’’بچو! خالی گھر دیکھ کر یہ خیال مت کرنا کہ تمہارے ابا تمہارے لیے کچھ چھوڑ کر نہیں گئے۔ وہ تمہارے لیے دعاؤں کا ایک خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔۔۔‘‘ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے یہ مشہور الفاظ بانی جماعت حضرت اقدس مسیح موعودؑکی وفات کے وقت ادا فرمائے۔ مگر جو بات زیادہ مشہور نہیں وہ یہ ہے کہ اس سے کچھ دیر پہلے حضرت اماں جانؓ نے اپنا بہت سازیور اور زمین بیچ کر حضرت مسیح موعودؑ کے ذمہ جو کچھ قرض تھے ادا فرمائے۔ یعنی اپنی بھی جمع پونجی مسیح موعودؑ کی راہ میں قربان کردی۔سو یہ الفاظ ادا فرماتے وقت حضرت اماں جان ؓ کو نہ صرف معلوم تھا کہ گھر خالی ہے، بلکہ بہت سے اثاثے خود راہِ مولا میں قربان کر کے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ نے بھی تو اپنا باغ، جس میں آپ کے سب بچوں کا حصہ تھا، بہشتی مقبرہ کے لیے وقف فرمادیا تھا۔ یہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے اہلِ خانہ کی راہِ مولا میں قربانی کی چھوٹی سی مثال ہے۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ مینارۃ المسیح کی تعمیر کے لیے چندہ ہو، یا کسی بھی دینی غرض کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے جاری فرمودہ کوئی بھی مالی تحریک، آپؑ کی زوجہ محترمہ، ام المومنین حضرت اماں جانؓ صفِ اوّل میں موجود نظر آتی ہیں۔ ایک بار کسی دینی غرض کے لیے روپیہ کم تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کو بجز قرض لینے کے کوئی اور راہ دکھائی نہ دیتی تھی۔ حضرت اماں جان نے اپنا زیور اور اپنی مملوکہ زمین کا کچھ حصہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش فرمادیا کہ قرض نہ لیں، یہ فروخت کر کے دینی غرض کو پورا فرمالیں۔ حضورؑ نے یہ عطیہ قبول تو فرمایا مگر بطور رہن کے اور اسے اسلامی طریق پر بطور معاہدہ ضبطِ تحریر میں لائے۔ ایسے ماں باپ کی گود میں پلنے والے بچے بھی دین کی راہ میں قربانی پیش کرنے والوں کی صفِ اوّل میں رہےاور پھر وقت کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی دعا قبول ہوتی چلی گئی کہ ’’اک سے ہزار ہوویں‘‘، اور ان پانچ بچوں کی نسلیں چلیں اور دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ ان کی نسلوں میں بھی دین کی راہ میں قربانی کا زبردست جذبہ نظر آتا رہا اور آج تک آتا ہے۔ مالی قربانیوں کی تفصیل نہ صرف یہ کہ طویل ہو جائے گی، بلکہ اس میں ایک دقت راقم کو یہ پیش آئے گی کہ افرادِ خاندان کی بعض قربانیاں تو معلوم ہو گئیں، بے شمار ایسی ہیں جو اخفا میں کی گئیں اور شایدکبھی بھی معلوم نہ ہوسکیں۔ احمدیوں کو پیش آنے مصائب اور شدائد کا ذکر کریں تو جہاں ہر احمدی نے مشکل سے مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اوراپنے دین کو ہر چیز پر مقدم رکھا، وہاں خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے افراد ان سب کے لیے عملی نمونہ بنے رہے اور ہر طرح کی قربانی کے لیے پیش پیش رہے۔ حال ہی میں ربوہ میں نمازِ جمعہ کے دوران مسجد مہدی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔ جو معصوم احمدی اس کی زد میں آئے، ان میں بھی خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان محمد احمد صاحب (حضرت مصلح موعودؓ کے پر پوتے ہیں)بھی شامل تھےجو ڈیوٹی پر تھے۔ یہ شدید زخمی ہوئے اور life-changing زخموں سے دوچار ہوئے۔ وہ حفاظتِ مرکز کی ذمہ دار ٹیم کا حصہ تھے اور اس وقت راؤنڈ پر تھے۔ اس ٹیم میں ان کے دیگر ساتھی بھی زخمی ہوئےصباح الدین صاحب اور عمران بٹ صاحب کو فائرنگ سے شدید زخم پہنچے۔ اسی طرح ارسلان احمد صاحب صاحب، اسامہ سعید صاحب اور عمران شاہ صاحب بھی فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ہوئے۔ وہ موقع پر پہنچے اور ایسے میں پہنچے کہ ان کے اور دہشت گردکی چلائی ہوئی گولی کے درمیان کچھ اور حائل نہ رہا۔ انہوں نے یہ زخم جماعت احمدیہ اور اہالیان ربوہ کی محبت میں لیا۔ زخم پیچیدہ تھا مگر بہادری سے مقابلہ کیا اور اللہ کے فضل سے روبہ صحت ہیں۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے تعلق رکھنے والے ان نوجوان کی مثال سے ذہن دیگر افرادِ خاندان کی قربانیوں کی طرف چلا گیا۔ ان قربانیوں کا مکمل احاطہ تو محال ہوگا، مگر تاریخ کے جھروکوں سے ایک مختصر نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ جھلکیاں بھی بہت ایمان افروز ہیں۔ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ترقیات سے نوازنا شروع کیا تو دشمن کا حسد میں بڑھ جانا فطری امر تھا۔ حاسدین جب دلیل کی سطح پر ہار گئے، خود ترقی کر کے جماعت کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ناکام رہے، مناظروں اور مباحثوں میں ناکام رہے، تو انہوں نے کسی بھی سچے مذہب کے دشمنوں کی راہ اپنائی اور جماعت کے سربراہ پر غلیظ اور گھناؤنے الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ الزامات جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ، المصلح الموعود کے کردار پر لگائے جاتے اور سخت دل آزار ہوتے۔ ایسے دل خراش کہ مضبوط سے مضبوط آدمی کی کمر توڑ دیں۔ مگر حضرت مصلح موعودؓ نے تمام الزامات کا ہمیشہ جواب دیا اور اپنی جماعت کی قیادت کی خداداد ذمہ داری پوری جانفشانی سے ادا فرماتے چلے گئے۔ اسی طرح کے طوفانِ بد تمیزی میں فخر الدین ملتانی کا قتل ہوگیا۔ الزام لگایا گیا کہ حملہ آور نے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبہ سے انگیخت ہو کر حملہ کیا اور فخرالدین ملتانی جاں بحق ہو گیا۔ اس سلسلہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کو تھانے میں حاضر ہونے کا حکم نامہ جاری ہوا۔ یہ بات اگرچہ ساری جماعت کے لیے سخت تکلیف کا باعث ہوئی مگر قانون کی پاسدار ی میں حضرت مصلح موعودؓ پولیس کے سامنے پیش ہوئے اور حقیقت ِ احوال سے آگاہ کر کے معاملات کو حل فرمایا۔ جن دنوں امام جماعت احمدیہ پر گھٹیا الزامات کا سلسلہ جاری تھا اور اقدامِ قتل کے جھوٹے الزامات تک سے گریز نہ کیا جاتا تھا، انہی دنوں کے لگ بھگ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کو تکلیف پہنچانے کی ایک اور راہ نکالی گئی۔ جولائی 1935 میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ صاحب اپنے سائیکل پر قادیان میں دفتر سے واپس گھر تشریف لے جارہے تھے۔ ایسے میں آپ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ حملہ آور کی لٹھ اس طرح نشانے پر نہ بیٹھی جیسے نے اس نے نشانہ باندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی حفاظت فرمائی۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ان پر خطر ایام میں حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان کے مقاماتِ مقدسہ اور اہالیانِ قادیان کی حفاظت کی غرض سے ایک شعبہ نظامتِ خاص کے نام سے قائم فرمایا تھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ صاحب کو اس کا نگران مقرر فرمارکھا تھا۔ حملہ آور نے حفاظتِ مرکز کے نگران کو نشانہ بنانا چاہا کہ یوں قادیان بھر کی حفاظت داؤ پر لگ جاتی۔ یوں اس سازش نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ صاحب کو یہ قربانی پیش کرنے والا بنا دیا اور آپ نےخود کاری ضربیں کھا کر مرکزِ احمدیت کو محفوظ رکھنے کی سعادت پائی۔ تقسیم ہند کے خوں چکاں واقعے نے برصغیر میں بسنے والے افراد سے لے کر نسلی اور لسانی گروہوں، مذہبی اور سیاسی جماعتوں، خاندانوں اور قبیلوں کو ایک اذیت ناک تجربے سے گزارا۔ جماعت احمدیہ بھی اس سے مستثنا نہ رہی۔ افرادِ جماعت بھی دوسرے متاثرین کی طرح گھر سے بے گھر تو ہوئے ہی، مگر انہیں اپنے مقدس مرکز قادیان کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔ ایسے میں مرکزِ احمدیت قادیان کی حفاظت کے لیے چنیدہ افراد کو انتہائی خطرناک حالات میں قادیان ہی میں رک کر حفاظتِ مرکز کی ذمہ داری ادا کرنے کا حکم ہوا۔ ان احباب میں حضرت مصلح موعودؓ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے افراد کو یہ ذمہ داری سپرد فرمائی۔ حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب کو امیر مقامی مقرر فرمایا جو قادیان کی حفاظت کی تمام تدابیر کے نگران ٹھہرے۔ صبح و شام ہنگاموں اور فسادات کے بادل منڈلاتے رہتے۔ کبھی جتھوں کے جتھے حملہ آور ہوتے، کبھی پولیس اور فوج ناجائز چھاپے مار کر قادیان کے مقامات کو ہتھیالینے کی کوشش میں لگے رہتے۔ ان نامساعد حالات میں حضرت مرزا بشیر احمدؓ،یعنی بانی جماعت احمدیہ ؑ کے منجھلے فرزند، خود کو خطرے میں ڈال کر حفاظت مرکز کی ذمہ داری ادا فرماتے رہے۔ ان ایام کے حالات کی دل دہلا دینے والی تفصیل ان کے دو خطوط سے ظاہر ہوتی ہے جو آپ نے 2 ستمبر 1947 اور 22 ستمبر 1947 کو قادیان سے حضرت امام جماعت احمدیہ ؓ کے نام تحریر فرمائے اور حالات سے آگاہ کیا۔ اسی طرح ایک روزنامچہ بھی حضور کی خدمت میں ارسال فرمایا جاتا جس میں نہایت پرخطر حالات کی تفصیل درج ہے۔ (تاریخ احمدیہ، جلد یازدہم، ص 150 سے جاری) یوں حضرت مسیح موعودؑ کے ایک فرزند کومحافظینِ مرکزِ احمدیت کی صفِ اوّل میں رہ کر اپنی جان خطرے میں ڈال کر صف آرا رہنے اور نازک معاملات کو سنبھالنے کی توفیق ملی۔ جب حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب کو قادیان سے ہجرت کرجانے کا ارشاد موصول ہوا، تو حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مرزا عزیز احمد ؓ صاحب کو امیر مقامی قادیان مقرر فرمایا۔ یوں ان خطرناک حالات میں حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے کی جگہ آپؑ کے پوتے یعنی حضرت مرزا عزیز احمد ؓ صاحب (ابن صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب)نے لے لی اور مرکزِ احمدیت کو درپیش شدید خطرات کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ اس تمام عرصے کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان سے احمدیوں کے بحفاظت انخلا کی ذمہ داری حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے سب سے بڑے فرزند حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدؒ صاحب کے سپرد فرمائے رکھی۔ آپ نے تقسیم ہند کے اس مشکل ترین مرحلے، یعنی اگست 1947 سے لے کر نومبر 1947 تک احمدیوں کو بحفاظت سرحد پار پاکستان پہنچانے کی کٹھن ذمہ داری اپنی جان خطرات میں ڈال کر ادا فرمائی۔ اپنی اہلیہ سیدہ منصورہ بیگم (جو ہجرت کے کر کے پاکستان جا چکی تھیں) کو ایک خط میں تحریر فرمایا: ’’ظاہری حالات دگرگوں ہیں۔ حیلے سب جاتے رہے تو رب و رحمان خدا کے سہارے کے سوا کچھ باقی نہیں۔ چار پانچ ہزار عورتیں اور بچے قادیان میں پھنسے پڑے ہیں۔ ان کے نکالنے کا انتظام کرنا ہے۔ بڑا ہی مشکل کام نظر آتا ہے۔۔۔ لوگ تو دو آگوں میں ہوتے ہیں ہم بہت سی آگوں میں ہیں۔ مگر ’آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘۔ اس لیے گھبرانے کی وجہ نہیں۔۔۔‘‘ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ (قبل از خلافت کی تصویر) اسی طرح ایک اور خط میں تحریر فرمایا: ’’خدا تعالیٰ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ وقتی ابتلا ہیں۔ وقت گزرجائے گا مگر یہ حالات جماعت کی تاریخ میں تاقیامت یاد رہیں گے۔ میری طبیعت پر ذرہ بھر بوجھ نہیں ہے۔۔۔ حضور کی کمزوریٔ صحت ضرور دکھ میں رکھتی ہے۔ خدا کی امان میں تم سب اور ہمارے بزرگ۔ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ خدا کی مدد بھی قریب ہے۔ بالکل پریشان نہ ہونا۔‘‘ بعد میں ان ایام کو یاد کرتے ہوئے حضرت مرزا ناصر احمدؒ صاحب نے ایک حیران کن واقعہ بیان فرمایا۔ قادیان میں آکر پناہ لینے والے صرف مرد ہی نہیں عورتیں بھی تھیں۔ یہ لٹے پٹے غریب لوگ تھے جن کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑے بھی بمشکل تھے۔ ان غریب عورتوں کے لیے کپڑوں کا فوری سامان کہاں سے کیا جاتا؟ شہر کے شہر اور قصبوں کے قصبے ہنگاموں کی زد میں تھے: ’’میں نے سوچا کیا کروں۔ میرے اپنے گھر منصورہ بیگم کے جہیز کے کپڑے تھے جو نواب محمد علی خان صاحب نے بڑے قیمتی قیمتی جوڑے شادی کے وقت دیے تھے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ دودو ہزار روپے جوڑے کی قیمت ہوگی۔ میں نے سوچا میں ذمہ دارہوں اگر میں نے پہلے اپنے صندوق نہ کھلوائے تو میرے اوپر جائزاعتراض ہوگا۔ چنانچہ میں نے اپنے گھر کے زنانہ کپڑوں کے سارے صندوق کھلوا کر کپڑے عورتوں کے لیے بھیج دیے اور ایک جوڑا بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ مجھے پتہ تھا کہ ابھی اور مانگ ہوگی کیونکہ ابھی تو کچھ تھوڑی سی ضرورت پوری ہوئی ہے۔ اور بہت سی عورتیں اسی طرح پھر رہی ہیں۔ پھر میں نے کہا اب میرا ضمیر صاف ہے۔ میں نے اپنی بہنوں کے صندوقوں کے تالے تڑوادیے۔ بھائیوں کی بیویوں حتیٰ کہ اپنی ماؤں اور چچیوں سب کے صندوق کھول کر کپڑے ان عورتوں کو دے دیے اور اس طرح ان کا تن ڈھانپا۔۔۔‘‘ اس واقعے سے نہ صرف حضرت مرزا ناصر احمدؒصاحب کی قربانی کی روح نظر آتی ہے، بلکہ ان کے ذریعے سے خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی خواتین کی قربانی بھی سامنے آتی ہے۔ یہ سب خواتین بھی کم سے کم سامان کے ساتھ ہجرت کر گئی تھیں۔ جو اسباب اس امید پر چھوڑا تھا کہ کبھی ان تک پہنچ جائے گا، وہ سب آفت زدہ خواتین کے کام آگیا اور یوں خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی بہت عظیم قربانیوں میں یہ قربانی بھی شامل ہو گئی۔ ان ایام میں صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو بھی قربانیوں کو توفیق ملی۔ اور جب یہ افرادِ خاندان پاکستان ہجرت کرگئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک اور فرزند صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو مستقل قادیان بھیج دیا جو ہر طرح کے نازک حالات سے نبردآزما رہے اور تادمِ وفات قادیان ہی میں مقیم رہے۔ مرزا منور احمد صاحب مرزا وسیم احمد صاحب جب پاکستان معرضِ وجود میں آگیاتو جماعت احمدیہ کے ساتھ وہاں کیا سلوک ہوا اور آج تک ہو رہا ہےاس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سبھی جانتے ہیں۔ بغض اور عناد پر مبنی جو تحریکات دھیمی آنچ پر چلی آتی تھیں، ان کی آنچ بڑھا دی گئی۔ اس نومولود ریاست کی باگیں ملاؤں کے ہاتھوں میں دے دی گئیں اور دین کے ان ٹھیکے داروں نے اپنا پورا زور لگا نا شروع کردیا کہ کوئی احمدی کبھی ریاست کے کلیدی عہدے پر نہ پہنچ سکے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت چوہدری ظفراللہ خانؓ وزیر خارجہ تھے۔ اس تحریک کی بنیاد تو اس بات کو بنایا گیا کہ سر ظفراللہ خانؓ ’’قادیانی‘‘ ہیں اور انہیں فوری برطرف کیا جائے، مگر ساتھ یہ مطالبہ بھی لگا دیا گیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی اٹھنے والا یہ مطالبہ 1953 تک ایک باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر گیااور احمدیوں کے خلاف متشدد قسم کے مظاہرے ہونے لگے۔ احمدیوں کے گھروں اور کاروباروں کو لوٹنا اور نذرِ آتش کردینے کا سلسلہ بھی شروع تھا اور ساتھ من گھڑت الزامات کے سلسلے بھی شروع ہو گئے۔ انہی ایام کا واقعہ ہے۔ ربوہ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدؒ صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ صاحب لاہور میں مقیم تھےکہ انہیں ایک بے بنیاد الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ آپ کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا گیا جس نے آپ دونوں صاحبزادگان کو پانچ پانچ سال قید بامشقت اور پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی۔یہ صاحبانِ اختیار کی طرف سے تمام جماعت احمدیہ کو اذیت پہنچانے کی ایک گھناؤنی کوشش تھی۔ اس درد کو جماعت نے کس طرح محسوس کیا، اس کی عکاسی حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ صاحبہ کے ان اشعار سے ہوتی ہے کہ چِلّاؤ کوئی جا کے مزارِ مسیح پر نصرت جہاں کی گود کے پالوں کو لے گئے جائے گرفت ہاتھ نہ آئی تو بد سرشت دھبہ لگا کے نیک خصالوں کو لے گئے آقا تمہارے باغ میں داخل ہوئے عدو گلزارِ احمدی کے نہالوں کو لے گئے یوں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک فرزند اور ایک پوتے نے جماعت احمدیہ کے تحفظ کی خاطر قیدو بند کی صعوبت کو خود برداشت کر لیا۔ خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے پانچ سال کی قید دو ماہ کی مدت میں بدل دی گئی اور یکم اپریل 1953 کو اسیر راہِ مولیٰ بنائے جانے والے خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ کے یہ سپوت 28 مئی کو باعزت بری اور رہا کردیے گئے۔ معاندین کے حسد کی آگ ٹھنڈی نہ پڑی اور وہ طرح طرح کے حربے آزماتے رہے۔ خاندان حضرت اقدسؑ کے افراد کو نشانہ بنانے کا کام بھی جاری رہا۔ انہیں معلوم تھا کہ بانیٔ جماعت سے عقیدت کے باعث آپؑ کے خاندان کے کسی بھی فرد کو پہنچنے والا زخم تمام جماعت کے لیے درد اور اذیت کا باعث ہوگا۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، جو ایم ایم احمد کے نام سے معروف ہیں، 1971 میں صدرِ پاکستان کے اقتصادی مشیر تھے۔ یہ ایک اہم عہدہ تھا اور معاندین کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھاتی تھی کہ کسی بھی کلیدی عہدے پر نہ صرف یہ کہ احمدی بلکہ حضرت بانیٔ جماعتؑ کا پوتا فائز ہو۔ مرزا مظفر احمد صاحب 15 ستمبر 1971 کو ایم ایم احمد صاحب ایک سرکاری دفتر کی لفٹ میں تھے کہ ایک معاندِ جماعت نے آپ پر چاقو سے حملہ کیا۔ آپ نے حملہ آور کو قابو کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر اس کوشش میں آپ کے ہاتھ اور ٹانگ پر گہرے زخم آئے اور بہت سا خون ضائع ہوا۔ حملہ آور بعد میں کھل کر معاندِ احمدیت کے طور پر سامنے آیا مگر اس وقت اللہ تعالیٰ نے ایم ایم احمد صاحب کی حفاظت فرمائی اور زیادہ نقصان نہ ہوا۔ تاہم کئی دن ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ اس کےبعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کے اہم اقتصادی عہدوں پر خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔ پاکستان میں اعلیٰ پائے کے ماہرین اقتصادیات آپ کے شاگر تھے اور آپ کو بے حد احترام کی نظر سے دیکھتے رہے۔ آپ کی پاکستان کے لیے خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ جنرل ضیاالحق کے دور اقتدار میں اجتماعات کے حوالے سے اور دیگر بہت سے من گھڑت مقدموں میں بہت سے احمدیوں کو امتناعِ قادیانیت کے نام پر وضع کردہ قوانین کے تحت تکالیف سے دوچار کیا گیا۔اس دور میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کوبھی ہراست میں لیا گیا اور کچھ وقت حوالات میں اسیر رکھا گیا۔ محترم میر محمود احمدناصر صاحب مرحوم پر بھی ایک بے بنیاد مقدمہ چلایا گیا اور اسیر بھی رکھا گیا۔ جھوٹے مقدموں میں بہت سے احمدیوں کو صعوبتیں اٹھانا پڑیں جن میں خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے بعض افراد بھی ہمیشہ شامل رہے ہیں۔ جھوٹے الزامات لگانے کی تحریک میں لہریں ابھرتی ڈوبتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقیات عطا فرماتا رہا۔ دشمن کا حسد بھی فطری طور پر راست متناسب رہا۔ 1999 تک مخالفت بہت ہی ظالمانہ رخ اختیار کرچکی تھی۔ اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب جماعت احمدیہ پاکستان کے امیر مقامی تھے۔ معاندینِ جماعت نے حضرت صاحبزادہ صاحب پر جھوٹا الزام لگایا کہ آپ نے ربوہ کا سرکاری نام چناب نگرمٹا کر اس کی جگہ ربوہ لکھا ہے اور یہ کہ قرآنی آیت کو مٹا کر معاذاللہ توہینِ قرآن کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹا الزام تھا۔ تاہم پولیس نے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کو چند اور احمدی احباب کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ آپ گیارہ دن جیل کے ایک سیل میں راہِ مولا کے اسیر رہے۔ یہ واقعہ اور یہ گیارہ دن تمام جماعت کے لیے شدید کرب کے دن تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب پر بھی آپ کے دادا حضرت مرزا شریف احمدؓصاحب کی طرح جھوٹا الزام لگا کر آپ کو بھی قید و بند کی صعوبت میں سے گزارا گیا۔ دشمن کو معلوم تھا کہ جماعت میں آپ کے منصب، آپ کی نیکی اور شرافت اور نجابت، اور آپ کا خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا فرد ہونا جماعت کے لیے ہزار بندوں کی گرفتاری سے بھی زیادہ کرب انگیز ہوگا۔ مگر خدا تعالیٰ نے نہ صرف حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی باعزت بریت اور رہائی کا سامان بہت جلد فرمادیا، بلکہ آپ کو جماعت احمدیہ کی امام اور حضرت مسیح موعودؑ کے پانچویں خلیفہ کے منصب پر بھی متمکن فرمادیا۔ آپ کے دورِ خلافت میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بے پناہ ترقیات سے نوازا ہے اور نوازتا چلا جا رہا ہے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے کسی فرد کے ذریعے جماعت احمدیہ کو تکلیف پہنچانے کی ایک کوشش اسی مہینے کے آغاز میں کی گئی تھی۔ اس گرفتاری سے پہلے اسی مہینے ایک اور دردناک واقعہ گزر چکا تھا۔ 14 اپریل 1999 کو صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کو نہایت سفاکی سے شہید کر دیا گیا۔ جماعت احمدیہ کے خلاف جس سازش کا جال بنُا جا رہا تھا، اس میں صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب سے حساس معلومات نکلوا کر سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا منصوبہ تھا۔ مرزا غلام قادر شہید صاحب صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کو موت سامنے کھڑی نظر آئی مگر آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ آپ نےدین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ایک ایسا عظیم الشان نمونہ پیش کیا کہ آپ کو شہید کردیا گیا اور آپ نے جماعت احمدیہ کی خاطر یہ جامِ شہادت نوش فرمالیا۔ صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب نے اپنی اہلیہ اور نوعمر بچے پسماندگان چھوڑے۔ ان کی ایک بچی بڑی ہوئی اور اس کی شادی سید طالع احمد صاحب سے ہوئی۔ طالع خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا ایک واقفِ زندگی نوجوان تھا۔ جماعتی کام کے سلسلہ میں غانا میں سفر کی حالت میں گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوا اور اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس محبت سے اس نوجوان کا ذکر فرمایا، اس کے بعد کچھ بھی کہنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔ حضرت صاحب نے تو اسے خاندان کا ایک ایسا فرد قراردیا جو خلافت سے محبت اور وابستگی میں اپنی مثال آپ تھا۔ اب اگر دیکھیں تو یہ صرف طالع شہید کی قربانی ہی تو نہیں۔ ان کی بیوہ ان کے بچے سب اس قربانی میں حصہ دار ہیں۔ یہ صالح طالع نوجوان تو اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگیا، اورقربانی کا ایک لمبا سلسلہ نباہنے کے لیے اس کے اہلِ خانہ، جو خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے ہیں، پیچھے رہ گئے جو بڑے صبر سے قربانی کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کررہے ہیں۔ سید طالع احمد شہید خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے بہت سے افراد پر جھوٹے مقدمات یا پاکستان کے احمدیہ مخالف قوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سے مقدمات درج کروائے گئے۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا رہا اور آئندہ بھی فرماتا رہے۔ پس جہاں ہر احمدی آنحضورﷺ کی آخری جماعت کی سربلندی کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لیے ہر دم تیار ہے، وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد ایک ایسا نیک نمونہ پیش کرتے رہے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں جو ہر احمدی کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ ہم نے دیکھا ہے اور سواسو سال سے زائد کی تاریخ گواہ ہے کہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ نے خود کو عام احمدی سے بالا نہیں سمجھا۔ بلکہ خود کو ہر قربانی کے لیے دوسرے احمدیوں ہی کی طرح خود پیش کیا ہے۔ بلکہ انہیں تو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور انہوں نے کبھی بھی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ یہ یقیناً حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں اور آپ کے عملی نمونے کا فیض ہے۔ مالی قربانی کی تحریکات میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے کر آج تک تمام خلفاء سب سے پہلے خود اپنی طرف سے قربانی پیش کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی قربانیوں کا ذکر راقم کرے تو چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ ہوگا۔ بہت کچھ تو یوں بھی مخفی ہے۔ مگر ہم سب کی فلاح و بہبود کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ روزانہ نہیں بلکہ روزانہ کئی مرتبہ کئی قربانیاں پیش فرماتے ہیں۔ ہمارے پاس ان قربانیوں کا بدل نہیں۔ نہ الفاظ ہیں کہ تشکر کے جذبات کا اظہار کر سکیں۔ اللھم اید امامنا بروح القدس۔