مسجد کا نام سنتے ہی ہرمسلمان کے ذہن میں ایسی جگہ کا تصور اُبھرتا ہے جو توحید کی علامت اور امن کا گہوارہ ہے۔یہ وہ جگہیں ہیں جو خالصتاًللہ تعمیر کی جاتی ہیں تاکہ ہر خاص وعام جب اور جس وقت چاہے یہاں حاضر ہوکرمعبودِ حقیقی کی عبادت سے لطف اندوز ہوسکے۔ اسلام کے آغاز سے مساجد عبادت کا بنیادی مرکز، اسلامی تہذیب وتمدن، تعلیم وتربیت اور تہذیب وثقافت کا گہوارہ رہی ہیں۔ مساجد مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی علامت اور اُن کی وحدت کا اہم ذریعہ ہیں۔ مومن اور مسجدباہم لازم وملزوم ہیں اِنہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔مسجد میں عبادت کی نیت سے آنے والا دنیا ومافیہا کی ہر سوچ اور فکر سے آزاد ہوکر مالکِ حقیقی کے دربار میں حاضر ہوجاتاہے۔وہ اپنے دل کے نہاں خانوں کو اُس کی یاد سے آباد کرتا ہے تاکہ اس ذریعہ سے یہ تعلق مضبوط ہو۔ مسجد عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سجدہ کرنے کی جگہ ہیں۔ سَجَدَ سَجُودًاکے معنی عاجزی اور انکساری سے جھکنا بیان ہوئے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اختیار کرنا اور اس کی عبادت بجالانے کوسجود کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کی اہم علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ (التوبۃ:۱۸) اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔اگرچہ ا للہ تعالیٰ نے ساری زمین کو پاک قرار دے کرمسلمانوں کے لیے سجدہ گاہ بنادیاہے تاکہ اُنہیں نمازوں کی ادائیگی میں کسی مشکل اور دشواری کا سامنا نہ ہو۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَھُوْرًا وَاَیُّمَا رَجُلٍ مِّنْ اُمَّتِیْ اَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ فَلْیُصَلِّ (صحیح البخاری کتاب الصلٰوۃ بَاب قَوْلُ النَّبِیِّ ﷺ جُعِلَتْ لِیَ الْأَرضُ…حدیث:۴۳۸)تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاک بنائی گئی ہے۔اس لیے میری امت میں سے جس شخص کو جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام میں مساجد کی تعمیر پر بہت زور دیا گیا ہے تاکہ اُس کے ماننے والے اُن برکات سے فیضیاب ہوتے رہیں جو اجتماعیت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اَحَبُّ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ مَسَاجِدُھَا وَ اَبْغَضُ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ اَسْوَاقُھَا(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب فَضْلِ الْجُلُوسِ فِی مُصَلَّاہُ بَعْدَ الصُّبْحِ وَ فَضْلِ الْمَسَاجِدِ حدیث:۱۰۶۸) اللہ کو سب سے زیادہ پسند جگہوں میں سے ان کی مساجد ہیں۔ پس جو جگہیں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ہیں وہ جگہیں دوسری جگہوں کی نسبت زیادہ خیر اور برکت کا موجب ہیں۔یقیناً ایسی جگہوں پر اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے نازل ہوتے ہیں جن کی موجوگی ان کو آباد کرنے والوں کے لیے سکینت کا باعث ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کو مومن کا گھر قراردیا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ دیراپنے اس گھر میں قیام کرے اور اس کے ساتھ وابستہ برکات سے اپنا دامن بھرتا رہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے:اَلْمَسْجِدُ بَیْتٌ کُلِّ مُؤمِنٍ ( کنزالعمال، الجزء السابع، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، حدیث:۲۰۷۳۶ ، الطبعۃ الخامسۃ ۱۹۸۵ء) مسجد ہر مومن کا گھر ہے۔ایک مومن مسجد کو اپنا گھر کس طرح بناسکتا ہے اس بارےمیں رسول اللہ ﷺ نے ہماری راہنمائی فرمادی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد نے مساجد کو اپنا گھر، نماز اور ذکر الٰہی کے لیے نہیں بنایا مگر اللہ اس سے خوش ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جن کا کوئی غائب ہوگیا ہو اور وہ اُن کے پاس آجائے تو وہ خوش ہوتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ کتاب المساجد والجماعات بَاب لُزُومُ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ حدیث:۸۰۰) پس جب مساجد میں یہ طریق اختیار کئے جائیں گے تو یقیناً اُن لوگوں پر سکینت نازل ہوگی اور اُن کا قیام اللہ تعالیٰ کی رضااور خوشنودی کا موجب ہوگا۔ مساجد میں جانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ بلا وجہ اور بلا ضرورت باتوں سے اجتناب کریں۔ اپنا وقت نوافل کی ادائیگی اور ذکر الٰہی میں گزاریں۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو، وہ نماز میں ہی ہوتا ہے جب تک کہ اُسے نماز (کا انتظار) روکے رکھتا ہے اور فرشتے تم میں سے ہر ایک کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں جب تک وہ اُس جگہ بیٹھا رہتا ہے جہاں اُس نے نماز پڑھی۔ وہ کہتے ہیں اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اس کی طرف رجوع برحمت ہو، یہ دعا اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک اس کے لیے کوئی نئی صورت حال پیدا نہ ہوجائے جب تک وہ اس (جگہ) میں کسی کو تکلیف نہ دے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب المساجد والجماعات بَاب:لُزُومُ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ حدیث:۷۹۹)رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ مسجد میں گزارتے تا یادِ الٰہی اور عبادت کے علاوہ دیگر دینی امور انجام دے سکیں۔حضرت جابر بن سمرہؓ سےروایت ہے کہ جب نبی ﷺ صبح کی نماز پڑھا چکتے تو نماز پڑھنے کی جگہ پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج اچھی طرح طلوع ہوجاتا۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع، بَاب فَضْلِ الْجُلُوسِ فِی مُصَلَّاہُ بَعْدَ الصُّبْحِ وَفَضْلِ الْمَسَاجِدِ حدیث:۱۰۶۷) آپﷺ سفر سے واپسی پر مسجد تشریف لے جاتے۔ دو نوافل ادا کرتے پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَداَ بِالْمَسْجِدِ فَیَرْکَعُ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ (صحیح البخاری کتاب المغازی بَاب:حَدِیْثُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ حدیث:۴۴۱۸) (رسول اللہ ﷺ)جب کسی سفر سے آتے پہلے مسجد میں جاتے، اس میں دو رکعتیں پڑھتے۔ پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ اَنْ یَّجْلِسَ (صحیح البخاری کتاب الصلٰوۃ بَاب: اِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ حدیث:۴۴۴) جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہوتو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ایک مسجد ہی تھی جو بیت اللہ اور خانہ کعبہ کے نام سے معروف ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن:۹۷) یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لیے۔اس مبارک گھر کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ یہ ہمیشہ آباد رہے گا اور اس کی چھت ہمیشہ سر بلند رہے گی۔ وَالطُّوْرِ وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ فِی رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ (الطّور: ۲-۶) طُور کی قسم۔ اور ایک لکھی ہوئی کتاب کی۔ (جو) چمڑے کے کھلے صحیفوں میں (ہے)۔ اور آباد گھر کی۔ اور بلند کی ہوئی چھت کی۔دنیا میں بنائی جانے والی تمام مساجد اسی بیت اللہ کے اِظلال اور اسی کی اتباع ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ بھی بہت برکات وابستہ ہیں جن برکات کے حصول کے لیے بیت اللہ کی تعمیر ہوئی ہے۔ جو انسان مساجد کے ساتھ وابستہ برکات سے فیضیاب ہونا چاہتا ہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مساجد کو آباد کرنے کے لیے سعی اور کوشش کرتا رہے۔اسلام کی پہلی مسجد قباء یا مسجد نبوی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کا قیام تقویٰ کے حصول کے لیے ہے۔لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَومٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ ط فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ (التوبۃ:۱۰۸) یقینا ًوہ مسجد جس کی بنیادی پہلے دن ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہو زیادہ حقدار ہے کہ تُو اس میں (نماز کے لیے) قیام کرے اس میں ایسے مرد ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ وہ پاک ہوجائیں اور اللہ پاک بننے والوں سے محبت کرتا ہے۔ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا باعث خیروبرکت اور بہت پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی اور اس کے بعد جس نے واپس جاناتھا وہ واپس چلا گیا اور جس نے پیچھے رہنا تھا وہ پیچھے رہا۔ رسول اللہ ﷺ تیز قدم اُٹھاتے ہوئے تشریف لائے۔ آپؐ تیز تیز سانس لے رہے تھے۔ آپؐ نے اپنے دونوں گھٹنوں سے کپڑا ہٹایا ہوا تھا اور فرمایا: خوش ہوجاؤ، یہ تمہارا ربّ ہے، اس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے میرے بندوں کو دیکھو، انہوں نے ایک فرض ادا کرلیا اور وہ دوسرے کا انتظار کررہے ہیں۔(سنن ابن ماجہ کتاب المساجد والجماعات بَاب:لُزُومُ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ حدیث:۸۰۱) رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے: مَنْ غَدَا اِلَی الْمَسْجِدِ وَرَاحَ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ نُزُلَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ کُلّمَا غَدَا اَوْ رَاحَ (صحیح البخاری کتاب الأذان بَاب: فَضْلُ مَنْ غَذَا اِلَی الْمَسْجِدِ وَمَنْ رَّاحَ حدیث:۶۶۲) جو مسجد کو صبح شام جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں اپنی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:”غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔ اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں۔ جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہےکہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔“(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۹۳۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مساجد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”جب تم گلی میں نماز پڑھتے ہو تو فوری طور پر تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی خشیت کا وہ احساس پیدا نہیں ہوتا جو مسجد تمہارے اندر پیدا کرتی ہے۔ تم مسجد کے ساتھ ملحق گلی میں نماز پڑھ کر اس احساس سے بیگانہ رہتے ہو لیکن جب دو قدم چل کر مسجد میں داخل ہوتے ہو تو تمہارے اندر ایک نیا احساس اور نیا شعور پیدا ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے خوف کا جذبہ تمہارے دل میں نمایاں ہونے لگتا ہے۔ مثلاً پہلا احساس تو تمہیں یہی پیدا ہوہوتا ہے کہ یہ مسجد ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم جوتا اُتار دیں۔ پھر اگر تمہارے ذہن کو یہ توفیق مل جائے کہ وہ بلندی کی طرف پرواز کرے تو مسجد کو دیکھ کر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ سالہا سال اِس زمین پر کھڑے ہوکر خدا تعالیٰ کا نام بلند کیا گیا ہے، سالہا سال اس زمین پر خدا تعالیٰ کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ شاید دو گھنٹے پہلے خدا تعالیٰ کا کوئی برگزیدہ اِس جگہ کھڑا ہوا ہو اور نہ معلوم اُس نے کس کس طرح خدا تعالیٰ سے باتیں کی ہوں۔پھر اگر خدا تعالیٰ تمہیں اَور زیادہ بلند پروازی کی توفیق دے تو تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ بیشک میرے اندر خشوع وخضوع پیدا نہیں ہوتا، میرے اندر رِقّت اور سوزوگداز کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن خدا کے کئی بندے ایسے ہیں جن کے جذبات اِس مقام پر آکر اتنے اُبھرے کہ وہ موم کی طرح اس کی روشنی اور جلوہ کے سامنے پگھل گئے۔ ان کی ملاقات کے لیے اور ان کے ساتھ مصاحبت کرنے کے لیے اور ان کے دلوں کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اِ س جگہ ضرور اُترتا ہوگا۔ وہ میرے لیے اُترے یا کسی اَور کے لیے، بہرحال ہر نماز میں خدا تعالیٰ اُترتا ہے۔ اگر میری نماز مقبول نہیں تو میرے ساتھیوں میں سے کسی کی ضرور مقبول ہوگی اور وہ اس کے لیے اس مقام پر نازل ہوگا۔ اور جب خدا کسی قوم پر اُترتا ہے تو وہ مقام اپنی ذات میں بھی بہت بڑی اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔“ (خطبات محمود جلد ۳۵صفحہ ۱۶-۱۷ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵/جنوری ۱۹۵۴ء۔ رتن باغ لاہور، ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو مساجد کے ساتھ وابستہ تمام فیوض و برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین مزید پڑھیں: مساجد جنت کے باغات ہیں