حضرت اَبُوْخَیْثَمَہْ ؓ چھپر کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور ان کی بیویوں نے جو ان کے لیے انتظام کیا ہوا تھا وہ دیکھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سخت چلچلاتی دھوپ ،سخت گرمی اور لُو کے سفر میں ہوں اور اَبُوْخَیْثَمَہْ ؓ ٹھنڈے سایوں میں عمدہ کھانوں اور خوبصورت بیویوں اور اپنے مال مویشیوں میں مقیم ہو۔ یہ ہرگز انصاف نہیں ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تم میں سے کسی کے پاس بھی نہیں آؤں گا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو مخاطب ہو کر فرمایا :اے معاذ! اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تُو دیکھ لے گا کہ وادیٔ تبوک باغوں سے بھر گئی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی معلوم ہو گیا ہو گا کہ حضرت معاذؓ یہ جگہ دیکھیں گے اور وہ وادی درختوں اور باغات کا مجموعہ بن جائے گی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ ہی کی برکت ہے کہ آج تبوک میں اس کثرت سے پانی موجود ہے کہ مدینہ اور خیبر کے سوا ہمیں کہیں اتنا پانی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تبوک کا پانی ان دونوں جگہوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس پانی سے فائدہ اٹھا کر اب تبوک میں ہر طرف باغ لگائے جا رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تبوک کا علاقہ باغوں سے بھرا ہوا ہے اور دن بدن بھرتا جا رہا ہے آپؐ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا :اللہ تعالیٰ راہِ خدا میں حفاظت کرنے والوں کی حفاظت کرنے والوں پر رحم کرے۔ لوگوں میں سے یا جانوروں میں سے تم نے جس جس کی حفاظت کی ہے ان میں سے ہر جان اور جانور کے بدلے تمہیں ایک ایک قیراط اجر ملے گا غزوۂ تبوک کے حالات و واقعات کی روشنی میں سیرت نبوی ﷺ کا پاکیزہ بیان سانحہ ربوہ کے زخمیوں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوںنیز مظلومینِ فلسطین کے لیے دعاؤں کی تحریک خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ اکتوبر 2025ء بمطابق 31؍اخاء 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ غزوۂ تبوک کا آجکل ذکر ہو رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کے لیے روانہ ہوئے اس بارے میں تاریخ ہمیں مزید یہ بتاتی ہے کہ اسلامی لشکر کی تبوک کے لیے روانگی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا پڑاؤ ذُوْ خُشُبْ مقام پر کیا۔ ذُوْ خُشُبْ مدینہ سے ایک رات کی مسافت پر شام کے راستے پر ایک وادی ہے جہاں بڑی تعداد میں پانی کے چشمے ہیں۔ وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر اور عصر جمع کر کے ادا کرنی شروع فرمائی۔ اس سفر کے دوران ظہر اور عصر اور مغرب عشاء مستقل طور پر ہی جمع کر کے اداکرتے رہے۔ (کتاب المغازی للواقدی جلد 2صفحہ 386 باب غزوہ تبوک۔دارالکتب العلمیۃ 2004ء) (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد 9 صفحہ 484 بزم اقبال لاہور) (فرہنگ سیرت صفحہ 114 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء) دورانِ سفر جہاں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا اس کے بارے میں مکمل تفصیلات تو نہیں ملتیں ان میں سے بعض مقامات کے صرف نام درج ہیں وہ بھی آگے اگر موقع ملا تو ان شاء اللہ بیان ہو جائیں گے۔ حضرت مُعَاذْ بِنْ جَبَلْؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک میں تھے کہ آپؐ کے کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل گیا۔ آپؐ نے ظہر اور عصر جمع کیں اور اگر آپؐ سورج ڈھلنے سے پہلے چل پڑتے تو ظہر میں تاخیر کرتے یہاں تک کہ عصر کے لیے اترتے اور مغرب میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اگر آپ کے چلنے سے پہلے سورج غروب ہو جاتا تو مغرب اور عشاء جمع کرتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے آپ چل پڑتے تو مغرب میں تاخیر کرتے یہاں تک کہ عشاء کے لیے اترتے پھر دونوں کو جمع کرتے۔ (سنن ابی داؤد کتاب صلاۃ السفر باب الجمع بین الصلوٰ تین حدیث1208و 1210) ذکر آتا ہے کہ اس سفر میں حضرت عَبْدُ الرَّحْمَانْ بِنْ عَوْفْ ؓکو امامت کی سعادت ملی جس کا واقعہ یوں ہے۔ حضرت مُغِیْرَہْ بِنْ شُعْبَہْ ؓنے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے فجر کی نماز سے پہلے تشریف لے گئے۔ میں نے آپؐ کے ساتھ پانی کی چھاگل اٹھا لی یعنی پانی اٹھا کے آپؐ کے ساتھ ہی چل پڑا ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف واپس آئے تو میں فاصلے پر کھڑا تھا تو میں چھاگل سے آپؐ کے ہاتھ پر پانی ڈالنے لگا اور آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے۔ یہاں یہ وضو کا طریقہ بیان کررہے ہیں۔ یعنی سفر میں کس طرح وضو کیا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرہ مبارک دھویا۔ پھر آپؐ اپنے بازوؤں کو اپنے جُبَّہ سے باہر نکالنے لگے لیکن جُبّے کی آستینیں تنگ تھیں اس لیے آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے اندر داخل کیے اور اپنے بازو جبے کے نیچے سے نکال کر کہنیوں تک دھوئے۔ پھر آپؐ نے اپنے موزوں پر مسح کیا یعنی جرابیں اس وقت پہنی ہوئی تھیں تو جرابوں پر مسح کیا۔ ان کو صاف کیا۔ پھر آگے چل پڑے۔ مُغِیْرَہْ کہتے ہیں کہ میں بھی آپؐ کے ساتھ آگے چلا یہاں تک کہ ہم نے لوگوں کو پایا کہ وہ حضرت عَبْدُ الرَّحْمَانْ بِنْ عَوْفْ ؓکو آگے کر چکے تھے، وہ ان کو نماز پڑھا رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو میں سے ایک رکعت پائی یعنی وہ لوگ ایک رکعت پہلے پڑھ چکے تھے اور آپؐ نے دوسری رکعت لوگوں کے ساتھ پڑھی۔ جب حضرت عَبْدُ الرَّحْمَانْ بِنْ عَوْفْؓ نے سلام پھیرا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اس بات نے مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا کر دی اور بکثرت تسبیح کرنے لگے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز ختم کر لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا یا فرمایا اچھا کیا۔ آپؐ نے نماز اپنے وقت پر ادا کرنے کی وجہ سے ان کی تعریف کی۔ (صحیح مسلم مترجم جلد 2 صفحہ 184-185 کتاب الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بھم اذا تاخر الامام حدیث 632) قومِ ثمود کے کھنڈروں سے گزرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوۂ تبوک کے دوران حِجْر میں قیام فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا کہ وہ اس کے کنوئیں سے نہ پئیں اور نہ اس سے پلائیں۔ صحابہؓ نے کہا کہ ہم نے تو اس کے پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے اور ہم نے اپنے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا کہ وہ گوندھا ہوا آٹا پھینک دو اور جو پانی پاس ہے اس پانی کو بھی انڈیل دو اور ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا پھینکنے کا ارشاد فرمایا اور حضرت اَبُوْ ذَرْؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اس پانی سے آٹا گوندھا ہے اسے پھینک دو۔ یعنی اس جگہ سے لیے گئے پانی سے گوندھنے والے آٹے کو پھینکنے کا ارشاد فرمایا۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ والیٰ ثمود اخاھم صالحاحدیث3378) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ اس کنوئیں کا پانی پیو اور نہ اس سے وضو کرو بلکہ اس کے پانی سے جو آٹا تم نے گوندھا ہوا ہے اسے اونٹوں کو کھلا دو خود اس میں سے ہرگز نہ کھاؤ۔ (تایخ الطبری جلد 2 صفحہ 183، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء) ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ اس کنوئیں سے پانی لیں جہاں حضرت صالحؑ کی اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی اور اس کنوئیں سے نہ لیں۔ یہ جو کنواں تھا اس سے منع کیا تھا کہ وہاں سے نہیں لینا بلکہ آپؐ نے فرمایا اس کنوئیں سے لیں جہاں حضرت صالح ؑکی اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ والی ثمود اخاھم صالحاحدیث3379) شارح بخاری اِبْنِ حَجَرْ عَسْقَلَانِیْ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کنوئیں، حضرت صالحؑ کی اونٹنی کے کنوئیں کا علم وحی کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 06صفحہ 469 قدیمی کتب خانہ کراچی) ایک روایت میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حِجْر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کی بستیوں میں داخل نہ ہو جنہوں نے ظلم کیا مگر یہ کہ تم رو رہے ہو۔ بڑی خوف کی، خشیت کی حالت ہونی چاہیے۔ جن قوموں پہ عذاب آیا تھا ان کی بستیوں سے گزر رہے ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے یہاں سے گزرو مبادا تمہیں وہ مصیبت پہنچے جو انہیں پہنچی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ مبارک ڈھانپ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار تھے۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ والی ثمود اخاھم صالحاحدیث3380) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنا سر ڈھانپ لیا اور رفتار تیز کر دی یہاں تک کہ وادی پار کر لی۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب نزول النبی ﷺ الحجرحدیث4419) یہ جو حِجْر نام ہے یہ ایک علاقہ ہے۔ اس کا تعارف یہ ہے کہ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ علاقہ آتا ہے۔ وہاں پر حضرت صالح ؑکی قوم ثمود آباد تھی۔ اس علاقے کا نام حِجْر تھا۔ آجکل یہ علاقہ مَدَائنِ صالح کے نام سے مشہور ہے۔ اللہ نے اس قوم کو کثیر نعمتوں سے نوازا۔ سرسبز کھیت تھے، بہتے چشمے تھے، کھیتی باڑی کا وسیع انتظام تھا، کھجور اور دیگر پھلوں کے باغات تھے۔ بے مثل قوت اور صلاحیت کے حامل تھے یہ لوگ۔ بڑا potential تھا ان لوگوں کا، محنت کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے، ذرائع سے نوازا بھی خوب ہوا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں تک ان کی skill تھی کہ یہ لوگ پہاڑوں میں گھر بنانے والے تھے۔ حضرت صالح ؑکی اونٹنی ان کے لیے بطور نشان تھی لیکن انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ اس پر اللہ نے انہیں عذاب سے تباہ و برباد کر دیا۔ قرآن کریم میں اس قوم کا نام اَصْحَابُ الْحِجْر آیا ہے اور قرآن کریم میں الْحِجْر نام کی سورت بھی ہے۔ (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9 صفحہ 485 دارالسلام) (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد 9 صفحہ490 بزم اقبال لاہور) اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہونے کا واقعہ بھی ملتا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو راستے میں ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قَصْواء گم ہو گئی۔ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے ڈھونڈنے کے لیے نکلے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عُمَارَہْ بِنْ حَزْمْؓ بھی تھے جو کہ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے اور بدری صحابی تھے۔ حضرت عُمَارَہْ ؓکے خیمے میںزَیْد بِنْ صَلْت تھا جو یہودی قبیلہ بنو قَیْنُقَاع سے تعلق رکھتا تھا اور یہودی تھا پھر مسلمان ہوا لیکن مسلمان ایسا ہی تھا کہ اس نے منافقت کا اظہار کیا۔پوری طرح ایمان مضبوط نہیں تھا۔ تو اس طرح یہاں بھی اس کا اظہار ہوا ہے اور وہ اس طرح ہوا کہ زید نے خیمے والوں سے کہا جبکہ حضرت عُمَارَہْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ نبی ہیں اور وہ تمہیں آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ وہ خود نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی ہے۔ زید اپنے خیمے میں یہ بات کر رہا تھا تو عین اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُمَارَہْؓ سے فرمایا جبکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک شخص نے یہ کہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو تو بتاتا ہے کہ وہ نبی ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ تم لوگوں کو آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے جبکہ وہ خود نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے؟آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم !مَیں نہیں جانتا ماسوا اس کے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے علم دیا ہے ۔غیب کا علم تو میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ جو بتاتا ہے میں وہی بتاتا ہوں اور یقینا ًاللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹنی کے متعلق بتا دیا ہے کہ وہ فلاں فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک گھاٹی کی طرف اشارہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس منافق کی بات سن کے فوراً غیرت دکھائی اور آپؐ کو کشفاً بتا بھی دیا یا الہاماً بتایا کہ وہاں فلاں جگہ ہے۔ اس کی مہار ایک درخت سے اٹکی ہوئی ہے۔ پس جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ پس صحابہؓ گئے اور اسے لے آئے۔پھر حضرت عُمَارَہْؓ اپنے خیمے کی طرف گئے اور کہا اللہ کی قسم !آج ایک عجیب بات ہوئی ہے۔ ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک شخص کی بات کے متعلق بتایا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا تھا۔ حضرت عُمَارَہْ کے خیمے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اللہ کی قسم! جو بات آپ نے ابھی بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو یہ جو بیٹھا ہوا شخص زید ہے اس نے آپ کے آنے سے پہلے بالکل یہی بات کی تھی۔ اس پر حضرت عُمَارَہْ ؓنے زید کو گریبان سے پکڑ لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اے اللہ کے بندو! میرے خیمہ میں ایک سانپ تھا اور میں اس کو اپنے خیمے سے باہر نکالنے سے بے خبر تھا اور زید کو مخاطب کر کے کہا کہ آئندہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زید نے بعد میں توبہ کر لی اور بعض کا خیال ہے کہ اسی طرح شرارتوں میں ملوث رہا اور اسی حالت میں مر گیا۔ (تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 18 غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2009ء) ایک روایت میں ہے کہ جو صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے مقام سے اونٹنی تلاش کر کے لائے وہ حضرت حَارِثْ بِنْ خَزَمَہ ؓتھے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 603،دارالکتب العلمیۃ بیروت2003ء) اس سفر میں زادِ راہ یعنی راشن ،کھانے پینے کا سامان بھی کم ہو گیا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے جو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر میں لوگوں کو سخت بھوک لگی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے پانی لانے والے اونٹ ذبح کر لیں اور ہم کھائیں اور چکنائی استعمال کریں۔ آپؐ نے فرمایا کر لو۔ کافی حالت خراب ہے بھوک سے۔ راوی کہتے ہیں حضرت عمرؓ کو جب پتہ لگا تو وہ آئے اور اس پر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اگر آپ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی ۔ہاں! لوگوں کو اپنا باقی ماندہ زاد راہ لانے کا ارشاد فرمائیں اور پھر ان کے لیے اس پر برکت کے لیے دعا کریں۔ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت رکھ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں !یہ ٹھیک ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چمڑے کا دستر خوان منگوایا اور بچھا دیا اور پھر سب کے باقی ماندہ زاد یعنی کھانے کے سامان منگوائے۔ کوئی مٹھی بھر مکئی لایا ،کوئی مٹھی بھر کھجوریں،کوئی روٹی کا ٹکڑہ وغیرہ لے کر آیا یہاں تک کہ اس دستر خوان پر اس میں سے کچھ تھوڑا سا اکٹھا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر برکت کی دعا فرمائی اور پھر فرمایا کہ اپنے برتنوں میں لے لو۔ انہوں نے برتنوں میں اس کو لے لیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا مگر اس کو بھر لیا ۔پھر سب نے کھایا اور سیر ہو گئے اور کچھ بچ بھی گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور جو شخص بغیر کسی شک کے ان دونوں شہادتوں کے ساتھ خدا سے ملے گا وہ جنت سے روکا نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علیٰ ان من مات علی التوحید … حدیث 45 (27)) اس سفر میں مختلف واقعات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ان میں ایک واقعہ دو اشخاص کی لڑائی کا بھی ہے۔ حضرت یَعْلٰی بِنْ اُمَیَّہْ ؓنے بیان کیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبو ک میں شامل ہوا۔ میرا ایک نوکر تھا اس نے ایک آدمی سے لڑائی کی اور ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے کے ہاتھ پر کاٹا۔ کہتے تھے کہ جس کے ہاتھ پر کاٹا گیا تھا اس نے اپنے ہاتھ کو کاٹنے والے کے منہ سے کھینچا تو اس نے اس کے سامنے والے دو دانتوں میں سے ایک کو اکھیڑ دیا۔ اتنی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کہ نکل نہیں رہا تھا جب اس نے زور لگایا تو جو دانت کاٹ رہا تھا، جس کے منہ میں ہاتھ تھا اس کے دانت اس کھینچنے کی وجہ سے اکھڑ گئے۔ بہرحال وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جس کا دانت ٹوٹا تھا اس نے دیت کا مطالبہ کیا کہ اس نے میرا دانت توڑا ہے مجھے اس کا معاوضہ دیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ساقط قرار دیا۔ انہوں نے کہا یہ غلط ہے یعنی دیت کا حقدار قرار نہیں دیا اور فرمایا کیا وہ اپنے ہاتھ کو تمہارے منہ میں چھوڑ دیتا کہ تم اس کو چبا ڈالتے۔ گویا وہ اونٹ کے منہ میں ہے جو اسے چبا ڈالتا ہے۔ یعنی جس کا ہاتھ کاٹا جا رہا تھا اس نے اپنے بچاؤ میں جب ہاتھ کھینچا تو اس وجہ سے دانت ٹوٹا ہے تو کوئی دیت نہیں ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ تبوک و ھی غزوۃ العسرۃ، حدیث 4417۔ مترجم جلد 9 صفحہ 299-300) (سنن ابن ماجہ كِتَابُ الدِّيَاتِ، بَابُ مَنْ عَضَّ رَجُلًا فَنَزَعَ يَدَهُ فَنَدَرَ ثَنَايَاهُ ،حدیث نمبر2656) پس فیصلہ دیت کا بھی حقائق اور حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ یونہی بغیر حقائق دیکھے دیت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح اس سفر کے واقعات میں سے بعض اَور واقعات بھی ہیں ۔مثلاً حضرت اَبُو حُمَیْد سَاعِدِیْ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ تبوک میں دورانِ سفر جب آپ وادی قُرٰی میں پہنچے تو وہاں کھجور کا ایک باغ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا :اندازہ لگاؤ کتنی کھجور ہو گی؟ اس پر سب نے اندازہ لگایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دس وسق یعنی قریباً اٹھارہ سو کلو کا اندازہ لگایا کہ اتنی کھجور اس میں سے اترے گی ۔ باغ میں اس کی مالک جو عورت تھی وہ کھڑی تھی۔ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا جب تم اس باغ کا پھل اتارو تو وزن یاد رکھنا کہ کتنا تھا؟ راوی کہتے ہیں کہ تبوک سے واپسی پر جب ہم اسی باغ کے پاس پہنچے تو اس عورت سے پوچھا کہ کتنا پھل اترا تھا ؟تو اس نے بعینہٖ وہی بتایا جو اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا یعنی دس وسق۔ اسی طرح یہ راوی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم تبوک میں آئے تو آپؐ نے فرمایا ہوشیار رہنا۔ آج رات سخت آندھی چلے گی اور کوئی بھی شخص کھڑا نہ رہے اور جس کے ساتھ اونٹ ہے وہ اونٹ کے گھٹنے بھی باندھ دے اور اگر کسی کو ضرورت کے لیے باہر جانا پڑے تو اکیلا نہ جائے بلکہ دو افراد مل کر جائیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آندھی کے طوفان کا اندازہ ہو گیا تھا یا ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا ہو۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے تعمیل ارشاد میں اپنے اونٹوں کو باندھ دیا اور پھر اس رات بہت زور کی آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا تھا تو آندھی نے اس کو طَے قبیلہ کے پہاڑوں پر پھینک دیا۔ ( صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب خرص التمرحدیث ، 1481 ، مترجم جلد 3 صفحہ 124، 125) (صحیح مسلم ۔ نور فاؤنڈیشن۔ جلد 12 صفحہ 184) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9 صفحہ 489 دار السلام) ایک اَور روایت میں ہے کہ بنوسَاعِدَہْ کے دو شخصوں نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ ایک تنہا قضائے حاجت کے لیے نکلا اور دوسرا اپنے اونٹ کی تلاش میں اکیلا نکل گیا۔ جو قضائے حاجت کے لیے گیا تھا اس کو مرض خَنَّاق ہو گیا جو گلے کی ایک بیماری ہے اور جو اونٹ کی تلاش میں نکلا تھا اسے تیز ہوا نے اڑا کر طَےکے دونوں پہاڑوں کے درمیان جا پھینکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے بغیر کسی کو ساتھ لیے باہر نکلنے کی ممانعت نہیں کر دی تھی؟ ان میں سے جو بیمار ہو گئے تھے ان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو وہ اچھے ہو گئے اور دوسرے جو طَے کے پہاڑوں میں جا گرے تھے ان کو خود طَے قبیلہ والے بعد میں آپ کے پاس مدینہ میں لے آئے۔ (تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 183، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء) (فیروز اللغات صفحہ 596 فیروز سنز) ایک روایت میں ہے کہ آندھی کے بعد جب لوگوں نے صبح کی تو ان کے پاس پانی موجود نہ تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا وہ ان پر خوب برسا یہاں تک کہ انہوں نے اپنی مشکیں بھر لیں اور اپنی ضرورت پوری کر لی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 819، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجہ میں سفر تبوک کے دوران معجزانہ طور پر بارش کے ایک اَور واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت اِبْنِ عَبَّاسْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ سے یہ کہا گیا کہ آپ ہمیں غزوۂ تبوک کے بارے میں کچھ بتائیں تو انہوں نے بتایا کہ ہم شدید گرمی کے موسم میں تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ ہمیں پیاس لاحق ہو گئی یہاں تک کہ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ہماری گردنیں کٹ جائیں گی، یہاں تک کہ یہ عالم ہو گیا کہ ایک شخص پانی کی تلاش میں جاتا اور وہ واپس نہ آتا تو ہم یہ گمان کرتے کہ شاید وہ مر گیا ہے۔ ایک شخص اپنے اونٹ کو قربان کرتا وہ اس کے معدے سے پانی نچوڑ کر اسے پیتا تھا اور جو باقی بچ جاتا وہ(گرمی کی حدت کوکم کرنے کے لئے) پیٹ پر ڈال لیتا۔ اپنے پیٹ میں جو بھی اس نے جگہ رکھی ہوئی تھی۔ میرا خیال ہے یہاں containerمراد ہے اس میں رکھ لیتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا میں بھلائی رکھی ہے تو آپؐ ہمارے لیے دعا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اس کے لیے دعا کروں ؟انہوں نےعرض کی جی ہاں !تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کر لیے ۔ابھی آپؐ کے ہاتھ واپس نہیں آئے تھے کہ بادل نے سایہ کر دیا اور بارش شروع ہو گئی۔ لوگوں نے اپنے پاس موجود سب چیزیں بھر لیں۔ پھر اس کے بعد ہم نے اس بات کا جائزہ لیا تو لشکر سے آگے کہیں بارش نہیں ہوئی تھی۔ (اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا،جلد9 صفحہ 490 دارالسلام) (صحیح ابن حبان کتاب الطہارۃ باب ذکر الخبر الدال علی ان فرث ما یؤکل لحمہ غیر نجس حدیث 1383۔ دار المعرفۃ بیروت) اسی طرح تبوک کے چشمے میں پانی بڑھ جانے کے معجزے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت مُعَاذْ بِنْ جَبَلْؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک کے سال نکلے۔ آپؐ نمازیں جمع کرتے تھے ۔آپؐ ظہر عصر اور مغرب عشاء اکٹھی ادا فرماتے۔ ایک روز آپؐ نے نماز میں کچھ تاخیر فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ظہر و عصر کی نمازیں جمع کیں۔پھر اندر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔ پھر حضور نے فرمایا کل تم ان شاءاللہ تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور جب تک خوب دن نہ نکل آئے تم اس تک نہیں پہنچو گے۔ پس تم میں سے جو اس کے پاس پہنچے اس کے پانی کو بالکل نہ چھوئے جب تک کہ میں نہ آ جاؤں۔ وہاں ایک چشمہ تھا، آپؐ نے فرمایا جب تک میں نہ آ جاؤں اس پانی سے کچھ نہیں لینا۔ راوی کہتے ہیں پھر ہم اس چشمے پر پہنچے لیکن دو آدمی ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے اور چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی بہ رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا کیا تم نے اس کے پانی کو چھؤا ہے؟ ان دونوں نے کہا جی ہاں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو تنبیہ فرمائی اور جو اللہ نے چاہا آپؐ نے ان کو کہا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے اس چشمہ سے اپنے ہاتھوں کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا کر کے پانی نکالا یہاں تک کہ ایک برتن میں کچھ پانی جمع ہو گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور چہرہ دھویا۔ پھر اس پانی کو اس چشمہ میں واپس ڈال دیا تو چشمہ تیزی سے بہنے لگا یہاں تک کہ لوگ خوب سیراب ہو گئے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو مخاطب ہو کر فرمایا : اے معاذ! اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تُو دیکھ لے گا کہ یہ جگہ باغوں سے بھر گئی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبیﷺ، حدیث 4215، مترجم نور فاؤنڈیشن جلد 12 صفحہ 184، 185) محمد بن عَبْدُ الْبَاقِیْ زَرْقَانِی نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ یہ غیب کی خبر تھی جو پوری ہو چکی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ؓکا جو خاص طور پر تذکرہ فرمایا تو اس میں بھی کوئی غیب کی خبر ہی تھی کیونکہ الٰہی تقدیر تھی کہ بعد میں حضرت معاذؓ اسی علاقہ یعنی شام کی طرف آگئے تھے اور یہیں ان کی وفات ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی معلوم ہو گیا ہو گا کہ حضرت معاذؓ یہ جگہ دیکھیں گے اور وہ وادی درختوں اور باغات کا مجموعہ بن جائے گی۔ اِبْنِ وَضَّاحْ یعنی ابو عبداللہ محمد اِبْنِ وَضَّاحْ جن کا عرصہ زندگی 199ہجری تا 287ہجری ہے۔ یہ اندلس کے مشہور محدث گزرے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس چشمہ کے ارد گرد وہ ساری جگہ دیکھی ہے۔ درختوں کی سرسبزی اور شادابی اس قدر تھی کہ شاید یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے اور ایسی ہی آپؐ کی پیشگوئی تھی۔ (شرح الزرقانی علی المؤطا جلد 1 صفحہ 436داراحیاء التراث العربی بیروت 1997ء) (سیر اعلام النبلاء جزء 10 صفحہ 469 دار الحديث قاہرہ 2006ء) اٹلس سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تبوک کے اس چشمہ کی مزید تفصیل یوں درج ہے کہ تبوک کے محکمہ شریعہ کے رئیس شیخ صالح نے بتایا کہ یہ چشمہ دو سال پہلے تک پونے چودہ سو سال سے مسلسل ابلتا رہا۔یہ اس وقت کا واقعہ ہے اور بعد میں جب نشیبی علاقوں میں ٹیوب ویل کھودے گئے تو اس چشمہ کا پانی ان ٹیوب ویلز کی طرف منتقل ہو گیا۔ تقریباً پچیس ٹیوب ویلز میں تقسیم ہو جانے کے بعد اب یہ چشمہ خشک ہو گیا ہے ۔اس کے بعد شیخ صالح ہمیں ایک ٹیوب ویل کی طرف بھی لے گئے جہاں ہم نے دیکھا کہ چار انچ کا ایک پائپ لگا ہوا ہے اور کسی مشین کے بغیر اس سے پانی پورے زور سے نکل رہا ہے۔ قریب قریب یہی کیفیت دوسرے ٹیوب ویلز کی بھی ہمیں بتائی گئی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ ہی کی برکت ہے کہ آج تبوک میں اس کثرت سے پانی موجود ہے کہ مدینہ اور خیبر کے سوا ہمیں کہیں اتنا پانی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تبوک کا پانی ان دونوں جگہوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس پانی سے فائدہ اٹھا کر اب تبوک میں ہر طرف باغ لگائے جا رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تبوک کا علاقہ باغوں سے بھرا ہوا ہے اور دن بدن بھرتا جا رہا ہے۔ (اٹلس سیرت نبویﷺاز ڈاکٹر شوقی ابو خلیل مترجم صفحہ431 دارالسلام) غزوۂ تبوک میں پہرے داری کی ذمہ داری کے بارے میں بھی لکھا ہوا ہے کہ غزوہ ٔتبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظت خاص پر حضرت عَبَّادْ بِنْ بِشْر کو مامور فرمایا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لشکر کے ارد گرد چکر لگاتے تھے۔ ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! ہم اپنے پیچھے صبح ہونے تک تکبیر کی آواز سنتے ہیں۔ کیا آپ نے ہم میں سے کسی اور کو حفاظت کے لیے چکر لگانے کا ارشاد فرمایا ہے؟ آپؐ نے فرمایا میں نے ایسا نہیں کیا لیکن شاید بعض مسلمان رضاکارانہ طور پر یہ کام سرانجام دے رہے ہوں۔ جس پر حضرت سِلْکَانْ بِنْ سَلَامَہؓ جن کی ڈیوٹی نہیں لگائی گئی تھی لیکن محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ازخود یہ کام کر رہے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! میں اپنے دس گھڑ سوار مسلمانوں کے ساتھ نکلتا ہوں اور ان ڈیوٹی والوں کی حفاظت کرتا ہوں۔اس پر آپؐ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ راہِ خدا میں حفاظت کرنے والوں کی حفاظت کرنے والوں پر رحم کرے۔ لوگوں میں سے یا جانوروں میں سے تم نے جس جس کی حفاظت کی ہے ان میں سے ہر جان اور جانور کے بدلے تمہیں ایک ایک قیراط اجر ملے گا۔ ایک قیراط جو ہے یہ تقریباً دو گرام وزن کا سونا وغیرہ ہے۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 453 ۔ ذکر من استعملہ ﷺ علی الحرس بتبوک۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) (اوزانِ شرعیہ از مفتی محمد شفیع صاحب صفحہ40ادارۃ المعارف کراچی وانٹرنیٹ) ایک روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر کے دوران لوگوں کا یہ حال تھا کہ ہر پڑاؤ کے دوران کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے تھے۔ صحابہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آج فلاں پیچھے رہ گیا ہے تو آپؐ فرماتے تم اسے چھوڑو۔ اگر اس میں کچھ بھلائی ہو گی تو خدا اسے تم سے ملا دے گا اور اگر اس کے سوا کوئی بات ہوئی تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے چھٹکارا دلا دے گا۔ اسی اثنا میں کسی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حضرت اَبُوْذَرّ ؓپیچھے رہ گئے ہیں اور ان کا اونٹ سست ہو گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تم اسے چھوڑو۔ اگر اس میں کچھ بھلائی ہو گی تو خدا اسے تم سے ملا دے گا اور اگر اس میں اس کے سوا کوئی بات ہوئی تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے چھٹکارا دلا دے گا۔ ان کی صورتحال یہ تھی کہ ان کو اونٹ نے زیادہ تنگ کیا ہوا تھا وہ بالکل سست ہو گیا تھا۔ جب حضرت اَبُوْذَرّ ؓکا اونٹ بالکل سست اور کمزور ہو گیا تو وہ اس پر سے اتر گئے اور اپنا سامان اپنی کمر پر اٹھا لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے پیدل روانہ ہوگئے۔ آپؐ نے کچھ منزلوں کے بعد ایک جگہ پڑاؤ کیا تو مسلمانوں میں سے ایک دیکھنے والے نے دیکھا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !راستے پر کوئی ایک شخص اکیلا چلا آ رہا ہے تو آپؐ نے فرمایا۔ کُنْ أَبَا ذَرٍّ ۔ کاش! یہ اَبُوْذَرّ ہو۔ پھر جب لوگوں نے غور سے دیکھ لیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! بخدا! یہ اَبُوْذَرّ ہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابوذر پر رحم فرمائے وہ اکیلا ہی چلا ہے۔ اکیلا ہی فوت ہو گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ819-820، غزوۃ تبوک، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبُوْذَرّ کے متعلق اکیلے ہونے کے بارے میںجو یہ فرمایا تھا وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں حرف بہ حرف پورا ہوا جب یہ اپنے اہل خانہ سمیت مدینہ سے باہر رَبَذَہْ میں مقیم ہو گئے۔ رَبَذَہْ مدینہ سے تین دن کی مسافت پر تقریباً چھیانوے میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔ ان کے ساتھ ان کے بیوی بچے اور ایک غلام تھا۔ اس وقت یہاں کوئی اَور بستی وغیرہ نہ تھی۔ ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی بیوی تنہائی کی وجہ سے پریشان ہوئیں اور کفن وغیرہ بھی نہ تھا جس پر وہ رونے لگیں تو حضرت اَبُوْذَرّ نے ان سے کہا کہ مت رو۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ تم میں سے ایک آدمی بیابان میں فوت ہو گا جس کی نماز جنازہ میں اہلِ ایمان کی ایک جماعت شریک ہو گی اور ساتھ ہی اپنی بیوی سے یہ کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات کہی تھی تو جتنے لوگ اس وقت وہاں موجود تھے وہ سب فوت ہو چکے ہیں او ر کوئی بھی جنگل بیابان میں اکیلا فوت نہیں ہوا۔ صرف میں ہی وہ شخص ہوں۔ تم پریشان نہ ہو۔ جب میں فوت ہو جاؤں تو غسل دے کر میری میت کو مدینہ کی طرف جانے والے راستے پر رکھ دینا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہاں سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اپنے ساتھیوں سمیت گزر رہے تھے۔ وہ عراق سے عمرے کی نیت سے جا رہے تھے۔ انہیں جب علم ہوا کہ یہ حضرت اَبُوْذَرّؓ کا جنازہ ہے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور روتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ اَبُوْذَرّ اکیلا ہی چلتا ہے وہ اکیلا ہی فوت ہو گا۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت ان کا جنازہ پڑھا اور انہیں وہیں دفن کیا اور پھر اپنے ساتھیوں کو جنگ تبوک کے حوالے سے حضرت اَبُوْذَرّ کے متعلق سارا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہوئی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 170 روایت 21700، 21701 دار الکتب العلمیۃ بیروت ) (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 190-191 غزوہ تبوک دار الکتب العلمیۃ2002ء) ( انساب الاشراف للبلاذری جزء 9 صفحہ 443 دارالفکر1996ء) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9 صفحہ483-484 دارالسلام) (دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہﷺ ،جلد9 صفحہ 487-488 بزم اقبال لاہور) (فرہنگ سیرت صفحہ 130، 226 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء) ایک واقعہ حضرت وَاثِلَہْ بِنْ اَسْقَعْ رضی اللہ عنہ کا لشکر کے ساتھ ملنے کا بھی ہے۔ یہ غزوۂ تبوک سے چند دن پہلے مدینہ آ کر مسلمان ہوئے تھے۔ ابھی یہ مدینہ میں ہی تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کے لیے تیاری کا اعلان فرمایا۔ (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 399۔واثلہ بن اسقع۔ دار الکتب العلمیۃ 2003ء) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9 صفحہ 532 دارالسلام) حضرت وَاثِلَہْ بِنْ اَسْقَعْ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ تبوک کے موقع پر منادی کرائی۔ میں اپنے گھر گیا اور وہاں سے واپس آیا تو آپؐ کے اصحابؓ پہلے ہی روانہ ہو چکے تھے۔ میں نے شہر میں پکارنا شروع کیا کہ کیاکوئی ایسا شخص ہے جو اپنے ساتھ ایک آدمی کو سوار کرائے اور غنیمت میں جو حصہ ملے وہ بدلہ میں لے لے؟ ایک بوڑھے انصاری نے کہا اچھا تو ہم اس کا حصہ لے لیں گے اور اس کو اپنے ساتھ سوار کرائیں گے اور اپنے ساتھ کھلائیں پلائیں گے ۔میں نے کہا ہاں! مجھے یہ شرط منظور ہے اور بتایا کہ میں ہی وہ شخص ہوں۔ تو اس بوڑھے نے کہا اچھا تو پھر اللہ کی برکت کے بھروسہ پر چلو۔ حضرت وَاثِلَہ کہتے ہیں کہ پس میں بہت اچھے ساتھی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ اللہ نے ہم کو غنیمت کا مال عطا فرمایا۔ میرے حصہ میں چند تیز رفتار اونٹنیاں آئیں۔ میں ان کو ہنکا کر اپنے ساتھی کے پاس لایا۔ وہ نکلا اور اپنے اونٹ پر پچھلی طرف بیٹھا ۔پھر کہا ان کو میری طرف پیٹھ کر کے چلاؤ ۔پھر کہا ان کو میری طرف رخ کر کے چلاؤ۔ اس کے بعد کہا میرے نزدیک تیری اونٹنیاں بہت عمدہ ہیں۔ میں نے کہا یہ تو تمہارا مال ہے جس کی میں نے شرط کی تھی۔ اس نے کہا اے بھتیجے ! یہ تیرا حصہ ہے تم ہی رکھو۔ میرا مقصد تو یہ حصہ لینا نہیں تھا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی الرجل یکری دابتہ علی النصف … حدیث 2676) بہرحال اس بہانے جنگ میں شامل ہو گیا۔ اسی طرح حضرت اَبُوْخَیْثَمَہْؓ کا لشکر کے ساتھ ملنے کا واقعہ بھی ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قافلے سے پیچھے رہ جانے والوں میں سے ایک صحابی حضرت اَبُوْخَیْثَمَہْؓ بھی تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں یہ مدینہ میں نہیں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبوک کے سفر پر روانہ ہونے کے کچھ دن بعد یہ مدینہ میں اپنے گھر ایک سخت گرم دن میں پہنچے۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویوں نے باغ میں اپنے اپنے چھپر پر پانی چھڑکا ہوا تھا اور ان کے لیے پانی ٹھنڈا کیا ہوا تھا اور ان کے لیے کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ حضرت اَبُوْخَیْثَمَہْ چھپر کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور ان کی بیویوں نے جو ان کے لیے انتظام کیا ہوا تھا وہ دیکھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سخت چلچلاتی دھوپ ،سخت گرمی اور لُو کے سفر میں ہوں اور اَبُوْخَیْثَمَہْ ٹھنڈے سایوں میں عمدہ کھانوں اور خوبصورت بیویوں اور اپنے مال مویشیوں میں مقیم ہو۔ یہ ہرگز انصاف نہیں ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تم میں سے کسی کے پاس بھی نہیں آؤں گا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤں۔ پس تم دونوں میرے لیے سامان سفر تیار کرو ۔چنانچہ ان دونوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اَبُوْخَیْثَمَہْ اونٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہو گئے اور ایک دوپہر شدید گرمی اور لُو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دور سراب میں ایک سوار آتا ہوا دکھائی دیا۔ ابن ہشام کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچ چکے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: کُنْ أَبَاخَیْثَمَۃَ کہ کاش! یہ اَبُوْخَیْثَمَہْ ہو۔ جب وہ قریب آئے تو صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !خدا کی قسم !وہ اَبُوْخَیْثَمَہْ انصاری ہی ہیں۔ وہ اپنے اونٹ کو بٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور سلام عرض کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ اے اَبُوْخَیْثَمَہْ!تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے ؟تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتائی ۔