنے مال کو پاک کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتی ہیں۔ جماعت میں بھی اسی طرح مالی قربانیوں کا سلسلہ قائم ہے۔ جماعت کے افراد کو بھی پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور جو قربانیاں وہ دیتے ہیں وہ کس طرح پھر خرچ کی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام جس مشن کو لے کر آئے تھے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانا۔ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں ہے بڑا وسیع کام ہے دنیا میں اس پیغام کو پھیلانا۔ اور بہرحال اس کے لیے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سمجھتے ہوئے کہ اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو، یہ اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے احمدی اپنی مالی قربانیوں کے ایسے ایسے نمونے پیش کرتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان اس یقین پر پہلے سے بڑھ کر قائم ہو جاتا ہے کہ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہی فرستادے ہیں جن کے ذریعہ سے آخری زمانے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلنی تھی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۰۵؍نومبر ۲۰۲۱ء) اللہ تعالیٰ ہم سب کو جذبۂ ایثار کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بےلگام کھپت کا زمانہ