مجھ سے ملنے میں انہیں عذر نہیں ہے کوئیدل پہ قابو نہیں اپنا یہی دشواری ہے پیاس میری نہ بجھی گر تو مجھے کیا اس سےچشمۂ فیض و عنایات اگر جاری ہے چاک کر دیجئے، ہیں بیچ میں جتنے یہ حجابمیری منظور اگر آپ کو دلداری ہے مر کے بھی دیکھ لو شاید کہ میسر ہو وصاللوگ کہتے ہیں یہ تدبیر بڑی کاری ہے میری یہ آنکھیں کجا رؤیتِ دلدار کجاحالتِ خواب میں ہوں مَیں کہ یہ بیداری ہے دل کے زنگوں نے ہی محجوب کیا ہے اس سےشاہد اس بات پہ اک پردۂ زنگاری ہے دشمنِ دین ترے حملے تو سب مَیں نے سہےاب ذرا ہوش سے رہیو کہ مری باری ہے نخلِ اسلام پہ رکھا ہے مخالف نے تَبَروا غیاثاہ کہ ساعت یہ بڑی بھاری ہے عشق کہتا ہے کہ محمودؔ لپٹ جا اُٹھ کررُعب کہتا ہے پرے ہٹ بڑی لاچاری ہے (اخبار الفضل جلد ۹۔ یکم اگست ۱۹۲۱ء بحوالہ کلام محمود صفحہ۱۰۳)