https://youtu.be/_y4-SLnhalA (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍اگست ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: گذشتہ کچھ خطبات سے غزوۂ بنو مصطلق کا ذکر ہو رہا تھا ۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نقیع مقام کوچراگاہ بنانے کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: بنومصطلق سے واپسی پر جب آنحضرتﷺ نَقِیع مقام سے گزرے تو بہت کشادگی، گھاس اور بہت سے تالاب دیکھے۔ آپؐ نے اس کے پانی کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! جب گرمیاں آتی ہیں تو پانی کم ہو جاتا ہے۔ تالابوں کا پانی نیچے چلا جاتا ہے۔نبی کریمﷺ نے حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہؓ کو حکم دیا کہ وہ کنواں کھودیں اور نقیع کو چراگاہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت بِلال بن حارِث مُزَنِی کو اس پر نگران مقرر کیا۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! میں کہاں تک چراگاہ بناؤں۔ آپ نے فرمایا جب طلوع فجر ہو جائے تو ایک بلند آواز والے شخص کو مُقَمَّل پہاڑ پر کھڑا کرو اور جہاں تک اس کی آواز جائے وہاں تک مسلمانوں کے ان اونٹوں اور گھوڑوں کے لیے چراگاہ بناؤ جن پر وہ جہاد کیا کریں گے۔ یہ معیار رکھا آپؐ نے اس ایریا کی وسعت کا۔ حضرت بلالؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! عام مسلمانوں کے چرنے والے جانوروں کے بارے میں کیا رائے ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ پھر کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اس کمزور مرد یا کمزور عورت کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے پاس قلیل تعداد میں بھیڑ بکریاں ہوں۔ وہ انہیں چرانے کے لیے دوسری جگہ جانے کی سکت نہ رکھتا ہو۔ آپﷺ نے فرمایا انہیں چرنے کے لیے چھوڑ دو۔گویا کہ یہ سرکاری چراگاہ جو بنائی گئی تھی اس میں آنے کی غریبوں کو صرف اجازت دی، باقیوں کے لیے جو امراء تھے، انہیں کہا اپنی اپنی علیحدہ بناؤ، یہاں صرف سرکاری جانور ہی چرا کریں گے۔ یہ چراگاہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دَورِخلافت تک برقرار رہی اور بعد ازاں گھوڑوں اور اونٹوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے جگہ تبدیل ہو گئی۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺ کے صحابہ کرامؓ کےمابین مقابلہ جات کروانےکی بابت کیاروایات بیان فرمائیں؟ جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ صحابہؓ کو چاک و چوبند اور تازہ دم رکھنے کا بڑا اہتمام فرماتے تھے۔ آپؐ ان کے مابین وقتاً فوقتاً کھیل کے ایسے مقابلے کراتے رہتے جن میں شجاعت، جوانمردی، ایمانی اور جہادی تربیت کا پہلو غالب تھا۔ اس قسم کی کھیلوں سے ان کے عزم، حوصلے، ولولے اور بہادری میں بڑا اضافہ ہوتا تھا۔ گویا کہ کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر جب آپﷺ نقیع پہنچے تو اسی روز آپؐ نے صحابہؓ کے مابین گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ بھی کروایا۔ آپ کی اونٹنی قَصْوَاء سب اونٹوں سے آگے نکل گئی۔ اس پر حضرت بلال بن رَبَاح ؓسوار تھے اور آپؐ کا گھوڑا سب گھوڑوں سے آگے نکل گیا۔ آپ کے پاس دو گھوڑے تھے ایک کو لِزَازْ جبکہ دوسرے کو ظَرِب کہا جاتا تھا۔ اس روز ظَرب نے مقابلے میں شرکت کی اس پر حضرت ابواُسَید سَاعِدِی سوار تھے اور وہ بھی پہلے نمبر پہ آیا۔ اسی جگہ آنحضرتﷺ کا حضرت عائشہؓ کے ساتھ دَوڑ کے مقابلے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ کتاب اِمْتَاعُ الْاَسْمَاع میں ہے کہ اس غزوہ یعنی بنو مصطلق کے سفر میں آنحضرتﷺ نے حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنے کپڑے سمیٹے اور آپﷺ نے بھی قَبَا سمیٹی اور دوڑ لگائی تو آپ حضرت عائشہؓ سے آگے نکل گئے پھر ان سے فرمایا: یہ اُس دفعہ کا بدلہ ہے جب تم مجھ سے آگے نکل گئی تھی۔ اس جملہ میں آنحضرتﷺ نے ایک گذشتہ واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کے ہاتھ میں کوئی چیز دیکھی۔ آپؐ نے ان سے دیکھنے کو مانگی تو انہوں نے انکار کر دیا اور وہاں سے بھاگیں۔ آنحضرتﷺ بھی ان کے ساتھ ان کی طرف دوڑے مگر وہ ہاتھ نہ آئیں بلکہ آگے نکل گئیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو آپؐ کی گھریلو باتیں ہیں جو آپؐ گھر کو خوشگوار بنانے کے لیے، اپنے گھر کو خوشگوار بنانے کے لیے آپؐ کیا کرتے تھے۔ ہر کام میں آپﷺ نے ہمارے سامنے اپنا اسوہ قائم فرمایا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی اسوہ ہے جو اپنی بیویوں پر بڑی سختیاں کرتے ہیں۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت عائشہؓ کےغزوہ بنومصطلق پرجانےاورقافلہ سےپیچھے رہ جانےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ واقعہ افک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ پھر ان میں سے جس کا قرعہ نکلتا اس کو رسول اللہﷺ اپنے ساتھ لے جاتے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں آپﷺ نے ہمارے درمیان قرعہ ڈالا جس میں جانے کے لیے آپؐ نکلے تھے۔ تو کہتی ہیں اس میں میرا قرعہ نکلا اور مَیں رسول اللہﷺ کے ساتھ گئی بعد اس کے کہ پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ اس کے بعد کا ہے جب پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ کہتی ہیں کہ مجھے میرے ہودج میں سوار کیا جاتا اور اسی میں اتارا جاتا۔ ہم سفر کرتے رہے یہاں تک کہ جب رسول اللہﷺ اپنے اس غزوے سے فارغ ہوئے اور لَوٹے اور لَوٹتے ہوئے ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو آپؐ نے ایک رات کُوچ کرنے کا اعلان فرمایا۔ میں اٹھی جب انہوں نے کُوچ کا اعلان کیا تھا اور مَیں چلی یہاں تک کہ لشکر کو پار کیا اور حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے باہر چلی گئی۔ کہتی ہیں جب مَیں نے اپنی ضرورت پوری کر لی تو میں اپنی سواری کی طرف بڑھی اور اپنے سینے کو چھوا تو کیا دیکھا کہ میرا ہارجو ظَفَار کے نگینوں کا تھا۔ ظَفَار صَنْعَاء کے قریب یمن کا ایک پہاڑ یا شہر ہے۔ اس کے نگینے مشہور تھے۔ کہتی ہیں وہ کہیں ٹوٹ کر گر گیا۔ میں واپس لَوٹی اور اپنا ہار ڈھونڈنے لگی۔ اس کی تلاش نے مجھے روکے رکھا یعنی دیر ہو گئی۔ کہتی ہیں پھر وہ لوگ آئے جو مجھے ہودج پہ سوار کیا کرتے تھے۔ میرے ہودج کو اٹھا لیا اور اسے میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی اور وہ سمجھ رہے تھے کہ مَیں اس ہودج میں ہوں اور عورتیں ان دنوں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ وہ فربہ نہ تھیں۔ ان پر گوشت نہیں چڑھا ہوتا تھا۔ تھوڑا ہی تو کھانا کھاتی تھیں۔ اور لوگوں نے ہودج کے ہلکے پن کو عجیب محسوس نہ کیا۔ جب انہوں نے اسے اٹھایا اور اسے رکھا اور مَیں ایک نوجوان لڑکی تھی۔ انہوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دیے اور مَیں نے اپنے ہار کو پا لیا بعد اس کے کہ لشکر چلا گیا۔ وہ چلے گئے تو میں ہار ڈھونڈ رہی تھی۔ ہار ڈھونڈتے ہوئے میں نے اس کو تلاش کر لیا اور پھر کہتی ہیں مَیں اُن کے پڑاؤ کی جگہ پہ واپس آئی۔ وہاں اُن میں سے نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ جواب دینے والا تھا۔ سب جا چکے تھے، کوئی نظر نہیں آیا۔ مَیں اپنی اس جگہ پر چلی گئی جہاں مَیں تھی۔ جہاں میرا خیمہ تھا یا جگہ تھی وہاں چلی گئی۔ مَیں نے خیال کیا کہ وہ مجھے گم پائیں گے تو میرے پاس واپس لَوٹ آئیں گے۔اس دوران کہ میں اپنی جگہ بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور سو گئی۔ صَفْوَان بن مُعَطَّلْ سُلَمِی ذَکْوَانِی لشکر کے پیچھے تھے۔ ان کی ڈیوٹی تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے پیچھے رہیں تاکہ گری پڑی چیزوں کو اکٹھا کر کے لے آئیں۔ وہ میرے ٹھکانے کے قریب صبح کو پہنچے تو انہوں نے ایک سوئے ہوئےانسان کا وجود دیکھا۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا جب انہوں نے مجھے دیکھا اور پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔تو کہتی ہیں کہ جب انہوں نے مجھے پہچان لیا تو مَیں ان کے اِنَّا لِلّٰہ پڑھنے سے بیدار ہو گئی اور مَیں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا اور اللہ کی قسم! ہم نے ایک بات بھی نہ کی اور نہ ہی مَیں نے ان سے کوئی بات سنی سوائے ان کے اِنَّا لِلّٰہ پڑھنے کے۔ وہ اونٹنی سے نیچے اترے اور اپنی اونٹنی بٹھا دی اور اس کی اگلی ٹانگوں پر پاؤں رکھا۔ میں اٹھ کر اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہو گئی اور وہ مجھے لے کر اونٹنی کو ساتھ لے کر چل پڑے یہاں تک کہ ہم سخت گرمی میں عین دوپہر کے وقت لشکر تک پہنچ گئے اور لوگوں نے پڑاؤ کیا ہوا تھا۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت عائشہؓ پربہتان لگائےجانے کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت عائشہؓ نے بیان کیا۔ ہلاک ہو گیا جو ہلاک ہو گیا اور وہ جس نے بہتان کا بڑا حصہ لیا۔ وہ عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول تھا۔عروہ کہتے تھے کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے پاس باتیں پھیلائی جاتی تھیں اور اس کے آس پاس ان کا تذکرہ کیا جاتا تھا تو وہ اسے صحیح قرار دیتا اور کان لگا کر سنتا اور کرید کرید کر پوچھتا اور عروہ نے یہ بھی کہا کہ اسی طرح بہتان باندھنے والوں میں سے کسی کا نام نہیں لیا گیا سوائے حَسَّان بن ثابت اورمِسْطَح بن اُثَاثَہ اور حَمْنَہ بنتِ جَحْشْ کے بشمول کچھ اَور لوگ ہوں گے جن کا مجھے علم نہیں۔ یہ روایت کرنے والے نے کہا ہے مگر وہ ایک گروہ تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار وہ تھا جو عبداللہ بن ابی بن سلول کہلاتا ہے…حضرت عائشہ ؓفرماتی تھیں کہ ہم مدینہ میں پہنچے تو میں مہینے بھر بیمار رہی۔ سفر شروع ہو گیا۔ یہ لوگ وہاں پہنچ گئے۔ قافلہ چل پڑا۔ مدینہ پہنچ گئے اور کہتی ہیں وہاں جاکے میں بیمار ہو گئی۔ لوگ بہتان باندھنے والوں کی بات میں لگے رہے۔میں اس سے متعلق کچھ نہیں جانتی تھی۔ بیمار تھی، گھر میں تھی، مجھے کچھ نہیں پتہ تھا۔ مجھے اپنی بیماری میں جو بے چین کرنے والی بات تھی کہ میں رسول اللہﷺ سے وہ مہربانی نہیں دیکھ رہی تھی جو مَیں آپؐ سے دیکھا کرتی تھی۔ جب مَیں بیمار ہوتی رسول اللہﷺ میرے پاس آتے اور سلام کرتے۔ پھر فرماتے تمہارا کیا حال ہے؟ پھر چلے جاتے۔ بس اتنا ہی تھا۔ اس سے زیادہ حسنِ سلوک نہیں تھا۔ سو یہ بات مجھے بےچین کرتی تھی۔مجھے اس شر کا علم نہ تھا یہاں تک کہ میں نکلی۔ جب میں کچھ ٹھیک ہوئی اور میں ام مسطح کے ساتھ مَنَاصِع کی طرف گئی اور یہ ہمارے باہر جانے کی جگہ تھی …حضرت عائشہؓ نے یہ فرمایا کہ… مَیں اور ام مسطح اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں۔ جب ہم اپنے کام سے فارغ ہوئیں تو ام مسطح اپنی اوڑھنی میں الجھ کر لڑکھڑائیں اور بولیں مسطح کا برا ہو۔ مَیں نے ان سے کہا کیا ہی برا کہا ہے؟ کیا ایسے آدمی کو برا کہتی ہو جو بدر میں شریک ہوا تھا۔ کہنے لگیں اے بھولی بھالی !کیا تم نے سنا نہیں جو اس نے کہا ہے؟ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے کہا اس نے کیا کہا ہے؟ تو اس نے مجھے افک والوں کا قصہ بتایا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں یہ بات سن کے میری بیماری اَور بڑھ گئی… ابن ہشام نے یہ بیان کیا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ اپنے والدین کے گھر گئیں تو اُس وقت انہیں تہمت کا علم نہ تھااور ام مسطح والا واقعہ بھی والدین کے گھر جانے کے بعد پیش آیا تھا۔ بہرحال یہ دونوں روایتیں ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اجازت دے دی۔ ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ آپﷺ نے میرے ساتھ ایک خادم بھیجا۔ میں گھر میں داخل ہوئی اور مَیں نے اپنی والدہ اُمِّ رُوْمَان کو مکان کے نچلے حصہ میں اور حضرت ابوبکر ؓکو گھر کے بالا خانے میں پایا۔ وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ یہ بخاری کی روایت میں ہے۔ کہتی ہیں مَیں نے اپنی ماں سے کہا اے میری پیاری ماں! لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں! ماں نے ان کو کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! خاطر جمع رکھو۔ حوصلہ رکھو۔ اللہ کی قسم !کم ہی ہوتا ہے کہ کبھی کوئی حسین و جمیل عورت کسی شخص کے پاس ہو جس سے وہ محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں ہوں مگر وہ اس کے خلاف بہت کچھ کہتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا مَیں نے کہا سبحان اللہ۔ کیا لوگ بھی ایسی باتیں کرنی شروع ہو گئے ہیں؟ مزید پڑھیں: امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مسجد بیت الرحیم، کارڈف، ویلز کے افتتاح کے موقع پر بصیرت افروز خطاب کا خلاصہ