https://youtu.be/OpJCbP1XbUE?si=Nw4H8zIbDwDWzx14&t=2047 شام کا وقت ہے آنگن میں ہلکی سی روشنی ہے۔ چائے کی خوشبو ہوا میں گھل رہی ہے۔ دادی جان اپنی کرسی پر بیٹھی ہیں، گود میں کتاب رکھی ہے۔ احمد، محمود اور گڑیا دادی جان کے اردگرد بیٹھے ہیں۔ دادی جان :آج تم سب نے قرآن کلاس میں بڑا شور مچایا ہے ناں؟ استانی جی کہہ رہی تھیں کہ کوئی صف سیدھی نہیں رکھتا، کوئی رحل آگے دھکیلتا ہے۔ احمد (شرمندگی سے):میں نے بس تھوڑا سا آگے کیا تھا، دادی جان … تاکہ روشنی پڑے۔ دادی جان (کتاب کے ورق پلٹتے ہوئے):یہی تو بات ہے بیٹا کبھی کبھی ذرا سی بات سے بھی بے ادبی ہوجاتی ہے، اور ہمیں پتا نہیں چلتا۔ ابھی میں حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کا مطالعہ کررہی تھی تو میری نظر سے ایک واقعہ گزرا ہے ۔ احمد : کون سا واقعہ دادی جان ؟ دادی جان : ایک مرتبہ مرزا مبارک احمد (مرحوم) اپنی والدہ حضرت اُمّ المومنینؓ کے پاس بیٹھے تھے۔ حضرت اماں جانؓ تلاوت کر رہی تھیں، رحل پر قرآنِ کریم رکھا تھا۔ مرزا مبارک احمد (مرحوم )نے کوئی چیز مانگی۔ حضرت اماں جانؓ نے کہا:بیٹا، تلاوت کے بعد دے دوں گی۔ بس یہ سُن کر بچے کی ضد جاگی۔ انہوں نے رحل کو ہلایا اور بولا:یہ چھوڑ دو،پہلے چیز دو! گڑیا (چونک کر):اوہ… تو حضرت مسیح موعودؑ نے دیکھ لیا؟ دادی جان:جی بیٹی۔ وہ اُس وقت ٹہلتے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے جب دیکھا تو اُن کا چہرہ سرخ ہو گیا۔آپؑ جلدی سے اندر گئےاور باوجود اِس کے کہ آپؑ بچوں کو تعلیمی معاملات میں سزا دینے کے بہت خلاف تھے یہ برداشت نہ کر سکے اور مبارک احمد کو سخت سرزنش کی۔ احمد: مگر وہ تو ان سے بہت پیار کرتے تھے ناں دادی جان ؟ دادی جان (آہستگی سے): بالکل پیار تو بہت کرتے تھے مگر یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کسی سے کوئی حرکت دانستہ یا نادانستہ ایسی سرزد ہو جو بے حرمتی کا موجب ہو۔اسی لیے حضورؑ نے فرمایا: قرآن مجید کی بے ادبی ہوئی ہے۔ احمد (دھیرے سے):دادی جان ، اگر کبھی ہم سے بھی قرآن کریم کی کوئی بے ادبی ہو جائے تو…؟ دادی جان: (مسکرا کر)تو فوراً استغفارپڑھو۔ محمود:میں کل استانی جی کو کہوں گا کہ ہم رحل سیدھی رکھیں گے اور ہاتھ صاف کر کے قرآن پاک پڑھیں گے۔ دادی جان : شاباش بیٹا! بالکل قرآن کریم کا احترام انتہائی ضروری ہے ۔ احمد : دادی جان آپ کو کوئی اور واقعہ بھی یاد ہے ان کا ؟ دادی جان : بالکل میں نے آپ کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی کہانی میں سنایا تھا ناں نظم والا واقعہ ؟ گڑیا : جی جی بالکل دادی جان، مجھے بھی یاد ہے وہ ۔ محمود : ( منہ پھُلا کر )مگر میں تو بھول گیا ہوں پلیز مجھے بھی بتا دیں ۔ دادی جان : چلو گڑیا ! آپ سناؤ اس طرح آپ کا امتحان بھی ہوجائے گا کہ آپ کو وہ واقعہ کتنا یاد ہے ؟ گڑیا : آپ نے بتایا تھا کہ ایک مرتبہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کو عرض کیا کہ اُن کے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد اُن سے ناراض ہوگئے ہیں اور کسی طرح راضی نہیں ہورہے۔ حضورؑ جو اس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے انہیں منانے کے لئے نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی فرمائش پر چند اشعار لکھ کر دیے جو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے صاحبزادہ صاحب کے سامنے پڑھ دیے تو وہ خوش ہوگئے۔ دادی جان : کیا آپ کو وہ اشعار بھی یاد ہیں ؟ گڑیا : جی جی دادی جان! اتنی دلچسپ نظم تھی میں نے فوراً یاد کرلی ۔میں سناؤں آپ کو ؟ دادی جان : مسکراتے ہوئے : ضرور سنائیں ۔ گڑیا لہک لہک کر : مبارک کو میں نے ستایا نہیں کبھی میرے دل میں یہ آیا نہیں میں بھائی کو کیوں کر ستا سکتی ہوں وہ کیا میری امّاں کا جایا نہیں الٰہی خطا کر دے میری معاف کہ تجھ بِن تو ربّ البرایا نہیں دادی جان : شاباش بیٹا ! بہت اچھی یاد کی ہے ۔