دل میں اک احساسِ ہستی کی جھلک باقی رہیپردۂ عرفاں کی اک نوری رَمَق باقی رہی چھوڑ دی دنیا تو کب سے، باندھ کے رختِ سفرپَر طلب کی موج دل میں، اب تلک باقی رہی جذب کی آہٹ نے چُھڑوا دیں پرانی خواہشیںدل کے اندر ہجر کی تھوڑی کسک باقی رہی بادِ پرہیزاں چلی، رستہ بھی بے انداز تھاپر سفر میں قربِ یاراں کی دھڑک باقی رہی حرص نے سب پیار کے جذبوں کو ٹھنڈا کر دیازندگی کی ایک چنگاری، دہک باقی رہی جب طلسمِ ذات میں گم ہو کے لوٹے شام کوروح کے صحرا میں اک ٹھنڈی سڑک باقی رہی سوزِ مے خانہ ملا جب آستاں کے باب سےہوش کی راہوں میں اک ہلکی کھنک باقی رہی لب پہ ذکرِ دوست آیا تو کھلا پھر بھید یہچشمِ تر میں اس کے جلووں کی سِسَک باقی رہی سر، نیازِ عاشقی میں خاک پر جھک کر گِراہر جھکاؤ میں بھی کیسی ہے دمک باقی رہی راہبر وہ مل گیا جس کی جبیں پر نور تھاہر قدم، ہر موڑ پر اُس کی چمک باقی رہی گل کی خوشبو تھی چمن میں، ہم وہاں گزرے جو کلہر نَفَس میں اپنے طارقؔ اک مہک باقی رہی (ڈاکٹر طارقؔ انور باجوہ۔ لندن) مزید پڑھیں: درد کی دولت