(امیر جماعت احمدیہ ضلع حیدرآبادسندھ) آنحضورﷺ کی حدیث مبارکہ اُذْکُرُوْامَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ کےپیش نظر اپنے عزیز چچا مرزا امتیاز احمد صاحب (امیر جماعت احمدیہ ضلع حیدرآبادسندھ)کےبارے میں کچھ تحریر کررہی ہوں جو ۱۹؍فروری ۲۰۲۵ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میرے عزیز از جان چچا بہت ہی پیارے وجود تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی جماعت کے کاموں میں صرف کردی۔اُن کےلیے اپنے اہل وعیال اور عزیزو اقارب سے بڑھ کر جماعتی خدمت تھی۔ اپنی بیماری اور آرام کا بھی خیال نہیں ہوتا تھا، کوئی چیز اہم تھی تو وہ تھی جماعتی خدمت۔ میرے والدین اور چچا ایک عرصہ تک جوائنٹ فیملی میں رہے ہیں۔ اس لیے میرا اُن سے بہت پیار اور محبت کا تعلق تھااور کئی معاملات میں ان کی رائے میرے لیے بہت اہم ہوتی تھی۔بچپن سے ہی میں نے انہیں نمازوں کا پابند پایا۔ میری بچپن کی یادوں میں سے ایک یاد یہ بھی ہے کہ جب ہم بہن بھائیوں کو نمازفجر کے لیے جگایا جاتا تو میرے والد اور چچا باجماعت نمازکی ادائیگی کےلیے مسجد جانے کی تیاری کررہے ہوتےتھے۔ متعدد بار انہیں نماز تہجدروتے اور گڑگڑاتے ہوئے ادا کرتے دیکھا۔ رمضان المبارک میں کسی وجہ سے بروقت مسجد میں نماز ادا نہ کرپاتے تو گھروالوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے۔ نماز فجر کے بعد اپنی والدہ کےقریب بیٹھ کر خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور انہیں سناتے۔ اپنی پریشانیاں اور تکالیف دوسروں سے کم شیئر کرتے مگر نمازوں میں خدا کے حضور گڑگڑا کر دعاکرتے تھے۔ جماعتی سطح پر بھی احباب جماعت کی پریشانیوں کےلیے گریہ وزاری سے دعاکرتے لیکن اپنی اہلیہ اور بچوں سے اس کا ذکر نہ کرتے۔ جماعتی معاملات کو ہمیشہ ایک امانت کے طور پر اپنے سینے میں محفوظ رکھا۔ لوگ اپنے ذاتی مسائل اور صلح صفائی کے لیے جب آپ سے رابطہ کرتے تو بڑے احسن طریق پر ان کے معاملات حل کرتے۔ آپ بہت ملنسار، اپنی استطاعت سے بڑھ کر مہمان نواز اور دوسروں کی مدد کرنے والے تھے۔ گھر آنے والے جماعتی مہمانوں کی مہمان نوازی کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرتے۔ اپنے وسائل کی کمی کے باوجود اپنے خرچ پر جماعت کے کام کرتے، جماعتی دوروں وغیرہ کے لیے بھی جماعت سے اخراجات نہیں لیتے تھے۔ مالی قربانی میں مرکزی ٹارگٹ کے حصول کے لیے اپنے رشتہ داروں کو بھی تحریک کرتے، کئی مرتبہ مجھے بھی کہتے۔ آپ دوسروں کی مدد کے لیے رات دن ہر وقت تیار رہتے۔ اپنے علاقے کے احمدی، غیر احمدی اور ہندو مذہب کے ماننے والوں غرضیکہ ہر ملنے جلنے والےکے مسائل کے حل کے لیے آخری حد تک کوشش کرتے، چاہے وہ مالی معاملہ ہو یا کسی اور نوعیت کا۔ غریبوں کا احساس اور اُن سےہمدردی کا وصف اور دوسروں کی مدد کے لیے ہر ممکنہ حد تک کوشش کرنا میں نے ان سے ہی سیکھا ہے۔ ذریعہ معاش ذاتی میڈیکل اسٹور تھا۔ اللہ تعالیٰ نےآپ کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ دُور دراز سے لوگ مشورہ کرنے اور دوائی لینے آتے، رات کے پہر جاکر بھی دوائی دے آتے۔ میرے ڈاکٹر بننے کے بعد مجھ سے بھی فون کرکے پوچھتے کہ بتاؤ فلاں مریض کو کیا کہوں، کہاں بھجواؤں اس کو۔ کبھی میں ازراہِ مذاق کہہ دیتی کہ ان سے کہیں وہاں کسی ڈاکٹر کو دکھائیں تو کہتے غریب لوگ ہیں، وہاں لوگ اِن کی بات نہیں سنتے، مجھ پر بھروسہ کرکے آتے ہیں۔ آپ بہت اعلیٰ ظرف انسان تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی اور ان کے بچوں کی کفالت بھی آپ کے ذمہ تھی جس کے لیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آخری دم تک لگے رہے۔ مجھے اس وقت سخت شرمندگی اور رنج ہواجب آپ کو شوگر کی وجہ سے آنکھوں کے پردوں کی تکلیف ہوئی اور آپ نے اُس وقت ذکر کیا جب آپ کو موٹے حروف میں لکھے ہوئے قرآن کے نسخہ سے بھی قرآن نہیں پڑھا جارہا تھا۔ آنکھوں میں آنسو تھے، روتے ہوئے مجھ سے کہا کہ مجھ سے قرآن نہیں پڑھا جارہا۔ اسی طرح چند سال قبل آپ کو گردوں کی تکلیف ہوئی اور ڈاکٹرز نے ڈائلیسزکا کہا تو اسی خیال سے سخت پریشان تھے کہ دوسروں کے سہارے پر آجاؤں گا، جماعت کے کام کیسے کروں گا؟ میرے سمجھانے کے باوجود اپنے آپ کو اس فیصلہ کے لیے آمادہ ہی نہیں کرپائے۔ متعدد بار ان کے بچے اور اہلیہ مجھے فون کرتے کہ ابو آپ کی بات مانتے ہیں آپ انہیں کہیں، تو میرے کہنے پر مجھے یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ فلاں جماعتی مصروفیت ختم ہو جائے تو پھر کرلوں گا۔ آپ جماعتی احکامات کے لیے جہاں دوسروں کو تلقین کرتے وہیں اپنے گھر والوں کو بھی تلقین کرتے اور عمل کرواتے۔ ایک مرتبہ پردے کی بابت کسی چیز کا مسجد میں ذکر کیا تو جمعہ کی نماز کے بعد گھر آکر مجھے بھی کہا کہ اگر آپ لوگ نہیں عمل کروگے تو دوسرے لوگ میری بات کیسے مانیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر عبد المنان صدیقی صاحب شہید کی شہادت پر حضور انور کا خطبہ جمعہ ختم ہوا توکہنے لگے جس طرح حضرت صاحب نے ڈاکٹر صاحب کا ذکر خیرفرمایاہے، صبر آگیا ہے۔ شہادت کا تو بہت بڑا مقام ہے، اپنے لیے بھی ایسی خواہش رکھتے تھے۔ مجھے کہا کہ اللہ نصیب کرے، بس انسان کو اپنے اہل وعیال اور پیچھے رہ جانے والوں کا خیال آجاتا ہے، اس سے بہتر تو کوئی موت نہیں۔ میں نے اپنے والد صاحب اور بڑے تایا کو بھی ہمیشہ چچا کا احترام کرتے دیکھا۔ آپ ہمارے خاندان کا ایک مضبوط سہارا اور اس علاقے کے لیے ایک سائبان تھے جو ہم سے جدا ہوگیا۔آپ کی بیماری اور پھر وفات کی خبر سن کر جہاں بہت سے احمدی احباب ربوہ پہنچے وہیں تین غیراز جماعت دوست بھی سندھ سے ربوہ آئے، جنازہ پڑھا اور تدفین میں شامل ہوئے۔ ہمارے ایک عزیز مکرم محمد داؤد بھٹی صاحب مربی سلسلہ مورو گورو تنزانیہ نے چچا جان کی وفات کی خبر ملنے پر تحریر کیا:’’خاکسار نے ضلع حیدرآباد کے امیر مکرم ومحترم امتیاز احمدمغل صاحب کی وفات کی خبر سنی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بہت دکھ ہوا، اس لیے بھی کہ وہ میرے عزیز تھے لیکن سب سے زیادہ دکھ اور رنج اس بات پر کہ ایک مثالی احمدی، خلافت وجماعت کا وفادار وجود جس کا تن، من، دھن جماعت اور نظام جماعت اور خلافت کے لیے تھاخدمت دین کرتے ہوئے اپنے پیارے خلیفہ کی سرزمین ربوہ میں دوران جماعتی پروگرام اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مکرم امتیاز مغل صاحب اپنے بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھےلیکن اللہ تعالیٰ نے خدمت ِدین کے طفیل آپ کو ایسااعلیٰ مقام اور رتبہ خاندان میں عطا فرمایا کہ وہ ہر ایک کے لیے ایک پہچان تھے۔ خاکسار عمر میں ان سے کافی چھوٹا ہے لیکن جب سے ہوش سنبھالا ان کو خدمت دین میں عہدوں پر فائز ہی دیکھا اور مرکزی عہدیداروں کے ساتھ ہی دیکھا۔ ہنس مکھ، دھیمےمزاج کے صاحبِ علم اور احباب سے میل جول رکھنے والے، ہر کسی کی غمی وخوشی میں شریک ہوتے۔ انسانیت کے ہمدرد اور خدا تعالیٰ سے عبادت میں گہرا تعلق اور اکثر نمازوں میں مساجد میں ہی دیکھا۔ مرکز اور خلافت کی آواز پر ہروقت لبّیک کہتے اور ہردم تیار رہنے والے وجود۔ بشیرآباد جماعت کے اکثر خدام اور انصار کے لیے ایک مثالی وجود تھےاور بہت سارے نوجوانوں کو انہوں نے نظام جماعت میں خدمت کرنے کے لیے تیار کیاتھا۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائےاور ایسے بےشمار وجود اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو ہمیشہ عطا فرمائے۔ آمین‘‘ (ڈاکٹر رملہ محمود)