دل خوش ہوگیا ۔ احمد :مجھے بھی ایک واقعہ یاد آگیا ہے میں بھی سناؤں؟ دادی جان : واہ !یہ تو اور بھی عمدہ بات ہوگئی ہے ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میرے بچے باتوں کو نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ اچھی باتیں یاد بھی رکھتے ہیں ۔بتائیں پھر احمد بیٹا آپ کو کون سا واقعہ یاد ہے ؟ احمد : ایک مرتبہ حضرت نواب مبارکہ بیگم اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد (مرحوم )قینچی سے کھیل رہے تھے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم نے قینچی کی نوک مرزا مبارک احمد کی طرف کر رکھی تھی۔ تو حضرت مسیح موعودؑ نے دیکھ لیا اور فرمایا: کبھی کوئی تیز چیز قینچی، چھری یا چاقو اُس کے تیز رُخ سے کسی کو نہ پکڑاؤ، اچانک کسی کو لگ سکتی ہے۔ اور آپ ؑ اس بات سے بھی ہمیشہ روکتے تھے کہ کبھی کوئی ڈھیلا پتھر وغیرہ کسی کی جانب نہ پھینکو، کسی کے لگ جائے یا آنکھ پھوٹ جائے یا سر پھٹ جائے۔ اِس کا ہمیشہ خیال رہتا تھا اور ہمیشہ بچوں کو اِس پر روکتے تھے۔ اور ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور مبارک احمد مرحوم آپؑ کے پاس ہی پلنگ پر بیٹھے کھیل کھیل میں ایک دوسرے کو ٹانگیں مار رہے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے دیکھا تو فرمایا: تم دونوں کھیلو مگر خیال رکھو کہ کسی کو چوٹ نہ آئے۔ دادی جان: جی بالکل ایسا ہی تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، حضرت مسیح موعود ؑ کے بے حد لاڈلے تھے۔ آپ بڑے ذہین اور نیک سیرت تھے ۔کچھ ایسے نیک طبع تھے کہ لوگ انہیں ’’ولی ،ولی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ طبیعت کے حلیم تھے۔ زیادہ عرصہ بیمار رہے۔ بیماری کے ایام میں کڑوی دوائی بھی بخوشی پی لیا کرتے تھے۔ قرآن مجید ختم کر لیا تھا اور اردو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ ابھی آپ کی عمر 8 سال ہوئی کہ آپ شدید بیمار پڑ گئے۔حضرت مسیح موعودؑ دن رات آپ کی تیمارداری میں مصروف نظر آتے اور بڑے درد و الحاح سے آپ کے لئے دعائیں کرتے۔ بیماری مسلسل بڑھ رہی تھی اور کامل شفا ہونے میں نہ آتی تھی۔ بیماری کا علاج بھی پوری توجہ سے جاری تھا۔ دعاؤں کی بھی کوئی کمی نہ تھی لیکن خدا کی تقدیر مبرم اٹل تھی ۔ وہی ہوا جس کا حضرت مسیح موعودؑ ، آپ کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں بھی اکثر ذکر فرماتے تھے کہ لڑکا یا تو بہت خدا رسیدہ ہوگا یا بچپن میں فوت ہو جائے گا۔ آخر 16؍ستمبر1907ء کو حضرت مسیح موعودؑ کا لخت جگر اور عزیز بیٹا حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد خدا کو پیارا ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال اور چند ماہ تھی۔ احمد: حضرت مسیح موعودؑ کو بہت بڑا صدمہ ہوا ہوگا۔ دادی جان: بچے کی وفات ایک بڑا صدمہ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے اس عزیز اور پیارے بیٹے کی اس کمسنی کی وفات پر بہت غمزدہ ہوئے ، تاریخ صرف اتنا بتاتی ہے کہ آپ نے انا للہ واناالیہ راجعون پڑھا۔ بیرونی احباب کو اس مضمون کے خط لکھنے بیٹھ گئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیاہے اور ہم کو اللہ کی قضا پرراضی رہنا چاہیے۔ اور مجھے بعض الہاموں میں بتایا گیا تھا کہ یا یہ لڑکا بہت خدارسیدہ ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہو جائے گا۔ سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہونا چاہیے کہ خدا کا کلام پورا ہوا۔ چلیں اب اندر چلتے ہیں ۔ اذان ہونے والی ہے نماز کی تیاری کرتے ہیں ۔اور پھر سب اندر چلے جاتے ہیں ۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)