اس پر آپؐ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 817-818 ، غزوۃ تبوک، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) (اسد الغابۃ ، جلد 6 صفحہ 89 ’’ابو خیثمہ انصاری‘‘ ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1971ء) حضرت مصلح موعو د ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’تاریخ میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کو روانہ ہوگئے توبعض صحابہ ؓپیچھے رہ گئے۔ ان میں سے ایک اَبُوْخَیْثَمَہْ بھی تھے ۔یہ بہت نیک تھے ۔ان کا خیال بھی نہ تھا کہ پیچھے رہیں مگر جب جنگ کے لیے باہر نکلنے کاحکم ہوا تواس وقت وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ جب وہ گھر آئے توانہوں نے دیکھا کہ ان کی بیوی ان کے انتظار میں بیٹھی ہے جیسے کوئی باتیں کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔انہوں نے بیوی کی اس خواہش کو نظر انداز کرتے ہوئے بیوی سے پوچھا کہ کیا رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں۔ان کی بیوی نے کہا کہ ذرابیٹھ توجاؤ ۔انہوں نے جواب دیا کہ خداکارسول توجنگ کے لیے روانہ ہوجائے اورمَیں گھر میں آرام کروں۔ اَبُوْخَیْثَمَہْ سے ایسانہیں ہوسکتا اوراسی وقت نکل کر گھوڑے کو تیار کیااوراس پر سوار ہوکر اس راستہ پر چل پڑے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ نے یہاں گھوڑے کا ذکر کیا ہے۔ پہلی روایتوں میں بعض جگہ اونٹ کا ذکر ہے یا غلطی سے گھوڑے کا ذکر ہے۔ بہرحال ہوسکتا ہے دونوں روایتیں ملتی ہوں۔ بہرحال سواری تھی جس پر روانہ ہوگئے۔ اس رستے پر چل پڑے ’’جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے۔ آخر مارامار سفر کرکے کئی منزلوں کے بعد آنحضرت صلعم کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب یہ لشکر کے قریب پہنچے توبعض صحابہ نے دور سے گرد اٹھتی ہوئی دیکھی اور خیال دوڑانے لگے کہ یہ کون آرہاہے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کُنْ اَبَا خَیْثَمَۃ۔ اَبُوْخَیْثَمَہْہو جا۔ اب اس فقرہ کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتاکہ آنے والاکوئی بھی ہو وہ اَبُوْخَیْثَمَہْ بن جائے۔ پس اس کے معنے یہی ہیں کہ میری خواہش ہے کہ آنے والا اَبُوْخَیْثَمَہْ ہو۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 168-169 مطبوعہ 2004ء قادیان) کُنکی وضاحت کرتے ہوئے ایک اَور جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے۔ پہلا حوالہ تفسیر کبیر کا تھا۔ یہاں بھی حوالہ اسی تفسیر کا ہی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے کُنْ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’یاد رہے کہ کُنْ کا لفظ عربی زبان میں کسی کو کہنے کے لیے بھی بولاجاتا ہے اور محض اظہار خواہش کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شام کی طرف لشکرکشی کی تو اَبُوْخَیْثَمَہْ ؓایک صحابی تھے جن پر آپ کو بڑا اعتماد تھا اور آپ ان سے بڑی محبت رکھتے تھے اور آپ سمجھتے تھے کہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں یہ شخص غفلت سے کام نہیں لے سکتا۔ لیکن جب آپ لشکر کے ساتھ شہر سے کچھ فاصلہ پر جا پہنچے اور آپ نے اپنے صحابہ ؓکا جائزہ لیاتو آپ کو اَبُوْخَیْثَمَہْ ؓنظر نہ آئے جس پر آپ کو بہت افسوس ہوا کہ مجھے اس پر اتنی حسن ظنی تھی اور وہ اس جہاد سے پیچھے رہ گیا ہے۔ جب آپ چلے تو کسی نے کہا حضور !کوئی شخص پیچھے سے آرہا ہے۔ آپؐ نے اس طرف دیکھا اور فرمایا کُنْ اَبَا خَیْثَمَۃ۔ جب گرد ہٹی اور وہ شخص قریب پہنچا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اَبُوْخَیْثَمَہْ ؓہی تھا۔ اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی کہ اس نے آپ کی خواہش کو اتنی جلدی پورا فرما دیا۔ اب کُنْ اَبَا خَیْثَمَۃ کے یہ معنے نہیں تھے کہ آ تو کوئی اَور رہا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ وہ اَبُوْخَیْثَمَہْ بن جائے بلکہ کُنْ اَبَا خَیْثَمَۃ کے یہ معنے تھے کہ خداکرے کہ یہ آنے والا شخص اَبُوْخَیْثَمَہْ ہی ہو۔ تو عربی زبان میں یہ ایک محاورہ ہے کہ بعض دفعہ خواہش کے اظہار کے لیے بھی کُنْ کا لفظ بول لیا جاتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 250 مطبوعہ 2004ء قادیان) جس آیت کی تفسیر آپؓ نے بیان کی ہے وہ تو میں نے نہیں پڑھی لیکن بہرحال یہ کُنْ کے لفظ کی وضاحت کر دی ہے۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ ربوہ کی مسجد پر حملے کا جو واقعہ ہوا ہے اس میں جو زخمی ہوئے تھے ان کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ زخمیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور جلد شفائے کامل عطا فرمائے۔ پاکستان میں مخالفین کے ہر منصوبے کو اللہ تعالیٰ ناکام و نامراد کرے۔ ربوہ میں آج ختم نبوت کے نام پہ جلسہ بھی ہو رہا ہے اور مولویوں نے جو گند اور غلاظت بولنی تھی بول رہے ہیں بلکہ بول چکے ہیں۔ پتہ نہیں اب تو جلسہ ختم بھی ہو چکا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ وہاں بھی مخالفین کے بڑے بد ارادے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہاں بھی ہر احمدی کو محفوظ رکھے۔ فلسطینیوں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ظالموں سے نجات دے۔ جنگ بندی جو کہی جاتی ہے وہ تو صرف نام کی ہے۔ گذشتہ دو دنوں میں جو واقعات ہوئے ہیں انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ صرف نام کی جنگ بندی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان مظلوموں کو ظلم سے بچائے اور ظالموں کی پکڑ کرے۔ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ اکتوبر 2025ء