’’یہ وعدے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے دے گا میں اس کو چند گنا برکت دوں گا۔ دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے۔ غرض اس وقت میں اس امر کی طرف تم سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کے لیے اپنے مالوں کو خرچ کرو ‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو تحریک کی کہ ایک فنڈ مہیا کریں تا کہ ہم احمدیت اور اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں اور جماعت کے نظام کو مضبوط تر کریں تا کہ مخالفین کی ریشہ دوانیوں اور شور شرابے کا ہم تدارک کر سکیں اور جماعت کے خلاف جو پراپیگنڈا ہو رہا ہے اس کو غلط ثابت کریں اور صرف یہی نہیں کہ غلط ثابت کریں بلکہ تبلیغ کا حق بھی ادا کریں احرار کا دعویٰ تھا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ احمدیت کو صفحہ ٔہستی سے مٹا دیں گے اور آج تک یہ نعرے ہمارے مخالفین لگاتے ہیں…ان نعروں کا جواب ہر سال جماعت کی ترقیات سے دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے دیا جاتا ہے۔جماعت میں بیعت کر کے شامل ہونے والے لوگ وہ اس کا جواب ہیں۔اور آج دو سو بیس (220)ممالک میں پھیلی ہوئی جماعت کی ترقی اس کا جواب ہے کہ دیکھو !تم یہ نعرہ لگاتے تھے کہ صفحہ ٔہستی سے مٹا دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے یہ افضال ہیں کہ جماعت ترقی پر ترقی کرتی چلی جا رہی ہے آج بھی ہر احمدی جو حقیقی طور پر دل سے قربانی کرنے والا ہے یہ محسوس کرتا ہے اور جو قربانی کرنے والے ہیں وہ اپنے واقعات بھی مجھے لکھتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو قربانی کرنے کی توفیق دی اور کس طرح ان کے ایمانوں کو مضبوط کیا اپنے معیار عبادتوں کے بھی بڑھائیں اور اونچے کریں۔ مالی قربانی کر کے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم عبادتوں سے فارغ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز، روزہ بھی مالی قربانیوں کے ساتھ ضروری ہے دیکھیں! جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ،عمرؓ، عثمانؓ اور مالی قربانیاں کرنے والے دیے تھے اسی طرح اس زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی اپنے آقا کی پیروی کرنے کی وجہ سے ایسے غلام عطا فرمائے جو ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار تھے اور انہوں نے ابوبکر صدیق ؓ کا نمونہ بن کے دکھایا ایسے واقعات دیکھ کر نہ صرف نواحمدیوں کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں بلکہ ہمارے جو پرانے احمدی ہیں ان کے بھی ایمان مضبوط ہوتے ہیں اور ہمیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے تحریکِ جدید کے اکانوےویں(۹۱)سال کے دوران افرادِ جماعت کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں کا تذکرہاور بانوےویں(۹۲)سال کے آغاز کا اعلان گذشتہ سال کے دوران جماعت ہائے احمدیہ عالَم گیر کو تحریکِ جدید میں 19.55؍ملین پاؤنڈ کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی یہ وصولی گذشتہ سال سے پندرہ(15) لاکھ چونسٹھ (64)ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مخلص احمدیوں کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں سے متعلق ایمان افروز واقعات کا بیان خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍ نومبر2025ء بمطابق 7؍نبوت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔ (البقرۃ:262) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے اس فعل کی حالت اس دانہ کی حالت کے مشابہ ہے جو سات بالیں اگائے اور ہر بالی میں سو دانہ ہو۔ اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہےاسےاس سے بھی بڑھا بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ یکم نومبر سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا تحریک جدید کا نیا مالی سال شروع ہوتا ہے۔ اس حوالے سے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان بھی کیا جاتا ہے اور گذشتہ سال جو گزرا ہے اس کی مالی قربانیوں کا بھی ذکرہوتا ہے جو جماعتوں کی طرف سے ہوئی ہیں۔ اسی طرح مالی قربانی کی اہمیت کے بارے میں بھی کچھ بیان ہوتا ہے۔ یہ بیان کرنے سے پہلے قربانیوں کی اہمیت اور تحریک جدید کا مختصر پس منظر بیان کر دیتا ہوں۔ تحریک جدید کا آغاز 1934ء میں ہوا تھا۔بعض نئے آنے والے ہیں، بعض نوجوان ہیں۔ بچوں کو علم نہیں ہو گا اس لیے بتا دیتا ہوں کہ تحریک جدید کا جیسا کہ میں نے کہا آغاز 1934ء میں ہوا تھا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا۔ اس کی وجہ یہ بنی تھی کہ اس وقت جماعت کے خلاف احرار نے ایک فتنہ اٹھایا تھا اور بڑا شور مچایا تھا۔ مخالفت کا ایک طوفان تھا اور یہ نعرہ تھا کہ ہم احمدیت کو صفحہ ٔہستی سے مٹا دیں گے۔ قادیان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اسی طرح بہشتی مقبرہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا مزار ہے اس کی بے حرمتی کا بھی پروگرام تھا۔ یہ تو ان لوگوں کے لیے عام بات ہے۔ اس وقت بھی جس طرح تحفظ دینا چاہیے تھا حکومت جماعت کو تحفظ نہیں دے رہی تھی بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ مخالفین کی حمایت کر رہی تھی۔ ایسے وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو تحریک کی کہ ایک فنڈ مہیا کریں تاکہ ہم احمدیت اور اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں اور جماعت کے نظام کو مضبوط تر کریں تا کہ مخالفین کی ریشہ دوانیوں اور شور شرابے کا ہم تدارک کر سکیں اور جماعت کے خلاف جو پراپیگنڈا ہو رہا ہے اس کو غلط ثابت کریں اور صرف یہی نہیں کہ غلط ثابت کریں بلکہ تبلیغ کا حق بھی ادا کریں کیونکہ اب تک جو تبلیغ کا حق ہمیں ادا کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے اس سنجیدگی سے ادا نہیں کیا تھا جو ہونی چاہیے تھی۔ پس اس سوچ کے ساتھ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ملک میں بھی اور دنیا میں بھی ہم نے اسلام اور احمدیت کے پیغام کو پھیلانا ہے تا کہ دشمن ہمارے منصوبوں کو کہیں بھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ ایک جگہ اگر مخالفت ہے تو دوسری جگہ ترقی نظر آتی ہو اور جماعت کا نظام پھیلتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا ہوا ہے اور ہمارے مشنریز مبلغین وہاں کام کر رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ہم نے مسجدیں بنائی ہیں۔ ہمارے سکول کام کر رہے ہیں۔ ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ مبلغین اور مربیان سلسلہ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اشاعت لٹریچر ہو رہی ہے۔ ایم ٹی اے سٹوڈیوکئی ملکوں میں قائم ہیں علاوہ مرکزی سٹوڈیو کے جودنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ ریڈیو سٹیشنز قائم ہیں۔ گو یہ سارے جو کام ہیں ان کا بہت سا خرچ باقی چندوں سے بھی پورا کیا جاتا ہے لیکن تحریک جدید اس میں بڑا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ تحریک جدید کے تحت ہی دنیا میں مبلغین تیار کیے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے تقریباً چھ سات ممالک میں جامعات قائم ہیں جہاں مبلغین اور مربیان تیار ہوتے ہیں اور پھر دنیا میں پھیل کر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کا کام کر رہے ہیں اور یہ جو احرار کا دعویٰ تھا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، احمدیت کو صفحہ ٔہستی سے مٹا دیں گے اور آج تک یہ نعرے ہمارے مخالفین لگاتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں ربوہ میں ایک کانفرنس ہوئی تھی، ان کا جلسہ ہوا تھا اس میں بھی انہوں نے یہی نعرہ لگایا تو ان نعروں کا جواب ہر سال جماعت کی ترقیات سے دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے دیا جاتا ہے۔ جماعت میں بیعت کر کے شامل ہونے والے لوگ وہ اس کا جواب ہیں۔اور آج دو سو بیس (220)ممالک میں پھیلی ہوئی جماعت کی ترقی اس کا جواب ہے کہ دیکھو !تم یہ نعرہ لگاتے تھے کہ صفحہ ٔہستی سے مٹا دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے یہ افضال ہیں کہ جماعت ترقی پر ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فعل اور یہ تائید اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا دعویٰ سچا تھا اور سچا ہے اور احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی انسان کا قائم کردہ پودا نہیں،کسی تنظیم کا قائم کردہ پودا نہیں ،کسی حکومت کا قائم کردہ پودا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ پودا ہے جو ایک تناور درخت بن چکا ہے، جس کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو مزید پھیلاتا اور پھل لگاتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے جیسا کہ ترجمہ میںبیان ہوا تھا جس کی دس بالیاں ہوں اور ہر بالی میں سو (100) دانہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تمہیں جو تم میری راہ میں خرچ کرتے ہو بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا بلکہ یہ طاقت رکھتا ہوں کہ تمہاری اس قربانی کو سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ کر دوں۔ پس یہ ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں میں یہ تحریک پیدا فرمائی کہ اپنے دل کھولتے چلے جاؤ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاؤ۔ اللہ کے دین کی اشاعت کے لیے خرچ کرو جو کام اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کے سپرد تھا اور پھر آج آپؑ کی جماعت کے سپرد ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارے اموال میں برکت ڈالے گا اور ہم ہر سال دیکھتے ہیں اور مَیں بیان بھی کرتا رہتا ہوں۔ اس سال بھی بہت ساری مثالیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کے دل کھولتا ہے اور بہت ساری جگہوں پر کسی بھی قسم کی تنگی کی فکر سے بالکل بے نیاز ہوکر لوگ قربانی کرتے چلے جا رہے ہیں۔اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو دیتا بھی ہے یا ان کے دل کو سکون عطا فرماتا ہے اوروہ اس قربانی پر خوش ہوتے ہیں۔اگر فوری ان کو نتیجہ نہیں بھی ملتا تو پھر کچھ عرصہ بعد ان کی وہ خواہشات بھی پوری ہو جاتی ہیں جن کو قربان کر کے انہوں نے مالی قربانیاں کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس جہان میں بھی اجر ہو گا ،اگلے جہان میں بھی اجر ہو گا۔ بہت سے ایسے ہیں جو اس جہان میں بھی اجر پاتے ہیں اور اگلے جہان کا اجر تو بے حساب ہے۔ پرانے بزرگوں نے بھی اس آیت کی یہی تشریح فرمائی ہے۔ مثلاً امام رازیؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو بڑھا چڑھا کر واپس کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ کرنے اور مارنے کی اپنی قدرت پر دلائل دیے ہیں۔ اگر یہ قدرت خداوندی نہ ہوتی تو خرچ کرنے کا حکم مستحکم نہ ہوتا کیونکہ اگر جزا سزا دینے والا کوئی وجود نہ ہوتا تو خرچ کرنا فضول ٹھہرتا۔ اگر جزا سزا نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ یہ نہ کہتا کہ میرے رستے میں خرچ کرو میں تمہیں دوں گا۔اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی راہ میں قربانی کرنے والوں کو جزا دیتا ہے اور گناہ کرنے والوں کو اس کے مقابلے میں سزا بھی ملتی ہے۔اس ضمن میں آپ نے یہی لکھا ہے کہ دوسرے لفظوں میں گویا اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والوں کویہ کہتا ہے کہ تُو جانتا ہے کہ میں نے تجھے پیدا کیا ہے اور تجھ پر اپنی نعمت کو پورا کیا ہے اور تُو میرے اجر اور ثواب دینے کی طاقت سے واقف ہے۔ پس چاہیے کہ تیرا یہ علم تجھے مال خرچ کرنے کی ترغیب دے کیونکہ وہی یعنی خدا تعالیٰ تھوڑے کا بہت زیادہ بدلہ دیتا ہے اور یہی بہت زیادہ کی مثال بیان کی ہے کہ جو ایک دانہ بوتا ہے میں اس کے لیے سات بالیاں نکالتا ہوں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں۔ پھر اس کو بیان کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ۔کہ وہ خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ سبیل اللہ سے مراد دین ہے۔ (التفسیر الکبیرللامام فخرالدین الرازی جلد4 صفحہ39 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت) خدا کے دین میں خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم تو جماعت احمدیہ میں ہر وقت یہ نظارے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے وعدے کو اور اپنے اس ارشاد کو پورا فرماتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے کہ ’’اگر تم دینی کاموں کے لئے اپنے اموال خرچ کرو گے تو جس طرح ایک دانہ سے اللہ تعالیٰ سات سو دانے پیدا کردیتا ہے اسی طرح وہ تمہارے اموال کو بھی بڑھائے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ ترقی عطا فرمائے گا جس کی طرف وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ میں اشارہ ہے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے بیشک بڑی قربانیاں کی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے رسولؐ کا پہلا خلیفہ بنا کر انہیں جس عظیم الشان انعام سے نوازا اس کے مقابلہ میں ان کی قربانیاں بھلا کیا حیثیت رکھتی تھیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے بہت کچھ دیا مگر انہوں نے کتنا بڑ انعام پایا۔ حضرت عثمانؓ نے بھی جو کچھ خرچ کیا اس سے لاکھوں گنا زیادہ انہوں نے اسی دنیا میں پا لیا۔ اسی طرح ہم فرداً فرداً صحابہؓ کا حال دیکھتے ہیں تو وہاں بھی خدا تعالیٰ کا یہی سلوک نظر آتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو ہی دیکھ لو” لکھتے ہیں کہ“ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے پاس تین کروڑ روپیہ جمع تھا۔اس کے علاوہ اپنی زندگی میں وہ لاکھوں روپیہ خیرات کرتے رہے۔ اسی طرح صحابہ ؓنے اپنے وطن کو چھوڑا تو ان کو بہتر وطن ملے۔ بہن بھائی چھوڑے تو ان کو بہتر بہن بھائی ملے۔ اپنے ماں باپ کو چھوڑا تو ماں باپ سے بہتر محبت کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والا کبھی بھی جزائے نیک سے محروم نہیں رہا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 604،ایڈیشن 2004ء) پچھلے خطبات میں مَیں بدری صحابہؓ کے بارے میں بیان کرتا رہا ہوں اور آجکل جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت غزوات کے حوالے سے بیان ہو رہی ہے اس میں بھی صحابہ ؓکی نیکیوں کا ذکر آجاتا ہے۔ قربانیوں کا ذکر آ جاتا ہے۔ اب دیکھیں !ان کو کس طرح اللہ تعالیٰ نوازتا چلا جا رہا تھا اور ہم تاریخ سے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ضائع ہونے کے لیے چھوڑانہیں بلکہ ان کو بےشمار نوازا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بےشمار جگہ خرچ کرنے کے بارے میں فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہیں کہتا ہے کہ اپنے مال میں سے خرچ کرو۔ جو تمہاری پسندیدہ چیز ہے اس میں سے خرچ کرو، مَیں تمہیں اجر دوں گا۔تمہارے مالوں میں تمہیں وسعت دیتا چلا جاؤں گا۔مَیں اپنے فضلوں سے تمہیں نوازتا چلاجاؤں گا اور یہ اللہ تعالیٰ کی نوازشات ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ آج بھی ہر احمدی جو حقیقی طور پر دل سے قربانی کرنے والا ہے یہ محسوس کرتا ہے۔ جو قربانی کرنے والے ہیں وہ مجھے اپنے واقعات بھی لکھتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو قربانی کرنے کی توفیق دی اور کس طرح ان کے ایمانوں کو مضبوط کیا۔ میں بعض مثالیں بھی پیش کروں گا لیکن اس سے پہلے کچھ علمی اور تاریخی حوالے بھی بیان کروں گا اور احادیث سے بھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ایک بات کی تشریح فرمائی ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہاکہ “اپنے لیے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں… ”یہ تو مسیح علیہ السلام کی تعلیم ہے ناں انجیل میں۔ ’’لیکن قرآن کریم کہتا ہےکہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں اپنا مال جمع کرو گے تو یہی نہیں کہ اسے کوئی چرائے گا نہیں بلکہ تمہیں کم از کم ایک کے بدلے میں سات سو (700) انعام ملیں گے اور اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں۔ پھر مسیحؑ کہتے ہیں کہ وہاں غلہ کو کوئی کیڑا نہیں کھا سکتا مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ صرف کیڑے سے ہی محفوظ نہیں رہتا بلکہ ایک سے سات سو گنا ہو کر واپس ملتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی انسان کی مدد کا محتاج نہیں مگر وہ اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے اگر کسی کام کے کرنے کا انہیں موقع دیتا ہے تو اس لئے کہ وہ ان کے مدارج کو بلند کرنا چاہتا ہے‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ604-605،ایڈیشن2004ء) اور اس دنیا میں بھی عملی طور پر اسے سات سو گنا بڑھا سکتا ہے لیکن ان نیکیوں کا اجر اگلے جہان میں کئی گنا بڑھا کر بھی دے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ وہ سات سو گنا بڑھاتا ہے، صرف اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ اس کی تشریح حضرت خلیفةالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جگہ فرمائی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ خوب یاد رکھو کہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لیے نہیں بلکہ انہیں چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لیے۔ یعنی چندہ دینے والے جو قربانیاں کرنے والے ہیں ان کے فائدے کے لیے کہتے ہیں کہ چندے دو تا کہ اللہ تعالیٰ تم پر فضل کرے اور تمہارے مالوں کو بڑھائے۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں ان میں سے یہ بھی ایک راہ ہے جس کا ذکر شروع سورہ میں یعنی سورہ بقرہ میں مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن کی آیت چار سے کیا ہے۔ پھر اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ۔ یہ بھی سورہ بقرہ کی آیت 178 ہے۔ پھر اسی پارے میں اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ۔ میں ذکر کیا ہے۔یہ بھی سورہ بقرہ کی آیت 255 ہے۔ پھر فرمایا اب کھول کر مسئلہ انفاق فی سبیل اللہ بیان کیا جاتا ہے کہ انجیل میں ایک فقرہ ہے کہ جو کوئی مانگے تُو اسے دے۔مگر دیکھو قرآن مجید نے اس مضمون کو پانچ رکوع میں ختم کیا ہے۔ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کسی کو کیوں دے؟تو اس کا بیان فرمایا ہے کہ اعلائے کلمة اللہ کے لیے دو۔ اس خرچ کرنے والے کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جیسے کوئی بیج زمین میں ڈالتا ہے مثلاً باجرے کے، پھر اس میں کئی بالیاں نکلنے لگتی ہیں۔پھر آپؓ فرماتے ہیں وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ۔ اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے اس سے بھی بڑھا بڑھا کردیتا ہے۔ یعنی بعض مقامات پر ایک کے بدلے میں دس اور بعض میں ایک کے بدلے میں سات سو کا ذکر ہے۔ یہ ضرورت، اندازہ ،وقت اور موقع کے لحاظ سے فرق ہے۔ مثلاً ایک شخص دریا کے کنارے پر ہے ،سردی کا موسم ہے،بارش ہو رہی ہے۔ایسی حالت میں کوئی اس سے پانی مانگتا ہے تو کسی کو گلاس بھر کر پانی دے دے۔پانی ہی پانی ہے ہر جگہ تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔لیکن اگر ایک شخص کسی کو پانی دے جبکہ وہ جنگل میں دوپہر کے وقت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا ہو۔ جاں بہ لب ہو۔ بخار میں، محرقہ میں گرفتار ہو پانی دے دے تو وہ عظیم الشان نیکی ہے۔ پس اس قسم کے فرق کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اجروں میں فرق رکھا ہے۔ کہیں قربانی ضرور ت کے مطابق بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کا اجر بھی اللہ تعالیٰ سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے جبکہ کہیں قربانی اتنی زیادہ نہیں ہوتی لیکن بہرحال قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہ اجر سے خالی رکھے بلکہ وہاں بھی دو گنا یا دس گنا اجر دیتا ہے۔ یہ مثالیں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے مال خرچ کرنے کے بارے میں دی ہیں۔ اس ضمن میں بھی آپؓ نے ایک اَور مثال حضرت رابعہ بصری کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ گھر بیٹھی ہوئی تھیں تو مہمان آ گئے اور گھر میں کھانے کے لیے صرف دو روٹیاں تھیں۔ انہوں نے ملازمہ سے کہا کہ یہ دو روٹیاں صدقہ میں دے آؤ۔ ملازمہ نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ گھرمیں مہمان آئے ہوئے ہیں اور یہ جو تھوڑی بہت روٹی ہے آپ کہتی ہیں کہ یہ بھی غریبوں میں بانٹ آؤ۔ تھوڑی دیر کےبعد باہر سے آواز آئی اور ایک عورت نے کہا کہ کسی امیر عورت نے جو ہمسائے میں رہتی تھی اس نے کچھ کھانا بھیجا ہے۔ جب کھانا آیا تو حضرت رابعہ بصری نے گنا تو اس میں اٹھارہ روٹیاں تھیں۔ حضرت رابعہ بصری کا اللہ تعالیٰ سے بڑا تعلق اور اللہ تعالیٰ پہ مان تھا کہ وہ ان کی بات کو ضرور پورا کرے گا۔ انہوں نے دو دی ہیں تو اس سے زیادہ ہونی چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں دو گنا تو ہوں یا دس گنا تو ہوں۔ انہوں نے کہا یہ اٹھارہ روٹیاں میرے لیے نہیں ہیں میرے بیس مہمان آئے ہیں اور میرے لیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیس روٹیاں آنی چاہئیں تھیں۔ یہ میرے لیے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا یہ میں نے نہیں لینی۔ یہ واپس کر دو۔ آپ کی نوکر نے کہا کہ رکھ لیں اللہ تعالیٰ نے نعمت بھیجی ہے لیکن انہوں نے کہا نہیں! یہ میرے لیے نہیں بھیجی۔ اتنے میں ہمسائے کی وہی امیر عورت جو تھی اس کی اس عورت کو یا ملازمہ کو آواز آئی اس نے کہا تم کہاں چلی گئی ہو؟ میں نے تو رابعہ بصری کے لیے یہ دوسرا کھانے کا سامان تیار کیا ہوا تھا اورجب وہ آیا تو اس میں بیس روٹیاں تھیں۔ تو اس طرح یہ بزرگ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کا مان بھی پورا کرتا تھا۔ اس ضمن میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اللہ کی راہ میں کیوں دے؟ فرمایا کہ اوّل تو یہ کہ محض ابتغائے مرضات اللہ یعنی اللہ کی رضا کے لیے دو یعنی احسان نہ جتاؤ بلکہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ خوش ہو۔ اس نے ہم پر بےشمار احسانات کیے ہیں، اس کےلیے دو اور پھر اس کے لیے اس لیے دو کہ اللہ کے دین کی خاطر دینا ضروری ہے۔ کس طرح دو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دو جیساکہ ذکر ہوا نہ احسان جتانے کے لیے۔ (ماخوذ ازحقائق الفرقان جلد1صفحہ420-421) جماعت پر کسی کا جس نے قربانی کی ہے کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جب تم اس کی راہ میں نیک نیتی سے خرچ کرتے ہو تو وہ تمہیں بڑھا چڑھا کر دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ “خدا کی راہ میں جو لوگ مال خرچ کرتے ہیں ان کے مالوں میں خدا اس طرح برکت دیتا ہے کہ جیسے ایک دانہ جب بویا جاتا ہے تو گو وہ ایک ہی ہوتا ہے مگر خدا اس میں سے سات خوشے نکال سکتا ہے اور ہرایک خوشہ میں سو دانے پیدا کر سکتا ہے یعنی اصل چیز سے زیادہ کر دینا” یہ اصولی بات ہے کہ اصل چیز سے زیادہ کردینا “یہ خدا کی قدرت میں داخل ہے اور درحقیقت ہم تمام لوگ خدا کی اسی قدرت سے ہی زندہ ہیں اور اگر خدا اپنی طرف سے کسی چیز کو زیادہ کرنے پر قادر نہ ہوتا تو تمام دنیا ہلاک ہو جاتی اور ایک جاندار بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔” (چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد23 صفحہ170-171) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اور اگر خواب میں کوئی مال دیکھے۔ تو اس کا مطلب ہوتا ہے کلیجہ۔ یا دیکھے کلیجہ نکال دیا ہے تو اس کا مطلب ہے مال نکال دیا ہے۔ اس لیے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ یعنی مالی قربانی کی بہت اہمیت ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا ،باتیں کرنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جائے۔ صدقہ اس کو اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے تا کہ اس کی سچائی ثابت ہو جائے کہ ایمان میں واقعی سچائی ہے۔ (ماخوذازملفوظات جلد1صفحہ 238 ایڈیشن1984ء) حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا میں تمہیں سب سخیوں سے بڑھ کر سخی کے بارے میں نہ بتاؤں؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہؐ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمام سخاوت کرنے والوں سے بہت بڑھ کر سخاوت کرنے والا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں بتایا کہ مَیں تمام انسانوں میں سے سب سے زیادہ بڑا سخی ہوں۔ (مجمع الزوائد جلد1 ص 224کتاب العلم باب فی من نشر علماً……حدیث نمبر760) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، روزہ اور مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نماز، روزہ اور ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتا ہے۔ (سنن ابی داود کتاب الجھاد باب فی تضعیف الذکر فی سبیل اللہ 2498) پس یہ ہدایت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مالی قربانیاں دیں کہ وہ اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی بڑھائیں اور اونچے کریں۔ صرف مالی قربانی کر کے یہ نہ سمجھ لیں کہ بہت ہو گیا۔ مالی قربانی کر کے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم عبادتوں سے فارغ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز، روزہ بھی مالی قربانیوں کے ساتھ ضروری ہے جیسا کہ میں نے حدیث سے بتایا اور یہی چیزیں ہیں جو پھر تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہو کر تمہارے مالوں کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔ آجکل بھی ہمارے پاس بہت سی مثالیں ایسی آتی ہیں کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا باعث بنائے گا اور یہ ہماری قربانی جو ہے ضائع نہیں ہو گی ،اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرے گا اور پھر اللہ تعالیٰ واقعی اسے ضائع نہیں کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا۔ روایت آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تُو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تُو تندرست ہو ،مال کی ضرورت ہو ،حرص رکھتا ہو ،اس کی غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو۔اس وقت صدقہ و خیرات میں دیر نہ کر۔ یہ ساری جو دنیاوی چیزیں ہیں جو اپنی خواہشات ہیں ان کی خواہشات ہوں لیکن اس کے باوجود تم صدقہ کرو ،خیرات کرو ،اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری جان حلق میں آ پہنچے، جب تُو مرنے کے قریب ہو تو کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا دے دو۔فرمایا کہ وہ مال تو اب تیرا رہا ہی نہیں وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا ہے وہ تو اب ورثاء کو ملنا ہی ملنا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الوصایا باب الصدقۃ عند الموت حدیث 2748) اس لیے فرمایا کہ صحت کی حالت میں اور ضرورت کی حالت میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہی اصل قربانی ہے۔ اگر یہ کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں اس دنیا میں بھی بڑھا کر دے گا اور اگلے جہان میں بھی بڑھا کر دے گا۔ ہماری جماعت میں بھی بزرگوں کے نمونے یہی ہوتے تھے کہ وہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے گنا نہیں کرتے تھے بلکہ بے دریغ خرچ کیاکرتے تھے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے صحابہ ؓکی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو ،ورنہ اللہ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اپنے روپوں کی تھیلی کا منہ بخل کی وجہ سے بند نہ کرنا۔ (صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب التحریض علی الصدقۃ حدیث 1433 ) یعنی جہاں رقم پڑی ہے اس کا منہ بند نہ کرنا ،کنجوسی سے دبا کر نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رہے گا۔پھر کبھی اس میں مال نہیں آئے گا۔ پس یہی فرمایا کہ اگر مال نکلے گا۔اگر اللہ کی راہ میں نکالو گے تو اَور آئے گا بھی۔ اس لیے دل کو کھول کر خرچ کرو۔ جماعت میں ہم مثالیں دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ بہت قربانیاں کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں آپؑ کے مشن کو پورا کرنے اور آپؑ کی مدد کرنے کے لیے آپؓ بےشمار خرچ کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے خود ہی ایک جگہ اس کا ذکر فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ دے دیتے۔یعنی حضرت مولانا نور الدین خلیفة المسیح الاوّلؓ سب کچھ اس راہ میں فنا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے۔ میں نے تو اجازت نہیں دی ورنہ سب کچھ انہوں نے دے دینا تھا۔ آپؑ نے لکھا ہے ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ظاہر کر کے دکھلا دیتا ہوں۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّل حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے۔ حضرت پیرو و مرشد! مَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال ودولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا ہوں۔ (ماخوذاز فتح اسلام،روحانی خزائن جلد3 صفحہ35-36) تو دیکھیں! جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ،عمرؓ، عثمانؓ اور مالی قربانیاں کرنے والے دیے تھے اسی طرح اس زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی اپنے آقا کی پیروی کرنے کی وجہ سے ایسے غلام عطا فرمائے جو ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار تھے اور ابوبکر صدیق کا نمونہ بن کے انہوں نے دکھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: “یہ وعدے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے دے گا میں اس کو چند گنا برکت دوں گا۔ دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے۔ ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’غرض اس وقت میں اس امر کی طرف تم سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کے لیے اپنے مالوں کو خرچ کرو۔” (ملفوظات جلد8صفحہ394۔ ایڈیشن 1984ء) برکت اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔اور یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ آج بھی ہم دیکھتے ہیں۔ یہ اُس زمانے کی بات نہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں آج بھی میرے پاس بہت سے ایسے واقعات آتے ہیں جو اظہار کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ ہمارے مالوں میں برکت عطا فرماتا ہے، ہمارے زندگیوں کے مسائل کو دور فرماتا ہے اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے۔ چند ایک واقعات کا بھی ذکر کر دیتا ہوں۔ البانیہ سے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک البانین دوست بلال یوسف صاحب ہیں بہت سادہ مزاج آدمی ہیں۔ غریب بھی ہیں۔ وہاں جلسہ ہو رہا تھا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بغیر کسی معاوضے کے ایک ہفتہ تک ہر روز صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک جلسہ کا کام کیا۔اور ہمارے بہت سارے والنٹیئر جلسوں پہ دنیا میں یہ کام کرتے ہیں لیکن بعضوں کو ضرورت ہوتی ہے تو اس کے باوجود والنٹیئر وقت دیتے ہیں رضاکارانہ طور پر۔ بعضوں کو ضرورت ہوتی بھی نہیں ان کا گزارہ ہو رہا ہوتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں یہ شام کو کام کرتے تھے چار بجے تک اور پھر چار بجے شام کو اپنی جاب پہ چلے جاتے تھے۔ ایک روز لفافے میں پچھتر (75)یورو تحریک جدید کا چندہ لے کر آئے۔ البانیہ مشرقی یورپ کا غریب ملک ہے۔ مربی صاحب کو کہنے لگے کہ کئی دنوں سے یہ رقم چندے میں دینے کے لیے جمع کی تھی اور لفافے کے اوپر البانین زبان میں یہ لکھا ہوا تھا کہ بہت خوش دلی سے جماعت کی خدمت میں پیش ہے۔ شاید یہ رقم دوسروں کو کم لگتی ہو پچہتر (75) یورو صرف لیکن مربی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ان کی پندرہ فیصد تنخواہ تھی جبکہ ان کو گھر کا کرایہ وغیرہ بھی دینا تھا۔ دنیا دار تو کہہ سکتے ہیں کہ پچہتر (75) یورو سے یہ اسلام کو پھیلانے کی باتیں کرتے ہیں یا چند یورو سے اسلام کو پھیلانے کی باتیں کرتے ہیں جبکہ اسلام مخالف جو تنظیمیںہیں اور حکومتیں ہیں ان کے پاس بلینز، بلینز پاؤنڈ ہیں۔ وہ اپنے پیسے اسلام کے خلاف خرچ کر رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اس چھوٹی سی قربانی میں بھی اتنا فضل فرمایا ہے کہ اس قربانی سے جماعت احمدیہ مشن بھی قائم کر رہی ہے صرف یہ ایک نہیں ہیں پچہتر (75) یورو دینے والے۔ بہت سارے ایسے لوگ ہیں بلکہ اس سے بھی کم دینے والے لوگ ہیں اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہی چھوٹی چھوٹی رقموں سے دنیا میں اپنے کام سرانجام دے رہی ہے۔ اشاعت اسلام کا کام کر رہی ہے اور دنیا میں جو ترقی ہو رہی ہے وہ بلینز ڈالر خرچ کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح اس سے بھی زیادہ غریب ممالک میں بعض قربانی کے نظارے نظر آتے ہیں جو ابتدائے اسلام یا اس وقت جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مالی قربانیوں کی تحریک فرمائی تھی اس وقت پیش آتے تھے۔یا اس وقت پیش آئے جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا کہ آج دشمن پوری طرح تیار ہو کر ہم پر حملہ آور ہے اس لیے خرچ کرو۔ اور اس پر لوگوں نے قربانیاں کیں۔ غریب عورتوں نے اپنی مرغیاں اور مرغیوں کے انڈے بیچ کر چندے دے دیے۔ معمولی معمولی قربانی تھی۔ اس وقت دو تین سال میں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ کہا تھا کہ تین سال میں ہندوستان میں ستائیس ہزار روپیہ جمع کرو لیکن جماعت نے قربانی کی اور ایک سال میں ہی ایک لاکھ روپیہ جمع کر لیا۔ آج بھی قربانیوں کے نظارے ہمیں غریب ممالک کی طرف سے نظر آتے ہیں۔ (ماخوذاز الحکم جلد25 نمبر8 مورخہ21فروری1923ء صفحہ 7) (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ35) انڈونیشیا میں ایک ممبر جادِی مظفر صاحب ہیں۔کہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ کے پاس جماعت کی ایک معمر خاتون آئیں انہوں نے چند گٹھے لکڑیاں اس نیت سے پیش کیں کہ ہم انہیں خرید لیں۔کہتے ہیں کہ ہمیں تو لکڑیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ پہلے ہی ہم نے خرید کر رکھی ہوئی تھیں۔چھوٹے قصبوں میں یا گاؤں میں رہتے تھے ان غریب ملکوں میں جو پوری طرح ترقی یافتہ نہیں ہیں تو بعض دفعہ غریب لوگ لکڑیاں جلاتے ہیں۔ گیس تو وہاں ہوتی نہیں یا شاید کیروسین کے چولہے جلا لیتے ہوں لیکن بہرحال لکڑیاں پھر بھی استعمال ہوتی ہیں۔ تو کہتے ہیں ہم کیونکہ اَور چیزیں بھی استعمال کر رہے تھے اس لیے ہم نے کہا لکڑیاں ہمارے پاس زیادہ استعمال نہیں ہوتیں۔ ہمیں ضرورت نہیں ہے۔لیکن بہرحال چونکہ وہ بیچاری معمّر خاتون سر پر گٹھے اٹھا کر لائی تھی تو اہلیہ نے اس پر ترس کھاتے ہوئے لکڑیاں خرید لیں۔ انڈونیشین روپے کی قیمت بہت کم ہے وہاں لاکھوں میں باتیں ہوتی ہیں تو انہوں نے لکڑیوں کا وہ گٹھا ایک لاکھ روپے میں جو پاکستانی روپے کے برابر بھی چند روپے بنتے ہیں اس میں خرید لیا۔ بہرحال جب خرید لیا اور اس کو رقم دینی چاہی تو اس معمر خاتون نے کہا کہ میں یہ لکڑیاں اس لیے نہیں لائی کہ تم سے رقم لوں اور اپنے پر خرچ کروں بلکہ یہ تو میں نے تحریک جدید کا چندہ دینا تھا۔ اسے میری طرف سے تحریک جدید کے چندے میں شمار کر لو۔ ان کی بیوی لجنہ کی عہدیدار بھی تھیں وہ رقم جو تھی، جو کچھ تھا سارا وہیں چندہ دے گئیں اور ایک پیسہ بھی اپنے ساتھ لے کر نہیں گئیں۔ اسی طرح انڈونیشیا سے ہی ایک ممبرسسیلہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ چند سال پہلے ان کے مالی حالات نہایت خراب تھے۔ ایک سات سال کا بچہ تھا اور دوسرے بچہ سے حاملہ تھیں۔ جس دن دوسرا بچہ پیدا ہوا اسی دوران عید بھی قریب آ گئی تو ان تینوں نے تحریک جدید کے وعدے کی رقم جو کہ بارہ لاکھ روپے تھی، باقی تھی۔جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہاں روپے کی قیمت بہت کم ہے تو یہاں بھی وہی جذبہ نظر آتا ہے جس کی مثالیں ہم پہلے بزرگوں میں دیکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بارہ لاکھ روپے کا ان کا وعدہ تھا۔ہم چاہتے تھے کہ تحریک جدید کا چندہ دے دیں اور خلیفة المسیح کو دعا کے لیے لکھیں۔ ہم نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح یہ چندہ ادا ہو جائے لیکن غربت کی وجہ سے یہ مشکل نظر آ رہا تھا۔کہتی ہیں میرا ایک بہت تھوڑا سا بینک اکاؤنٹ تھا جب میں نےوہاںدیکھا تو ساڑھے بارہ لاکھ روپے وہاں موجود تھا۔ تو کہتی ہیں اگر ہم یہ سارا کچھ دے دیتے تو ہمارے پاس دینے کو کچھ نہ ہوتا لیکن بہرحال انہوں نے فیصلہ کیا کہ بارہ لاکھ روپے تو میاں بیوی اور بڑے بچے کی طرف سے دے دیں اور بقایا پچاس ہزارجو ہے وہ چھوٹے بچے کی طرف سے دے دیں تو وہ ہم نے دے دیا اور اس طرح رقم ختم ہو گئی۔ کچھ بھی ان کے پاس نہیں تھا۔کہتی ہیں لیکن ہمیں افسوس نہیں ہوا بلکہ دل میں خوشی محسوس ہوئی کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اپنے نومولو دبچے کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی کیسا فضل کیا کہ ایک ہفتے کے بعد ہی انہیں ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی آمدنی ہو گئی اور یہ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو دس گنا بڑھانے کا وعدہ کیا ہے اسے اس طرح پورا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً اپنا وعدہ پورا فرما دیا۔ اسی طرح گھانا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ خلیفة المسیح کے خطبات میں ایمان افروز واقعات جب لوگوں کو سنائے گئے تو ایک افریقن گھانین ممبر نے اپنی جیب میں موجود آخری رقم بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دی۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ مسجد سے باہر نکلتے ہی انہیں دو فون کالز موصول ہوئیں جو ان کی زندگی کا رُخ بدلنے والی تھیں۔ یعنی دو ممکنہ گاہکوں نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں ایسی پُرکشش ملازمت یا مواقع کی پیشکش کی جس سے انہیں ان کی دی ہوئی رقم سے بیس گنا زیادہ منافع حاصل ہوا۔ یہ غیر معمولی واقعہ اس حقیقت کی ایک زبردست یاددہانی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں قربانی کرنے والوں کو کس طرح فوری اور بے مثل انعامات سے نوازتا ہے۔ یہ واقعہ بھی ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنا۔ اسی طرح کینیا سے معلم کی اہلیہ لکھتی ہیں ان کے پہلے بچے کی ولادت متوقع تھی بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں جس کی وجہ سے بہت فکر مند تھیں۔ ڈاکٹر فکر مندی کا اظہار کر رہے تھے۔کہتی ہیں میں نے اپنے حالات، ساری باتیں خاوند کو بھی بتائیں کہ مجھے اس نے پریشان کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور اللہ ہی ہمارا آخری سہارا ہے۔اور فوری ہم جو قربانی کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آجکل تحریک جدید کا سال ختم ہونے والا ہے تو اپنا بقایا چندہ جو تحریک جدید کا ہے اس میں ادا کر دو اور اللہ پہ معاملہ چھوڑ دو۔ اللہ فضل کرے گا۔ عجیب ایمان کی حالت ہے ان لوگوں کی۔ کہتی ہیں مَیں نے ایسا ہی کیا۔ چند دن بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تشریف لائے ہیں۔ آپ نے سیاہ رنگ کا کوٹ پہنا ہوا ہے۔ سر پر پگڑی ہے اور ہاتھ میں سوٹی بھی تھی۔ آپ نے اس خاتون کو فرمایا کہ تم فکر نہ کرو۔ بچے کی پیدائش بخیر و عافیت ہو گی مگر تمہارے پہلو سے ہو گی۔ چنانچہ ان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی لیکن بذریعہ آپریشن ہوئی جو پیٹ کے ایک طرف سے کیا گیا اور کسی قسم کی کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ بہرحال وہ سمجھتی ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ان کی قربانی کی وجہ سے ہوا اور اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی ورنہ کہتی ہیں کہ امید کے ایام میں جب بچہ پیدا ہونے والا تھا ڈاکٹروں نے بہت سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ یوں اللہ تعالیٰ دور دراز کے علاقوں کےاحمدیوں کو بھی اس طرح بتا کر ان کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی صداقت کی تائید بھی فرما دیتا ہے۔ گنی کناکری کے مبلغ انچارج صاحب نے لکھا ہے کہ میں خلیفة المسیح کے خطبات میں سے ایمان افروز واقعات سنا رہا تھا اور توجہ دلائی کہ چندوں میں قربانی کرنی چاہیے ،آگے بڑھنا چاہیے اور اسی طرح سب کو تحریک جدید کا سال ختم ہونے کی وجہ سے ان کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی کہ بجٹ پورا نہیں ہو رہا اس کو پورا کرنا ہے۔ اسی شام ایک شخص مشن ہاؤس آیا اور بتایا کہ یہ لفافہ محمد الحسن کوبی صاحب نے بھیجا ہے جب لفافہ کھولا گیا تو اس میں تین سو یورو موجود تھے جو کہ مقامی کرنسی میں تقریباً تین ملین فرانک بنتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اس پر انہوں نے کوبی صاحب کو فون کرکے دریافت کیا کہ لفافہ آپ نے بھیجا ہے؟ اور وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ خطبہ جمعہ میں آپ سے یہ سنا تھا کہ ٹارگٹ پورا نہیں ہوا تو جمعہ کے بعد جب میں اپنے آفس پہنچا ہوں تو میرے دراز میں یہی رقم پڑی تھی اور ساتھ اخراجات کی ایک لمبی لسٹ بھی موجود تھی جو اس رقم سے ادا ہونے تھے۔ میں نے اخراجات کی لسٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور یہ رقم آپ کو تحریک جدید کے چندے میں شامل کرنے کے لیے بھجوا رہا ہوں۔ موصوف اپنا تحریک جدید کا چندہ پہلے بھی ادا کر چکے تھے اور ایک اچھی رقم ادا کر چکے تھے۔ تو افریقہ میں بسنے والوں کے بھی عجیب اور حیرت انگیز قربانی کے واقعات ہیں۔یقیناً یہ باتیں ان کے دلوں میں ایمان کی کیفیت پیدا کرتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے ورنہ انسان کا تو یہ کام نہیں ہے۔ ان کو یہ تجربات ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس طرح بڑھا کے دیتا ہے تبھی تو وہ پھر قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ واقعات تو بہت سارے ہیں جو سارے بیان کرنے مشکل ہیں۔کچھ تو میں نے جو چنے ہیں وہ بھی نہیں بیان کر سکتا بہرحال چند ایک کر دیتا ہوں۔ تحریک جدید بھارت کے انسپکٹر تلنگانہ کے ایک شخص کے بارے میں لکھتے ہیں جو کہ حیدرآباد کے ایک جگہ کے ہیں۔ ان کا وعدہ سات ہزار روپے کا تھا مگر ملازمت ختم ہونے کی وجہ سے وہ ادائیگی نہیں کر سکے۔ اگلے سال کے لیے انہوں نے دس ہزار کا وعدہ لکھوا دیا۔ ان سے کہا گیا گذشتہ سال کا وعدہ تو آپ نے پورا نہیں کیا آئندہ کے لیے بڑھا کر وعدہ کر رہے ہیں؟ تو موصوف نے جواب دیا کہ مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ ہی اس کا انتظام فرمائے گا کیونکہ میں اللہ کی خاطر دے رہا ہوں۔ چنانچہ چند روز میں ہی انہیں پہلے سے بہتر ملازمت مل گئی اور انہوں نے گذشتہ دو سالوں کا بھی چندہ ادا کیا اور نئے مالی سال میں اپنا وعدہ بھی سات ہزار کی بجائے اب بیس ہزار پیش کر دیا اور اس کی ادائیگی بھی کردی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن ظن کو نوازا۔ اسی طرح انڈونیشیا کی ایک اَور مثال ہے۔ عجیب عجیب واقعات ہوتے ہیں جو اتفاقات نہیں ہیں کیونکہ جن کے ساتھ ہوتے ہیں وہ سب اس پس منظر کو جانتے ہیں کہ کن حالات میں قربانی کر رہے ہیں ،کن حالات میں انہیں قربانی کا خیال پیدا ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کس طرح انہوں نے دیکھی۔ بہرحال وہ (مبلغ انچارج انڈونیشیا) لکھتے ہیں کہ ایک انتہائی مخلص احمدی دوست بہادر جان، ٹیکسی چلاتے ہیں، کچھ عرصہ قبل ایک ٹیکسی کمپنی سے اپنی ٹیکسی کا کام جاری رکھنے کے لیے ایک کار خریدی۔ کہتے ہیں گاڑی خریدنے کے بعد ٹریفک پولیس کے دفتر گاڑی کی رجسٹریشن کروانے گیا تو انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس گاڑی کی رجسٹریشن کرنے سے منع کیا ہے۔کہتے ہیں گاڑی خریدتے وقت تو میں نے سب کچھ چیک کیا تھا اور سب کچھ قانون کے مطابق تھا مگر بعد میں مجھے علم ہوا کہ یہ ٹیکسی کمپنی مقروض تھی جس کی وجہ سے عدالت نے اس کمپنی کو گاڑیاں بیچنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس وقت کمپنی کی پینتیس گاڑیاں تھیں جو سب بین کر دی گئی تھیں۔ کہتے ہیں کمپنی کے سابق مالکان نے مجھے کہا کہ ہم نے عدالت میں کیس کیا ہوا ہے اور جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا تم انتظار کر لو اور تمہیں گاڑی مل جائے گی انشاء اللہ۔ کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ کہتے ہیں اس وقت میرا تحریک جدید کا چندہ واجب الادا تھا۔ میں نے سوچا کہ پہلے اپنا چندہ ادا کر دوں۔ اس فکر میں کہیں میرا یہ چندہ نہ رہ جائے اور میں اسی دنیاوی فکر میں پڑا رہوں تو وہ کہتے ہیں میں نے فوری طور پر تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ کہتے ہیں چند ہی روز بعد اسی کمپنی کی ویب سائٹ پر چیک کیا تو حیرت انگیز طور پر جو گاڑی میں نے خریدی تھی اس پر سے پابندی ختم ہو گئی تھی۔ کہتے ہیں مجھے یقین نہیں آیا کہ شاید مجھے غلطی لگی ہے۔چنانچہ میں انسپکٹر کے پاس گیا جس نے چیک کرکے بتایا کہ پینتیس میں سے ایک گاڑی پر سے پابندی ختم ہوئی ہے اور باقی چونتیس گاڑیوں سے پابندی ہٹنے کا معاملہ عدالتی فیصلے پر منحصر ہے اور وہ گاڑی وہی تھی جو میں نے خریدی تھی اور خدا کے فضل سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کے نتیجہ میں یہ فضل ہوا کہ فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے مجھے انعام سے نوازا۔تو کہتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں ان کو میری آنکھوں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ احمدیوں کو نوازتا ہے۔ پھر مالی ریجن سکاسو سے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عجیب رنگ میں نومبائعین کی تربیت فرماتاہے ،انہیں مالی قربانی کی طرف مائل کرتا ہے۔ شہر کے ایک نومبائع موسیٰ صاحب ایک ملین فرانک سیفا کی رقم لے کر آئے اور عرض کیا کہ اس میں سے پانچ لاکھ رقم ان کے مکان کا حصہ جائیداد ہے ،چار لاکھ چندہ وصیت اور ایک لاکھ رقم تحریک جدیداور وقف جدید کی چندے کی مد میں کاٹ لیں۔ جب ان سے اس رقم کے متعلق استفسار کیا، پوچھا کہ کیا وجہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک لمبے عرصہ سے مختلف دنیاوی پراجیکٹس کے لیے رقم اکٹھی کر رہے تھے اور ان کی پوری توجہ اور دعا بھی انہی پراجیکٹس کے حصول کے لیے تھی لیکن کہتے ہیں کل رات جب میں تہجد کی ادائیگی کے بعد لیٹا ہوں تو خواب میں دیکھا کہ تین سفید رنگ کے لباس میں ملبوس اشخاص ان کے پاس آئے اور ان میں سے پہلے شخص نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم ایک احمدی ہونے کے باوجود ساری توجہ دنیاداری کی طرف رکھتے ہو۔ کس طرح اللہ تعالیٰ تربیت فرماتا ہے۔ بہتر ہے کہ تم آخرت کی فکر زیادہ کرو۔اس کے بعد دوسرے شخص نے اس سے کہا کہ تم نے اپنے مکان کا حصہ جائیداد ابھی تک ادا نہیں کیا۔اس لیے اپنے مکان کا حصہ جائیداد ادا کرو۔ اس کے بعد تیسرے شخص نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہارے پاس چار ملین اکاؤنٹ میں پڑا ہوا ہے اس کی وصیت بھی فوری طور پر ادا کرو۔ اس لیے بطور احمدی میرے لیے اب یہ جائز نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی ہونے کے بعد اس رقم کو کسی اَور مقصد کے لیے استعمال کروں۔ آپ اس رقم کو مختلف چندہ جات کی مد میں کاٹ لیں۔ تو ایسے واقعات دیکھ کر نہ صرف ان لوگوں کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں بلکہ ہمارے جو پرانے احمدی ہیں ان کے بھی ایمان مضبوط ہوتے ہیں اور ہمیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا دعویٰ ہے۔ جھوٹا نبی ہے۔ جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔ دکان داری ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ جن کی اس طرح راہنمائی فرماتا ہے اور دور دراز علاقے میں بیٹھے ہوئے وہ لوگ جنہوں نے ابھی کچھ عرصہ پہلے بیعت کی ہے ،وصیت بھی کر دی ،جنہوں نے خلیفہ وقت کو بھی دیکھا نہیں یا صرف ایم ٹی اے کے علاوہ کبھی نہیں ملے۔ پوری طرح شاید جماعت کا لٹریچر بھی نہیں پڑھا ہو گا۔ اکثر لوگوں نے نہیں پڑھا ہوتا لیکن بنیادی چیزیں تو بہرحال پڑھی ہوتی ہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کے ایمانوں کو اس طرح مضبوط کرتا چلا جاتا ہے کہ جب وہ قربانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرماتا ہے اور پھر ان کی راہنمائی بھی کرتا ہے۔ اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن کو میں فی الحال چھوڑتا ہوں۔ یہ لمبی فہرست ہے۔ بہرحال اس سال اللہ تعالیٰ کے افضال جو جماعت پر ہیں اور جو قربانیاں افراد جماعت نے دی ہیں اور جماعتوں کی طرف سے آنے والی قربانیوں کی جو اطلاعات ہیں ان کا مختصر ذکر کر دیتا ہوں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنے چاہئیں اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نئے اور پرانے آنے والوں میں کس طرح تربیت کے لحاظ سے ایسے جذبات پیدا کرتا ہے جس سے وہ قربانیوں کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ بہرحال دنیا کے مختلف ممالک کی جو سال کی رپورٹ ہے اس کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک جدید کا جو گذشتہ سال اکانویںواں (91)سال تھا وہ ختم ہوا اور آج بانویںواں (92)سال شروع ہوا ہے جس کا میں اعلان کر رہا ہوں اور اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو 19.55؍ملین پاؤنڈ کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی جو گذشتہ سال سے تقریباً پندرہ لاکھ چونسٹھ ہزار یعنی ڈیڑھ ملین سے زیادہ پاؤنڈ بنتے ہیں۔ مجموعی وصولی کے لحاظ سے پاکستان کے علاوہ جو جماعتیں ہیں وہ تو شمار نہیں ہوتا لیکن عمومی طور پر بھی جو دنیا میں اوّل جماعت ہے وہ فی الحال جرمنی ہے اور دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے۔ برطانیہ نے بھی اس سال غیر معمولی وصولی کی ہے اور یہ جرمنی کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اگر اسی طرح ترقی کی تو شاید اگلے سال آگے نکل جائیں۔ پھر اسی طرح امریکہ نے بھی غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح کینیڈا نے بھی گذشتہ سال کی نسبت غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔اور پھر بھارت ہے انہوں نے بھی پچھلے سال کی نسبت کافی اضافہ کیا ہے۔آسٹریلیا نے غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔انڈونیشیا نے بھی۔اسی طرح مڈل ایسٹ کی جماعتیں ہیں۔پھر گھانا ہے۔ گھانا نے بھی اس سال قربانی میں بہت اضافہ کیا ہے۔اور نمایاں اضافے کرنے والوں میں ماریشس اور ہالینڈ بھی شامل ہیں۔ مجموعی کارکردگی کے لحاظ سے قابل ذکر جماعتیں جو گوکسی پوزیشن پہ تو نہیں آئیں لیکن انہوںکام بہت اچھا کیا ہے جن میں بیلجیم ہے۔ سویڈن ہے۔ فرانس ہے۔ہالینڈ کا ذکر پہلے آیا ہے۔کبابیر ہے۔ بنگلہ دیش ہے۔ برکینا فاسو ہے۔نیوزی لینڈ ہے۔ برکینا فاسو میں تو حالات بہت خراب ہیں۔ سیرالیون ہے۔ بینن ہے۔مالی ہے۔مالی میں بھی حالات کافی خراب ہیں۔ دہشت گردوں کی طرف سے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ نائیجر ہے۔ترکی ہے۔ جارجیا ہے۔ مڈل ایسٹ کی جماعتیں ہیں۔آسٹریلیا ہے۔ افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے جو پانچ جماعتیں ہیں۔ ان کا ذکر کر دیتا ہوں پہلے نمبر پہ گھانا۔پھر ماریشس۔پھر نائیجیریا۔پھر برکینا فاسو۔پھر تنزانیہ اور اس کے ساتھ اور بھی ہیں۔ شاملین کی کُل تعداد سترہ لاکھ تک ہے اور اس سال رپورٹس کے مطابق دفتر ششم میں دو سال پہلے جو چھٹا دفتر شروع ہوا تھا جس کا اعلان ہوا تھا اس میں شمولیت کرنے والوں کی تعداد تینتالیس ہزار پانچ سو اٹھاسی ہے۔ جماعتیں اس بات کو بھی نوٹ کریں کہ تحریک جدید میں جو نئے شامل ہونے والے ہیں ان کو دفتر ششم میں شمار کیا کریں اور اس کی رپورٹ پھر وکالت مال کو بھجوایا کریں۔ جرمنی کی پہلی دس جماعتیں روڈگائو(Rodgau)۔ اوسنابروک(Osnabruck)۔ پنے برگ (Pinneberg)۔ نیڈا (Nidda)۔ فلورس ہائم (Florsheim)۔ روئڈر مارک (Rodermark)۔ بریمن۔ نیوویڈ۔فرائڈ برگ مٹے۔ کوبلنز ہیں۔ اور دس امارتیں جو ہیں ان کی یہ ہیں ہیمبرگ(Hamburg) پھر فرینکفرٹ(Frankfurt)۔ پھر گروس گیرائو(Gross-Gerau)۔ ویزبادن (Wiesbaden)۔ ریڈشٹڈ(Riedstadt)۔ من ہائم (Mannheim)۔ ڈٹسن باخ (Dietzenbach)۔ مورفیلڈن وال ڈورف (Morfelden Walldorf)۔ رسلزہائم۔ ڈارمشٹڈ(Darmstadt)۔ برطانیہ کے پہلے پانچ ریجنز جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ اسلام آباد۔پھر بیت الفتوح۔ پھر مسجد فضل۔پھر بیت الاحسان۔پھر نارتھ ایسٹ۔ ان کی بڑی جماعتیں جو دس ہیں ان میں اسلام آباد نمبر ایک۔ پھر ایش (Ash)۔پھر ووسٹرپارک(Worcester Park)۔ ساؤتھ چیم (South Cheam)۔ والسال(Walsall)۔ فارنہم نارتھ (Farnham North)۔ آلڈر شاٹ ساؤتھ (Aldershot South)۔مسجد فضل۔ فارنہم ساؤتھ(Farnham South)۔ یول (Ewell)۔ چھوٹی جماعتیں جو اچھا کام کرنے والی ہیں ان میں لیمنگٹن سپا۔سپن ویلی۔ کیتھلی۔ فرنٹ ووڈ اور جامعہ یوکے۔ امریکہ کی جو پہلی دس جماعتیں ہیں ان میں نارتھ ورجینیا۔ میری لینڈ (Maryland) لاس اینجلیس( Los Angeles)۔ سیئٹل (Seattle)۔ شکاگو (Chicago)۔ ڈیلس۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔ نارتھ جرسی۔ ساؤتھ ورجینیا (South Virginia)۔ سینٹرل جرسی۔ بالٹی مور۔ ڈیٹرائٹ (Detroit)۔ اور کینیڈا کی لوکل امارات میں وان (Vaughan)۔پھر کیلگری (Calgary)۔پھر پیس ولیج (Peace Village)۔ پھر وینکوور (Vancouver)۔ ٹورانٹو ویسٹ۔پھر بریمپٹن ایسٹ (Brampton East)۔ مسی ساگا۔ اور وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی قابل ذکر جماعتیں جو ہیں ان میں ہیں ہملٹن ماؤنٹین۔ہملٹن۔ایڈمنٹن ویسٹ۔ حدیقہ احمد۔ آٹوا ایسٹ۔ آٹوا ویسٹ۔ وینیپیگ۔ رجائنا۔ وَڈ رائل۔ یَیلو نائف (Yellow Knife)۔ پاکستان میں عمومی وصولی کے لحاظ سے اوّل نمبر پہ لاہور۔ پھردوم ربوہ۔پھر سوم کراچی۔ ضلعی سطح پر اسلام آباد نمبر ایک ہے۔ پھر فیصل آباد۔ پھر سیالکوٹ۔ پھر سرگودھا۔ عمر کوٹ۔ نارووال۔ میر پور خاص۔ رحیم یار خان۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ لیہ۔ زیادہ قربانی کرنے والی جو پاکستان کی شہری جماعتیں ہیں ان میں امارت ٹاؤن شپ لاہور، امارت ڈیفنس لاہور، امارت دارالذکر لاہور، امارت علامہ اقبال ٹاؤن لاہور، امارت بیت الفضل فیصل آباد، بہاولنگر، کوئٹہ بہاولپور، لودھراں، ساہیوال۔ انڈیا کی پہلی دس جماعتیں جو صوبہ جات ہیں کیرالہ۔ تامل ناڈو۔ تلنگانہ۔اڈیشہ۔ جموں و کشمیر۔ کرناٹک۔ پنجاب۔ بنگال۔ مہاراشٹرا۔ اور دہلی اور پہلی دس جماعتیں قربانی کے لحاظ سے جو ہیں حیدرآباد۔ کوئمبٹور (تامل ناڈو) پھر قادیان۔ کالی کٹ۔ میلا پالم۔ مینجری (کیرالہ)۔ بنگلور۔ کیرنگ۔ کلکتہ۔ کیرولائی۔ آسٹریلیا کی دس جماعتیں جو ہیں وہ ہیں نمبر ایک پہ میلبرن لانگ وارِن(Melbourne Lang warrin)۔ میلبرن بیروِک (Melbourne Berwick)۔ مارسڈن پارک۔ پین رتھ(Penrith)۔ میلبرن ویسٹ۔ کاسل ہل۔ ایڈیلیڈ ویسٹ(Adelaide West)۔ میلبرن کلائیڈ۔ پرتھ۔ میلبرن ایسٹ تحریک جدید کے جو سال ہیں جس طرح مَیں نے بتایا ان کا بانویںواں (92)سال شروع ہوا ہے تو دفتر اوّل کا بانویںواں (92)سال ہو گا۔اس کے جو پرانے کھاتے ہیں وہ جاری ہیں۔ دفتر دوم کا بیاسیواں (82)سال ہے۔دفتر سوم کا اکسٹھواں (61)سال ہے۔دفتر چہارم کا اکتالیسواں (41)سال ہے۔دفتر پنجم کا بائیسواں (22)سال ہے۔اور دفتر ششم کا اب تیسرا (3)سال شروع ہو گا۔ جیسا کہ پہلے میں نے کہا کہ نئے آنے والے جو ہیں وہ دفتر ششم میں شمار کیے جائیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’میرے پیارے دوستو !میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لیے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لیے مجھے عطا کی گئی ہے۔ اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لیے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے ’’یعنی اپنے پاکیزہ اموال سے‘‘ اپنی دینی مہمات کے لیے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے۔ اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ا ن علوم او ر برکات کو ایشیااور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ،روحانی خزائن جلد3صفحہ516) پس اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے سپرد جو مشن کیا ہے اب ہمارا کام ہے کہ ہم اس مشن کو پورا کریں۔ ایشیا ،یورپ ،امریکہ ،افریقہ ،عرب ممالک، ساؤتھ امریکہ کے ممالک اور جزائر ہر جگہ ان مالی قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق دے رہا ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ یہاں یورپ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی مالی قربانیاں ہیں بلکہ وہاں کے لوگ بھی جیسا کہ میں نے مثالیں بھی پیش کی ہیں مالی قربانیوں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے اور ہماری کوششوں میں بے انتہا برکت ڈالے اور ان کے بہترین نتائج پیدا فرمائے اور ہم جلد از جلد دنیا میں خدائے واحد کی حکومت کو قائم ہوتا ہوا دیکھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو لہراتا ہوا دیکھیں۔ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ اکتوبر 2025ء