اللہ تعالیٰ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہےخُذِالْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (سورۃ الاعراف:۲۰۰) یعنی عفو اختیار کر، معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔ یہاں فرمایا معاف کرنے کا خُلق اختیار کرو اور اچھی باتوں کا حکم دو اگر کسی سے زیادتی کی بات دیکھو تو درگزرکرو۔ فوراً غصہ چڑھا کر لڑنے بھڑنے پر تیار نہ ہو جایا کرو اور ساتھ یہ بھی کہ جو زیادتی کرنے والا ہے اس کو بھی آرام سے سمجھاؤ کہ دیکھو !تم نے ابھی جو باتیں کی ہیں مناسب نہیں ہیں اور اگر وہ باز نہ آئے تو وہ جاہل شخص ہے، تمہارے لئے یہی مناسب ہے کہ پھر ایک طرف ہو جاؤ چھوڑ دو اس جگہ کو اور اس کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دو۔ دیکھیں کہ یہ کتنا پیارا حکم ہے اگر کسی طرح عفو اختیار کیا جائے تو سوال ہی نہیں ہے کہ معاشرے میں کوئی فتنہ و فساد کی صورت پیدا ہو۔ لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح تو پھرفتنہ پیدا کرنے والے اور فساد کرنے والوں کو کھلی چھٹی مل جائے گی، وہ شرفاء کا جینا حرام کر دیں گے۔ اور شریف آدمی پرے ہٹ جائے گا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ فساد کرنے والے معاشرے میں رہیں اور فساد بھی کرتے رہیں، ان کی اصلاح بھی تو ہونی چاہئے اگر تمہارا معاف کرنا ان کو راس نہیں آتا تو پھران کی اصلاح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بھی چھوڑا نہیں ہے دوسری جگہ حکم فرمایا ہے۔ کہ وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ الشوریٰ آیت ۴۱) بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہوتی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مدنظر رکھے اس کا بدلہ دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوتا ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اب ہر کوئی تو بدی کا بدلہ نہیں لے سکتا کیونکہ اگر یہ دیکھے کہ فلاں شخص کی اصلاح نہیں ہو رہی باز نہیں آرہا تو خود ہی اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی تو پھر تو اور فتنہ و فساد معاشرے میں پیدا ہو جائے گا۔ یہ تو قانون کو ہاتھ میں لینے والی باتیں ہو جائیں گی۔ اس کی وجہ سے ہر طرف لاقانونیت پھیل جائے گی۔ اس کے لئے بہرحال ملکی قانون کا سہارا لینا ہو گا، قانون پھر خود ہی ایسے لوگوں سے نبٹ لیتا ہے۔ اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ عام طور پرایسے، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے والے، لڑائی کرنے والے، فتنہ وفساد پیدا کرنے والے، لا قانونیت پھیلانے والے جب قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو پھر صلح کی طرف رجوع کرتے ہیں، سفارشیں آ رہی ہوتی ہیں کہ ہمارے سے صلح کر لو تو فرمایا کہ اصل میں تو تمہارے مدنظر اصلاح ہے اگر سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے تو معاف کر دو لیکن اگر یہ خیال ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی یہ تو پہلے بھی یہی حرکتیں کرتا چلا جا رہا ہے اور پہلے بھی کئی دفعہ معاف کیا جا چکا ہے لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، ناقابل اصلاح شخص ہے تو پھر بہرحال ایسے شخص کو سزا ملنی چاہئے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍فروری۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۵؍مارچ۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں