اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۲۰۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل اخبار کی چند خوبصورت یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں ابن کریم کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پچھلے دنوںحضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی کے قبول احمدیت کا تذکرہ جب مَیں نے ایک غیراز جما عت دوست کے سامنے رکھا تو وہ باتیں سن کرانہیں جھرجھری سی آگئی اور انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کسی وقت میرے ڈیرے پر ضرور آئیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان صحابی کے بھائی نے احمد یت قبول کرلی تھی اور یہ ان کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ ایک دن خیال آیا مخالفتوں سے مجھے کچھ حاصل تو ہوانہیں، کیو ں نہ دعا کروں۔ چنانچہ کبھی ویران جگہوں پر، کبھی جنگلوں میں اور کبھی قبرستانوں میں گریہ وزاری شروع کردی۔ خدا کے حضور روتا اور چلّاتا کہ مالک! اگر تو یہ سلسلہ تیری طرف سے ہے تو تُو میری راہنمائی فرما۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ایسی راہنمائی فرمائی کہ قادیان خواب میں دکھا یا گیا، حضرت مسیح موعودؑ بھی اور آئندہ ہو نے والے خلیفہ بھی ۔ مَیں نے یہ ساری با تیں اُس معزز زمیندار کے سا منے رکھیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا۔ مَیں نے کہا خدا تو بےنیاز ہے اگر کسی نے حق سچ کو پہچاننا ہے تو اس طرح گریہ وزاری اُسے کرنا ہوگی ۔ ایک بار مومنؔ کے ایک شعر کی تلاش تھی جو الفضل کے ایک مضمون میں مل گیا۔ شعر یوں ہے ؎ زمانہ مہدیٔ موعود کا پایا اگر مومنؔ تو سب سے پہلے تُو کہیو سلام پاک حضرت کا الفضل کی جان، خلیفہ وقت کے خطبات ہیں۔ ایم ٹی اے کے ذریعے ہم دیکھ اور سُن تو لیتے ہیں مگر جب وہ تحریری طور پر سا منے آتے ہیںتو پہلی سنی ہوئی بات نظر میں آنے سے کا لنقش فی الحجر کی ما نند ہو جا تی ہے۔ مکرم حافظ عبدالوہاب صاحب بلتستانی مرحوم مربی سلسلہ کے والد صاحب کی قبولِ احمدیت کی داستان کچھ یوں ہے کہ وہ کسی دکان سے سوداسلف لائے تو دکان دار نے جس اخبار میں سودا لپیٹ کر دیا وہ ٹکڑا حضرت مسیح موعودؑکے ملفوظات کا تھا، جو کسی اخبار ہی کا حصہ تھا۔ اس طرح انہیںان چند بابرکت الفاظ سے جماعت کی طرف ترغیب ہوئی۔ ایک مخلص داعی الی اللہ نے مجھے بتایا کہ اُن کی وا لدہ محترمہ ۹۵؍سال کی ہیں۔ الفضل سے عشق اور وابستگی کا ایسا تعلق ہے کہ صبح صبح اپنے پوتے پوتیوںکے دسیوںچکر دروازے کی طرف لگوادیتی ہیںکہ دیکھو الفضل نہیںآیا؟ ان کے اس انداز کی وجہ سے میری اہلیہ کو بھی الفضل سے اتنی محبت ہو گئی ہے کہ اب مَیں نے مجبوراً دو پرچے لگوالیے ہیں۔ دونوں علاوہ علم و عرفان کی با توں کے دہرانے کے، مریضان کے لیے شفا کی دعائیں، مرحومین کے لیے بلندیٔ درجات کی دعائیں اور نومولودگان کے لیے درازیٔ عمر کی دعا ئیںکرتی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح مو عو دؑ نے فرما یا ہے کہ مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوںایک خدا کی توحیداور دوسرے مخلوقِ خدا کی ہمدردی۔ الفضل ان دونوں مقا صد کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آپؑ نے یہ بھی فرما یا ہے کہ جس نے میری کتب کو کم از کم تین بار نہیں پڑھا اس میں تکبر کے اثرات پا ئے جانے کا اندیشہ ہے۔ اس مقصد کی تکمیل بھی الفضل کرتا ہے۔ چند سال پیشتر میری خوشدامن صاحبہ کا آپریشن ہوا اور الفضل میں دعا کا اعلان شائع ہوا تو محترم وکیل المال صاحب کا بھی دعائوں سے پُر اور شفقت بھرا خط آیا۔ جسے پڑھ کر احساس ہوتا کہ خدا نے ہمیں کیسا عظیم الشان نظام دیا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک مخلص جما عتی کارکن کی بچی بعمر۱۴؍سال کے گینگرین سے متاثر پائوں کے آپریشن کا اعلان بغرضِ دعا شا ئع کروا یا۔ چند دن بعد وہی کار کن ایک چِٹ لے کر آئے۔ رقّت کے غلبے کی وجہ سے ان سے بات کرنا مشکل تھی۔ معلوم ہوا کہ اعلان پڑھ کر ایک دوست نے دفتر الفضل سے پوچھوایا اور بچی کے والد کو تلاش کرکے یہ پیغام بھجوایا کہ دعائیہ اعلان کو پڑھ کر مَیں بہت رؤیا، بہت دعا کی۔ مجھے چونکہ خود پائوں میں یہ عا رضہ تھا اس لیے مَیں بآسا نی سمجھ سکتا تھا کہ تکلیف کیا ہو تی ہے۔ بہرحال میری درخواست ہے کہ آپ فلاں علاج کروائیں اس سے مجھے افاقہ ہوا ہے، ابھی آپریشن نہ کروائیں۔ اس کارکن نے آنسو پو نچھتے ہوئے کہا: ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ خدا نے خلافت کی برکت سے ہمیں ایک لڑی میں پرودیا ہے۔ ایک بزرگ اکثر و بیشتر الفضل کی بیان فرمودہ باتوں کے سحر میں گرفتا ر رہتے ہوئے بڑے مزے لے لے کر علم و معرفت کی باتوں کی جگا لی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک دن بتانے لگے کہ اخبار کی ہر چیز حتّٰی کہ تمام اشتہار تک پڑھتا ہوں۔ گومجھے ان سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ احترام اور محبت کا تقاضا ہے کہ ان پر بھی نظر ڈالی جائے۔ ایک دوست نے بیان کیا کہ اُن کی عمر رسیدہ والدہ تو الفضل کی اتنی دیوانی ہیں کہ جب تک اخبار آ نہ جائے ان کو عجیب بےچینی طا ری رہتی ہے اور جب مل جا ئے تو وارفتگی اور ایک گونہ بےخودی کی کیفیت میں اسے آغاز سے پڑھنا شروع کردیتی ہیں اور اختتام تک پہنچے بغیر نہیں چھوڑتیں۔ اور جس دن اخبار نہ ملے اس دن ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے گویا کوئی پسند یدہ چیز کہیں رکھ کر بھو ل گئی ہیں جس کی تلاش میں اُداس بھی ہیں اور پریشان بھی۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عبدالصبور نعمان صاحب (مبلغ انچارج سپین) رقمطراز ہیں کہ سپین کا ذکر الفضل میں فروری ۱۹۳۶ء سے آنا شروع ہوا جب قادیان سے سپین کے لیے پہلے مبلغ مکرم چودھری شریف احمد صاحب گجراتی کو بھجوا یا گیا تھا۔ وہ مارچ ۱۹۳۶ء سے نومبر۱۹۳۶ء تک یہاں خدمات بجالاتے رہے۔ پھر سپین میں خانہ جنگی شروع ہونے کی و جہ سے اورانگلش گورنمنٹ کے حکم سے مجبوراً سپین سے جانا پڑا۔ سپین چھوڑنے سے قبل ایک دفعہ انگلش گورنمنٹ کے سفیر نے اُن کو میڈرڈ میں سفارت خانہ میں بلا کر جان کی حفاظت کی خاطر سپین چھوڑنے کا کہا مگر مولاناصاحب نے انکار کردیا اور کہا کہ جب آپ چند پاؤنڈز کی خاطر سے اپنی جان کو مصیبت میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں تو مجھے اتنا ہی ذلیل سمجھتے ہیں کہ میں موت کے ڈر سے اس ملک سے چلا جاؤں جبکہ یہاں آیا ہی مرنے کے لیے ہوں۔ الفضل کی سپین میں باقاعدہ آمد مکرم مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب اور مکرم محمد اسحاق ساقی صاحب کی ۱۹۴۶ء میں یہاں آمدسے شروع ہوئی اور پھر یہ سلسلہ مستقل جاری رہا۔ ………٭………٭………٭……… مکرم مرزا محمد اقبال صاحب نے ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۸ء دفتر الفضل میں کام کرنے کی توفیق پائی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں دفتر الفضل کی یادوں کے حوالے سے آپ کا مضمون شامل اشاعت ہے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ۱۹۹۰ء کے رمضان میں مکرم حافظ محمد صدیق صاحب تراویح پڑھانے کراچی گئے اُن کی جگہ ایک ماہ کے لیے مجھے عارضی طور پر دفتر الفضل میں بھیجا گیا۔ محترم نورمحمد نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے پروف ریڈنگ کا کام مجھے دیا۔ اس کام کا مجھے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا تاہم میراکام آپ کو پسند آیا لہٰذا تھوڑے عرصے بعد ہی مجھے اپنے دفترمیں مستقل بلالیا۔ مَیں نے آپ کو بہت ہمدرد، ملنسار اور ماتحتوں سے اچھا سلوک روا رکھنے والا افسر پایا۔ مکرم آغا سیف اللہ صاحب مینیجر تھے۔ مَیں اُنہیں ناصر ہوسٹل جامعہ احمدیہ میں اکٹھے رہنے کی وجہ سے جانتا تھا۔ مکرم سیفی صاحب کے ساتھ اُن کے بڑے دوستانہ اور برادرانہ مراسم تھے۔ مکرم یوسف سہیل شوق صاحب مرحوم نائب ایڈیٹر تھے۔ ایڈیٹوریل سٹاف میں مکرم عبدالمغنی زاہد صاحب، مکرم عبدالستار خاں صاحب مربی سلسلہ ، مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب مرحوم اور مکرم غلام مصطفیٰ صاحب کاپی پیسٹر شامل تھے۔ پروف ریڈنگ میں میرے علاوہ مکرم میاں عبدالمجید صاحب مرحوم تھے جو مکرم میاں عبدالحٔی صاحب مرحوم سابق مربی انڈونیشیا کے چھوٹے بھائی تھے۔ کاتب حضرات مکرم منور احمد صاحب بنگالی ، مکرم محمداعظم صاحب لنگاہ ، مکرم مظفر احمد صاحب بنگالی، مکرم سید تجمل حسین بخار ی صاحب اور مکرم ماسٹر منظور احمد صاحب تھے جو برآمدہ میں صفوں پر بیٹھ کر کتابت کیا کرتے تھے۔ ۱۹۹۳ء میں کمپیوٹر آیا تو اس کے انچارج عبدالباسط صاحب تھے، ان کے ساتھ نصیر احمد صاحب چودھری اور شفیق احمد صاحب کمپوزنگ کا کام کرتے تھے۔ دفتر کا ماحول بڑا ہی خوشگوار تھا۔ مکرم یوسف سہیل شوق صاحب اور مکرم آغاصاحب کی آپس میں طنزومزاح اور شستہ مذا ق والی نوک جھونک اس ماحول کو مزید خوشگوار بنادیا کرتی تھی۔ یہ دونوں آپس میں بڑے بےتکلّف دوست تھے اورہم نوالہ ہم پیالہ کے مصداق بھائی بنے ہوئے تھے۔ مکرم سیفی صاحب اور مکرم یوسف سہیل شوق صاحب کی راہنمائی اور ذاتی دلچسپی نے مجھے اسی قابل بنا دیا کہ مضمون بھی تحریر کر سکوں۔ چنانچہ قریباً آٹھ سال میں اندازاً۶۰؍مضامین مختلف موضوعات پر شائع ہوئے۔ مکرم سیفی صاحب کی خواہش تھی کہ ان مضامین کو کتابی شکل دی جائے تو وہ دیباچہ لکھیں۔ ضیاءالحق نے ۱۹۸۴ء میں محض ذاتی مذہبی تعصب و نفرت میں آرڈیننس جاری کیا تو مکرم قاضی منیر احمد صاحب پرنٹر، مکرم آغا سیف اللہ صاحب پبلشر و مینیجر اورمکرم نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل پر آئے روز پولیس کی طرف سے مختلف مقدمات بنتے رہتے تھے۔ نتیجۃً یہ تینوں گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو جاتے مگر سادہ کپڑوںمیں ملبوس پولیس دفتر اور گھروں پر چھاپے مارتی رہتی اور آخر گرفتار کرلیتی۔ ماہ رمضان تھا جب ان تینوں کو کبھی تھانہ ر بوہ کی چاردیواری میں مقید رکھا جاتا اور کبھی چنیوٹ کی حوالات میں نظربند کردیا جاتا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ بقول اکبر الٰہ آبادی ؎ رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں صعوبتیں اور تکالیف برداشت کرنے کے ۴؍سال بعد مکرم سیفی صاحب تو ۱۹؍مارچ ۱۹۹۹ء کو وفات پاگئے جبکہ دوسرے دونوں بزرگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مکرم سیفی صاحب اردو و انگریزی ہر دو زبانوں میں تحریر و تقریر میں پورا ملکہ رکھتے تھے اور فی البدیہہ تقریر کیا کرتے تھے۔ قادرالکلام مقرر اور ایک نامور شاعر بھی تھے۔ پاکستان کی بعض مایہ ناز صحافتی شخصیات گاہے گاہے ادارہ الفضل میں تشریف لاتی رہتی تھیں جیسے منو بھائی صاحب اور مستنصر حسین تارڑ صاحب وغیرہ ۔ آپ نے دونوں زبانوں میں کئی کتب تحریر فرمائیں۔ نائیجیریا میں قیام کے دوران The Truth جاری فرمایا جو آج بھی جاری ہے۔ تقریباًساڑھے دس سال آپ الفضل کے ایڈیٹر رہے۔ باوجود پیرانہ سالی کے اپنے فرائض بڑی محنت کے ساتھ بطریق احسن سر انجام دیتے رہے۔ اس دوران آپ کی اہلیہ محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ وفات پاگئیں تو اس صدمہ کو بہت محسوس کیا اور جدائی کا دکھ تھا کہ نتیجۃً دل کے مرض نے آپکڑا اور صرف ڈیڑھ سال بعد خود بھی وفات پاگئے۔ محترم سیفی صاحب کو خود لکھنے اور دوسروں کو ترغیب دلانے کا اس قدر شوق تھا کہ آپ کی وفات سے ایک روز قبل خاکسار عیادت کے لیے حاضر ہوا تو اس آخری ملاقات میں بھی آپ نے مجھے لکھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔ الفضل سے آپ کی فراغت ۱۱؍مارچ ۱۹۹۸ء کو ہوئی تھی جس کے بعد مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے اس ذمہ داری کو سنبھالا۔ الفضل کے مددگار کارکنان مکرم غلام رسول صاحب اور مکرم منیر احمد صاحب عرف لالہ جی بھی ہمیشہ مجھے یاد رہیں گے۔ ۳۰؍ستمبر ۱۹۹۸ء کو ادارہ حدیقۃالمبشرین کا جب اختتام ہوا تو دفتر الفضل سے وکالتِ دیوان تحریک جدید نے مجھے واپس بلالیا۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: جنیوا سوئٹزرلینڈ میں ہیومینٹی فرسٹ کی طرف سے جنگ زدہ علاقوں میں تعلیمی صورت حال پر سیمینار