https://youtu.be/lUYlqr8URUs پیدائش وتعلیم: مکرم عبد القادر خان صاحب ۱۹۳۷ء میں بمقام مانیکاگوڑا (Manika Goda)،اڈیشہ،انڈیا میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے سکول کے زمانے کےایک ہونہار طالب علم تھے۔ لیکن ان ایام میں والدہ محترمہ کے انتقال کی وجہ سے میٹرک کے امتحانات میں فرسٹ ڈویژن حاصل نہ کرسکے۔ سکول کی پڑھائی ختم کرنے کے بعد بہت کم عمر میں ہی گورنمنٹ میں Steno کے طور پر ملازم مقرر ہوئے۔ بعدہٗ موصوف ضلعی ہیڈکوارٹر پوری،اڈیشہ میں منتقل ہوئے اور اس دوران وہ مولوی سید عبیدالسلام صاحب سے رابطے میں آئے۔ اس کے بعد حکومت اڈیشہ کی طرف سے ان دونوں کو ریاست اڈیشہ کے سٹیٹ ہیڈ کوارٹر بھوبنیشور شہر منتقل کر دیا گیا۔ بمقام بھوبنیشور جناب قادر صاحب کا بطور مترجم حکومت میں بھی تبادلہ ہوا۔ انہوں نے اوڈیہ زبان کی کچھ نامور ادبی شخصیات سے تعلق رہا۔ اور اس طرح انتظامی لغت ریاستی انتظامیہ میں ان کی شراکت ہے۔پڑھائی کی اتنی چاہت تھی کہ مرحوم نے ۷۴؍سال کی عمر میں ماسٹرز کیا اور پولیٹیکل سائنس میں ایم اے بہت کامیابی سے پاس کیا۔ انہوں نے اوڈیہ زبان میں کئی کتابیں لکھیں جو جماعتی انتظام کے تحت شائع بھی ہوئیں۔ بیعت: مرحوم ۱۹۵۵ء میں مانیکا گوڑا، اڈیشہ،انڈیا میں جناب شیر علی صاحب کی تبلیغ کے نتیجے میں احمدی ہوئے جس کی وجہ سے انہیں اپنے غیر از جماعت رشتہ داروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان الفاظ کے ساتھ کہ ’’اللہ نے اسے احمدی بنایا ہے اب تا مرگ اسی میں ہی رہے گا چاہے کتنی مخالفت کا سامنا ہو۔‘‘ جماعت احمدیہ کے ساتھ جڑے رہے۔ جماعتی خدمات: ۱۹۶۵ء میں اپنی ملازمت کے دوران وہ بھوبنیشور،اڈیشہ،انڈیا کی جماعت سے جڑے اور الحمدللہ بھوبنیشور کے قائد مجلس خدام الاحمدیہ بھی منتخب ہوئے۔ مرحوم کے دور میں صوبائی اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ اڈیشہ کا آغاز ہوا اور اجتماع کے مقابلہ جات کے لیے قواعد وضوابط بنائے جن پر اب بھی عمل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح۴۸؍ سال کی عمر میں۱۹۸۵-۸۸ء صدر جماعت احمدیہ بھوبنیشور اور ۲۰۰۱ تا ۲۰۰۷ء جماعت احمدیہ بھوبنیشور کے پہلے امیرمقرر ہوئےآپ کو دو مرتبہ بطور امیر جماعت احمدیہ بھوبنیشور خدمت کی توفیق ملی۔ اپنی امارت کے دور میں ہر شعبہ کو فعال کرنے کے لیے کوشاں رہتے۔انہوں نے لجنہ اماء اللہ بھوبنیشور،اڈیشہ کو صوبہ میں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب وراہنمائی کی۔وہ بات چیت میں بالکل صاف تھے۔ جب وہ امیر جماعت تھے تو اپنی سائیکل پر مہینے میں ایک بار حال احوال معلوم کرنے کے لیے ہر احمدی کے گھر جاتے۔ تعمیر مسجد بھوبنیشور،اڈیشہ میں موصوف کا بڑا تعاون رہا۔ وہ سخت گرمی میں قطار میں کھڑے ہونے کے لیے سائیکل پر جا یا کرتے تھے تاکہ سرکاری سیمنٹ تین روپے سستہ مل سکے۔ تین روپے فی سیمنٹ کی تھیلی بچانے کے لیے وہ کبھی کبھی پورا دن اِس مقصد کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ خدمت قرآن: اللہ تعالیٰ مرحوم کو پہلے سے ہی ایک اعلیٰ خدمت کے لیے تیار کر رہا تھا۔ اوڈیہ ادب میں مہارت حاصل کرنے کے بعد موصوف نے اردو سے اوڈیہ ترجمہ کرنے میں دلچسپی لی۔ اس دوران انہوں نے بزبان اوڈیہ قرآن پاک کے ترجمہ کے چند صفحات حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں ارسال کیے۔ اُس وقت جماعت احمدیہ صد سالہ جشن تشکر کی تیاری میں مصروف تھی جیسا کہ علم ہے کہ اس وقت خلیفہ وقت کے خطاب اور خطبات audioشکل میں جماعتوں میں پہنچتے تھے اور احباب جماعت اس سے فائدہ حاصل کرتے تھے۔حضورؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصی ربوہ،پاکستان میں صد سالہ جشن تشکر کی تیاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اتنے وسیع کام پڑے ہوئے ہیں جو ہم نے کرنے ہیں… ان میں سب سے بڑا اور سب سے اہم کام قرآن مجید کے تراجم کی مختلف زبانوں میں اشاعت ہے۔‘‘ اپنے محبوب کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے مرحوم کے اندر ایک دلچسپی پیدا ہوئی اور اس کے لیے انہوں نے بہت دعا کی۔وہ خوش نصیب تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےانہیں قرآن مجید بزبان اوڈیہ ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سے نوازا۔ موصوف نے مرحوم ڈاکٹر انوار الحق صاحب کے ساتھ مل کر کئی کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد ۵؍سال کے عرصے میں بزبان اوڈیہ قرآن مجید کا ترجمہ کیا اور اس طرح بزبان اوڈیہ ترجمہ کے ساتھ قرآن مجید منظر عام پر آگیا۔الحمدللہ اس وقت بھوبنیشور،اڈیشہ میں کوئی اچھا پرنٹنگ پریس نہیں تھا اس لیے حضرت خلیفۃ المسیحؒ نے لندن میں قرآن مجید چھاپنے کا فیصلہ فرمایا۔جب یہ مسودہ بعد پرنٹ اڈیشہ پہنچا تو اس وقت بہت سے غیر احمدی حیران تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس سے پہلے صرف قرآن پاک کی جھلک ہمیں ملتی تھی۔ مقامی Book Fairمیں یہ سب سے زیادہ توجہ کا مرکز تھا اور یہ خبر اوڈیہ کے مختلف اخبارات میں سرخیوں میں رہی۔ اوڈیہ زبان کے ماہرین لسانیات نے قرآن مجید کے اوڈیہ ترجمہ کے معیار کو سراہا۔ یہ ایک بہت قیمتی تحفہ اور سربراہان مملکت اور بہت سے اعلیٰ منتظمین تک پہنچنے کا ذریعہ بن گیا۔الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ اطاعت خلافت کا نمونہ: مرحوم کے بیٹوں نے بتایا کہ ۱۹۹۸ء کی بات ہے والد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت اقدس میں ایک کتا ب ’’قرآن بانی‘‘ Qur’an Vaniکے نام سے ایک مسودہ مکمل تیاری و تشہیر کی غرض سےارسال کیا۔لیکن حضورؒ نے بعد جائزہ اس کی اجازت نہ دی اور حکم ہوا کہ اس کو ضائع کر دیں۔ابا نے وہ تمام مسودہ جو تقریباً ایک ہزار کے تعداد میں پرنٹ کروائے تھے تمام کا تمام ضائع کروادیاجس پرانہوں نے کافی رقم بھی خرچ کی تھی۔ جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۰۵ء میں شرکت: موصوف کو اللہ تعالیٰ نے ۲۰۰۵ء میں یہ توفیق دی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات نصیب ہوئی۔ مرحوم ریل گاڑی میں سفر نہیں کر پاتے تھے اس لیے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے لیے باقاعدہ ایک کار لے کر تین ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا۔واپس آنے کے بعد Qadiyan Bhramana(زیارت قادیان)کے نام سے ایک کتاب بزبان اوڈیہ تصنیف کی۔ دیگر مذاہب میں مرحوم کا اثر ورسوخ: اپنے علاقے میں شری بہار آشوسیشن کا آغاز کیا اور ۱۰؍سال اس کے صدر بھی رہے۔ان کی قیادت میں آشوسیشن کی طرف سے ماہانہ ایک اوڈیہ رسالہ ’’شری دھارا‘‘(Shree Dhara)کے نام سےجاری ہے۔ مرحوم کے پسماندگان: مرحوم عبد القادر خان صاحب کے پانچ بیٹے ہیں نیز ایک بیٹی بعمر ۴۰؍سال انتقال کر گئی تھی۔ مرحوم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سب اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ ایک ڈاکٹر ہے، دوسرا NGO کی قیادت کر رہا ہے اورFinance Company کا مشیر ہے، تیسرا استاد ہے، چوتھا ایک NGO میں ملازم ہے اور پانچواں software trainedہے اورSpare Parts کا کاروبار کر رہا ہے۔ بیٹی نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی وہ Bachelor of Law کی پوسٹ گریجوایٹ تھی۔ مرحوم کا ایک بیٹا مکرم محمد نور الدین امین مقامی امیر جماعت احمدیہ بھوبنیشور،اڈیشہ نیز نائب صدر مجلس انصاراللہ بھارت برائے جنوبی ہند اسی طرح Iqra Public School میں Vice Chairmanکے طور پر خدمت کرنے کی توفیق پا رے ہیں۔ اسی طرح مکرم محمد ہمایوں اکیل صاحب کو نائب سیکرٹری مال بھوبنیشور نیز مکرم مبارک احمد صاحب کو سیکرٹری امورخارجہ و سیکرٹری پریس اینڈ میڈیا بھوبنیشور کے طور پر خدمت کا موقع مل رہا ہے۔اسی طرح مرحوم کا پوتا مکرم پرویز احمد سراج سیکرٹری وقف جدید کے طور پر خدمت کی توفیق پارہا ہے۔نیز مرحوم کی بہو مکرمہ تہمینہ ممتاز صاحبہ کوسیکرٹری تبلیغ لجنہ کے طور پر خدمت کا موقعہ مل رہا ہے۔الحمدللہ مرحوم صوم وصلوٰۃ کے پابندبہت سے بچے،بچیوں کو قرآن سکھانے والے بزرگ تھے۔آپ کی وفات ۲۵؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ہوئی۔آپ کی تدفین احمدیہ قبرستان بھوبنیشور اڈیشہ میں ہوئی۔ مرحوم نے اپنے پسماندگان میں اہلیہ،۵ بیٹے اور دو بھائی چھوڑے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آمین مزید پڑھیں: نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی برکات