(انتخاب از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍ ستمبر۲۰۱۵ء) ایک شخص جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے مسلمان ہونے کی خوبصورتی تبھی ظاہر ہو گی جب وہ ایمان میں مضبوط ہو اور اسلام کی حقیقت کو سمجھتا ہو۔ ایمان یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہواور اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بھی ہر شر سے بچا کر رکھے اور دوسروں کے لئے بھی سلامتی کے سامان کرے۔ پس یہ خلاصہ ہے ایمان اور اسلام کا۔ اگر مسلم دنیا اس چیز کو سمجھ لے، اس بات کو سمجھ لے تو دنیا میں پائیدار امن اور سلامتی قائم کرنے اور بکھیرنے کے ایسے نظارے نظر آئیں جو دنیا کو جنت بنا دیں۔ اس زمانے میں اس حقیقی ایمان کو دلوں میں قائم کرنے اور حقیقی اسلام کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آپؑ کی طرف منسوب ہونے کے بعد یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ حقیقی ایمان کو قائم کرتے ہوئے اور اسلام کا صحیح نمونہ بنتے ہوئے اس کام میں آپؑ کے ممد و معاون بنیں۔ دنیا کو ایمان کی حقیقت بتائیں اور سلامتی پھیلانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اپنے نظام کے ذریعہ سے دنیا میں ہر جگہ یہ کام تو کر ہی رہی ہے لیکن ہر احمدی کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا نمونہ بنائے تا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری ادا کرنے والا بنے۔ آجکل مسلمان دنیا میں بدقسمتی سے جو فساد برپا ہے اس نے اسلام کے نام کو بدنام کیا ہؤا ہے۔ کاش کہ مسلمان ممالک اس بات کو سمجھیں کہ ان کے ذاتی مفادات نے اسلام کو کس قدر زَد پہنچائی ہے اور شدت پسند گروہ اور تنظیمیں بھی اس وجہ سے ابھری ہیں کہ ہر سطح پر مفاد پرستی زور پکڑ رہی ہے۔ ملکوں کے امن برباد ہو رہے ہیں۔ نہ خود امن میں ہیں، نہ دوسروں کو سلامتی پہنچا رہے ہیں۔ نہ حکومت رعایا کے ساتھ انصاف کررہی ہے، نہ رعایا حکومت کے حق ادا کر رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ ان دونوں کی بےاعتدالیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’جب تک یہ دونوں پہلو (یعنی حکومت کے فرائض اور رعایا کے فرائض) اعتدال سے چلتے ہیں تب تک اُس ملک میں امن رہتا ہے اور جب کوئی بےاعتدالی رعایا کی طرف سے یا بادشاہوں کی طرف سے ظہور میں آتی ہے تبھی ملک میں سے امن اٹھ جاتا ہے‘‘۔ (چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ33) بدقسمتی سے یہی کچھ ہم آجکل اکثر مسلمان ممالک میں دیکھ رہے ہیں اور پھر اسلام دشمن قوتیں بھی اس سے اپنے مفادات حاصل کر رہی ہیں۔ ایک طرف تو دونوں کی جھگڑے بڑھانے میں مدد کی جاتی ہے تو دوسری طرف شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں کو شہرت دے کر پریس اور میڈیا بے انتہا کوریج دیتا ہے اور یہ کوریج دے کر اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے۔ مَیں نے بعض انٹرویوز جو میڈیا کو دئیے ان میں ایک بات یہ بھی انہیں کہی تھی کہ اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے شدت پسند اور دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کرنے میں تم جو میڈیا والے ہو تمہارا بھی ہاتھ ہے۔ میڈیا انصاف سے کام نہیں لیتا۔ کسی گروہ کے یا ملک کے حکمرانوں کے، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، سیاسی عزائم کو تم مذہب کا نام دے کر پھر اسلام کی تعلیم کو بدنام کرتے ہو۔ اور پھر اس کو اتنی شہرت دیتے ہو کہ تم نے دنیا میں رہنے والے لوگوں کی اسلام کے متعلق سوچیں ہی بدل دی ہیں۔ یا جو اسلام کو جانتے نہیں ان کے ذہنوں میں اسلام کا ایسا تصور پیدا کردیا ہے، ایسا ہوّا کھڑا کر دیا ہے کہ ان کے چہرے اسلام کا نام سن کر ہی متغیر ہو جاتے ہیں۔ اور جہاں تمہارے اپنے مفادات ہوں وہاں خبریں دبا بھی دیتے ہو۔ مثلاً کچھ عرصہ پہلے آئرلینڈ میں جب شدت پسندی کے واقعات علیحدگی پسندوں کی طرف سے ہوئے تو پریس نے فیصلہ کر لیا کہ خبریں نہیں دینی یا پریس کو مجبور کیا گیا کہ خبریں نہیں دینی اور نتیجۃً وہیں مقامی سطح پر ہی تھوڑا سا ابال اٹھا اور حکومت نے اسے دبا دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمان ممالک میں حکومت مخالف گروہوں کی کارروائیاں زیادہ سخت ہوں، جو مسلمان ممالک میں علیحدگی پسند گروہ ہیں یا شدت پسند گروہ ہیں ان کی کارروائیاں ان کی نسبت شاید زیادہ سخت ہوں لیکن ان کو تسلسل سے یہ کارروائیاں کرنے کی کس طرح توفیق مل رہی ہے یا کس طرح وہ یہ انجام دے رہے ہیں۔ ان کو اسلحہ کی صورت میں جو ایندھن ہے وہ تو باہر سے ہی مہیا کیا جاتا ہے۔ مَیں نے ان کو یہ بھی کہا کہ حالات سے تنگ اور بے چین لوگ جب شدت پسند گروہوں میں شامل ہوتے ہیں تو اس کا بے انتہا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اتنے لوگ یہاں سے چلے گئے، اتنے لوگ وہاں سے چلے گئے اور پھر اسلام کو بھی کسی نہ کسی طریق سے نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے مزید بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ہزاروں لاکھوں مسلمان جو امن کی بات کرتے ہیں ان کا ذکر میڈیا نہیں کرتا یا انہیں وہ پذیرائی نہیں ملتی جو منفی رویّے دکھانے والوں کو ملتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر تو جماعت احمدیہ ہے جو محبت اور پیار کی اسلامی تعلیم پھیلاتی ہے اور تمام دنیا میں ایک لگن سے اس کام پر لگی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں امن کے جھنڈے تلے امن پھیلانے اور سلامتی بکھیرنے کے لئے لاکھوں لوگ ہر سال جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہم تمہیں بتائیں بھی تو تم اتنی توجہ نہیں دیتے بلکہ بالکل بھی توجہ نہیں دیتے۔ کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ اور دنیا کے سامنے بعض مسلمانوں کے یا مسلمان گروہوں کے عمل کی غلط تصویر ہی پیش کی جاتی ہے، منفی تصویر پیش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی غیر مسلم آبادی سمجھتی ہے کہ اسلام کا صرف ایک ہی رخ ہے اور اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ شدت پسندی ہے اور نا انصافی ہے اور یہی اسلام کا حقیقی چہرہ ہے۔ اور پھر جیسا کہ میں نے کہا دنیا میں، غیرمسلموں میں اسلام سے نفرت بڑھتی جاتی ہے۔ بہرحال پریس بھی کیونکہ اب ایک کاروباری چیز ہے ان کا کاروبار ہے اور مسالے دار خبریں لگانا ان کا کام ہے جو وہ اس لئے لگاتے ہیں کہ ان کو مالی فوائد حاصل ہوں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ لاکھوں لوگ امن اور سلامتی کے جھنڈے تلے ہر سال جمع ہوتے ہیں۔ …ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں اور مسلمان بھی شامل ہیں اور پھر بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اسلام کی خوبصورت تصویر کو دیکھ کر اسلام قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ عہد کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور صحیح اسلامی تعلیم کے اظہار کی حتی المقدور کوشش کریں گے اور یہ پیغام آگے پھیلائیں گے جو اسلام کا خوبصورت پیغام ہے، جو امن اور سلامتی کا پیغام ہے اور بعض نے یہ بھی اظہار کیا کہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کی دنیا کو ضرورت ہے اور میڈیا نے اسلام کے بارے میں منفی تاثر دے کر ہماری سوچوں پر تالے لگا دئیے تھے۔ جماعت احمدیہ کی جو یہ کوششیں ہیں انہوں نے پھر اُن کی اِن غلط سوچوں کو دُور کیا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: نماز میں عاجزی اور خشوع