اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ اے نبی! ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور آپؐ کا رحمۃللعالمین ہونا صفت رحمانیت کے لحاظ سے ہی درست ہوسکتا ہے کیونکہ رحیمیت تو صرف مومنوں کی دنیا کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۱۱۸ حاشیہ ) میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ﷺ نے کی ہر گز نہ کرسکتے ۔ ان میں وہ دل، وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبیؐ کو ملی تھی ۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذاللہ سوء ِادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افتراء کرے گا۔ میں نبیوں کی عزت و حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم ؐ کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزوِ اعظم اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں۔ بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہوسکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔ (ملفوظات جلد ۲ ، صفحہ۵۹۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) چونکہ آنحضرت ﷺ اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا و صدق و صفا و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلیٰ و اصفا تھے اس لئے خدائے جل شانہٗ نے ان کو عطر کمالات ِخاصّہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفاتِ الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو ۔ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد۲ صفحہ ۷۱ حاشیہ) ہمارے نبی ﷺ اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے ۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلعم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپؐ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی ۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلعم کے نصیب نہیں ہوئی ۔ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۰۶) مزید پڑھیں: صاحب الہام ہونے میں استعداد اور قابلیت شرط ہے