https://youtu.be/ZMPYXKjA7HM میں لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیدا کرنا نہیں چاہتا کہ فلاں زمیندار اور ساہوکار تحصیلدار سے جو چاہیں کرالیں بلکہ میں ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ زمیندار اور کاشتکار کے درمیان اگر مقدمہ ہوگا تو انصاف ہوگا قسط نمبر۵ سلسلہ ملازمت میں وہ پٹواری سے لےکر ڈپٹی کمشنر کے درجہ تک پہنچے اور ریاست بہاولپور میں ریونیو ممبر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ پنشن پر جاتے وقت اگر وہ چاہتے تو انہیں مدتِ ملازمت میں توسیع مل سکتی تھی مگر انہوں نے پسند نہ کیا۔ پنشنر ہونے پر آنریری مجسٹریٹی دی جاتی تھی۔ انکار کردیا اور خاموش اور علمی دلچسپیوں میں اپنی زندگی کو گزارنا پسند کیا۔ دورانِ ملازمت میں وہ لاہور، شجاع آباد، میلسی، جہلم، میانوالی، جالندھر، حصار وغیرہ مقامات میں تبدیل ہوتے رہے۔ ہر جگہ ان کے عہدِ ملازمت کی یاد رعایا کے دل میں ہے۔ میں تفصیلی طور پر ان کے عہدِ ملازمت کی داستان بیان نہیں کرسکتا۔ ان کی سیرت اور طریقِ عمل کے چند مناظر پیش کروں گا۔ پابندیٔ وقت: ایامِ ملازمت میں جو چیز ان کی زندگی میں سب سے نمایا ں ہے وہ پابندیٔ وقت ہے۔ عام طور پر مجسٹریٹ اور دوسرے بڑے عہدہ دار وقتِ مقررہ پر کچہری آنے کے عادی نہیں ہوتے، بلکہ وہ اپنی شانِ حکومت کا یہ بھی ایک جزوسمجھتے ہیں کہ وہ کچہری میں دیر سے آئیں اور جلد اُٹھ جاویں۔ مگر مرزا صاحب کا ہمیشہ یہ معمول تھا کہ وہ ٹھیک وقتِ مقررہ پر کچہری میں آجاتے اور کچہری کے وقت تک برابر کام میں مصروف رہتے اور ان کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر روز کا کام ختم کرکے اٹھتے تھے۔ ان کی عدالت میں اہلِ مقدمہ کو یہ دقت نہ ہوتی تھی کہ شام تک انتظار کرتے رہتے اور پھر مقدمہ دوسرے دن پر یا کسی اور تاریخ پر ملتوی کردیا خواہ انہیں کچہری کے بعد بیٹھنا پڑے۔ انہیں اس بات کا احساسِ کامل تھا کہ یہ لوگ تکلیف اُٹھا کر آئے ہیں اور مقدمات میں اہلِ مقدمات کی زیر باریوں اور اخراجات میں اضافہ کا ایک باعث مقدمات کا بلاوجہ التوا بھی ہوتا ہے، اس لیے وہ تکلیف اٹھا کر بھی روز کے کام کو ختم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ جب دورہ پر ہوتے تھے اور کوئی موقع وغیرہ بھی دیکھنا ہوتا یا یہ کہ بحیثیت افسر مال پڑتال کرنی ہوتی اور وقت کابہت سا حصہ اس طرح پر خرچ ہوتا لیکن ان حالتوں میں بھی مقدمات کے کام کو جو اس کے لیے مقرر ہوتا پورا کرتے۔ ساری مدتِ ملازمت میں انہوں نے کبھی یہ نہیں کیا کہ گواہ وغیر بلائے گئے ہوں اور اپنی کسی وجہ سے بغیر سماعت اور شہادت قلمبند کرنے کے مقدمہ کو ملتوی کردیا ہو۔ غرض ان میں پابندیٔ وقت کا بےحد خیال تھا۔ جفا کشی: دوسری بات جودورانِ ملازمت میں قابلِ نوٹ ہے وہ ان کی جفاکشی ہے۔ وہ تن آسان واقع نہ ہوئے تھے۔ پیدل چلنے اوربھوک پیاس کی شدت کا مقابلہ کرنے میں بڑے بہادر تھے۔ ملک کے بعض حصوں میں ریگستان یا بَیْٹ ٭ کی وجہ سے دلدلی حصوں میں گھومنا اور چلنا پڑتا مگر وہ کبھی اس کی پروا نہیں کرتے تھے اور ان کے ڈیرہ کابار گاؤں والوں پر نہ ہوتا تھا اور کبھی غیرضروری فرمائشیں ان کے ملازموں کی طرف سے بھی نہ ہوتی تھیں۔ اس جفاکشی کے ساتھ ہی ان کی دیانتداری کا بھی عام شہرہ تھا اور وہ واقعات پر مبنی تھا۔ معاملہ فہمی اور قانونی قابلیت: ان کی فراست اتنی تیز تھی کہ وہ فوراً مقدمہ کی تہ تک پہنچ جاتے تھے۔ اور وہ مقدمات کے فیصلہ میں قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں سے بہت کم کام لیتے۔ وہ واقعات کو ایسے رنگ میں ترتیب دیتے کہ جو نتائج اپنے فیصلہ میں پیش کرتے وہ نہایت بدیہی ٹھہرتے۔ اس لیے ان کے فیصلوں کے اپیل نہیں ہوتے تھے۔ یا اگر کوئی ہوتا تو بہت ہی کم اس میں کامیابی ہوتی۔ یعنی فیصلے لکھنے کے عادی نہ تھے۔ جہاں قانونی پیچیدگی ہو اسے نہایت صفائی سے عام فہم صورت میں حل کردیتےتھے۔ جرأت اور دلیری: مقدمات کے فیصلہ میں کسی قسم کی طرفداری یا کسی شخص کی وجاہت اور اثر کی پروا نہ کرتے تھے۔ اور بڑی سے بڑی پارٹی بھی مخالف ہوجاوے تو انہیں ذرہ خیال نہ ہوتا تھا۔ اصل یہ ہے کہ ’تو پاک باش برادر! و مدار از کس باک‘۔ ٭ ٭ ایک واقعہ:ایک مرتبہ وہ میلسی یا شجاع آباد میں تھے۔ وہاں کے ایک بہت بڑے زمیندار اور ساہوکار جو ہمیشہ تحصیلداروں پر اپنا اثر رکھا کرتے تھے اور اپنی قوت اور رسوخ کی وجہ سے تحصیلداروں اور دوسرے عہدہ داروں کوگویا اپنا آلہ کاربنالیتے تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب جب وہاں پہنچے تو وہ ان سے بھی اس قسم کی توقعات رکھتے تھے۔ مرزا صاحب ایک بے لوث افسر تھے۔ یہ عام لوگوں سے زیادہ ملتے تھے تا کہ صحیح کیفیت اور حالت رعایا کی معلوم ہو اور اس قسم کے سرمایہ دار اور حکام سے اپنا تعلق بڑھا کر اس کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والےلوگوں کو پاس بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ انہوں نے جب مرزا صاحب کے مزاج اور طرزِ عمل کا مطالعہ کیا تو طبعی طور پر انہیں خوف ہؤا کہ ان کا اثر وہاں اب باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے مرزا صاحب کے خلاف ایک سازش کی کہ ان کو کسی نہ کسی طرح یہاں سے تبدیل کرائیں۔ الزام کوئی نہیں دیا جاسکتا تھا۔ آخر یہ کوشش کی کہ بڑے افسروں کی ملاقاتوں میں یونہی چلتی ہوئی کوئی شکایت کر دیں یا متعصّب کہہ دیں۔ اعلیٰ حکام مرزا صاحب کو جانتے تھے۔ کمشنر صاحب نے ان سے ذکر کیا کہ یہ کیا بات ہے؟ مرزا صاحب نے حقیقت بیان کردی کہ رعایا اس طرح پرلوٹی جاتی تھی۔ میں ان لوگوں کا آلہ کار نہیں بننا چاہتا۔ زمینداری ان کی ہے، ساہوکار ان کا ہے اور جب مقامی حاکم بھی ان کے ہاتھ میں ہوتو پھر آپ سمجھ لیں کہ رعیت کی کیا حالت ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ رعایا کو تباہ کر دیا جاوے تو میں اپنے پیشرو افسران کے نقشِ قدم پر چلوں مگر یہ میرےضمیر اور انصاف کے خلاف ہوگا۔ اور اگر ہمارا کام رعایا کوآباد رکھنا اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے تو پھرمیں اپنےطرزِ عمل کونہیں بدل سکتا۔میں لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیدا کرنا نہیں چاہتا کہ فلاں زمیندار اور ساہوکار تحصیلدار سے جو چاہیں کرالیں بلکہ میں ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ زمیندار اور کاشتکار کے درمیان اگر مقدمہ ہوگا تو انصاف ہوگا۔ زمیندار کی قوت اور مالی طاقت اپنے مزارع کو برباد نہیں کرسکتی۔ بشرطیکہ عدالت میں انصاف روپیہ سے نہ خریدا جاوے۔ کمشنر صاحب پر بہت اثر ہؤا اور انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی اس اچھے مقصد میں پوری مدد کریں گے۔ کیا کرنا چاہیے؟ مرزا صاحب کہتے تھے کہ میں نے کہا کہ صرف ایک اخلاقی پہلو سے ہی اس کا علاج ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب آپ وہاں آئیں تو ان کی ملاقات سے انکار کردیا جاوے، بس اتنا ہی علاج کافی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا اور اس کی شہرت علاقے میں ہو گئی۔ دنیا دار اس قسم کی عزتوں پر مرتے ہیں۔ اس کے لیے تو قیامت آگئی اور ان کے آدمی میرے پاس آنے شروع ہوئے۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ مجھےجو کہنا ہو کچہری میں آکر کہو، میں الگ نہیں ملنا چاہتا اور نہ ضرورت ہے۔ اس کا اثر یہ ہؤا کہ کاشتکاروں اور غریب مقروضوں پر جو مظالم ہو رہے تھے وہ رُک گئے۔ ایک سرمایہ دار زمیندار کو سبق مل گیا۔ دوسروں کی عزت کی حفاظت: بعض اوقات انہیں اپنے اسی سلسلۂ ملازمت میں عجیب و غریب مشکلات پیش آتے تھے مگر ان کی دلیری، راستبازی اور انصاف پسندی کام کرجاتی تھی۔ جالندھر کے مقام پر ایک مقدمہ ان کے سامنے پیش ہؤا جس میں ایک نہایت معزز اور شریف خاندان کا ایک ممبر ایک فوجداری جرم میں پیش ہؤا۔ مقدمہ بالکل صاف تھا لیکن اگر کوئی سزا دی جاوے تو اس شریف اور معزز خاندان پر نہ مٹنے والا دھبہ عائد ہوتا۔ اگر سزا نہ دی جائے تو قانون کا مطالبہ جاتا تھا۔ مرزا صاحب نے اس مشکل کا حل تجویز کر لیا اور اس ملزم کو قانون کے منشا کو پورا کرتے ہوئے چھوڑ دینے کا عزم کرلیا۔ وہ کہتے تھے کہ میں ڈپٹی کمشنر کے پاس چلاگیا اور واقعاتِ مقدمہ کا ان سے ذکر کیا اور دوسری طرف یہ بھی کہا کہ میں ملزم کو چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ جب تم تسلیم کرتے ہو کہ جرم ثابت ہے پھر چھوڑ دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس خاندان کی عزت بے شک ضروری ہے مگر قانون اور انصاف کو پورا کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے۔ مرزا صاحب نےکہا کہ میں خود خلافِ قانون کوئی امر نہیں کرنا چاہتا لیکن میں اپنے اختیارات تمیزی کا صحیح استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے اس لیےکہہ رہا ہوں کہ میرے فیصلہ کے بعد ایک شور پڑنا ممکن ہےاور آپ تک معاملہ آئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ میری تائید کریں۔ میں صرف اصل واقعات سے آپ کو واقف کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے جو فیصلہ کرنا ہے وہ تو میں نے کرلیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، آپ جو چاہیں کریں۔ قانون اور انصاف کے مقصد کو پورا کیا جاوے۔ مرزا صاحب آئے اور انہوں نے فیصلہ کردیا کہ ملزم پر جرم ثابت ہے، لیکن ملزم کی خاندانی عظمت اور نیک شہرت کو بچانے کے لیے میں اس کے لیے کافی سمجھتا ہوں کہ عدالت کے برخاست ہونے تک وہ قید سمجھے جاویں۔ اور مالی حیثیت سے پیرویٔ مقدمہ میں جو زیر باری ہوئی ہےوہ کافی سزا ہے۔ اس حیثیت کے شریف انسان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی سزا کارگر نہیں ہوسکتی کہ اخلاقی طور پر اسے اپنے جرم کا صحیح احساس ہو۔ یہ مفہوم میرے اپنے الفاظ میں ہے۔ قانون کا منشا سزا تھا وہ پورا ہوگیا۔ اور سزا کی مقدار مجسٹریٹ کے اختیارات تمیزی میں تھی۔ اس کو مدنظر رکھ کر سزا دے دی۔اس فیصلہ پر بجائے اس کے جیسا کہ مرزا صاحب کا خیال تھا مخالفت ہوگی۔ عام لوگوں میں اور فریق مخالف میں بھی ان کی شریف نوازی کا ایک خاص چرچا ہونے لگا اور چونکہ جو کچھ کیا گیا تھا وہ اخلاص سے کیا گیا تھا، اس کی تہ میں کوئی سفلی اغراض نہ تھے ، اس لیے اسے قبولیت حاصل ہوئی۔ (ہفتہ وار ’’سالار‘‘، شمارہ نمبر ۲۲ جلد نمبر۱ ،۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء، صفحہ نمبر ۱۲،۱۱) ٭ بیٹ: دریا کے کنارے کی بنجر ریتلی زمین ٭ ٭ شیخ سعدی کے درج ذیل شعر کا مصرع اول ہے: تو پاک باش و مدار ای برادر از کس باک بہ یاد دار کہ این پندم از پدر یادست اس کا مطلب یہ ہے : اے بھائی!تُو پاک دامن رہ اور کسی سے خوف نہ کھا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی(قسط دوم)