یاد رکھیں کہ رب اللہ تعالیٰ ہے جو تمام چیزوں کا مہیا کرنے والا ہے۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے اور اسی سے ہمیں یہ نعمتیں مہیا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جس طرح دوسری مخلوق کو مہیا کرتا ہوں اسی طرح تمہیں بھی کرتا ہوں۔ پس صرف یہ نہ سمجھو کہ تمہارے زور بازو سے تمہیں یہ سب کچھ مہیا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے کاروبار میں جو بظاہر بڑے اچھے اور مفید فیصلے ہیں ان میں بھی بے برکتی پیدا کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو کر سکتا ہے اس کے لئے بہت آسان ہے کہ جس طرح دوسرے کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں کو رزق مہیا کرتا ہے تمہیں بھی رزق مہیا کر دے۔ دنیا میں آج ہزاروں لاکھو ں لوگ اپنے کاروبار میں دیوالیہ ہورہے ہیں۔ اگر صرف ان کی عقل ہی کام کر رہی ہوتی تو یہ کاروبار کیوں دیوالیہ پن کا شکار ہو رہے ہوتے۔ پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہئے۔ ایک احمدی کا کام یہ ہے کہ مستقل مزاجی سے اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت کرتا رہے، اس کے آگے جھکا رہے اس کے حکموں پر عمل کرتا رہے۔ اور عبادت کے لئے جس طرح کہ مَیں نے پہلے بھی آیت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت اور ذکر کے لئے نماز قائم کرو۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا ہر احمدی کا کام ہے۔ اور یہ ہمارے ہی فائدے کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ ہماری نمازوں کی ضرورت ہے اور نہ ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُکُمْ (سورۃ الفرقان آیت: 78) کہ ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو۔ یعنی یہ تمہاری دعا اور استغفار تمہارے فائدے کے لئے ہیں۔ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ پس ایک احمدی کے لئے اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ورنہ احمدی ہونے کے بعد دعاؤں سے بے رغبتی اور نمازوں سے لاپرواہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث نہیں بنا سکتی۔ جلسہ پرآنے والوں کے لئے بھی اور ویسے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت دعائیں کی ہیں۔ ان سے اگر حصہ لینا ہے اور ان کا وارث بننا ہے تو ہمیں اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔ (خطبہ جمعہ۱۲؍مئی ۲۰۰۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲؍جون۲۰۰۶ء) مزید پڑھیں: رشتہ کرتے وقت تحقیق کرنے کے متعلق راہنمائی