خدا آسمان وزمین کا نور ہے۔یعنے ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے۔خواہ وہ ارواح میں ہے۔خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی۔اسی کے فیض کا عطیہ ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں۔وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے۔اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیروزبر کی پناہ ہے۔ وہی ہے جس نے ہریک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا۔بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو۔یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اُسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں۔یہ تو عام فیضان ہے جس کا بیان آیت اللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ میں ظاہر فرمایا گیا۔یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے جس کے فائض ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں۔لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہیں افراد خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے۔یعنی نفوس کا ملہ انبیاء علیھم السلام پر جن میں سے افضل و اعلیٰ ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسروں پر ہرگز نہیں ہوتا۔اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت باریک صداقت ہے اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے۔اس لئے خداوندتعالیٰ نے اول فیضان عام کو ( جو بدیہی الظہو ر ہے ) بیان کر کے پھر اس فیضان خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثال میں بیان فرمایا ہے کہ جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے۔مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاح۔ الخ۔ اور بطور مثال اس لئے بیان کیا کہ تا اس دقیقہ نازک کے سمجھنے میں ابہام اور دقت باقی نہ رہے۔کیونکہ معانی معقولہ کو صور محسوسہ میں بیان کرنے سے ہر یک غبی و بلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے۔بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ یہ ہے۔اس نور کی مثال ( فرد کامل میں جو پیغمبر ہے ) یہ ہے جیسے ایک طاق (یعنی سینه مشروح حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) اور طاق میں ایک چراغ ( یعنی وحی اللہ ) اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفّٰی ہے (یعنی نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیشہ سفید اور صافی کی طرح ہر یک طور کی کثافت اور کدورت سے منزہ اور مطہر ہے۔اور تعلقات ماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے ) اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا ان ستاروں میں سے ایک عظیم النورستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلتے ہیں جن کو کو کب دری کہتے ہیں ( یعنی حضرت خاتم الانبیاء کا دل ایسا صاف کہ کوکب دری کی طرح نہایت منور اور درخشندہ جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے ) وہ چراغ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے ( یعنی زیتون کے روغن سے ) روشن کیا گیا ہے (شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجو د مبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع واقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں۔بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علىٰ سبيل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا ) اور شجرۂ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی (یعنی طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔بلکہ نہایت توسط واعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود، جلد ۶ تفسیر سورہ النور ، صفحہ ۹۹ و ۱۰۰) مزید پڑھیں: یاد رکھو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا