https://youtu.be/-zkU1tyxLtg از ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء) قرآن کریم کے فضائل اور اہمیت کو بیان فرماتے ہوئے اپنی تصنیف تحفۂ قیصریہ میں جو ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر آپؑ نے تصنیف فرمائی تھی جس میں ملکہ کو اسلام کا پیغام دیا تھا اور اسلام کی تبلیغ کی تھی اس میں تحریر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کے لئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔ دوبارہ قائم ہوگئی۔‘‘(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 282) اب کون تھا اُس زمانے میں جس نے اتنی جرأت سے قیصرۂ ہند کو اس طرح کا یہ پیغام بھیجا ہو، اسلام کی تبلیغ کی ہو۔ آج یہی لوگ جن میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اسلام اور قرآنِ کریم کی عظمت بیان کرتے، ہمیں یہ کہتے ہیں کہ نعوذباللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام یا جماعتِ احمدیہ قرآن کریم کی توہین کر رہی ہے اور جو غیر مسلم ہیں وہ ان کی حرکتیں دیکھ کر اسلام کی مخالفت میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی عظمت کا ردّ تو کرنہیں سکتے اس لیے دل کی تسکین کے لیے قرآنِ کریم کے نسخوں کو جلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں جس طرح سویڈن میں یہ واقعات ہو رہے ہیں۔ سکینڈےنیوین ملکوں میں ہوتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھی ہوا۔ اگر مسلمان زمانے کے امام کو مان لیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کریں تو غیر مسلموں کو کبھی اس طرح قرآن کریم کی توہین کی جرأت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے۔ پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ قرآنِ کریم ہی صرف اب ہدایت کا ذریعہ ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگرکوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کاربند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔‘‘ لوگ سوال کرتے ہیں کہ خدا کو اگلے جہان میں دیکھنا ہے تو کس طرح دیکھیں گے؟ آپؑ فرماتے ہیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو تو اسی جہان میں خدا کو دیکھ لو گے۔’’وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اس کی شناخت کے لئے بجز قرآنی تعلیم کے اَور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ اس کی تعلیم پر عمل کرو گے تو نشانات ایسے ظاہر ہوں گے کہ خدا کے وجود کا پتہ لگ جائے گا۔ فرمایا ’’اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے اور قرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہئے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لاشے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 25-26) پھرقرآن کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت کا بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآنِ کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے۔‘‘ مکمل طور پر علم سے نوازا گیا ہے اور عملی ہدایات دی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایاکہ ’’چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ(الفاتحہ:6)میں تکمیلِ علمی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ یعنی قرآن کریم ہی وہ مکمل کتاب ہے جس کی تعلیم صحیح راستے پہ راہنمائی کرتی ہے۔ ’’اور تکمیلِ عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ:7) میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اَتَم ہیں وہ حاصل ہو جائیں۔‘‘ عملی ترقی کے لیے ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا ہے جو انعام یافتہ ہیں۔ جن کا گذشتہ جمعہ میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ کون لوگ انعام یافتہ ہیں۔ نبی ہیں، صدیق ہیں، شہید ہیں، صالحین ہیں۔ اور پھر ان کی مثالیں بھی موجود ہیں اور اس زمانے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں جن کو انعامات سےاللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔ فرمایا: ’’جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں وہ ہدایت مردہ ہدایت ہے جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ جیسے اگر کسی کو وید کی ہدایت پر پورا عمل کرنے سے کبھی یہ امید نہیں ہو سکتی کہ وہ ہمیشہ کی مکتی یا نجات حاصل کر لے گا اور کیڑے مکوڑے بننے کی حالت سے نکل کر دائمی سرور پا لے گا تو اس ہدایت سے کیا حاصل۔ مگر قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کئے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیب کی مثال جوقرآن شریف میں دی گئی ہے بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ ان میں پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ188-189۔ ایڈیشن 1984ء) پھر فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں اور تقریباً سب کے سب لوگ بداعمالیوں اور بد عقیدگیوں میں گرفتار تھے۔ اسی کی طرف اللہ جلّ شانہٗ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے۔ ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) یعنی تمام لوگ کیا اہلِ کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب بدعقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فسادِ عظیم برپا تھا۔ غرض ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائدِ باطلہ کی تردید کے لئے قرآنِ مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کل مذاہبِ باطلہ کا ردّ موجود ہے… اور خا ص کر سورۂ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے جیسے فرمایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (الفاتحہ:2)یعنی ساری خوبیاں اُس خدا کے لئے سزاوار ہیں جو سارے جہانوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ اَلرَّحْمٰن وہ بغیر اعمال کے پیدا کرنے والا ہے اور بغیر کسی عمل کے عنایت کرنے والا ہے۔‘‘اس کی رحمانیت کام کرتی ہے۔ ’’اَلرَّحِیْم اعمال کا پھل دینے والا۔‘‘ جو کام کرو اس کا پھل دیتا ہے، جودعائیںکرو ان کو قبول کرتا ہے۔ ’’مَا لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ (الفاتحہ:4)جزا سزا کے دن کا مالک۔‘‘ اور جزا سزا اس دنیا میں بھی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ فرمایا کہ ’’ان چار صفتوں میں کُل دنیا کے فرقوں کا بیان کیا گیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد10صفحہ31-32 ایڈیشن 1984ء) مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ چند واقعات