(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍ مارچ ۲۰۱۵ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آمد کے مقصد کی جن پانچ شاخوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے ایک شاخ اشتہارات کی اشاعت بھی ہے۔ یعنی تبلیغ اور اتمام حجت کے لئے اشتہارات کی اشاعت۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’آج میں نے اتمام حجت کے لئے ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں تا قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو میں نے پورا کیا۔‘‘ (اربعین نمبر1، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 343) اور پھر یہ چند اشتہار نہیں یا ایک مرتبہ نہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو اپنے دعویٰ سے پہلے سے لے کر وصال تک بیشمار اشتہارات آپ نے شائع فرمائے۔ یہ سب مذہبی دنیا کا ایک خزانہ ہیں۔ آپ کی ایک تڑپ تھی کہ مسلمانوں کو بھی، عیسائیوں کو بھی اور دوسرے مذہب والوں کو بھی تباہ ہونے سے بچائیں۔ آپ اکیلے یہ کام کرتے تھے اور اس کے لئے سخت محنت کرتے ہیں۔ بڑی بڑی تصنیفات تو آپ کی ہیں ہی۔ آپ کی ہمدردیٔ خلق کی تڑپ چھوٹے اشتہارات کے ذریعہ سے بھی دنیا کی اصلاح کا درد ظاہر کرتی ہے۔ دنیا کی اصلاح کے اس درد کو قائم رکھنا اور آگے چلانا یہ آپ کی جماعت کے افراد کا بھی فرض ہے۔ اس لئے اس طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد اور اس کے لئے غیر معمولی محنت کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ باوجود بیماری کے آپ رات دن لگے رہتے تھے اور اشتہار پر اشتہار دیتے رہتے تھے۔ لوگ آپ کے کام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔ ایک اشتہار دیتے تھے اس کا اثر دُور نہیں ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے مخالفت میں جو جوش پیدا ہوتا تھا وہ بھی کم نہ ہوتا تھا کہ دوسرا اشتہار آپ شائع کر دیتے تھے۔ حتیّٰ کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ ایسے موقع پر کوئی اشتہار دینا طبائع پر بُرا اثر ڈالے گا مگر آپ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ لوہا گرم ہی کوٹا جا سکتا ہے۔ اور ذرا سا جوش ٹھنڈا ہونے لگتا تو فوراً دوسرا اشتہار شائع فرما دیتے تھے جس کی وجہ سے پھر مخالفت کا شور بپا ہو جاتا۔ آپ نے رات دن اسی طرح کام کیا اور یہی ذریعہ کامیابی کا ہے۔ اگر ہم یہ ذریعہ اختیار کر لیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال نہ کرنا چاہئے کہ مخالفت کم ہونے دی جائے۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان مؤرخہ 9 نومبر 1943ء صفحہ2 جلد31 نمبر 263) مخالفت ہوتی رہے تو ساتھ ساتھ اشتہار بھی آتے رہیں تب ہی اثر بھی ہوتا ہے۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا ہی ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تبلیغ اشتہارات کے ذریعے ہوتی تھی۔ وہ اشتہارات دو چار صفحات پر مشتمل ہوتے تھے اور ان سے ملک میں تہلکہ مچا دیا جاتا تھا۔ ان کی کثرت سے اشاعت کی جاتی تھی۔ اس زمانے کے لحاظ سے کثرت کے معنی ایک دو ہزار کی تعداد کے ہوتے تھے۔ بعض اوقات دس دس ہزار کی تعداد میں بھی اشتہارات شائع کئے جاتے تھے لیکن اب ہماری جماعت بیسیوں گنا زیادہ ہے۔ اب اشتہاری پروپیگنڈا یہ ہو گا کہ اشتہارات پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں۔ پھر دیکھو کہ اشتہارات کس طرح لوگوں کی اپنی طرف توجہ کھینچ لیتے ہیں۔ اگر اشتہارات پہلے سال میں بارہ دفعہ شائع ہوتے تھے اور اب خواہ سال میں دو تین دفعہ ہی کر دیا جائے اور صفحات دو چار پر لے آئیں لیکن وہ لاکھ لاکھ، دو دو لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں تو پتا لگ جائے گا کہ انہوں نے کس طرح حرکت پیدا کی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد33 صفحہ6،5۔ الفضل 11جنوری 1952ء) تین چار سال پہلے مَیں نے جماعتوں کو کہا تھا کہ ورقہ دو ورقہ بنا کر تبلیغ کا کام کریں اور اس کا ٹارگٹ بھی دیا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں ہونا چاہئے جس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بھی دنیا کو پتا لگے۔ دنیا کو یہ پیغام ملے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کو پیغام ملے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر پھر سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ فرمائی ہے اور حقیقی تعلیم کو جاری فرمایا ہے۔ یہ دنیا کو پتا لگے کہ اب بھی خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان سے بچانے کے لئے اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے۔ بہر حال جن جماعتوں نے اس سلسلے میں کام کیا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مثبت نتائج نکلے ہیں۔ سپین میں جامعہ کے طلباء کو میں نے بھیجا تھا انہوں نے وہاں بڑا کام کیا اور تقریباً تین لاکھ کے قریب مختلف پمفلٹ تقسیم کئے۔ اسی طرح اب جامعہ کینیڈا کے طلباء نے سپینش ممالک میں اور میکسیکو میں جا کر یہ اشتہارات تقسیم کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے تبلیغ کے میدان بھی بڑے وسیع ہوئے ہیں اور بیعتیں بھی ہوئی ہیں۔ پس اس کے لئے ایک کے بعد دوسرا دو ورقہ شائع ہوتے رہنا چاہئے اور اس کو تقسیم کرتے چلے جانا چاہئے بجائے اس کے کہ بڑی بڑی کتابیں تقسیم کی جائیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اشتہارات کی اشاعت کے بارے میں ہی کہ کس طرح ہونی چاہئے، اظہار خیال فرماتے ہوئے ایک جگہ ضمناً یہ بھی فرمایا کہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ خود ہی اشتہار شائع کریں۔ اُس زمانے میں بھی چاہتے تھے۔ اب بھی گو اس تعداد میں تو نہیں کر سکتے لیکن بہر حال اپنے طور پر کچھ نہ کچھ لوگ چاہتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’چاہئے یہ کہ جو اشتہارات مرکز سے شائع کئے جائیں انہیں تقسیم کیا جائے اور ان کی اشاعت بڑھائی جائے۔ خود اشتہارات شائع کرنے میں بعض اوقات خود پسندی بھی آ جاتی ہے کہ میرا نام بھی نکلے اور یہ ایسا سخت مرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے متعلق ایک قصّہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ (یعنی خود پسندی یا اپنا اظہار کرنے کا، اپنی پروجیکشن (projection) کا بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک قصہ بیان فرماتے تھے کہ) ایک عورت تھی اس نے انگوٹھی بنوائی مگر کسی عورت نے اس کی تعریف نہ کی۔ ایک دن اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی اور جب لوگ اکٹھے ہوئے تو کہنے لگی صرف یہ انگوٹھی بچی ہے اور کچھ نہیں بچا۔ کسی نے پوچھا یہ کب بنوائی ہے؟ کہنے لگی اگر یہ کوئی پہلے پوچھ لیتا تو میرا گھر ہی کیوں جلتا۔ غرض شہرت پسندی ایسا مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اسے گُھن کی طرح کھا جاتا ہے اور ایسے انسان کو پتا ہی نہیں لگتا۔‘‘ (اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد13 صفحہ 340) یہ صرف اشتہاروں کی بات نہیں ہے۔ باقی معاملات میں بھی جب خود پسندی اور شہرت کی بات دماغ میں سماجائے اور انسان اس کے لئے کوشش کرے تو پھر اس کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا بلکہ نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اب تو تبلیغ کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر پمفلٹ شائع کرے تو وہ بہت معمولی ہو گا لیکن بہر حال اپنے حلقے میں ہی خود پسندی کا تھوڑا بہت اظہار ہو جاتا ہے لیکن اگر نیک نیتی سے ہو، یہ بھی نہیں کہ ہر کوئی صرف خود پسندی کی خاطر کر رہا ہوتا ہے بعض نیک نیت بھی ہوتے ہیں تو جہاں خود شائع کر رہے ہوں اگر ان کے خیال میں وہ اچھی چیز ہے تو پھر اسے وسعت بھی دینی چاہئے، پھیلانا چاہئے۔ اس لئے اگر کوئی فائدہ مند خیال کسی کے دل میں آتا ہے جس سے اشتہار بہتر طور پر بن سکے اور جاذب نظر بھی ہو۔ لوگوں کی توجہ کھینچنے والا بھی ہو، مضمون بھی اس میں اچھا ہو تو وہ جماعتی نظام کو پھر دے دینا چاہئے۔ اگر اس قابل ہو تو پھر جماعتی نظام اس کو شائع کرتا ہے۔ ٭…٭…٭